ریڈ لائن بس منصوبہ تیار شہر میں 119 بسیں چلائی جائیں گی
منصوبے کے لیے 100ملین کی رقم مختص کی گئی ہے
کراچی کی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی کو ٹریفک کے اژدھام سے نجات دلانے کے لیے وفاقی کی جانب سے شروع کیے جانے والے گرین بس منصوبے کی تکمیل کے بعد بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا تھا جس کے باعث سندھ حکومت نے کراچی کے لیے ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ( بی آر ٹی ) پروجیکٹ پرکام کے آغاز کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں، منصوبہ 3سال کے اندر2021 تک پایہ تکمیل کوپہنچایا جائے گا۔
رواں سال منصوبے پر اے ڈی پی کے تحت100ملین کی رقم مختص کی گئی ہے،جائیکا (JICA) نے2010 میں دی کراچی ٹرانسپورٹ امپورمنٹ پروجیکٹ(9KTIP) کے تحت دی ماس ٹرانزٹ کوریڈورکی تجویزدی تھی تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے ٹرانسپورٹ مسائل کو حل کیا جاسکے جائیکاکی رپورٹ سے اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ مستقبل میں کراچی کے اندر موٹرسائیکلوں اور کاروں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ سڑکوں پر ان کے چلنے کے لیے جگہ کم پڑجائے گی، لہٰذا اس وقت جو ٹرانسپورٹ سسٹم موجود ہے اسے بڑے پیمانے پر توسیع نہ دی گئی توٹریفک کے بے پناہ رش کے باعث سفر میں بہت زیادہ وقت لگے گا جبکہ ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ جائے گی۔
بی آر ٹی کوریڈورکے ذریعے کراچی کے لیے ایک ایسا مستحکم اور پائیدار شہری ٹرانسپورٹ نظام بنایا جائے جس تک شہریوں کی رسائی آسان ہو، ان کی آمد و رفت میں مشکلات ختم ہوں ، جوقابل بھروسہ ہو اور اس میں وقت بھی کم لگتا ہو، ملیرہالٹ ڈپو سے نمائش تک24.4 کلو میٹر اور میونسپل پارک سے میری ویدر ٹاور تک2.4 کلو میٹرکامن کوریڈوراور قریبی آبادیوں سے گزرتے ہوئے آف کوریڈور ڈائریکٹ اور فیڈر سروس روٹس اس منصوبے کے تخت29.1 کلو میٹر ورکس اس میں شامل ہیں، منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے، دیکھ بھال اورآپریشن کی ذمے داریاں حکومت سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ، سندھ ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹرانس کراچی کمپنی پر ہیں۔
ریڈ لائن منصوبے میں حکومت سندھ کا حصہ88.000 ملین ڈالر جبکہ اے ڈی بی اور دیگر شریک فناسرز کا حصہ474.31 ملین ڈالر ہے جبکہ منصوبے پر عملدر آمد کیلیے پروکیورمنٹ کے مرحلے تک مارچ 2019سے وسط 2021 ہے، بی آر ٹی اسٹیشنزکی تعداد29 ہوگی جس میں مشترکہ کوریڈورکے5 اور مین کوریڈور کے ساتھ24 اسٹیشن شامل ہوںگے، بی آرٹی لین کی چوڑائی3.5 میٹر لین کی چوڑائی(Docking)3 میٹر سے3.15 میٹر تک اسٹیشن کی چوڑائی3.5 میٹر سے5 میٹر تک اسٹیشنز کے درمیان کی چوڑائی0.3 میٹر سے0.6 میٹر تک سینٹر لائن کے دونوں جانب0.3 میٹر کی چوڑائی ہر ڈائریکشن میں لینزکی تعداد3 سے6 مین کوریڈور، سائیڈواک کی چوڑائی1.2 سے3 میٹر،لمبائی دونوں اطراف58 کلو میٹر سائیکلوں کا راستہ، چوڑائی1.8 میٹر لمبائی53 کلو میٹر دونوں جانب بی آرٹی فلیٹ کی گاڑیوں کی کل تعداد199 ہے۔
جس میں9 میٹر لمبی گاڑیاں19 عدد12میٹر لمبی گاڑیاں134 عدد جبکہ18میٹر لمبی گاڑیوں کی تعداد46 عدد ہوگی، منصوبے میں2 ٹرنک سروسز ہوں گی جو مرکرزی کوریڈور کے ساتھ چلیں گی(1) ٹرنک سروس ٹاور سے ملیر تک جبکہ ٹرنک سروس نمبر2 میونسپل پارک سے صفورا تک، ریڈ لائن میں6 ڈائریکٹ اور2 فیڈر سروسز شامل ہوں گی جو مسافروں کے لیے درج ذیل ترتیب سے ہوںگی،ڈائریکٹ سروس نمبر ایک کیماڑی کے ساحل سے صفورا تک، دوسری گلستان جوہر سے سیکٹر16 تک تیسری بفرزون سے صفورا تک چوتھی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پلازہ سے صفورا تک پانچویں نمائش سے محکمہ موسمیات تک چھٹی کیماڑی کے ساحل سے محمد خان کالونی تک ساتویں فیڈر سروس نمبر ایک سومارکنڈانی سے ملیر تک فیڈر سروس نمبر دوبکری پارک سے ملیر تک چلائی جائے گی، اندازے کے مطابق اس منصوبے پر عملدرآمد کی بدولت روزگار کے2118 براہ راست مواقع پیدا ہوں گے۔
(i) اسٹیشن سروسز یعینی ٹکٹنگ، سیکیورٹی اور سھترائی کے کاموں کے لیے1424 اسامیاں(ii) بس آپریشن بشمول ڈرائیور، کنڈیکٹر اور مکینک کی615 اسامیاں(iii) اور ٹرانس کراچی میں79 اسامیاں شامل ہوںگی،کراچی کی آبادی کا7 فیصد حصہ ریڈ لائن کوریڈور کے اطراف آباد ہے ان افراد کی تعداد تقریباً10لاکھ ہے، ممکنہ طور پر ریڈ لائن بی آر ٹی کوریڈور سے بالواسطہ روزگار کے تقریباً2فیصد نئے مواقع پیدا ہوںگے ان سے تقریبا ً20 ہزار شہری استعفادہ کرسکیں گے، بی آرٹی منصوبے میں ریونیو درج ذیل ذرائع سے حاصل ہوگا 1۔ مسافروں سے لیا جانے والا کرایا2۔ اشتہارات3۔ اسٹیشنوں پر واقع دکانوں اور سہولتوں کاکرایہ، اندازہ ہے کہ2021کے دوران ریونیو کے سب سے بڑے ذریعے یعنی مسافروں سے وصول کیے جانے والے کرایے کی رقم( سالانہ2686 ملین پاکستان روپے(19.46 ملین ڈالر) سے زیادہ ہوگی، یہ اندازہ لگانے کے لیے فاصلے کی بنیاد پر کرایے کی رقم کا تعین کرنے کیلیے یہ فرض کیا گیا ہے کہ ہر ٹرپ پر35 روپے(0.03ڈالر) وصول ہوںگے اس طرح اشتہارات سے ہونے والی سالانہ آمدنی365 ملین روپے(2.26 ملین ڈالر) سے زیادہ ہوگی، یہ رقم کل ریونیوکے10 فیصدکے مساوی ہوگی، رعایی نرخوں پر مختلف اشیا کے اسٹینڈز سے وصول ہونے والے کرایے کی رقم سالانہ600 ملین روپے(4.35 ملین ڈالر) ہوگی یہ اندازہ کرنے کے لیے اسی طرح کمرشل جہگوں کے مارکیٹ کرانے( فی اسکوائر میٹر) کو بنیاد بنایا گیا۔
اس مد میں حاصل ہونے والی آمدنی میں متوقع طور پر تمام آپریٹنگ اور منٹینس اخراجات پورے کرنے کے علاوہ نئی بسوں کی خریداری ممکن ہوگی تاکہ وہ نا صرف خراب ہونے والی بسوں کی جگہ لے سکیں بلکہ بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی بسیں خریدی جاسکیںگی، مسافروں سے کرایے کی وصولی کا کام ایک فناشل کلیئرنگ ہاؤس کمپنی کے سپرد کیا جائے گا، گاڑیوں کے آپریشن کی فیس فی کلو میٹر کی بنیاد پر ہے ادا کی جائے گی، اسی طرح اسٹیشنوں پر فراہم کی جانے والی خدمات جن میں صفائی، سیکیورٹی اور staffing سمیت دیگر خدمات شامل ہیں کو ٹھیکے پر دیا جائے گا،بسوں کے کرایے کی شرح فاصلے کی بنیاد پر15 روپے سے55 روپے ہوگی، آپریشن کیش فلو پر مارجن25 فیصد، ایندھن کی نوعیت اور قیمت جانوروں کے فضلے سے تیار کی جانے والے ایندھن کی لاگت13 روپے کلو ہوگی، چونکہ برسات کے موسم کے دوران کراچی میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اس لیے جدید بنیادوں پر ڈرینج سسٹم کے لیے اضافی طور پر فنڈنگ کا بندوبست کیا گیا ہے جس کے تحت یہ انتظام کیا جائے گا کہ بی آرٹی اسٹیشنوں کے درمیان بس وے پر بارش کا پانی ازخود پہلے سے بنائی گئی جگہوں پر چلاجائے اس سے ڈرینج سسٹم بالکل متاثر نہیں ہوگا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سائیکلوں اور پیدل چلنے والے راہگیروں کے لیے بنائے جانے والے راسوں کے دونوں طرف خصوصی ٹائلز لگانے کے علاوہ سبزہ اور پودے لگائے جائیں گے جس کی بدولت بارش کا خاصہ پانی جذب ہوجائے گا اس کے ساتھ ساتھ راہ گیروں کے سڑک کراس کرنے کے لیے بھی بہترین انتظامات کیے جائیں گے تاکہ کسی بھی حادثے کا خدشہ نہ ہو، حکومت سندھ کی اراضی پر موسمیات اور ملیر ہالٹ کے مقامات پر بی آرٹی گاڑیوں کے ابتدائی بیڑے کے لیے کافی گنجائش والے بڑے ڈپو بنائے جائیں گے۔
جن میں بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی کی جاسکیںگی، ان ڈپوز میں گاڑیوں کی مرمت کے لیے درکار کارخانے بنانے کے لیے عمارتیں بھی بنائی جائیں گی اس کے ساتھ ساتھ بسوں کو دھونے کے لیے سروس ایریاز اور وہیکل آپریٹر کمپنیوں کے دفاتر کی جگہ بھی رکھی جائے گی، پورے کوریڈور کی24 گھنٹے نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے اس کے علاوہ بس کے اندورنی حصوں کو ان کمیروں سے مکمل کور کیا جائے گا تمام اسٹیشنوں اور ان کے حساس مقامات بالخصوص کرایے کی وصولی کے لیے بنائے گئے کیبنوں کی بھی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے گی اس کے علاوہ پلیٹ فارم میں داخل ہونے سے قبل مسافروں کو واک تھرو گیٹ سے گزرنا ہوگا اور سیکیورٹی اہلکار ان کے پاس موجود سامان کی تلاشی اور جانچ کا عمل سرانجام دیں گے ،چونکہ خواتین بسوں کے سفر کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور ان ہراساں کیے جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے اس لیے اس پروجیکٹ میں صنفی مساوات مردوں اور خواتین کے درمیان برابری کو یقینی بنایے جائے گا ، بس میں سوار ہونے کے لیے خواتین الگ قطار میں ہوں گی اور بس کے اندر ان کے لیے علیحدہ حصہ مختص کیا جائے گا۔
رواں سال منصوبے پر اے ڈی پی کے تحت100ملین کی رقم مختص کی گئی ہے،جائیکا (JICA) نے2010 میں دی کراچی ٹرانسپورٹ امپورمنٹ پروجیکٹ(9KTIP) کے تحت دی ماس ٹرانزٹ کوریڈورکی تجویزدی تھی تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے ٹرانسپورٹ مسائل کو حل کیا جاسکے جائیکاکی رپورٹ سے اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ مستقبل میں کراچی کے اندر موٹرسائیکلوں اور کاروں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ سڑکوں پر ان کے چلنے کے لیے جگہ کم پڑجائے گی، لہٰذا اس وقت جو ٹرانسپورٹ سسٹم موجود ہے اسے بڑے پیمانے پر توسیع نہ دی گئی توٹریفک کے بے پناہ رش کے باعث سفر میں بہت زیادہ وقت لگے گا جبکہ ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھ جائے گی۔
بی آر ٹی کوریڈورکے ذریعے کراچی کے لیے ایک ایسا مستحکم اور پائیدار شہری ٹرانسپورٹ نظام بنایا جائے جس تک شہریوں کی رسائی آسان ہو، ان کی آمد و رفت میں مشکلات ختم ہوں ، جوقابل بھروسہ ہو اور اس میں وقت بھی کم لگتا ہو، ملیرہالٹ ڈپو سے نمائش تک24.4 کلو میٹر اور میونسپل پارک سے میری ویدر ٹاور تک2.4 کلو میٹرکامن کوریڈوراور قریبی آبادیوں سے گزرتے ہوئے آف کوریڈور ڈائریکٹ اور فیڈر سروس روٹس اس منصوبے کے تخت29.1 کلو میٹر ورکس اس میں شامل ہیں، منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے، دیکھ بھال اورآپریشن کی ذمے داریاں حکومت سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ، سندھ ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹرانس کراچی کمپنی پر ہیں۔
ریڈ لائن منصوبے میں حکومت سندھ کا حصہ88.000 ملین ڈالر جبکہ اے ڈی بی اور دیگر شریک فناسرز کا حصہ474.31 ملین ڈالر ہے جبکہ منصوبے پر عملدر آمد کیلیے پروکیورمنٹ کے مرحلے تک مارچ 2019سے وسط 2021 ہے، بی آر ٹی اسٹیشنزکی تعداد29 ہوگی جس میں مشترکہ کوریڈورکے5 اور مین کوریڈور کے ساتھ24 اسٹیشن شامل ہوںگے، بی آرٹی لین کی چوڑائی3.5 میٹر لین کی چوڑائی(Docking)3 میٹر سے3.15 میٹر تک اسٹیشن کی چوڑائی3.5 میٹر سے5 میٹر تک اسٹیشنز کے درمیان کی چوڑائی0.3 میٹر سے0.6 میٹر تک سینٹر لائن کے دونوں جانب0.3 میٹر کی چوڑائی ہر ڈائریکشن میں لینزکی تعداد3 سے6 مین کوریڈور، سائیڈواک کی چوڑائی1.2 سے3 میٹر،لمبائی دونوں اطراف58 کلو میٹر سائیکلوں کا راستہ، چوڑائی1.8 میٹر لمبائی53 کلو میٹر دونوں جانب بی آرٹی فلیٹ کی گاڑیوں کی کل تعداد199 ہے۔
جس میں9 میٹر لمبی گاڑیاں19 عدد12میٹر لمبی گاڑیاں134 عدد جبکہ18میٹر لمبی گاڑیوں کی تعداد46 عدد ہوگی، منصوبے میں2 ٹرنک سروسز ہوں گی جو مرکرزی کوریڈور کے ساتھ چلیں گی(1) ٹرنک سروس ٹاور سے ملیر تک جبکہ ٹرنک سروس نمبر2 میونسپل پارک سے صفورا تک، ریڈ لائن میں6 ڈائریکٹ اور2 فیڈر سروسز شامل ہوں گی جو مسافروں کے لیے درج ذیل ترتیب سے ہوںگی،ڈائریکٹ سروس نمبر ایک کیماڑی کے ساحل سے صفورا تک، دوسری گلستان جوہر سے سیکٹر16 تک تیسری بفرزون سے صفورا تک چوتھی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پلازہ سے صفورا تک پانچویں نمائش سے محکمہ موسمیات تک چھٹی کیماڑی کے ساحل سے محمد خان کالونی تک ساتویں فیڈر سروس نمبر ایک سومارکنڈانی سے ملیر تک فیڈر سروس نمبر دوبکری پارک سے ملیر تک چلائی جائے گی، اندازے کے مطابق اس منصوبے پر عملدرآمد کی بدولت روزگار کے2118 براہ راست مواقع پیدا ہوں گے۔
(i) اسٹیشن سروسز یعینی ٹکٹنگ، سیکیورٹی اور سھترائی کے کاموں کے لیے1424 اسامیاں(ii) بس آپریشن بشمول ڈرائیور، کنڈیکٹر اور مکینک کی615 اسامیاں(iii) اور ٹرانس کراچی میں79 اسامیاں شامل ہوںگی،کراچی کی آبادی کا7 فیصد حصہ ریڈ لائن کوریڈور کے اطراف آباد ہے ان افراد کی تعداد تقریباً10لاکھ ہے، ممکنہ طور پر ریڈ لائن بی آر ٹی کوریڈور سے بالواسطہ روزگار کے تقریباً2فیصد نئے مواقع پیدا ہوںگے ان سے تقریبا ً20 ہزار شہری استعفادہ کرسکیں گے، بی آرٹی منصوبے میں ریونیو درج ذیل ذرائع سے حاصل ہوگا 1۔ مسافروں سے لیا جانے والا کرایا2۔ اشتہارات3۔ اسٹیشنوں پر واقع دکانوں اور سہولتوں کاکرایہ، اندازہ ہے کہ2021کے دوران ریونیو کے سب سے بڑے ذریعے یعنی مسافروں سے وصول کیے جانے والے کرایے کی رقم( سالانہ2686 ملین پاکستان روپے(19.46 ملین ڈالر) سے زیادہ ہوگی، یہ اندازہ لگانے کے لیے فاصلے کی بنیاد پر کرایے کی رقم کا تعین کرنے کیلیے یہ فرض کیا گیا ہے کہ ہر ٹرپ پر35 روپے(0.03ڈالر) وصول ہوںگے اس طرح اشتہارات سے ہونے والی سالانہ آمدنی365 ملین روپے(2.26 ملین ڈالر) سے زیادہ ہوگی، یہ رقم کل ریونیوکے10 فیصدکے مساوی ہوگی، رعایی نرخوں پر مختلف اشیا کے اسٹینڈز سے وصول ہونے والے کرایے کی رقم سالانہ600 ملین روپے(4.35 ملین ڈالر) ہوگی یہ اندازہ کرنے کے لیے اسی طرح کمرشل جہگوں کے مارکیٹ کرانے( فی اسکوائر میٹر) کو بنیاد بنایا گیا۔
اس مد میں حاصل ہونے والی آمدنی میں متوقع طور پر تمام آپریٹنگ اور منٹینس اخراجات پورے کرنے کے علاوہ نئی بسوں کی خریداری ممکن ہوگی تاکہ وہ نا صرف خراب ہونے والی بسوں کی جگہ لے سکیں بلکہ بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی بسیں خریدی جاسکیںگی، مسافروں سے کرایے کی وصولی کا کام ایک فناشل کلیئرنگ ہاؤس کمپنی کے سپرد کیا جائے گا، گاڑیوں کے آپریشن کی فیس فی کلو میٹر کی بنیاد پر ہے ادا کی جائے گی، اسی طرح اسٹیشنوں پر فراہم کی جانے والی خدمات جن میں صفائی، سیکیورٹی اور staffing سمیت دیگر خدمات شامل ہیں کو ٹھیکے پر دیا جائے گا،بسوں کے کرایے کی شرح فاصلے کی بنیاد پر15 روپے سے55 روپے ہوگی، آپریشن کیش فلو پر مارجن25 فیصد، ایندھن کی نوعیت اور قیمت جانوروں کے فضلے سے تیار کی جانے والے ایندھن کی لاگت13 روپے کلو ہوگی، چونکہ برسات کے موسم کے دوران کراچی میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اس لیے جدید بنیادوں پر ڈرینج سسٹم کے لیے اضافی طور پر فنڈنگ کا بندوبست کیا گیا ہے جس کے تحت یہ انتظام کیا جائے گا کہ بی آرٹی اسٹیشنوں کے درمیان بس وے پر بارش کا پانی ازخود پہلے سے بنائی گئی جگہوں پر چلاجائے اس سے ڈرینج سسٹم بالکل متاثر نہیں ہوگا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سائیکلوں اور پیدل چلنے والے راہگیروں کے لیے بنائے جانے والے راسوں کے دونوں طرف خصوصی ٹائلز لگانے کے علاوہ سبزہ اور پودے لگائے جائیں گے جس کی بدولت بارش کا خاصہ پانی جذب ہوجائے گا اس کے ساتھ ساتھ راہ گیروں کے سڑک کراس کرنے کے لیے بھی بہترین انتظامات کیے جائیں گے تاکہ کسی بھی حادثے کا خدشہ نہ ہو، حکومت سندھ کی اراضی پر موسمیات اور ملیر ہالٹ کے مقامات پر بی آرٹی گاڑیوں کے ابتدائی بیڑے کے لیے کافی گنجائش والے بڑے ڈپو بنائے جائیں گے۔
جن میں بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی کی جاسکیںگی، ان ڈپوز میں گاڑیوں کی مرمت کے لیے درکار کارخانے بنانے کے لیے عمارتیں بھی بنائی جائیں گی اس کے ساتھ ساتھ بسوں کو دھونے کے لیے سروس ایریاز اور وہیکل آپریٹر کمپنیوں کے دفاتر کی جگہ بھی رکھی جائے گی، پورے کوریڈور کی24 گھنٹے نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے اس کے علاوہ بس کے اندورنی حصوں کو ان کمیروں سے مکمل کور کیا جائے گا تمام اسٹیشنوں اور ان کے حساس مقامات بالخصوص کرایے کی وصولی کے لیے بنائے گئے کیبنوں کی بھی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائے گی اس کے علاوہ پلیٹ فارم میں داخل ہونے سے قبل مسافروں کو واک تھرو گیٹ سے گزرنا ہوگا اور سیکیورٹی اہلکار ان کے پاس موجود سامان کی تلاشی اور جانچ کا عمل سرانجام دیں گے ،چونکہ خواتین بسوں کے سفر کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور ان ہراساں کیے جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے اس لیے اس پروجیکٹ میں صنفی مساوات مردوں اور خواتین کے درمیان برابری کو یقینی بنایے جائے گا ، بس میں سوار ہونے کے لیے خواتین الگ قطار میں ہوں گی اور بس کے اندر ان کے لیے علیحدہ حصہ مختص کیا جائے گا۔