جمعیت علمائے اسلام کی سہ جہتی سیاسی پالیسی

باچاخان اور ولی خان کے دور سے اے این پی کی سیاست کا مرکز ولی باغ چارسدہ ہی رہا ہے۔

جے یو آئی کی انتخابی مہم کا فوکس اگر ایک جانب اے این پی کی صوبائی حکومت اور اس کی پالیسیاں تھیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی اور عمران خان ان کے نشانے پر تھے۔ فوٹو : فائل

مولانا فضل الرحمن سہ جہتی پالیسی کے تحت اپنی سیاسی چالیں کھیل رہے ہیں ، وہ ایک جانب تو مرکز میں مسلم لیگ(ن)کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئے ہیں جس کی توقع کافی عرصہ سے کی جارہی تھی جبکہ ساتھ ہی وہ وزیراعظم کو اس بات پر بھی قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل بیوروکریٹک انداز میں شروع کرنے کی بجائے اسی جرگہ کے ذریعے کیے جائیں جس پر جے یو آئی کی جانب سے گزشتہ حکومت میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں خود میاں نواز شریف سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا جس میں قبائلی رہنما اور نمائندے شامل ہیں جو قبائل کے رسم ورواج اور مذاکراتی طور طریقوں سے واقف ہیں، جس نے اپنا کام بھی گزشتہ حکومت میں شروع کردیا تھا۔

جبکہ ساتھ ہی وہ اپنی سہ جہتی پالیسی کے تحت خیبرپختونخوا میں کام کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو بھی رخصت کرانے کے چکر میں ہیں اور وہ اس سہ جہتی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے مسلم لیگ(ن)اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا استعمال کر رہے ہیں جس کے تحت انہوں نے دو مقاصد تو حاصل کرلیے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت میں شمولیت بھی ہوگئی اور مرکزی حکومت کی جانب سے جلد ہی بلائی جانے والی اے پی سی میں ممکنہ طور پر قبائلی جرگہ کو عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کا اختیار بھی مل جائے گا، تاہم جہاں تک خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی حکومت کو گرانے کی خواہش کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ بہرکیف وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک ،مولانا فضل الرحمن کے پرانے دوست ہیں اور دوست ،دوستوں کے گر اور داؤ پیچ اچھی طرح جانتے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمن کا تحریک انصاف کی حکومت پر غصہ قابل فہم ہے کیونکہ عام انتخابات سے قبل کے حالات کچھ اور پتا دے رہے تھے اور لگ یہ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کہ دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملا کر وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے، تاہم انتخابی نتائج توقعات کے برعکس آئے جس کے باعث تحریک انصاف آزاد ارکان اوردیگر تین پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی جسے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن جے یو آئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

کیونکہ جے یو آئی کی انتخابی مہم کا فوکس اگر ایک جانب اے این پی کی صوبائی حکومت اور اس کی پالیسیاں تھیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی اور عمران خان ان کے نشانے پر تھے اور اب بھی تحریک انصاف اور جے یو آئی ایک دوسرے پر تاک ،تاک کر نشانے لگارہی ہیں ایسے میں ظاہری بات ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھنے والی جماعت کو حکومتی جماعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت ایک ،ڈیڑھ ماہ کی مہمان ہے تاہم ان تمام حالات کے باوجود جہاں تک حکومت کو چلتا کرنے کا تعلق ہے تو یہ نمبروں کا کھیل ہے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 124 کے صوبائی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 43 ہے۔

جبکہ حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت بھی 63 ارکان پر پوری ہوتی ہے اور تحریک انصاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ 78 کے فگر پر کھیل رہی ہے جبکہ تین آزاد ارکان بھی کسی نہ کسی طریقہ سے بہرکیف حکومت کا ہی ساتھ دے رہے ہیں، ایسے میں حکومت کو بظاہر کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا اور وہ بھی اس صورت میں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیارولی خان نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر موجودہ صوبائی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی بھی ہے تو اے این پی اس کا حصہ نہیں بنے گی جس سے اپوزیشن کے اراکین کی تعداد مزید کم ہوکر 38 پر آجاتی ہے اور پھر وزیراعظم نواز شریف خیبرپختونخوا میں کسی مہم جوئی کے موڈ میں بھی نظر نہیں آتے اس لیے حکومت اور اپوزیشن اپنی، اپنی پوزیشنوں پر ہی رہتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔


اسفندیارولی خان نے پارٹی کی مرکز سے لے کر وارڈ کی سطح تک تنظیموں کو تحلیل کرتے ہوئے جراتمندی کا مظاہرہ کیا ہے یا دانشمندی کا ، یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کیونکہ بظاہر تو یہی نظر آرہا تھا کہ صوبہ میں پانچ سال تک حکومت کرنے کے بعد اے این پی عام انتخابات میں سکڑ کر چار،پانچ ارکان تک محدود ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں کچھ پارٹی وحکومتی عہدیداروں اور کچھ پارٹی وحکومتی عہدے نہ رکھنے والی شخصیات کو ''رگڑا''لگے گا تاہم اسفندیارولی خان نے اپنی ذات سے ابتداء کرتے ہوئے وارڈ کی سطح تک سارے عہدیدار معطل کرتے ہوئے معاملہ اجتماعی ذمہ داری تک پہنچا دیا ہے اور جو قدم اٹھایاگیا ہے اس کے بعد پارٹی کی انتخابات میں شکست کے ذمہ دار سارے ہی ہوگئے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کچھ لوگوں کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرایاجاتا تو پنڈورا بکس کھل جاتا۔

جس کے تحت الزامات در الزامات اور پارٹی کے اندر تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوجاتا جس سے اے این پی کے کم ازکم دو دھڑوں میں تقسیم کا قوی امکان تھا۔ اسفندیارولی خان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے تمام خطرات کو ٹال دیا ہے جبکہ وہ پانچ سالوں کے بعد ایک مرتبہ پھر پارٹی کو اٹھاکر واپس ولی باغ چارسدہ بھی لے آئے ہیں جو ایسے حالات میں اے این پی کے لیے نہایت ضروری تھا کہ جب پارٹی شکست سے دوچار ہونے کے بعد ضمنی انتخابات میں دو نشستوں پر کامیاب ٹھہری ہے اور ان حالات میں پارٹی کو مزید فعال تبھی کیا جاسکتا تھا کہ جب اے این پی کا رخ اسلام آباد سے ولی باغ چارسدہ کی طرف موڑا جاتا۔

کیونکہ باچاخان اور ولی خان کے دور سے اے این پی کی سیاست کا مرکز ولی باغ چارسدہ ہی رہا ہے، اے این پی کو واپس چارسدہ لاتے ہوئے اسفندیارولی خان نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ ابھی ان کا سیاست سے ریٹائرہونے کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ ابھی اے این پی کی قیادت کرنے کے لیے دستیاب ہیں اس لیے جو حلقے اے این پی کی مرکزی قیادت کے حوالے سے تبدیلی کا امکان ظاہر کررہے تھے ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں تاہم جہاں تک صوبائی قیادت کا تعلق ہے تو اس میں ضرور تبدیلی آئے گی اور اس حوالے سے امیر حیدر ہوتی ہی کو پارٹی کے آئندہ صوبائی صدر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے البتہ جنرل سیکرٹری شاید میاں افتخار حسین نہ ہوں بلکہ ان کی جگہ کوئی اور ہو ۔

خیبرپختونخوا حکومت نے تبدیلی لانے کے لیے خود ہی اپنے لیے مقرر کردہ نوے دنوں کی ڈیڈ لائن گزار لی ہے جس کے پورے ہوتے ہی وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے فرنٹ فٹ پر نکلتے ہوئے تین چھکے مارے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک ہی دن دو تھانوں اور ایک ہسپتال پر اچانک چھاپے مارتے ہوئے ہلچل پیدا کردی، تاہم جہاں تک تبدیلی کا معاملہ ہے تو خود وزیراعلیٰ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ تین ماہ میں صرف پالیسیاں ہی بن سکتی ہیں جن پر عمل درآمد شروع تو ہوگیا ہے تاہم اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا اور انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ڈیڈ لائن دیئے بغیر کوئی کام اس لیے نہیں کریں گے کہ اگر ڈیڈ لائن مقرر نہ کی جائے تو کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ ڈیڈ لائن ہوتو ہر کوئی اس کا احساس کرتے ہوئے اپنے کام میں دلچپسی لیتا ہے۔

وزیراعلیٰ کا موقف اپنی جگہ او ان کی اتحادی جماعتوں کا اس امر سے اختلاف بھی اپنی جگہ تاہم جہاں تک نظام کو تبدیل کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام اکیلے وزیراعلیٰ نہ تو کرسکتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے بلکہ اس کے لیے ان کی ساری ٹیم جو وزیروں ، مشیروں اورمعاونین سمیت پچیس کی تعداد میں ہیں ان سب کو متحرک ہونا پڑے گا اور اسی انداز میں کام کرنا ہوگا ۔

جس انداز میں وزیراعلیٰ نے کام کا آغاز کیا ہے کیونکہ عوام کی تحریک انصاف کی حکومت سے جتنی توقعات ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے ہی حالات کو بدلا جاسکتا ہے ۔ اگر تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں عوامی توقعات اور اپنے اہداف کے مطابق کام نہ کرسکیں تو وہ اس کا نقصان بلدیاتی انتخابات میں اٹھاسکتی ہیں جن کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے ہونا ہے تاہم اگر تحریک انصاف اپنے اتحادیوں اور اپنے پارٹی ورکروں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی تو اس کا فائدہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتیں ہی اٹھائیں گی۔
Load Next Story