شہر جو سپنوں کی نگری تھا
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہوگیا ہے۔
رقصکرتی روشنی۔ لہلہاتے خواب۔ مسکراتی آرزو۔ ہاں، کبھی یہاں زندگی سانس لیا کرتی تھی۔ قدم بہ قدم آگے بڑھتی تھی۔ اور آگے بڑھتے ہوئے امیدیں بُنتی جاتی تھی۔ کھکھلاتی تھی۔ مگر اب، روشنی بجھ گئی ہے۔ خواب بنجر ہوگئے، اور خواہشات تحلیل ہوگئی ہیں۔ زندگی، اب مزید زندہ نہیں۔ شاید وہ مر چکی ہے!
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ سپنوں کی نگری تھا۔ اِس کے ساحلوں کی ٹھنڈی ریت کتنی پیاری تھی۔ ملک بھر کے محنت کش اِس کا رخ کیا کرتے۔ اور یہ شہر اُنھیں خوش آمدید کہتا۔ ان کی انگلی تھام کر امکانات کے میدانوں تک لے جاتا، جہاں وہ جدوجہد کا ہل چلاتے، اپنی امیدوں کا بیج بوتے۔ اور پھر ہریالی انھیں خوش حالی کا اَن مول تحفہ دیتی۔ مگر اب یہ گزرے زمانوں کی بات ہوگئی ہے۔ عروس البلاد کہلانے والا یہ شہر کتنا بدل گیا ہے۔ یہاں گھٹن ہے۔ یاسیت ہے۔ سناٹا ہے۔
یہ کراچی کو کیا ہوگیا؟ کس کی نظر لگ گئی؟ کبھی یہاں رات گئے تک زندگی چہکا کرتی تھی۔ مگر اب شام اترنے سے قبل ہی راستے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کبھی ادبی تقریبات اِس شہر کی پہچان تھیں۔ اور اب یہاں بے ادبی کا راج ہے۔ کوئی ایک مسئلہ ہو، تو انسان بیان کرے۔ اتنی پیچیدگیاں، اتنی مشکلات ہیں کہ دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں، تب بھی یہ حزنیہ قصّہ تمام نہ ہو۔ اب تو یہ قصّہ غیرمختتم لگنے لگا ہے۔ شاید اِس رات کی صبح نہیں۔
تقسیم کے بعد یہ شہر امید کے سہارے پروان چڑھتا رہا۔ پھلتا پھولتا، گنگناتا رہا۔ مگر پھر بدنظمی کے جرثومے کا جنم ہوا۔ سہولیات کی فراہمی کے عمل میں تعطل پیدا ہونے لگا۔ بڑھتی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع انتظامات نہیں کیے گئے۔ آبادکاری اور تعمیراتی منصوبوں میں غفلت برتی گئی۔ یوں وسائل گھٹنے لگے، اور مسائل بڑھنے لگے۔ بالآخر کراچی نے ایک ایسے گنجان شہر کی شکل اختیار کر لی، جس کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم تھی۔ جہاں لاکھوں افراد ایسے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں قید ہوگئے تھے، جہاں زندگی کا دم گھٹتا تھا۔ اس وسیع و عریض شہر کی سڑکیں، کل تک جن کی کشادگی کا چرچا تھا، اب کتنی تنگ ہوگئی ہیں۔ پیدل چلنے کو جگہ نہیں۔ ٹریفک کا ازدحام ہے، جس نے حادثات کو معمول بنا دیا ہے۔
جن شہروں کا انتظام بگڑ جاتا ہے، وہاں اندھیروں کا جنم لینا تو یقینی ہے۔ کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب بجلی زندگی کا جزو بن گئی، تو اُس کا سانس اکھڑنے لگا۔ لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ اور لوڈشیڈنگ نے یہاں ڈیرا ڈال لیا۔ زندگی پر جمود اتر آیا۔ اب تو کراچی باسی لوڈشیڈنگ کے عہد میں زندہ ہیں۔
اس شہر کو گرانی کا تحفہ بھی ملا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان تک رسائی حاصل کر لی۔ قیمتوں کو پَر لگ گئے۔ بے چارے غریب کو اپنی خواہشات سمیٹنی پڑیں، اس حد تک کہ وہ خود سمٹ گیا۔ اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کا رونا رونے والوں پر پیٹرول بم بھی گرتے رہے۔ بھاری بلوں کے گرینڈ اُن پر پھینکے جاتے رہے۔ خفیہ ٹیکسز کے ذریعے خون نچوڑا جاتا رہا۔
اس سب کے باوجود یہ شہر زندہ تھا۔ اس کے ساحلوں پر ابھی کچھ لوگ سکون کی تلاش میں چلے آتے۔ مسکرانے کی کوشش کرتے۔ کبھی کبھار گیت گاتے، ایک دوجے کو کہانیاں سناتے۔ جینے کی للک میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ان انسانوں کا دم غنیمت تھا، مگر خوشیوں کے دشمنوں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ انھوں نے شہر پر عدم تحفظ کی چادر تان تھی۔ خوف کی آندھی بھیجی۔ گولیاں کی برسات کی۔ تشدد کا پہیا چلا۔
یک دم شہر پر اندھیرا اتر آیا۔ تیزابی بارش شروع ہوگی۔ پرندے جھلس گئے۔ درخت ناپید ہوگئے۔ انسان نے گریہ کیا، مگر اس کی آواز ساتھ نہیں دے سکی۔ سب تباہ ہوگیا۔ اور پھر تباہی مستقل ہوگئی۔
آج اس شہر کی باسی جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس پر قہر کا سایہ ہے۔ وہ خوف زدہ ہیں۔ اپنے مستقبل، اپنے بچوں کے کل سے متعلق اندیشوں کا شکار ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اُن کی زندگی کا چراغ کب بجھ جائے۔ کب ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے۔ کب اجل انھیں نگل لے۔
کس قدر بگڑ چکے ہیں اِس شہر کے حالات۔ دنیا کے غیرمحفوظ ترین شہروں کی فہرست پر نظر ڈالیں، تو یہ شہر، جو کل تک مچھیروں کی ایک پُرسکون بستی تھا، اب بے اماں شہروں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اصولاً تو اسے پہلے نمبر پر ہونا چاہیے۔ اور یہ حیران کن امر نہیں کہ روز یہاں پندرہ بیس افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ روز یہاں بینک ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ موبائل فون، گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔ لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔
اسلحے سے بھر چکا ہے یہ شہر۔ اور اسلحہ بھی وہ، جو جنگوں میں برتا جاتا ہے۔ یہاں راکٹ لانچر چل رہے ہیں۔ دستی بم پھینکے جارہے ہیں۔ جنگی محاذ پر چلنے والی گولیاں دالانوں میں گر رہی ہیں۔ دو گروہ برسرپیکار ہوں، تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہاں تو اتنے گروہ ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ کہیں لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جارہا ہے۔ کہیں قومیت کو کلیہ بنا کر جان لی جارہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مذہب کو بھی قتل و غارت گری کے لیے آزادی سے برتا جانے لگا ہے۔ سیاسی اختلافات نے شہر کو تقسیم کر ڈالا ہے۔ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اسے۔ شکست و ریخت اِس کے مقدر میں لکھ دی ہے۔
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہوگیا ہے۔ تاجر کاروبار جاری رکھنے کے لیے بھتا دینے پر مجبور ہیں۔ انکار کریں تو ان کی دکانوں پر بموں سے حملے ہوتے ہیں۔ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ ان کے پیاروں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین بھی محفوظ نہیں۔ حتیٰ کہ پولیس بھی یہ کہتی دِکھائی دیتی ہے کہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں عام شہریوں کا تو ذکر ہی کیا۔ ان کی زندگی انتہائی ارزاں ہے۔ تحفظ نامی لفظ اُن کی لغت میں نہیں۔ وہاں تو ہر لفظ نے خوف کا پہناوا پہن لیا ہے۔
ماضی میں بھی اِس شہر نے کئی آپریشنز برداشت کیے، جن کا ذکر کرنے کا نہ تو یہ موقع ہے، نہ ہی اِس کی ضرورت ہے کہ اتنے آپریشنز کے باوجود مرض وہیں کا وہیں ہے۔ وہی اذیت ہے۔ وہی وحشت ہے۔ سکون تو اٹھ گیا ہے اِس دھرتی سے۔ اب ایک بار پھر فوجی آپریشن کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ تاجر تو ایک عرصے سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے، مگر اب سیاسی تنظیمں بھی یہ نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں آگئی ہیں۔
جب اپوزیشن جماعتیں وفاق سے فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنا شروع کر دیں، تو اِس کا مطلب صوبائی حکومت کی ناکامی کے سوا اور کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، جو گذشتہ کئی برس سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ مگر اسے تنقید کی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو حکومت کی جانب سے جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں۔ فوج بلوانے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں کل تک خود حکومت میں تھیں، نہ صرف صوبائی سطح پر، بلکہ وفاقی سطح پر بھی حکم راں جماعت کی حلیف تھیں، مگر اُن کا اتحاد حالات کے بدلاؤ میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔
انتخابات کے سمے بھی اِس شہر کے حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ اور اس کشیدگی نے اگلی صبح تک شہر کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اندیشے جوں کے توں قائم رہے، جنھوں نے ہر گزرتے دن نے بڑھاوا دیا۔ یوں لگتا ہے، جیسے اندیشے اِس شہر کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں۔
اب ن لیگ اقتدار میں ہے۔ ملک کی باگ ڈور میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، مگر کراچی تاحال اندیشوں کی غذا بنا ہوا ہے۔
کیا ہورہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟
سورج کب طلوع ہوگیا؟
کب تک اندھیرا شہر کی گلیوں میں رقص کرے گا؟
کب تک خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟
ان سوالات کا جواب دینا لگ بھگ ناممکن ہے کہ یہاں پیش گوئیاں ناکام جاتی ہیں، اور اندازوں کو شکست ہوتی ہے۔
کیا فوج شہر میں آپریشن کرے گی، یا پولیس اور رینجرز کو مزید اختیارات سونپے جائیں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، ہاں امید ضرور ہے کہ روٹھا ہوا امن اس بستی میں پھر ڈیرے ڈالے گا۔
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ سپنوں کی نگری تھا۔ اِس کے ساحلوں کی ٹھنڈی ریت کتنی پیاری تھی۔ ملک بھر کے محنت کش اِس کا رخ کیا کرتے۔ اور یہ شہر اُنھیں خوش آمدید کہتا۔ ان کی انگلی تھام کر امکانات کے میدانوں تک لے جاتا، جہاں وہ جدوجہد کا ہل چلاتے، اپنی امیدوں کا بیج بوتے۔ اور پھر ہریالی انھیں خوش حالی کا اَن مول تحفہ دیتی۔ مگر اب یہ گزرے زمانوں کی بات ہوگئی ہے۔ عروس البلاد کہلانے والا یہ شہر کتنا بدل گیا ہے۔ یہاں گھٹن ہے۔ یاسیت ہے۔ سناٹا ہے۔
یہ کراچی کو کیا ہوگیا؟ کس کی نظر لگ گئی؟ کبھی یہاں رات گئے تک زندگی چہکا کرتی تھی۔ مگر اب شام اترنے سے قبل ہی راستے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ کبھی ادبی تقریبات اِس شہر کی پہچان تھیں۔ اور اب یہاں بے ادبی کا راج ہے۔ کوئی ایک مسئلہ ہو، تو انسان بیان کرے۔ اتنی پیچیدگیاں، اتنی مشکلات ہیں کہ دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں، تب بھی یہ حزنیہ قصّہ تمام نہ ہو۔ اب تو یہ قصّہ غیرمختتم لگنے لگا ہے۔ شاید اِس رات کی صبح نہیں۔
