منی پاکستان میں بدامنی لمحہ فکریہ

آہنی ہاتھوں سے کراچی میں امن قائم کرنے کی کوئی کوشش تو دور کی بات اس کی خواہش تک نظر نہیں آتی


Editorial August 28, 2012
شہریوں کو اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ بعض ملک دشمن اور نادیدہ قوتیں منی پاکستان کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اصل میدان جنگ بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پُرتشدد واقعات کا تسلسل اس کے ستم رسیدہ اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں کیونکہ اس طرح کے قتل روز ہوتے ہیں اور حکمرانوں کی آنکھ کبھی پُرنم نہیں دیکھی گئی۔ شہر مرنے مارنے والوں کی دردناک داستان گاہ بن گیا ہے جس میں قاتلوں کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے بدامنی کے خاتمہ کی کوئی جرات مندانہ حکمت عملی نظر آنی چاہیے جس سے ملک کے سب سے بڑے شہر کی بگڑتی سماجی صورتحال اور قانون شکنوں کے ہاتھوں معاشی قتل کی روک تھام ہو سکے، چنانچہ امن دشمنوں کی کارروائیوں سے متاثرہ سماجی و اقتصادی حلقوں کا شکوہ ہے کہ آہنی ہاتھوں سے کراچی میں امن قائم کرنے کی کوئی کوشش تو دور کی بات اس کی خواہش تک نظر نہیں آتی جب کہ ایک واضح سیاسی ارادے کے فقدان کے باعث جرائم پیشہ گروہوں، ٹارگٹ کلرز، کالعدم تنظیموں، دہشت گردوں اور بھتہ خوروں نے کراچی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔

بدامنی تشویش کی ساری حدوں کو پھلانگ چکی ہے' لاشیں روز گر رہی ہیں، قتل و غارتگری میں ملوث عناصر کے خلاف آپریشن، چھاپے جعلی، غیرموثر ڈراما بازی قرار دیے جاتے ہیں، شہریوں کو اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ بعض ملک دشمن اور نادیدہ قوتیں منی پاکستان کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اصل میدان جنگ بنانے کی راہ ہموار کر رہی ہیں کیونکہ کراچی میں ہلاکتوں کی کیمسٹری بھی مسٹری مووی میں مرتے، کٹتے، گرتے کرداروں کی طرح لگتے ہیں، نہ قاتلوں کی شناخت ہوتی ہے، نہ مقتولوں کے لواحقین کو کوئی یہ بتانے کی پوزیشن میں ہے کہ مقتولین کس جرم میں مارے گئے۔ شہر کا کوئی کونا محفوظ نہیں، لاشیں بڑے منظم اور سائنٹیفک طریقے سے ٹھکانے لگائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی مسلح گروہ دس پندرہ دہشتگردوں کو ٹارگٹ دے کر شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے۔

آئی جی سندھ کی پریس کانفرنسوں، ڈی آئی جی رینجرز کی ہدایات، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کی کارروائیوں کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ہلاکتوں کو اگر قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے عمومی معیار کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی منی پاکستان میں بدامنی، لاقانونیت، قتل و غارتگری اور انارکی کی سنگین صورتحال اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ دہشت گردی اور قتل و غارتگری میں ملوث عناصر کو عبرت کا نمونہ بنایا جائے اور منی پاکستان کو مقتل بنانے والوں کے عزائم خاک میں ملائے جائیں مگر افسوس ہے کہ ارباب اختیار امن قائم کرنے کے لیے شاید ابھی کمیٹیوں کی رپورٹوں اور اتحادیوں کے مابین بلدیاتی الیکشن میں بعض اختلافی مسائل سے فارغ نہیں ہوئے جب کہ امن و امان کی مخدوش اور تباہی سے دوچار سماجی و معاشی صورتحال کی بہتری ناگزیر ہے۔

منی پاکستان کو نسلی، لسانی، مسلکی اور نظریاتی تقسیم کی گھنائونی سازش اور ٹارگٹ کلنگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھنے کا وقت ہے، مجرموں کو نکیل ڈالنے کے لیے جس سیاسی ارادے کی ضرورت ہے اس کے فقدان کو شہریوں کے اکثریت محسوس کرتی ہے۔ اس حوالے سے ٹھوس انتظامی فیصلہ ہونا چاہیے۔ بلاجواز ہلاکتوں کے حوالے سے جو بنیادی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان کا جواب حکمرانوں اور سندھ کی اتحادی حکومت کے اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے آنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔

پُرتشدد واقعات کا تسلسل ایک طرف شہریوں کے لیے خوف و ہراس کا سبب بنا ہوا ہے جب کہ دوسری جانب شہر قائد کے مستقبل کو اندوہناک خطرات نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اولین فرصت میں حکام بدامنی پر قابو پانے کی سوچیں ورنہ قانون شکن کسی بھی تباہ کن انتہا تک جا سکتے ہیں۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں