شنگھائی تعاون تنظیم…کیا کچھ حاصل ہوا
روس اور چین نے مشرقی ایشیا اور یوریشیا کے لینڈ لاک ممالک کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد چین کے شہر شنگھائی میں رکھی
شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ سربراہ اجلاس کرغزستان کے دارالحکومت بشکک میں ختم ہوگیا ہے۔ آٹھ ممبر ممالک کے سربراہ، روس کے صدر ولادیمیرپوٹن، چین کے صدر شی چن پنگ، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ قازقستان ،ازبکستان ،تاجکستان اور میزبان ملک کرغزستان کے سربراہوں نے شرکت کی۔
اس تنظیم نے انیس سو چھیانوے(1996) میں اپنے قیام سے لے کر اب تک 23 سال کے دوران کیا کچھ پایا ہے، یہ ہے وہ سوال جس کا تجزیہ بین الاقوامی امور کے ماہرین کر رہے ہیں۔بلاشبہ یہ تنظیم علاقائی تعاون کی ایک اچھی مثال ہے۔خصوصاً1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جس طرح امریکا نے واحد سپر پاور ہوتے ہوئے دنیا بھر میں جارحانہ اقدامات کا آغاز کیا تو اس کی پیش بندی کرنے اور علاقائی سیکیورٹی کو محفوظ بنانے اور ممبران کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون کو فروغ دینے میں اس تنظیم نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ۔
روس اور چین نے مشرقی ایشیا اور یوریشیا کے لینڈ لاک ممالک کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد چین کے شہر شنگھائی میں رکھی۔ اس نسبت سے اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم قرار پایا۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس تنظیم کا مرکزی مقصد اس خطے سے امریکی اقتصادی جاریت کو ختم کرنا اور مشترکہ دفاع کی صلاحیت کا حصول ہے۔
ابتدا میں اس تنظیم کے پانچ ممبر تھے جن میں میں روس، چین، کرغزستان، قزاقستان اور تاجکستان۔ 2001 میں ازبکستان کو بھی اس کا باقاعدہ ممبر بنا لیا گیا۔ سن 2002 میں اس تنظیم کا چارٹر منظور کیا گیا۔ جون 2017 میں پاکستان اور بھارت کو بھی باقاعدہ ممبر بنایا گیا اس طرح اس تنظیم کے ممبران کی تعداداب 8 ہوگئی ہے۔ ان دونوں ممالک کی شمولیت نے اس تنظیم کو آبادی کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم بنا دیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ اثر بتدریج بڑھ رہا ہے۔ آٹھ باقاعدہ ممبران کے علاوہ اس تنظیم نے افغانستان، ایران، بیلاروس اور منگولیا کو مبصر کا درجہ دیا ہے جب کہ آذربائیجان ، آرمینیا، آسٹریا، آسٹریلیا اور ترکی کو ڈائیلاگ پارٹنر قرار دیا ہے۔
شنگھائی تنظیم کے تعاون سے خطے کے ممالک نے اپنے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے برکس بینک بھی بنایا ہے۔ ایس سی او ا ور برکس بینک اگر مستقبل قریب میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھتے رہے تو اس خطے سے امریکا اور یورپ کی اقتصادی اثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک کے قیام نے عالمی مالیاتی اداروں، مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کی بالادستی کو چیلنج کردیا ہے۔اس اقتصادی بلاک کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے جب کہ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد۔ بریکس بینک کا ہیڈکوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں قائم کیا گیا ہے جب کہ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی ہوگا۔
شنگھائی تنظیم کے دو مستقل ادارے بھی ہیں ایک تنظیم کا سیکریٹریٹ ہے جو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہے۔ دوسری انتظامی کمیٹی ھے جس کا ہیڈ کوارٹر تاشقند میں قائم کیا گیا ہے۔اس تنظیم کے تحت باہمی تنازعات کے حل کے لیے بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس پلیٹ فارم پر چین جیسا قابل اعتماد دوست پہلے ہی موجود ہے۔ چین پاک بھارت تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کاحامی رہا ہے۔ سی پیک میں دوسرے ممالک کی شمولیت سے بھی تنظیم کے ممالک کے درمیان باہمی قربتیں بڑھنے کا امکان ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس تنظیم کی مکمل کامیابی کا انحصار پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات پر بھی ہے۔جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان رہے گا اور وہ بقائے باہمی اور امن کا راستہ اختیار نہیں کرتے اس وقت تک اس خطے میں امریکا کے جارحانہ اقتصادی اور سیاسی عزائم کا توڑ کرنا ممکن نہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم ہو یا کوئی اور علاقائی تنظیم اس کی بطور ایک تنظیم کے اہمیت بدستور ہوتی ہے، لیکن عالمی منظرنامے کے تناظر میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک جن کا ایمان توحید پر اور معیشت کی بنیاد ملت کی فلاح و بہبود پر ہے وہ اب تک اپنی منزل کیوں حاصل نہ کر سکے۔ عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت نے کی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل دیے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک انھیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے بہت کم ممالک کو حاصل ہے۔ پھربھی ہم مغربی ممالک کے دست نگر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم اہم بین الاقوامی معاملات میں بھی مسلم امہ کو یک زبان نہیں کر سکے۔
عرب ممالک کی اکثریت اسلامی یکجہتی کے بجائے عرب قومیت کا پرچار کر رہی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے معاملے میں بیان بازی تو کمال کی کرتے ہیں لیکن اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں انھی ممالک کی آشیرباد سے بناتے ہیں جو فلسطین کو اسرائیل کے زیرنگیں رکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیری اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار کے معاملے پر بھی عرب ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے ۔
مسلم امہ کے اتحاد اور''نیل سے لے کر تابخاک کاشغر''کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہوگا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کے طرز پر ایک اسلامی بینک بنانے پر آمادہ ہوں اور یہ بینک تقابلی طور پر غریب اور کمزور اسلامی ملکوں کو بلا سود کرنے دے۔
سعودی عرب، قطر ،کویت، برونائی دارالسلام ،متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد رکھوانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ ورلڈ بینک کی طرز پر متبادل اسلامی بینک ملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب لا سکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے جو تجاویز د ی ہیں ہمارے اقتصادی ماہرین کو ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ آگے بڑھنے کی راہ نکل سکے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ملت اسلامیہ عالمی منظر نامے میں نہ تو یکجا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید کے نظر آتی ہے۔
''شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات''
اس تنظیم نے انیس سو چھیانوے(1996) میں اپنے قیام سے لے کر اب تک 23 سال کے دوران کیا کچھ پایا ہے، یہ ہے وہ سوال جس کا تجزیہ بین الاقوامی امور کے ماہرین کر رہے ہیں۔بلاشبہ یہ تنظیم علاقائی تعاون کی ایک اچھی مثال ہے۔خصوصاً1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جس طرح امریکا نے واحد سپر پاور ہوتے ہوئے دنیا بھر میں جارحانہ اقدامات کا آغاز کیا تو اس کی پیش بندی کرنے اور علاقائی سیکیورٹی کو محفوظ بنانے اور ممبران کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون کو فروغ دینے میں اس تنظیم نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ۔
روس اور چین نے مشرقی ایشیا اور یوریشیا کے لینڈ لاک ممالک کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد چین کے شہر شنگھائی میں رکھی۔ اس نسبت سے اس تنظیم کا نام شنگھائی تعاون تنظیم قرار پایا۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس تنظیم کا مرکزی مقصد اس خطے سے امریکی اقتصادی جاریت کو ختم کرنا اور مشترکہ دفاع کی صلاحیت کا حصول ہے۔
ابتدا میں اس تنظیم کے پانچ ممبر تھے جن میں میں روس، چین، کرغزستان، قزاقستان اور تاجکستان۔ 2001 میں ازبکستان کو بھی اس کا باقاعدہ ممبر بنا لیا گیا۔ سن 2002 میں اس تنظیم کا چارٹر منظور کیا گیا۔ جون 2017 میں پاکستان اور بھارت کو بھی باقاعدہ ممبر بنایا گیا اس طرح اس تنظیم کے ممبران کی تعداداب 8 ہوگئی ہے۔ ان دونوں ممالک کی شمولیت نے اس تنظیم کو آبادی کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم بنا دیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ اثر بتدریج بڑھ رہا ہے۔ آٹھ باقاعدہ ممبران کے علاوہ اس تنظیم نے افغانستان، ایران، بیلاروس اور منگولیا کو مبصر کا درجہ دیا ہے جب کہ آذربائیجان ، آرمینیا، آسٹریا، آسٹریلیا اور ترکی کو ڈائیلاگ پارٹنر قرار دیا ہے۔
شنگھائی تنظیم کے تعاون سے خطے کے ممالک نے اپنے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے برکس بینک بھی بنایا ہے۔ ایس سی او ا ور برکس بینک اگر مستقبل قریب میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھتے رہے تو اس خطے سے امریکا اور یورپ کی اقتصادی اثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس بینک کے قیام نے عالمی مالیاتی اداروں، مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کی بالادستی کو چیلنج کردیا ہے۔اس اقتصادی بلاک کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے جب کہ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد۔ بریکس بینک کا ہیڈکوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں قائم کیا گیا ہے جب کہ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی ہوگا۔
شنگھائی تنظیم کے دو مستقل ادارے بھی ہیں ایک تنظیم کا سیکریٹریٹ ہے جو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہے۔ دوسری انتظامی کمیٹی ھے جس کا ہیڈ کوارٹر تاشقند میں قائم کیا گیا ہے۔اس تنظیم کے تحت باہمی تنازعات کے حل کے لیے بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس پلیٹ فارم پر چین جیسا قابل اعتماد دوست پہلے ہی موجود ہے۔ چین پاک بھارت تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کاحامی رہا ہے۔ سی پیک میں دوسرے ممالک کی شمولیت سے بھی تنظیم کے ممالک کے درمیان باہمی قربتیں بڑھنے کا امکان ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس تنظیم کی مکمل کامیابی کا انحصار پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات پر بھی ہے۔جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان رہے گا اور وہ بقائے باہمی اور امن کا راستہ اختیار نہیں کرتے اس وقت تک اس خطے میں امریکا کے جارحانہ اقتصادی اور سیاسی عزائم کا توڑ کرنا ممکن نہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم ہو یا کوئی اور علاقائی تنظیم اس کی بطور ایک تنظیم کے اہمیت بدستور ہوتی ہے، لیکن عالمی منظرنامے کے تناظر میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک جن کا ایمان توحید پر اور معیشت کی بنیاد ملت کی فلاح و بہبود پر ہے وہ اب تک اپنی منزل کیوں حاصل نہ کر سکے۔ عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت نے کی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل دیے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک انھیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے بہت کم ممالک کو حاصل ہے۔ پھربھی ہم مغربی ممالک کے دست نگر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم اہم بین الاقوامی معاملات میں بھی مسلم امہ کو یک زبان نہیں کر سکے۔
عرب ممالک کی اکثریت اسلامی یکجہتی کے بجائے عرب قومیت کا پرچار کر رہی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے معاملے میں بیان بازی تو کمال کی کرتے ہیں لیکن اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں انھی ممالک کی آشیرباد سے بناتے ہیں جو فلسطین کو اسرائیل کے زیرنگیں رکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیری اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار کے معاملے پر بھی عرب ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے ۔
مسلم امہ کے اتحاد اور''نیل سے لے کر تابخاک کاشغر''کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہوگا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کے طرز پر ایک اسلامی بینک بنانے پر آمادہ ہوں اور یہ بینک تقابلی طور پر غریب اور کمزور اسلامی ملکوں کو بلا سود کرنے دے۔
سعودی عرب، قطر ،کویت، برونائی دارالسلام ،متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد رکھوانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ ورلڈ بینک کی طرز پر متبادل اسلامی بینک ملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب لا سکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد نے جو تجاویز د ی ہیں ہمارے اقتصادی ماہرین کو ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ آگے بڑھنے کی راہ نکل سکے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ملت اسلامیہ عالمی منظر نامے میں نہ تو یکجا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کوئی امید کے نظر آتی ہے۔
''شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات''