کوئی ’’درمیانی راستہ ‘‘نہیں

راجہ پرویز اشرف بھی اگر ’’وہ چٹھی‘‘ لکھنے کو تیار نہ ہوں گے تو ان کا انجام یوسف رضا گیلانی سے مختلف ہو ہی نہیں سکتا۔

nusrat.javeed@gmail.com

طاقتور افراد اور ادارے اپنے درپر آئے کمزور اور بے بس لوگوں کو کچھ دنوں کی مہلت بھی دے دیا کرتے ہیں۔ ''غازیوں کی سرزمین'' گوجر خان سے دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بن جانے کے بعد اپنے جیسے 211 منتخب لوگوں کے ووٹوں سے وزیر اعظم بننے والے راجہ پرویز اشرف کے ساتھ سپریم کورٹ نے پیر کو یہی کچھ کیا۔ اس سے پہلے موصوف کو عید منانے کی مہلت بھی دے دی گئی تھی۔ اب کی بار پاکستان کے ہمالیہ سے اونچے اور سمندروں سے گہرے دوست چین کا حوالہ کام آیا۔

اس ملک کے دورے کا بہانہ بناتے ہوئے جناب وزیر اعظم بھول گئے کہ چین میں صحافی بھی ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ پاکستان میں رہتے ہوئے کل وقتی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے چینی قیادت، جو اپنی قوم کو صدیوں بعد سامنے آ سکنے والے ممکنات کے لیے منصوبے بنایا کرتی ہے، اپنے اس مہمان سے کوئی سنجیدہ گفتگو کیوں کرے گی جس کا جانا ٹھہر چکا ہے۔ راجہ صاحب سے بس جپھیاں ڈالی جائیں گی۔ بہت سارے کورسز پر مشتمل کھانے کھلائے جائیں گے اور پھر دیوارِ چین کی سیر کروا دی جائے گی۔ میزبان بھی خوش اور مہمان بھی جن کی مسکراتی تصویریں آپ اپنے ٹیلی وژن اسکرینوں پر دیکھ سکیں گے یا اخباروں کے سامنے والے صفحوں پر۔

سوئٹزر لینڈ میں چھپائے گئے مبینہ ڈالروں کی واپسی کے نام پر لکھے جانے والے خط کے معاملے پر ایک تماشہ پچھلے کچھ مہینوں سے مسلسل چل رہا ہے۔ اسی تماشے کی ایک ڈرامائی قسط میں ایک وزیر اعظم کو ایسے گھر بھیج دیا گیا جیسے آپ گھریلو ملازموں کو چٹکی بجاکر فارغ کر دیا کرتے ہیں۔ چونکہ انصاف کو سب کے لیے برابر ہونا ہوتا ہے، اس لیے راجہ پرویز اشرف بھی اگر ''وہ چٹھی'' لکھنے کو تیار نہ ہوں گے تو ان کا انجام یوسف رضا گیلانی سے مختلف ہو ہی نہیں سکتا۔

تماشوں کی مگر مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں مزیدار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ سسپنس رکھنا ہی پڑتا ہے۔ اسی لیے تو میرے جیسے عامیوں کو فی سبیل اللہ ٹی وی ٹاک شوز میں آ کر آئین و قانون کی باریکیاں سمجھانے والے بیرسٹر حضرات گیلانی کے چلے جانے کے بعد ''درمیانی راستوں'' کی باتیں کرنا شروع ہو گئے۔ ممکنہ ''درمیانے راستے'' کو مزید صراحت کے ساتھ سمجھانے کے لیے ہمارے کچھ جید قانون دانوں نے بڑی گاڑھی انگریزی میں مضامین بھی لکھے۔ ہم شاید ان کے فرمودات کو نظرانداز کر دیتے۔ مگر پھر عزت مآب ججوں اور اٹارنی جنرل کے درمیان امیدافزاء مکالمات کے تبادلے بھری عدالت میں ہوئے۔

جمعے کی رات سے مجھے کچھ ایسے لوگ جو ''اندر کے بھید'' جاننے کے دعوے دار بنا کرتے ہیں از خود فون کر کے ''درمیانی راستہ'' مل جانے کی نوید بھی سنانا شروع ہو گئے تھے۔ پیر کو راجہ پرویز اشرف کی پیشی کے بعد ان ہی لوگوں نے دوبارہ ''ہم نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا'' والے فون کرنا شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میرے اندر کا منافق کافی پختہ ہونا شروع ہو گیا ہے، بڑی ہی عاجزی سے ''جی ہاں جی ہاں'' کہتا رہا۔


آپس کی بات ہے ''جی ہاں'' کہنے کی عادت میں نے قرۃ العین حیدر کی ایک تحریر پڑھنے کے بعد اپنائی تھی۔ انھوں نے لکھا تھا کہ یوپی کے ایک صاحب بڑے اشتیاق سے علامہ اقبال کو ملنے لاہور تشریف لائے تھے۔ مگر ملنے کے بعد بہت مایوس ہوئے۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو بڑے افسوس سے بتایا کہ علامہ سے ملاقات کے دوران وہ صاحب ''جی ہاں۔ جی ہاں'' کہتے رہے مگر سیالکوٹی اقبال ''ہاں جی۔ ہاں جی'' پر اٹکے رہے۔

میں ''ہاں جی۔ ہاںجی'' پر تو نہیں اپنے اس دعویٰ پر بدستور اٹکا ہوا ہوں کہ راجہ پرویز اشرف نے اپنی وزارت عظمیٰ بچا کر آیندہ کا انتخاب لڑنے کا اہل بھی رہنا ہے تو انھیں ''وہ چٹھی'' کسی نہ کسی صورت لکھنا ہو گی۔ گیلانی کی برطرفی نے صرف تاریخ ہی نہیں بنائی ایک نظیر بھی قائم کر دی ہے۔ اس سے انحراف اب ممکن ہی نہیں رہا۔ قومی اسمبلی سے بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہو جانے کے بعد آیندہ کا کوئی بھی وزیر اعظم تو ہین عدالت کا مرتکب ہوتا نظر آنے کے بعد فارغ ہو جایا کرے گا۔ اس سے مفر موجودہ آئین اور جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے ممکن ہی نہیں رہا۔ ''طاقت کا مرکز'' عوام تو اس ملک میں کبھی بھی نہیں رہے۔ راولپنڈی کی ایک بڑی عمارت ہوا کرتی تھی۔ اب اسلام آباد کی ''شاہراہ آئین'' پر کھڑی ایک عمارت اس کا متبادل بنتی نظر آ رہی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

فی الوقت مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اگر راجہ پرویز اشرف کو ''درمیانی راستہ'' دیا گیا تو سوال اُٹھے گا کہ مسکین یوسف رضا گیلانی کو وہ راستہ کیوں نہ دکھایا گیا۔ اور اگر زچ ہوکر راجہ پرویز اشرف کو ان کی جماعت اور قیادت ''وہ چٹھی'' لکھنے پر آمادہ کر دیں گے تو بات کھل کر سامنے آئے گی تو بس اتنی کہ ملتان کے گیلانی سے فوج یا عدلیہ نہیں ان کی اپنی جماعت بھی جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اگلے عام انتخابات سے چند ہی روز قبل گیلانی کی ذات کے بارے میں کچھ اس طرح کا تاثر شاید انھیں تو اتنا نقصان نہ پہنچائے مگر بحیثیت مجموعی پاکستان پیپلز پارٹی کی جڑوں میں ضرور بیٹھ جائے گا۔ اس جماعت کو پہنچنے والے نقصان کے علاوہ سوال یہ بھی اٹھیں گے کہ کیا آصف علی زرداری واقعی''یاروں کے یار'' ہوا کرتے ہیں۔

ذوالفقار مرزا نام کے ایک ڈاکٹر پہلے ہی اس ''یاری'' والے تاثر کا شکار بنے کہیں چھپے بیٹھے ہیں۔ گیلانی کو گھر بھجوا کر راجہ پرویز اشرف کو بچا لینے کے بعد آصف علی زرداری کو نئے یار بنانا یا پرانوں کو اپنا بنائے رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ان کا اعتبار جاتا رہے گا اور وہ جو ایک گانے کی لائن ہے :؎''جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا'' والا معاملہ ہو جائے گا۔

راجہ پرویز اشرف کے پاس کوئی ''درمیانی راستہ'' نہیں ہے۔ یا تو انھیں آیندہ پیشی کے دوران عدالت کو قطعی غیر مبہم الفاظ میں یہ بتانا ہو گا کہ ان کی نظر میں آئین پاکستان صدر کو استثنیٰ دیتا ہے۔ اس لیے وہ سوئٹزرلینڈ کو ''وہ چٹھی'' نہیں لکھ سکتے جس کا تقاضہ سپریم کورٹ کر رہا ہے۔ دوسری صورت یہی ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ انھوں نے اپنے وزیر قانون یا اٹارنی جنرل کو وہ خط لکھنے کا حکم دے دیا ہے۔

عدالت مہربانی فرما کر مجوزہ خط کے مسودے کا انتظار کرے اور اس بات کا اطمینان کر لے کہ وہ ان کے تقاضے کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔ شاید ان کا یہ کہنا انھیںاپنے عہدے پر عبوری حکومت کے قیام تک ٹکے رہنے کی مزید مہلت دلوادے۔ اس کے علاوہ جتنی باتیں ہیں وہ تماشے کو آیندہ قسطوں تک تجسس بھرے مزے کو برقرار رکھنے کے لیے گھڑی جا رہی ہیں اور گھڑی جاتی رہیں گی۔
Load Next Story