حکومت کے پہلے 3 ماہعوام ملکی حالات میں بہتری کے منتظر

عوام کے پاس اچھے، برے بلکہ انتہائی اچھے اور انتہائی برے کی تمیز بھی ممکن ہو سکے گی۔


فیاض ولانہ September 03, 2013
حکومت نے صدر پاکستان کے عہدے کے شایانِ شان تقاضوں کے پیش نظر انتہائی عزت و احترام سے آصف علی زرداری کی رخصتی کی تقریبات کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے پہلے تین ماہ پورے ہونے کو ہیں۔ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے 47 دن بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے پہلی باضابطہ ملاقات میں میاں نواز شریف نے بجا کہا تھا کہ وہ معاملات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس لیے آپ لوگوں سے نہ مل رہا تھا۔ ہر سو مسائل میں گِھرے وطن عزیز کے عوام 11 مئی کے انتخابات کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ان کی من پسند لیگی حکومت آتے ہی تمام مسائل کا حل نہیں تو حالات کی بہتری کی جانب سفر کا آغاز تو کر دے گی۔ ایسا نہ ہوا۔

عوام میاں نواز شریف کی مجبوریاں بھی سمجھنے پر تیار ہیں اور برداشت کیے جا رہے ہیں مگر اپوزیشن کی جانب سے دیے گئے پہلے سو دن کے ہنی مون پیریڈ کے اختتام پذیر ہوتے ہی شاید صورت حال مختلف ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نہ چاہتے ہوئے بھی بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی، گیس پٹرولیم کے ساتھ ساتھ آٹے، چاول، چینی، دال اور دیگر اشیائے ضروریہ کی ہوش ربا قیمتوں اور مسلسل بے امنی، چوریوں، ڈکیتیوں اور اغواء برائے تاوان جیسی اذیتوں کے باعث سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں گے۔ داخلی محاذ پر کراچی حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے تو خارجی محاذ پر پاک افغان اور پاک بھارت معاملات سے پہلے شام کے معاملہ پر حکومت پاکستان کو محتاط سفارت کاری کے ساتھ ساتھ عوامی جذبات کے خیال رکھنے کے مشکل امتحان کا بھی سامنا ہے۔

کراچی کے معاملہ پر ایم کیو ایم نے فوج بلانے کا مطالبہ کرکے جہاں سب کو حیران کر دیا وہیں سندھ حکومت اور مرکزی حکومت کو پریشان بھی کر دیا۔ پہلے تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہی نہ تھی کہ 1993ء میں کراچی میں فوجی آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین یہ شکوہ کرتے دیکھے گئے کہ ان کی جماعت کے 12 ہزار کارکن اس آپریشن میں مارے گئے۔ 2003ء کے آپریشن کے حوالے سے ان کی یہ رائے رہی کہ ان کے 15 ہزار کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب اگر فوجی آپریشن اتنے ہی نقصان دہ ہیں تو اب کی بار وہی سیاسی جماعت از خود ایک اور فوجی آپریشن کی درخواست کیوں کر رہی ہے۔

کیا یوں تو نہیں کہ آج 2013ء میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں دیگر جماعتیں اور گروہ اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ اب ایم کیو ایم ان کے خلاف فوجی آپریشن کی خواہاں ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے فوجی آپریشن کی حمایت نہ کرکے بظاہر احسن فیصلہ کیا کہ فوج یوں بھی آخری حل ہوتا ہے۔ اس سے قبل کے دیگر آپشنز آزمانا درست فیصلہ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا یہ فیصلہ بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے آج اور کل دو روز کے لیے کراچی میں خود بیٹھ کے سندھ کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے نمائندہ کی موجودگی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد سے ملاقاتیں کرکے ان کی رائے جاننے اور کراچی میں امن کی بحالی کے لیے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف نہ تو کوئی لگی لپٹی رکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت کا کوئی فیصلہ سندھ حکومت یا کراچی کے عوام پر تھوپنا چاہتے ہیں۔

نواز شریف اب تک کی اپنی اقتصادی ترقی کی کوششوں میں گوادر کی تعمیر و ترقی کو خطے کے لیے Game Changer پانسہ پلٹ دینے والا فیکٹر قرار دیتے رہے ہیں مگر کراچی کی آبادی اور وہاں موجود کاروباری و اقتصادی پوٹینشل دیکھا جائے تو محض امن عامہ کی صورت حال بہتر بنا کر پاکستان کو بلا توقف ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کی تمام نمائندہ سیاسی جماعتیں بشمول ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی، پی پی پی، جے یو پی، سنی تحریک اور تحریک انصاف سب ہی کراچی میں بھتہ خوروں، زمینوں اور پلازوں پر قبضہ کرنے والوں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف سخت ترین ایکشن کی خواہاں ہیں۔

اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ حکومتِ سندھ کراچی میں کاروبار زندگی معمول پر دیکھنا چاہتی ہے مگر سیاسی مصلحتیں اس کے آڑے آ رہی تھیں اب وفاقی حکومت اپنے تمام تر وسائل اور ذرائع حکومت سندھ کی جھولی میں ڈالتے ہوئے اسے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی قیادت کرنے کی تجویز پیش کر رہی ہے تو انہیں بھی تمام تر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی اہم ترین قومی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی اور اگر حکومتِ سندھ نے اس سے پہلوتہی اختیار کی تو پھر وفاقی حکومت از خود ہر دستیاب آپشن آزمانے کا پورا پورا حق رکھتی ہے ۔

ادھرصدر مملکت آصف علی زرداری کی ایوانِ صدر سے رخصتی کا وقت آن پہنچا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے آصف علی زرداری کی جانب سے میثاقِ جمہوریت کی توقع سے زیادہ لاج رکھنے کے باعث اور ان کی حکومت نے صدر پاکستان کے عہدے کے شایانِ شان تقاضوں کے پیش نظر انتہائی عزت و احترام سے آصف علی زرداری کی رخصتی کی تقریبات کا پروگرام ترتیب دیا ہے، یہ اقدامات ملک میں جمہوریت، جمہوری کلچر اور باہمی برداشت کے فروغ میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

شنید ہے کہ صدر زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر متحرک فعال اور حقیقی معنوں میں عوامی سیاسی جماعت بنانے کے لیے لاہور کو اپنا مرکزِ سیاست بناتے ہوئے میدانِ عمل میں کودنے میں دیر نہ لگائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان پہلی بار مسلم لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی شکل میں سہ جماعتی سیاست کے خوش کن سیاسی سفر پر روانہ ہو گا جس میں عوام کے پاس اچھے، برے بلکہ انتہائی اچھے اور انتہائی برے کی تمیز بھی ممکن ہو سکے گی جس کے نتائج خوش آئند کے سوا کوئی اور نکل ہی نہیں سکتے۔

شام کی صورت حال کے حوالے سے بس اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ ہماری حکومت تو محتاط روّیہ بعض ضروری و غیر ضروری سفارتی مجبوریوں کا شکار ہے مگر ہمارے عوام کی خاموشی بھی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے،حالانکہ دنیا بھر میں امریکی متوقع جارحیت کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر پرامن مظاہروں کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں ہماری حکومت خود تو گومگو کا شکار ہے ہی عوام کو بھی اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم نہیں کی جا رہی۔ سیاسی جماعتوں کے ہاں پہلے تو خارجہ امور پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں یا ذیلی تنظیمیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو غیر فعال اور غیر موثر۔ نیا پاکستان بنانے والوں کی کارکردگی بھی عوام اس اعتبار سے دیکھ رہے ہیں کہ تبدیلی بحیثیت سیاسی جماعت اور تبدیلی بحیثیت اپوزیشن پارٹی بھی تو نظر آنی چاہیے۔کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شام کی حکومت کرے یا شام کے باغی کریں ظلم تو ظلم ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانا، احتجاج ریکارڈ کرانا عین قرین قیاس ہے مگر شاید پاکستان کی تحریک انصاف ایک صوبائی حکومت کے معاملاتِ کار میں ہی انصاف تلاش کرتے کرتے اونگھ رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں