حکومت کو مہلت
مقدمہ عدالت میں چلتا ہے، میڈیا پر اس کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے
لاہور:
مریض آئی سی یو میں ہو، سانس بند ہو، بے ہوشی کی کیفیت ہو تو اسے عارضی طور پر زند ہ رکھنے کے لیے مشینوں پر منتقل کر دیا جاتا ہے، یہ مشینیں کب اتارنی ہیں اور مریض کی موت کا اعلان کب کرنا ہے، ا س کا فیصلہ ڈاکٹروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں طبعی موت کب واقع ہوتی ہے، یہ اﷲ ہی جانتا ہے۔ ہماری وفاقی حکومت کا حال بھی یہی ہے۔ پچھلے ساڑھے چار سال سے یہ آئی سی یو میں ہے، اس کی موت کا اعلان کرنے والے کئی قسم کے ڈاکٹر ہیں، ایک تو میڈیا ہے جو ہر لمحے، ہر روز اس کے خاتمے کی تاریخ دیتا رہا ہے، دوسرے اس کے مخالف سیاستدان ہیں جو اس کے خاتمے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔
ان میں سے بیشتر کی خواہش ہے کہ بھاڑ میں جائے جمہوریت، آمریت آ جائے، مگر یہ حکومت نہ رہے، میں نے پرسوں ایک صوبائی لیڈر کا بیان پڑھا اور ہنسے بغیر نہ رہ سکا، انھوں نے فرمایا تھا کہ محترمہ بے نظیر ہوتیں توحالات بالکل مختلف ہوتے۔ اور میں ہنسا اس لیے تھا کہ نوے کے عشرے میں انھی لیڈر صاحب کے ہاتھوں محترمہ کا کیا حال کیا گیا، زرداری صاحب کے ساتھ تو اس کا عشیر عشیر بھی نہیں ہوا، کونسا الزام تھا جو محترمہ پر نہیں لگا، آخر محترمہ کا ناطقہ اس حد تک بند کر دیا گیا کہ وہ بچوں کی انگلی پکڑ کر جلاوطن ہو گئیں جب کہ ان بچوں کا باپ انھی لیڈر کی حکومت کے ہاتھوں جیلوں میں گل سڑ رہا تھا۔
دو مرتبہ محترمہ کی حکومت کو انھی سازشیوں نے چلتا کیا، زرداری صاحب تو خوش قسمت ہیں کہ ابھی تک ایوان صدر میں براجمان ہیں، شاید ان کی یہ دھمکی کام کر گئی ہے کہ نکلوں گا تو اسٹریچر پر، اپنے پائوں پر چل کر نہیں جائوں گا، اس دھمکی کا مطلب سب جانتے ہیں کہ کہ کیا ہے، سندھ کے تین وزرائے اعظم کو شہید کیا گیا، ان میں سے دو کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا، مشرقی پاکستان کے صرف ایک لیڈر کو غداری کے الزام میں مغربی پاکستان کی جیل میںڈالا گیا تھا اور نتیجہ ہم نے دیکھ لیا، فوجیں ملک کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتیں، سویت روس ایک ایسی فوج کے ہوتے ہوئے شکست وریخت کا شکار ہو گیا جو ایٹم بموں، بین البر اعظمی میزائلوں، لڑاکا طیاروں اور ٹینکوں سے مسلح تھی۔اور اس کی خفیہ ایجنسی، کے جی بی، پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر نچاتی تھی۔
بات کدھر نکل گئی، موجودہ حکومت کے ایک وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا، اب دوسرے کے سر پر یہی تلوار لٹکی ہوئی ہے، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، اس کی بھی باری ہے اور پھر کوئی تیسرا وزیراعظم اس مقتل میں سر رکھے گا۔ پیپلز پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ صدر زرداری کے خلاف کسی قیمت پر سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گی، جناب صدر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا، جو ہونا ہے ہو جائے، خط نہیں لکھیں گے، بھٹو کی قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے، سوئس خط در اصل بھٹو کی قبروں کے ٹرائل کا دوسرا نام ہے، صدر زرداری اس مقدمے میں شریک ملزم ہیں، الزام تو براہ راست محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر ہے، نصرت بھٹو کے خلاف تو ایک عدالت نے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ ان دنوں نصرت بھٹو بے ہوش تھیں اور طویل عرصے سے بے ہوش تھی، بیرون ملک تھیں، انھیں انٹر پول کے ذریعے ہی اور کسی ایمبولنس طیارے پر لایا جا سکتا تھا، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ انصاف کی دیوی بینائی سے محروم ہے تا کہ ہر ایک ساتھ برابر کا انصاف کر سکے، اس لیے عدالت کے وارنٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور اب جب کہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں ہیں تو کوئی قانون ان کے خلاف مقدمات ختم نہیں کر سکتا، کئی ملکوں میں قبروں سے نکال کر بھی لوگوں کو علامتی سزا دی گئی ہے، شاید پاکستان بھی انصاف کے اسی ماڈل کو دہرانا چاہتا ہے۔
