بلوچستان حکومت کو امن و امان اور دیگر معاملات پر سخت تنقید کا سامنا

موجودہ صوبائی حکومت کچھ نہ کرسکی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بلوچستان میں دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے بغیر کسی مشاورت کے اپنی پارٹی کے لوگوں کو ایڈوائزر بھی بنایا اور انہیں سرکاری مراعات بھی دی جارہی ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے صورتحال پر سپریم کورٹ نے بھی تشویش کا اظہارکیا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد اویس خواجہ اور جسٹس عصمت سعید پرمشتمل سپریم کورٹ کیتین رکنی لارجر بینچ نے سماعت کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ نواب اسلم رئیسانی کی سابقہ حکومت بہتر تھی نئی بلوچستان کی حکومت اب تک کچھ نہ کرسکی ہمیں اپنا حکم منوانا آتا ہے سابقہ حکمران ہر پیشی پر کسی نہ کسی کو بازیاب کرکے لے آتے تھے۔ لیکن موجودہ صوبائی حکومت کچھ نہ کرسکی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بلوچستان میں دوبارہ شروع ہوگیا ہے فرنٹیئرکور بلوچستان کے ایک ایک انچ پر موجود ہے پھر بھی لوگ لاپتہ ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کو ابھی تین ماہ پورے ہونے کو ہیں تاہم ان تین ماہ کے دوران موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کو امن وامان سمیت پوسٹنگ و ٹرانسفر اور دیگر معاملات میں سخت تنقید کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔جہاں موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کو کابینہ کی تشکیل پر کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں پر ان کی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) کی جانب سے مختلف معاملات میں مشاورت نہ کرنے پر کافی تنقید کا بھی سامنا ہے اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) نے حال ہی میں اجلاس کے دوران کورم توڑ کر اور احتجاجاً اجلاس میں شرکت نہ کرکے حکومت کیلئے مسائل کھڑے کردیئے۔

جبکہ (ن) اور(ق) لیگ کے اراکین نے ایک مشترکہ اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا کہ یہ دونوں جماعتیں اتحادی جماعتیں ہونے کے ناطے مشاورت نہ کرنے اور پوسٹنگ وٹرانسفر سمیت دیگر معاملات میں مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ ق کو نظرانداز کرنے پر ہر تین ماہ بعد نہ صرف حکومت کے بارے میں وائٹ پیپر شائع کریں گے بلکہ احتجاج کا راستہ بھی اپنایاجائے گا جبکہ مسلم لیگ (ن) اور(ق) کے پارلیمانی ارکان کی اکثریت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کو اس بنیاد پر سپورٹ کرتے رہیں گے کیونکہ انہوں نے(ن) لیگ کی مرکزی قیادت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملات کو درست کرنے کے لئے اپنی تمام ترتوانیائیاں خرچ کریں گے اور امن قائم کریں گے۔

اس یقین دہانی پر(ن) لیگ فی الحال آزاد بنچوں پر بیٹھے اورحکومت کے اقدامات کو مانیٹر کرے اس حوالے سے پارٹی کی مرکزی قیادت سے بات کی جائے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) ،نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جوکہ مخلوط حکومت میں اتحادی جماعتیں ہیں ان تین ماہ کے دوران ان کے آپس میں اختلافات کھل کرسامنے آگئے ہیں، (ن) لیگ کے اس حوالے سے بھی اعتراض اور تحفظات ہیں کہ اسے وزیراعلیٰ بلوچستان ہر معاملے میں نطرانداز کررہے ہیں خواہ یہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ہو یا پوسٹنگ ٹرانسفر کے حوالے سے ہو۔ ( ن) لیگ کے اراکین اسمبلی کو کسی بھی مشاورت میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ مسلم لیگ (ن) نے صوبے میں پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود قربانی دی اور نیشنل پارٹی کو وزارت اعلیٰ اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کو گورنر شپ دی۔




جبکہ حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے بغیر کسی مشاورت کے اپنی پارٹی کے لوگوں کو ایڈوائزر بھی بنایا اور انہیں سرکاری مراعات بھی دی جارہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی اسامی پربھی تحفظات ہیں اس سے قبل نیشنل پارٹی نے شکیل بلوچ ایڈووکیٹ کو اس عہدے پر فائز کیا تھا تاہم ان کے ایڈہاک جج بننے کے بعد یہ اسامی دوبارہ خالی ہوگئی ہے اور ن لیگ نے اس حوالے سے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت بلوچستان گڈگورننس سے متعلق محض بیانات پر اتفاق نہ کرنے بلکہ گڈگورننس کے لئے تمام اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حوالے سے بھی اپنا موثر اورعملی کرداراداکرے اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی اسامی پر میرٹ کو نظرانداز نہ کرے۔

