دور عثمانیہ کا اختتام
ارطغرل سلطان علاؤ الدین کے نائب کے طور پر لڑتا رہا اور اس کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا
یکم نومبر 1922 کو باضابطہ طور پر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ترکی میں سلطان محمد ششم کی حکومت کو ختم کردیا گیا، مصطفیٰ کمال پاشا کی حکومت کا آغاز ہوا۔ سلطان محمد ششم کو ناپسند'یدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدرکردیا گیا جو 17 اکتوبر 1922 کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہوگئے ان کے بیٹے شہزادے محمد ارطفرل آفندی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ بعدازاں وہ وہاں سے اٹلی چلے گئے اور انھوں نے زندگی کے آخری ایام اٹلی میں گزارے۔ ان کی وفات 16 مئی 1926 کو سان ایمو، اٹلی میں ہوئی انھیں دمشق میں سلطان سلیم اول مسجد کے قریب دفن کیا گیا جب تک زندہ رہے وہ عثمانی خاندان کے سربراہ کے طور پر رہے۔19 نومبر 1922 عبدالمجید آفندی (عبدالمجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924 میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمے داری نبھاتے رہے۔
اس کے ساتھ تمام عثمانی خاندان کو جلا وطن کردیا گیا ایک ایسا خاندان جو 600 سال سے زائد عرصے سے ایک جگہ حکومت کر رہا تھا۔اس خاندان کے اپنے ملک میں جگہ تنگ ہوگئی، عثمانی خاندان کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جلاوطن ہونیوالے خاندان کے افراد کی کل تعداد اس وقت 156 تھی۔ان میں سلطان کے ساتھ بہت سے شہزادے ''بچے'' شہزادیاں اور ازواج وغیرہ شامل تھیں چند ملازمین (نوکر) وغیرہ بھی ان کے ساتھ جو اپنے مالکوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ اس خاندان کے تمام داماد بھی جلاوطن کیے گئے (یعنی تمام شہزادیوں کے شوہر)۔ ان سب کو یک طرفہ پاسپورٹ دیا گیا، سو انھوں نے پہلے مصر جانا چاہا کہ کبھی وہ ان کی سلطنت میں شامل تھا۔
لیکن انگریز اور نہ ہی وہاں کے شاہ فواد نے ان کو اجازت دی۔ پھر شام کا قصد کیا کہ وہ بھی ایک قریب ملک تھا تو ترکی کی حکومت نے ادھر جانے کی اجازت نہ دی۔ کچھ افراد لبنان کے شہر بیروت چلے گئے جو اس وقت فرانس کے زیر تسلط تھا۔خلیفہ عبدالمجید فرانس کے شہر ٹائس چلے گئے شہزادے علی واصب کی کوششوں سے ان کو فرانس کی حکومت نے پاسپورٹ دیے۔ یہ وقت عثمانی خاندان کے لیے بہت کٹھن تھا۔ انھوں نے افلاس و غربت دیکھی وہ اپنا سازو سامان، روپیہ پیسہ اپنے محلات میں چھوڑ آئے تھے کہ عوام کی مداخلت اور تعاون سے وہ جلد ترکی واپس آئیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کا نام کسی نسل یا قوم سے نہیں بلکہ اس کے پہلے حکمران سلطان عثمان غازی کے نام سے منسوب ہے۔ عثمان غازی کے والد کا نام اطغرل غازی تھا۔ اس وقت ترک قبائل کی شکل میں رہتے تھے یہ تمام قبائل خانہ بدوش تھے۔ جہاں سرسبز علاقہ اور آب نظر آتا وہیں خیمہ زن ہوجاتے۔
ان قبائل میں ایک قبیلے کا نام قائی قبیلہ تھا، قائی قبیلہ باقی قبائل سے کچھ بڑا اور طاقتور تھا۔ سلیمان شاہ اس قبیلے کا سردار تھا، یہ نہایت جنگجو قبیلہ تھا، سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد اسلام کی اشاعت تھی کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان ہر جگہ سے کمزوری کا شکار تھے۔ سلجوقی سلطنت اپنے زوال کے قریب تھی، ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ سلیمان شاہ کا انتقال ہوگیا اس کے تین بیٹے تھے منجھلا (درمیانی) بیٹا اور طغرال اپنے والد کا جانشیں مقرر ہوا اور قبیلے کا سردار بنا۔ ارطغرل غازی، بہادر، نڈر اور جنگجو انسان تھا جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا۔ لیکن منگول ہر طرف تباہی پھیلا رہے تھے، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ چنگیز خان کی فوجوں نے خوارزم شاہ سلطنت کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا مسلمان منگولوں کے آگے سے بچ کر بھاگ رہے تھے۔
اس صورتحال میں ارطغرل منگولوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا وہ اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ تقریباً چار سو خاندان تھے راستہ میں اس نے دیکھا دو فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں، اس نے سوچا کسی ایک کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ لشکر کس کس کے ہیں، کچھ سوچ کر اس نے جو فوج ہار رہی تھی اس کا ساتھ دیا، اپنے ان تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ مخالف فوج پر اچانک تیز حملہ کیا۔ وہ فوج خائف ہوئی اور سمجھی کہ ان کوکہیں سے مدد مل گئی ہے جو فوج جیت رہی تھی وہ ہار مان گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس فوج کا ساتھ دیا یہ سلجوقی سلطان علاؤالدین کی فوج تھی۔ مخالف فوج کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بازنطینی، عیسائی فوج تھی، اکثر کے مطابق وہ تاتاری تھے۔ بہرحال سلطان اس کی بہادری، شجاعت سے بہت خوش ہوا اور طغرال کا قبیلہ وہیں آباد ہوگیا۔ سلطان نے ان کو اجازت دی کہ سرحد کے ساتھ علاقوں کو فتح کریں اور ان کو سلطنت میں شامل کریں، یہ علاقہ بازنطینی عیسائی سلطنت کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ارطغرال نے کچھ عرصے میں اپنی شجاعت و بہادری کا سکہ بٹھا دیا ان فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی بہت سے ترک قبائل بھی ارطغرال کے ساتھ مل گئے اور اسے اپنا سردار تسلیم کرلیا۔
ارطغرل سلطان علاؤ الدین کے نائب کے طور پر لڑتا رہا اور اس کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا۔ ارطغرل نے بازنطینی سلطنت کے ایک بڑے متحدہ لشکر کو شکست دی۔ مدتوں اس جاگیر کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل جنگیں لڑتے رہے۔1281 میں نوے برس کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہوگیا، اس کے جانشین اس کا بیٹا عثمان غازی تھا۔ عثمان اپنے والد کی طرح، سچا، پکا مسلمان بہادر اور حوصلہ مند تھا۔ اس نے فتوحات کا تسلسل جاری رکھا، ادھر سلطان علاؤ الدین سلجوقی ایک جنگ میں شہید ہوئے اس کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔ 1299 میں سلجوقی سلطنت بالکل ختم ہوگئی، عثمان غازی نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنی خودمختار حکومت کا اعلان کردیا۔ یوں سلجوقی سلطنت سے علیحدہ عثمانی سلطنت قائم ہوئی۔ امیر عثمان غازی نے بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا۔
عثمان کا ایک واقعہ میرے ذہن میں آیا، چاہتا ہوں ذکر کردوں کچھ اس طرح ہے کہ عثمان کو ایک شہر کا قاضی مقرر کیا گیا اس نے اس جھگڑے میں ایک مسلمان کے خلاف فیصلہ سنایا اور نصرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔ بازنطینی کو اس پر حیرت و استعجاب ہوا اس نے عثمان غازی سے پوچھا، آپ نے میرے حق میں فیصلہ کیسے دیا جب کہ میں آپ کے مذہب سے نہیں یعنی مسلمان نہیں ہوں۔ عثمان نے جواب دیا میں آپ کے حق میں فیصلہ کیسے نہ دوں جب کہ اللہ تعالیٰ جس کی بندگی کرتے ہیں ہم کو حق و انصاف، عدل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ عثمان کے اس عدل و انصاف کی بدولت یہ شخص اور اس کی قوم کو ہدایت نصیب ہوئی وہ مسلمان ہوگئے۔سلطان عثمان کو سلطنت ملنا اور ایک مضبوط اسلامی سلطنت کا قائم ہونا، اللہ کی مرضی تھی اس سلطنت کے قائم ہونے کے بعد مسلمان متحد ہونا شروع ہوئے۔
برصہ کی فتح کے بعد سلطان عثمان بیمار ہوئے 1225 کو وفات پائی۔ بستر مرگ پر تھے تو اس نے اپنے بیٹے اور خان کو بلاکر نصیحت کی ''جہاد فی سبیل اللہ کے تسلسل کو قائم رکھنا، اسلام کو ہمیشہ سربلند رکھنا مکمل ترین جہاد کے ذریعے اسلام کے مقدس جھنڈے کو تھامے رکھنا۔ ہمیشہ اسلام کے خادم رہنا، میری نسل سے جو شخص بھی حق اور عدل سے روگردانی کرے گا روز محشر رسولؐ کی شفاعت سے محروم رہے گا۔'' یہ نصیحت ایک ضابطہ تھی جو بعد میں عثمانی سلطنت اس پر قائم رہی اور اس کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا جہاں تک اسلامی جھنڈا پہنچا یہ عظیم فرزند اسلام 1326 کو جب اس دار فانی سے رخصت ہوا تو دولت عثمانیہ کا رقبہ 16000 مربع کلومیٹر تھا، وہ اپنی نوزائیدہ مملکت کے لیے بحیرہ مر مر تک راستہ بنانے میں کامیاب ہوا۔
اس کے ساتھ تمام عثمانی خاندان کو جلا وطن کردیا گیا ایک ایسا خاندان جو 600 سال سے زائد عرصے سے ایک جگہ حکومت کر رہا تھا۔اس خاندان کے اپنے ملک میں جگہ تنگ ہوگئی، عثمانی خاندان کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جلاوطن ہونیوالے خاندان کے افراد کی کل تعداد اس وقت 156 تھی۔ان میں سلطان کے ساتھ بہت سے شہزادے ''بچے'' شہزادیاں اور ازواج وغیرہ شامل تھیں چند ملازمین (نوکر) وغیرہ بھی ان کے ساتھ جو اپنے مالکوں کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ اس خاندان کے تمام داماد بھی جلاوطن کیے گئے (یعنی تمام شہزادیوں کے شوہر)۔ ان سب کو یک طرفہ پاسپورٹ دیا گیا، سو انھوں نے پہلے مصر جانا چاہا کہ کبھی وہ ان کی سلطنت میں شامل تھا۔
لیکن انگریز اور نہ ہی وہاں کے شاہ فواد نے ان کو اجازت دی۔ پھر شام کا قصد کیا کہ وہ بھی ایک قریب ملک تھا تو ترکی کی حکومت نے ادھر جانے کی اجازت نہ دی۔ کچھ افراد لبنان کے شہر بیروت چلے گئے جو اس وقت فرانس کے زیر تسلط تھا۔خلیفہ عبدالمجید فرانس کے شہر ٹائس چلے گئے شہزادے علی واصب کی کوششوں سے ان کو فرانس کی حکومت نے پاسپورٹ دیے۔ یہ وقت عثمانی خاندان کے لیے بہت کٹھن تھا۔ انھوں نے افلاس و غربت دیکھی وہ اپنا سازو سامان، روپیہ پیسہ اپنے محلات میں چھوڑ آئے تھے کہ عوام کی مداخلت اور تعاون سے وہ جلد ترکی واپس آئیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کا نام کسی نسل یا قوم سے نہیں بلکہ اس کے پہلے حکمران سلطان عثمان غازی کے نام سے منسوب ہے۔ عثمان غازی کے والد کا نام اطغرل غازی تھا۔ اس وقت ترک قبائل کی شکل میں رہتے تھے یہ تمام قبائل خانہ بدوش تھے۔ جہاں سرسبز علاقہ اور آب نظر آتا وہیں خیمہ زن ہوجاتے۔
ان قبائل میں ایک قبیلے کا نام قائی قبیلہ تھا، قائی قبیلہ باقی قبائل سے کچھ بڑا اور طاقتور تھا۔ سلیمان شاہ اس قبیلے کا سردار تھا، یہ نہایت جنگجو قبیلہ تھا، سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد اسلام کی اشاعت تھی کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ مسلمان ہر جگہ سے کمزوری کا شکار تھے۔ سلجوقی سلطنت اپنے زوال کے قریب تھی، ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔ سلیمان شاہ کا انتقال ہوگیا اس کے تین بیٹے تھے منجھلا (درمیانی) بیٹا اور طغرال اپنے والد کا جانشیں مقرر ہوا اور قبیلے کا سردار بنا۔ ارطغرل غازی، بہادر، نڈر اور جنگجو انسان تھا جو اپنے قبیلے کا دفاع کرنا خوب جانتا تھا۔ لیکن منگول ہر طرف تباہی پھیلا رہے تھے، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ چنگیز خان کی فوجوں نے خوارزم شاہ سلطنت کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا مسلمان منگولوں کے آگے سے بچ کر بھاگ رہے تھے۔
اس صورتحال میں ارطغرل منگولوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا وہ اپنے قبیلے کو لے کر سلجوقی سلطنت کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ تقریباً چار سو خاندان تھے راستہ میں اس نے دیکھا دو فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں، اس نے سوچا کسی ایک کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ لشکر کس کس کے ہیں، کچھ سوچ کر اس نے جو فوج ہار رہی تھی اس کا ساتھ دیا، اپنے ان تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ مخالف فوج پر اچانک تیز حملہ کیا۔ وہ فوج خائف ہوئی اور سمجھی کہ ان کوکہیں سے مدد مل گئی ہے جو فوج جیت رہی تھی وہ ہار مان گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس فوج کا ساتھ دیا یہ سلجوقی سلطان علاؤالدین کی فوج تھی۔ مخالف فوج کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بازنطینی، عیسائی فوج تھی، اکثر کے مطابق وہ تاتاری تھے۔ بہرحال سلطان اس کی بہادری، شجاعت سے بہت خوش ہوا اور طغرال کا قبیلہ وہیں آباد ہوگیا۔ سلطان نے ان کو اجازت دی کہ سرحد کے ساتھ علاقوں کو فتح کریں اور ان کو سلطنت میں شامل کریں، یہ علاقہ بازنطینی عیسائی سلطنت کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ارطغرال نے کچھ عرصے میں اپنی شجاعت و بہادری کا سکہ بٹھا دیا ان فتوحات کا نتیجہ یہ ہوا کہ باقی بہت سے ترک قبائل بھی ارطغرال کے ساتھ مل گئے اور اسے اپنا سردار تسلیم کرلیا۔
ارطغرل سلطان علاؤ الدین کے نائب کے طور پر لڑتا رہا اور اس کی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا۔ ارطغرل نے بازنطینی سلطنت کے ایک بڑے متحدہ لشکر کو شکست دی۔ مدتوں اس جاگیر کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل جنگیں لڑتے رہے۔1281 میں نوے برس کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہوگیا، اس کے جانشین اس کا بیٹا عثمان غازی تھا۔ عثمان اپنے والد کی طرح، سچا، پکا مسلمان بہادر اور حوصلہ مند تھا۔ اس نے فتوحات کا تسلسل جاری رکھا، ادھر سلطان علاؤ الدین سلجوقی ایک جنگ میں شہید ہوئے اس کے بعد اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔ 1299 میں سلجوقی سلطنت بالکل ختم ہوگئی، عثمان غازی نے اپنے تمام مفتوحہ علاقوں میں اپنی خودمختار حکومت کا اعلان کردیا۔ یوں سلجوقی سلطنت سے علیحدہ عثمانی سلطنت قائم ہوئی۔ امیر عثمان غازی نے بہت سے شہروں اور قلعوں کو فتح کیا۔
عثمان کا ایک واقعہ میرے ذہن میں آیا، چاہتا ہوں ذکر کردوں کچھ اس طرح ہے کہ عثمان کو ایک شہر کا قاضی مقرر کیا گیا اس نے اس جھگڑے میں ایک مسلمان کے خلاف فیصلہ سنایا اور نصرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔ بازنطینی کو اس پر حیرت و استعجاب ہوا اس نے عثمان غازی سے پوچھا، آپ نے میرے حق میں فیصلہ کیسے دیا جب کہ میں آپ کے مذہب سے نہیں یعنی مسلمان نہیں ہوں۔ عثمان نے جواب دیا میں آپ کے حق میں فیصلہ کیسے نہ دوں جب کہ اللہ تعالیٰ جس کی بندگی کرتے ہیں ہم کو حق و انصاف، عدل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ عثمان کے اس عدل و انصاف کی بدولت یہ شخص اور اس کی قوم کو ہدایت نصیب ہوئی وہ مسلمان ہوگئے۔سلطان عثمان کو سلطنت ملنا اور ایک مضبوط اسلامی سلطنت کا قائم ہونا، اللہ کی مرضی تھی اس سلطنت کے قائم ہونے کے بعد مسلمان متحد ہونا شروع ہوئے۔
برصہ کی فتح کے بعد سلطان عثمان بیمار ہوئے 1225 کو وفات پائی۔ بستر مرگ پر تھے تو اس نے اپنے بیٹے اور خان کو بلاکر نصیحت کی ''جہاد فی سبیل اللہ کے تسلسل کو قائم رکھنا، اسلام کو ہمیشہ سربلند رکھنا مکمل ترین جہاد کے ذریعے اسلام کے مقدس جھنڈے کو تھامے رکھنا۔ ہمیشہ اسلام کے خادم رہنا، میری نسل سے جو شخص بھی حق اور عدل سے روگردانی کرے گا روز محشر رسولؐ کی شفاعت سے محروم رہے گا۔'' یہ نصیحت ایک ضابطہ تھی جو بعد میں عثمانی سلطنت اس پر قائم رہی اور اس کو دور دراز علاقوں تک پہنچایا جہاں تک اسلامی جھنڈا پہنچا یہ عظیم فرزند اسلام 1326 کو جب اس دار فانی سے رخصت ہوا تو دولت عثمانیہ کا رقبہ 16000 مربع کلومیٹر تھا، وہ اپنی نوزائیدہ مملکت کے لیے بحیرہ مر مر تک راستہ بنانے میں کامیاب ہوا۔