قانونی طور پر اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے بھی دیکھنا ضروری ہے، جن مقدمات کو زندہ کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، وہ نواز شریف کے بقول بحوالہ سہیل وڑائچ کی کتاب غدار کون، فوج کے دبائو پر گھڑے گئے تھے، نواز شریف تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سیف الرحمن کو منع کرتے تھے کہ یہ مقدمے نہ بنائو مگر وہ نہیں مانتے تھے یا یہ کہہ دیتے تھے کہ فوجی ایجنسیاں دبائو ڈال رہی ہیں، یہ مقدمے گھڑنے والا پچھلے دس بارہ برس سے پاکستان چھوڑ چکا ہے، اس کے مقدمے سچے ہوتے تو وہ خود ان کیسوں کی پیروی کے لیے کیوں واپس نہیں آتا۔ یہ ہے وہ بڑا سوال جو این آر اور کے مقدمے پر ہر کوئی کرتا ہے اور اب تو اعتزا احسن جیسے لوگ بھی عاجز آ گئے ہیں جو عدلیہ کی آزادی کی مہم میں پیش پیش تھے، عاصمہ جہانگیر کی غیر جانبداری پر کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی مگر وہ بھی اس عمل پرکھلی تنقید کر چکی ہیں اور قاضی حسین احمدسے بڑا پیپلزپارٹی کا مخالف اور کون ہو گا ، وہ بھی بول اٹھے ہیں کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جانا چاہیے۔
مسئلہ صرف جمہوریت کو بچانے کا نہیں، ملک کو بچانے کا ہے لیکن جو سیاستدان اپنی ضد پوری کرنا چاہتے ہیں، وہ 1970 کا کھیل پھر کھیل کر دیکھ لیں، جس کسی کو غدار اور کرپٹ کہنا ہے کہہ لیں اور، نتیجہ خدا نخواستہ وہی نکلے گا، دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں، تین نہیں ہو سکتے۔ میں عدلیہ پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ ملکی آئین مجھے اس پر منفی تبصرے سے روکتا ہے، آئین بنانے والوں کو چاہیے تھا کہ وہ عدلیہ کی قصیدہ آرائی اور تعریف کی اجازت بھی نہ دیتے تا کہ عدلیہ پر تبصرے یک طرفہ نہ ہو سکتے۔ میں اس خیال کا حامی ہوں کہ زیر سماعت مقدمے پر کوئی تبصرہ نہیں ہونا چاہیے، مقدمہ عدالت میں چلتا ہے، میڈیا پر اس کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے، عدلیہ کو خود انیشی ایٹو لے کر یہ قدغن عائد کرنی چاہیے تا کہ اس کو مخالفانہ تبصروں کی جو شکایت ہے وہ بھی ختم ہو جائے اور خوشامدانہ تبصروں کا راستہ بھی رک جائے۔
فیصلہ سامنے آنے پر میرٹ پر اس کا جائزہ لینا اور بات ہے لیکن کیس کے زیر سماعت ہونے کا قصہ دوسرا ہے، عدلیہ اس ماحول میں غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اور تبصرے کرنے والے ضروری نہیں، آئین اور قانون کے ماہر بھی ہوں اور نیک نیتی سے بھی تبصرے کرتے ہوں، ہمارے اینکروں میں سے شاذ ہی کوئی آئین کا ماہر ہے اور باقی تو سب سیاستدان ہیں، ہر کوئی پارٹی موقف کے مطابق بولتا ہے۔ میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کے سر پر ہر وقت جو تلوار لٹکی رہے گی اور اسے ایک چٹھی کے سوا عوام کے لاکھوں دیگر دکھوں پر غور کا وقت نہیں ملے گا تو حکومت کیا خاک ہو سکے گی،
آج ہماری معیشت کو سہارا دینے کے لیے روشن پاکستان کی آڑ میں امریکا ڈالر جھونک رہا ہے، کل کو وہ عوام کے دل جیتنے کے لیے بجلی گھر بھی بنائے گا، خود آگے نہ آئے تو ترک سرمایہ کاروں کو آگے کر دے گا اور ہر شہر میں ریپڈ ٹرانسپورٹ کے لیے کھدائی تو کم از کم ہو ہی جائے گی، بس چلے یا نہ چلے لوگ ایک اچھے کل کے منتظر تو رہیں گے، ایک زمانے میںکئی اشیا یو ایس ایڈ کے نشان کے ساتھ پاکستانیوں کوملتی تھیں، چینی، گندم اور کھاد تک اس نشان کے ساتھ دور دیہات میں تقسیم کی گئیں۔ پہلے پہل کھاد تو مفت فراہم کی گئی۔
خشک دودھ کے ڈبے بھی ہم نے یو ایس ایڈ کے تحت ہڑپ کیے۔ بہر حال یہ ایک متبادل نظام ہے جو امریکا نے تیار کر رکھا ہے کہ جب کسی ملک کا نظام فیل ہو جائے تو وہ آگے بڑھے اور ہر کام خود سنبھال لے، ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ہمارے ادارے ایسے تصادم سے بچنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں کچھ نہ بچے اور ریسکیو کا آپریشن عالمی ڈونروں کو کرنا پڑے۔ ہم مریض کو آئی سی یو میں نہ دھکیلیں، اسے معمول کی زندگی گزارنے دیں۔ جسم میں کوئی خرابی ہو گی تو اندرونی دفاعی نظام جراثیم سے خود ہی نبٹ لے گا۔