دھرنوں اور قانونی جنگ کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثا 5 سال سے انصاف کے منتظر

دوجے آئی ٹیز کی رپورٹ پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا جب کہ تیسری جے آئی ٹی کا نوٹی فکیشن عدالت نے معطل کررکھا ہے


June 17, 2019
17 جون 2014 کوماڈل ٹاؤن لاہورمیں پولیس کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

ملک بھرمیں احتجاج، دھرنوں اورقانونی جنگ کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثا 5 سال سے انصاف کے منتظر ہیں۔

17 جون 2014 کوماڈل ٹاؤن لاہورمیں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور ڈاکٹرطاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے سے سیکیورٹی بیئررزہٹائے جانے کے لئے آپریشن کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے چند روز بعد مقامی پولیس کی مدعیت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آردرج ہوئی جس کا نمبر 510 تھا۔

14 افراد کی ہلاکت اور زخمیوں کو انصاف کے حصول کے لئے عوامی تحریک نے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا ، اسلام آبادمیں طویل دھرنا دیا گیا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایک اورایف آئی آر نمبر696 درج کی گئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف، شہبازشریف، خواجہ سعدرفیق، اس وقت کے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، اس وقت کے ڈی سی او لاہورکیپٹن(ر) محمدعثمان سمیت کئی حکومتی شخصیات اورافسران کو نامزدکیاگیا مگرکسی بھی نامزدملزم کی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔

عوامی تحریک نے حصول انصاف کے لئے ملک بھر میں شہر شہر احتجاج اور مظاہرے کئے جبکہ دوسری طرف قانونی جنگ بھی لڑی مگر پانچ سال گزرجانے کے باوجود یہ کیس اپنی ابتدائی سطح پرکھڑا ہے۔ اس حوالے سے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کاکہنا ہےوہ حصول انصاف کے لیے جب تک قانونی جنگ لڑرہے ہیں اوریہ کیس عدالتوں میں ہے اس وقت تک احتجاج نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ امیدہے کہ انہیں دوبارہ سڑکوں پرآنے پرمجبورنہیں کیاجائیگا، ہم شہداکی جنگ کوترک نہیں کریں گے۔

عوامی تحریک کے ترجمان نوراللہ صدیقی کہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے اب تک 3 جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں بنائی گئی ہیں۔ ایک جے آئی ٹی حکومتی ایف آئی آرکے نتیجے میں بنی، دوسری عوامی تحریک کی ایف آئی آر پربنائی گئی ، یہ دونوں جے آئی ٹیز اس وقت کے وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کی ہدایت پربنائی گئیں ، دونوں ٹیموں نے اپنی اپنی رپورٹس جمع کروائیں مگر کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ٹیموں نے یکطرفہ شواہد اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں رپورٹس تیارکی تھیں۔

نور اللہ صدیقی کہتے ہیں اس وقت کے وزیراعلی شہبازشریف کی ہدایت پر بننے والے جسٹس باقرنجفی کمیشن کی رپورٹ جمع کروائی جاچکی ہے اوراس رپورٹ میں یہ لکھا گیا کہ ماڈل ٹاؤن میں جن سیکیورٹی بیئررز کو ہٹانے کے لئے آپریشن کیا گیا وہ ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس نے خود لگائے تھے۔ کیس میں نامزد سرکاری افسران اس وقت مختلف عہدوں پرکام کررہے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والی خاتون تنزیلہ کی بیٹی بسمہ امجد کی درخواست پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے لارجربینچ کے روبرو ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جس نے پہلی بار جیل میں نوازشریف کا بیان قلمبند کیا، اسی طرح شہباز شریف ، رانا ثنا اللہ ، خواجہ آصف ، توقیر شاہ سمیت دیگر پولیس افسروں کے بیانات قلمبند کئے گئے تاہم اس دوران لاہورہائی کورٹ نے اس جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن معطل کردیا اور اسے کام سے روک دیاگیا، عوامی تحریک اس حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں اپیل میں ہے تاہم ابھی تک ان اپیلوں پرسماعت نہیں ہوسکی ہے۔

بسمہ امجد نے ایکسپریس کو بتایا کہ میری والدہ اور پھوپھی کو بے گناہ قتل کیاگیا، ان کو کیوں قتل کیاگیا ، ان کیا قصورتھا یہ بتانا ریاست کی ذمہ داری ہے، میں پانچ سال سے انصاف کے حصول کی جدوجہدکررہی ہوں ، مجھے امیدہے کہ اللہ تعالی کی ذات مایوس نہیں کریگی ، بسمہ امجدنے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاکوانصاف دلانے کی بات کرتے تھے میں آج ان سے بھی مطالبہ کرتی ہوں کہ انکل بتائیں ہمیں انصاف کب ملے گا۔عوامی تحریک کا مطالبہ ہے کہ غیرجانبدارجے آئی ٹی کوکام کرنے دیاجائے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں