فوج کا بیٹا
اس نے انٹر کے بعد سول انجینئرنگ کا کورس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا
KARACHI:
میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک فوجی گھرانہ ہے جس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ صرف میرے گھر میں والد صاحب اور تین بھائی یونیفارم پہننے والے تھے اس کے بعد مجھ سمیت کچھ اور کزنز نے بغاوت کی اور دوسرے پیشے اختیار کر لیے لیکن میرے بھانجے عمران خان نے ہم سے بغاوت کی اور ہر حالت میں فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے انٹر کے بعد سول انجینئرنگ کا کورس فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اس کے باوجود سوچا کہ کمیشن کے امتحان میں شاید فیل ہو جاؤں لہٰذا کراچی سلیکشن سینٹر پر پاک آرمی کے نان کمیشن کے تمام ٹیسٹ آسانی سے کلیئر کر لیے اور بعد میں گھر والوں کو بتایا جس پر میری ہمشیرہ نے اسے سختی سے منع کر دیا۔ آخرکار کافی منت سماجت کے بعد جب وہ سلیکشن سینٹر گئے تو معلوم ہوا تمام لڑکے ٹریننگ کے لیے نوشہرہ جا چکے ہیں۔
عمران بہت افسردہ تھا وہاں موجود انچارج نے میری ہمشیرہ کو بتایا کہ یہ واحد لڑکا تھا جس کو لینے کوئی نہیں آیا تھا اور تمام مرحلے اس نے اکیلے طے کیے ہیں اس کو فوج میں جانے کا بہت شوق ہے آپ اسے جانے دیں آخر کار وہ راضی ہو گئیں۔ اس نے کبھی حیدر آباد تک اکیلے سفر نہیں کیا تھا لیکن فوج کے شوق نے تنہا کراچی سے نوشہرہ کا سفر طے کرا دیا۔ عمران کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس کو خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی۔ سلیکشن سینٹر پر اسے کہا گیا کہ اپنے گھر جا کر امی کو بتانا کہ اب آپ ان کے نہیں فوج کے بیٹے ہو۔
نہایت محنت سے اس نے اپنی ٹریننگ مکمل کی فوجی ٹریننگ میں عموماً لوگ بھاگ جاتے ہیں لیکن یہاں بھی جنون غالب رہا اس کے بعد اس کی مختلف یونٹوں میں پوسٹنگ ہوئی۔ ہر جگہ عمران اپنے کام کی وجہ سے پسند کیا جاتا رہا اور تین سال قبل اس کی پوسٹنگ گلگت ہو گئی جہاں نہایت مشکل زندگی ہوتی ہے کیونکہ ہر طرف برف کے پہاڑ ہی پہاڑ لیکن یہ یونٹ بھی عمران کے جنون کو کم نہ کر سکی۔
اس دوران میں نے بھی اسے سمجھایا کہ تم کمیشن کے لیے کوشش کرو آسانی سے ہو جائے گا ، مگر عمران نے پاک آرمی کی وردی پہن لی تھی اور یہی اس کے لیے کافی تھا میں نے اپنی زندگی میں بہت کم PASSION اس انداز میں دیکھا ہے۔ آخر تقریباً تین سال کے بعد اس کی پوسٹنگ ماہ مئی میں گلگت سے ملتان ہو گئی اس دوران عمران صاحب لانس نائیک بن چکے تھے ایک ماہ کی چھٹی ملی لیکن اُسے نئے یونٹ پہنچنے کی جلدی تھی طبیعت کچھ خراب تھی جس پر موسم کا تضاد بھی تھا یعنی کہاں گلگت کا منفی میں درجہ حرارت اور کہاں ملتان کا جون کا مہینہ ابھی یونٹ پہنچا ہی تھا کہ Heat Stock ہو گیا جس کی وجہ سے وہیں گرگیا اور جب CMH ملتان پہنچا تو بخار 108 ڈگری تھا۔ پلس کی رفتار ختم ہو گئی تھی اور انتہائی بخار کے باعث جسم کا تمام خون ختم ہو گیا تھا۔
لہٰذا CCU وارڈ میں داخل ہو گیا، جہاں پاک آرمی کے مشہور ڈاکٹر بریگیڈیئر خورشید کی نگرانی میں علاج شروع ہوا جن کے ساتھ ڈاکٹرز کی نہایت ماہر ٹیم جن میں کرنل آصف، کرنل عمیر صدیقی، میجر زبیر کیانی، میجر تنویر، کیپٹن ریاض شاہد و دیگر نے اپنے تجربے کا نچوڑ عمران پر صرف کیا کیونکہ یہ ایک عجب مریض تھا جس کی زندگی کی کوئی امید نہیں تھی جو خون لگایا جاتا تھا وہ جسم سے باہر آ جاتا تھا عمران کی زندگی کی کوئی امید نہیں تھی میں بھی فوراً ملتان پہنچا جہاں میرے بڑے بھائی زاہد رضوان خان اور تایا زاد بھائی عظمت جان خان پہلے سے موجود تھے جو دونوں خود بھی پاک آرمی سے ریٹائرڈ ہیں۔