تقسیم کے بعد یہ شہر امید کے سہارے پروان چڑھتا رہا۔ پھلتا پھولتا، گنگناتا رہا۔ مگر پھر بدنظمی کے جرثومے کا جنم ہوا۔ سہولیات کی فراہمی کے عمل میں تعطل پیدا ہونے لگا۔ بڑھتی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع انتظامات نہیں کیے گئے۔ آبادکاری اور تعمیراتی منصوبوں میں غفلت برتی گئی۔ یوں وسائل گھٹنے لگے، اور مسائل بڑھنے لگے۔ بالآخر کراچی نے ایک ایسے گنجان شہر کی شکل اختیار کر لی، جس کی بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم تھی۔ جہاں لاکھوں افراد ایسے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں قید ہوگئے تھے، جہاں زندگی کا دم گھٹتا تھا۔ اس وسیع و عریض شہر کی سڑکیں، کل تک جن کی کشادگی کا چرچا تھا، اب کتنی تنگ ہوگئی ہیں۔ پیدل چلنے کو جگہ نہیں۔ ٹریفک کا ازدحام ہے، جس نے حادثات کو معمول بنا دیا ہے۔
جن شہروں کا انتظام بگڑ جاتا ہے، وہاں اندھیروں کا جنم لینا تو یقینی ہے۔ کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب بجلی زندگی کا جزو بن گئی، تو اُس کا سانس اکھڑنے لگا۔ لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ اور لوڈشیڈنگ نے یہاں ڈیرا ڈال لیا۔ زندگی پر جمود اتر آیا۔ اب تو کراچی باسی لوڈشیڈنگ کے عہد میں زندہ ہیں۔
اس شہر کو گرانی کا تحفہ بھی ملا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں نے آسمان تک رسائی حاصل کر لی۔ قیمتوں کو پَر لگ گئے۔ بے چارے غریب کو اپنی خواہشات سمیٹنی پڑیں، اس حد تک کہ وہ خود سمٹ گیا۔ اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کا رونا رونے والوں پر پیٹرول بم بھی گرتے رہے۔ بھاری بلوں کے گرینڈ اُن پر پھینکے جاتے رہے۔ خفیہ ٹیکسز کے ذریعے خون نچوڑا جاتا رہا۔
اس سب کے باوجود یہ شہر زندہ تھا۔ اس کے ساحلوں پر ابھی کچھ لوگ سکون کی تلاش میں چلے آتے۔ مسکرانے کی کوشش کرتے۔ کبھی کبھار گیت گاتے، ایک دوجے کو کہانیاں سناتے۔ جینے کی للک میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ان انسانوں کا دم غنیمت تھا، مگر خوشیوں کے دشمنوں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ انھوں نے شہر پر عدم تحفظ کی چادر تان تھی۔ خوف کی آندھی بھیجی۔ گولیاں کی برسات کی۔ تشدد کا پہیا چلا۔
یک دم شہر پر اندھیرا اتر آیا۔ تیزابی بارش شروع ہوگی۔ پرندے جھلس گئے۔ درخت ناپید ہوگئے۔ انسان نے گریہ کیا، مگر اس کی آواز ساتھ نہیں دے سکی۔ سب تباہ ہوگیا۔ اور پھر تباہی مستقل ہوگئی۔
آج اس شہر کی باسی جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس پر قہر کا سایہ ہے۔ وہ خوف زدہ ہیں۔ اپنے مستقبل، اپنے بچوں کے کل سے متعلق اندیشوں کا شکار ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اُن کی زندگی کا چراغ کب بجھ جائے۔ کب ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے۔ کب اجل انھیں نگل لے۔
کس قدر بگڑ چکے ہیں اِس شہر کے حالات۔ دنیا کے غیرمحفوظ ترین شہروں کی فہرست پر نظر ڈالیں، تو یہ شہر، جو کل تک مچھیروں کی ایک پُرسکون بستی تھا، اب بے اماں شہروں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اصولاً تو اسے پہلے نمبر پر ہونا چاہیے۔ اور یہ حیران کن امر نہیں کہ روز یہاں پندرہ بیس افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ روز یہاں بینک ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔ موبائل فون، گاڑیاں چھینی جاتی ہیں۔ لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔
اسلحے سے بھر چکا ہے یہ شہر۔ اور اسلحہ بھی وہ، جو جنگوں میں برتا جاتا ہے۔ یہاں راکٹ لانچر چل رہے ہیں۔ دستی بم پھینکے جارہے ہیں۔ جنگی محاذ پر چلنے والی گولیاں دالانوں میں گر رہی ہیں۔ دو گروہ برسرپیکار ہوں، تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہاں تو اتنے گروہ ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ کہیں لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قتل کیا جارہا ہے۔ کہیں قومیت کو کلیہ بنا کر جان لی جارہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مذہب کو بھی قتل و غارت گری کے لیے آزادی سے برتا جانے لگا ہے۔ سیاسی اختلافات نے شہر کو تقسیم کر ڈالا ہے۔ ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اسے۔ شکست و ریخت اِس کے مقدر میں لکھ دی ہے۔
ملک کی معاشی شہ رگ کہلانے والے اِس صنعتی شہر میں صنعتوں کا پہیا جام ہوگیا ہے۔ تاجر کاروبار جاری رکھنے کے لیے بھتا دینے پر مجبور ہیں۔ انکار کریں تو ان کی دکانوں پر بموں سے حملے ہوتے ہیں۔ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے۔ ان کے پیاروں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین بھی محفوظ نہیں۔ حتیٰ کہ پولیس بھی یہ کہتی دِکھائی دیتی ہے کہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں عام شہریوں کا تو ذکر ہی کیا۔ ان کی زندگی انتہائی ارزاں ہے۔ تحفظ نامی لفظ اُن کی لغت میں نہیں۔ وہاں تو ہر لفظ نے خوف کا پہناوا پہن لیا ہے۔
ماضی میں بھی اِس شہر نے کئی آپریشنز برداشت کیے، جن کا ذکر کرنے کا نہ تو یہ موقع ہے، نہ ہی اِس کی ضرورت ہے کہ اتنے آپریشنز کے باوجود مرض وہیں کا وہیں ہے۔ وہی اذیت ہے۔ وہی وحشت ہے۔ سکون تو اٹھ گیا ہے اِس دھرتی سے۔ اب ایک بار پھر فوجی آپریشن کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ تاجر تو ایک عرصے سے اس کا مطالبہ کر رہے تھے، مگر اب سیاسی تنظیمں بھی یہ نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں آگئی ہیں۔
جب اپوزیشن جماعتیں وفاق سے فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنا شروع کر دیں، تو اِس کا مطلب صوبائی حکومت کی ناکامی کے سوا اور کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، جو گذشتہ کئی برس سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ مگر اسے تنقید کی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو حکومت کی جانب سے جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں۔ فوج بلوانے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں کل تک خود حکومت میں تھیں، نہ صرف صوبائی سطح پر، بلکہ وفاقی سطح پر بھی حکم راں جماعت کی حلیف تھیں، مگر اُن کا اتحاد حالات کے بدلاؤ میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکا۔
انتخابات کے سمے بھی اِس شہر کے حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ اور اس کشیدگی نے اگلی صبح تک شہر کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اندیشے جوں کے توں قائم رہے، جنھوں نے ہر گزرتے دن نے بڑھاوا دیا۔ یوں لگتا ہے، جیسے اندیشے اِس شہر کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں۔
اب ن لیگ اقتدار میں ہے۔ ملک کی باگ ڈور میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، مگر کراچی تاحال اندیشوں کی غذا بنا ہوا ہے۔
کیا ہورہا ہے؟ کیا ہونے والا ہے؟
سورج کب طلوع ہوگیا؟
کب تک اندھیرا شہر کی گلیوں میں رقص کرے گا؟
کب تک خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟
ان سوالات کا جواب دینا لگ بھگ ناممکن ہے کہ یہاں پیش گوئیاں ناکام جاتی ہیں، اور اندازوں کو شکست ہوتی ہے۔
کیا فوج شہر میں آپریشن کرے گی، یا پولیس اور رینجرز کو مزید اختیارات سونپے جائیں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، ہاں امید ضرور ہے کہ روٹھا ہوا امن اس بستی میں پھر ڈیرے ڈالے گا۔