مسلم لیگ (ن) کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی کی شنید میں آیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی اسامی پروزیراعلیٰ بلوچستان ایک جونیئر وکیل کو تعینات کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری وتعیناتی کے معاملے پر مسلم لیگ(ن) کو اعتماد میں نہیں لیاگیا اور نظرانداز کیاگیا تو مسلم لیگ (ن) بھرپور احتجاج کرے گی۔ سیاسی حلقے مسلم لیگ(ن) کی جانب سے تنقید اور نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ احتجاج کا راستہ اپنانے کے لئے گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ سخت موقف اختیار کرنے کو آگے چل کرمزید معاملات کو گھمبیر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جس طرح موقف اختیار کیا ہوا ہے آگے چل کر یہ اتحاد مزید برقرار نہ رہ سکے گا ۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں بدلتے رویئے پر ایک مرتبہ پھر(ن) لیگ کی مرکزی قیادت کے پاس جا پہنچے ہیں اور ان سے اس حوالے سے گلہ شکوہ بھی کیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق (ن) لیگ کی قیادت نے ایک مرتبہ پھر انہیں تمام معاملات ٹھیک ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے پارٹی کی صوبائی قیادت سے بات چیت کرکے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق آئندہ چند روز بلوچستان کی سیاست کے بہت اہم ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کی کابینہ کے حوالے سے جو اختلافات ہیں انہیں دورکرلیاجائے گا، تاہم اس ضمن میں مسلم لیگ ن بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اﷲ زہری کا یہ کہنا کہ کابینہ کی تشکیل میں مسلم لیگ ن رکاوٹ نہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان بے شک ایک گھنٹے کے لئے اجلاس طلب کریں مسلم لیگ(ن )وزراء کی لسٹ پیش کرنے کو تیار ہے، تاہم انہوں نے اس تاثر کو غلط قراردیا کہ مسلم لیگ(ن) کے درمیان وزارتوں کے معاملے پر اختلافات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ تینوں اتحادی جماعتوں کے وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس کے فورا ً بعد میں نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وزیراعظم کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے۔دوسری طرف سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کو پورا پورا موقع ملنا چاہئے محض 3ماہ کی کارکردگی کو نہ دیکھاجائے بلکہ اس چیز کو مدنظر رکھاجائے کہ ان کی حکومت نے جن پالیسیوں کا اعلان کیا تھاکہ وہ ان پالیسیوں پر کس طرح عملدرآمد کرتے ہیں۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کا یہ اصرار تھا کہ کابینہ کی تشکیل کا معاملہ تین جماعتوں کے6 ارکان پر مشتمل کمیٹی کو سونپا جائے اس دن سے لے کر آج تک ہم وزیراعلیٰ کے اصرار پر بننے والی کمیٹی کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اتحادی جماعتیں اپنی کمزوریاں چھپانے الزامات اورناکامیوں کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔سیاسی حلقے نواب ثناء اﷲ کے زہری کے اس بیان کو بہت اہمیت دے رہے ہیں ۔

بعض سیاسی حلقے بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے بھی اشارے دے رہے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف جوکہ مسلم لیگ(ن) کے قائد بھی ہیں اور ان کی وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کو مکمل سپورٹ بھی حاصل ہے ان حالات میں ان کی یہ سپورٹ اورحمایت کس حد تک برقرار رہتی ہے ، جبکہ مسلم لیگ(ن) کے صوبائی پارلیمانی ارکان کی بڑی تعداد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی اب تک کی کارکردگی سے انتہائی خائف ہے اور اس بات پر زوردے رہے ہیں کہ اسمبلی میں آزاد بنچوں پر بیٹھا جائے۔ نئے حالات میں جمعیت علماء اسلام جس کے پارلیمانی ارکان کی تعداد8 ہے اگر وہ ن لیگ کے ساتھ مل کر موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے کوئی نئی سیاسی حکمت عملی طے کرتی ہے تو بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے آثار واضح ہوجائیں گے۔
Load Next Story