بس ایک دعا کا آسرا تھا کیونکہ اس دوران عمران کو تقریباً 108 خون کی بوتلیں لگائیں گئیں جو کہ پاک آرمی کے مختلف یونٹوں سے جوانوں نے ملتان کے 48 ڈگری درجہ حرارت میں دیں جب انسان کا بلڈ پریشر اتنی گرمی کے باعث قابو میں نہیں رہتا جن میں سے کچھ بوتلیں میرے بھتیجے اور بھتیجیوں، شاہد رضوان، یاسر رضوان، گل افشین، گل نوشین وغیرہ نے اپنے دوستوں سے دلوائیں جن میں سے میں میلسی کے ایک نوجوان شہزاد کے جذبے کو کبھی نہیں بھول سکتا جو خون دینے کے بعد بلڈ بینک میں گر گیا مگر ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی خون دینے کے لیے بلوا لیا اس کے علاوہ وہاں کے نرسنگ اسٹاف جس میں میجر تسنیم، کیپٹن نادرہ، این سی او آصف جوانوں میں ارشد، نصیر، طارق، کاشف، وسیم، جمیل اور ٹریننگ پر آئی ہوئی نرسنگ اسٹاف نے بھی خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
عمران کی یونٹ 21SNT کے کمانڈنگ آفیسر کرنل فیصل خان کیپٹن سعد اور لیفٹیننٹ اویس اور پوری یونٹ کے جوانوں نے 24 گھنٹے عمران کی خدمت کے لیے وقف کر دیے اور ہمیں احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم کسی دوسرے شہر میں ہیں آج بھی اس کے یونٹ کے دو جوان 24 گھنٹے عمران کی خدمت کے لیے اسپتال میں موجود رہتے ہیں اور باقی مختلف اوقات میں آ کر خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں میری ہمشیرہ اکثر مجھے کہتی ہیں کہ واقعی جس انداز میں یہ عمران کی خدمت اور علاج معالجہ کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعی فوج کا بیٹا ہے۔ اس دوران میرا عزیز شاگرد میجر تبریز شور کورٹ سے مجھے ملنے ملتان آیا اور اپنے دوست کرنل نذر و دیگر کے یونٹوں سے بلڈ کی 7 بوتلیں عمران کو دلوائیں اور ہمت دی کہ سر آپ فکر نہ کریں یہ فوج ہے یہاں آفیسر اور سپاہی کے علاج میں کوئی امتیاز نہیں ہے آپ شکر کریں کہ عمران آرمی پرسنل ہے ورنہ جو علاج اس کا ہو رہا ہے وہ عام سویلین کو کافی مہنگا پڑتا ہے اور اس کی ایسی دیکھ بھال بھی نہیں ہوتی۔
الغرض پاک آرمی نے جسے بیٹا کہا اس کے ساتھ اس لفظ کا حق ادا کر دیا۔ گویا فوج ایک ماں ہے اور اس کا جنرل سے لے کر سپاہی تک اولاد کا رشتہ ہے جو اپنی اولاد کو ایک نگاہ سے دیکھتی ہے آج بھی عمران CMH کے میڈیکل وارڈ میں داخل ہے جہاں میری بھتیجی انعم اور بھتیجا حافظ سمیر روزانہ عمران کے فرمائشی کھانے پہنچاتے ہیں اور وہاں کے ڈاکٹر صاحبان نے مزید علاج کے لیے عمران کو CMH راولپنڈی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں اس کا مزید علاج ہو گا۔ آج تین ماہ گزر چکے ہیں مگر ڈاکٹرز، نرسنگ اسٹاف اور عمران کی یونٹ والوں کا عمران کے ساتھ خدمت کا جذبہ پہلے دن جیسا ہے جس پر میری اور میری فیملی والوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور مجھے LRBT کے ڈائریکٹر ہارون رشید جو کہ انسانی خدمت کے حوالے سے اپنی مثال ہیں اور میرے استاد پرویز طارق صدیق کا مجھے ایک تحفہ ہیں کی بات یاد آتی ہے کہ ہماری فیلڈ میں پیرا میڈیکل اسٹاف سے لے کر کنسلٹنٹ تک جو شخص خلوص دل سے مریضوں کی خدمت کرتا ہے وہ 2 سے 5 سال میں ولی اللہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے واقعی یہ لوگ اسی درجے کے اہل ہیں۔ میری دعا ہے اللہ پاک عمران کو جلد صحت یابی کے ساتھ اس کے اپنے قدموں پر چل کر اپنے گھر کراچی آنے کی توفیق دیں اور جس شخص نے بھی عمران کی بیماری میں جس طرح مدد کی ہے اسے اپنی شان کے مطابق اجر عطاء فرمائیں۔ (آمین)
قارئین آپ بھی عمران خان کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعا کریں کیونکہ فوج کے بیٹے سلامت ہیں تو پوری قوم سلامت ہے۔