اخوان المسلمون کے لبادے میں نئے فرعون

مصر بھر کے اخبار نویسوں کی تنظیم ’’نیشنل جرنلسٹ ایسوسی ایشن‘‘ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے


Tanveer Qaisar Shahid August 28, 2012
[email protected]

مصر، جسے ''تہذیبوں کی ماں'' بھی کہا جاتا ہے، میں گزشتہ آٹھ عشروں سے مبینہ مغرب زدہ حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے اور ملک میں حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جن تحریکوں نے قابلِ ذکر کردار ادا کیا ہے، اُن میں ''اخوان المسلمون'' جماعت کو نمایاں ترین حیثیت حاصل ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول اور ہدف کو پانے کی خاطر لاریب اِس جماعت کے اولوالعزم کارکنوں اور بلند آدرش کے حامل قائدین (عمر تلمسانی، حسن البنا، سیّد قطب وغیرہ) نے کئی مصری حکمرانوں (صدر جمال ناصر، انور سادات، حسنی مبارک) کے مظالم اور تشدد برداشت کیے۔

اِس راہ میں اُنھوں نے پھانسیاں بھی دیکھیں اور قید و بند کی شدید مشکلات کا سامنا بھی کیا۔ آج اخوان المسلمون کی جماعت ووٹ کی طاقت سے اور صدر محمد مرسی کی شکل میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو چکی ہے لیکن کیا ستم ہے کہ ابھی اِس جماعت کو برسرِ اقتدار ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اُنھوں نے اپنے ہر مخالف کا ناطقہ بند کرنا شروع کر دیا ہے۔ مقتدر اخوان المسلمون، جسے اخوان المسلمین اور مسلم برادر ہڈ بھی کہا اور لکھا جاتا ہے، نے مصر کے آزاد میڈیا اور صحافیوں کو زنجیروں میں باندھنے کا آغاز کر دیا ہے۔روزنامہ ''الدستور'' پر ظلم اِس کی تازہ مثال ہے۔

روز نامہ ''الدستور'' تقریباً پانچ عشرے قبل معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اِس کا پہلا شمارہ 28 مارچ 1967 کو مارکیٹ میں آیا۔ سرکولیشن کے اعتبار سے مصر کا یہ ایک بڑا اور موثر اخبار ہے۔ عربی زبان میں شایع ہونے والے اِس اخبار کے پانچ سیکشن ہوتے ہیں جس میں خواتین اور عرب نوجوانوں کے لیے مخصوص حصہ میگزین کی شکل میں شایع ہوتا ہے۔ آجکل اِس کے مرکزی ایڈیٹر سیف الشریف اور چیف ایڈیٹر اسلام عفیفی ہیں۔ مصر میں ''الدستور'' نام کی ایک سیاسی جماعت بھی بروئے کار ہے جس کے ترجمان احمد جمال بار بار کہتے سنائی دیتے ہیں ''ہم مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں نہ کرنے دیں گے اور جو ایسا کر رہے ہیں، وہ سیاست میں سنجیدہ ہیں نہ وہ مذہب کے باوفا پیروکار ہیں۔'' لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ روز نامہ ''الدستور'' سیاسی جماعت ''الدستور'' کا ترجمان نہیں ہے، جیسا کہ پاکستان میں ایک اخبار کو جماعتِ اسلامی کا ترجمان کہا جاتا ہے۔

اِس اخبار میں رہ کر جماعتِ اسلامی کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا ذرا مشکل امر ہے۔ جس نے یہ جرأت و جسارت کی، اُس ایڈیٹر یا رپورٹر کا وہاں رہنا محال بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو وہ اِس اخبار کے ایک سابق ایڈیٹر جناب محمد صلاح الدین شہید کے بارے میں کئی صفحات پر شایع ہونے والے اُس بائیو گرافیکل مضمون کا مطالعہ ضرور کرے جو چند سال قبل کراچی سے نکلنے والے ماہنامہ ''سرگزشت'' میں شایع ہوا تھا۔ پاکستان کی جماعتِ اسلامی اور مصر کے اخوان المسلمون میں بے پناہ نظریاتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

''عرب اسپرنگ'' میں مصری انقلابیوں نے جس طرح حسُنی مبارک اور اُس کے مبینہ مغرب زدہ ٹولے کو اقتدار سے فارغ کیا، امید یہی کی جا رہی تھی کہ مصری میڈیا بھی سابق حکمرانوں اور مقتدر پارٹیوں کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نجات حاصل کرے گا لیکن شومئی قسمت سے ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ اخوان المسلمین، جو خود بھی کئی عشروں سے مصری حکمرانوں کے ظلم کا شکار رہے، اقتدار میں آ کر میڈیا کے لیے ظالموں سے بڑھ کر ظالم ثابت ہو رہے ہیں۔

روز نامہ ''الدستور'' کے چیف ایڈیٹر اسلام عفیفی کے خلاف انھوں نے سخت اقدام کیے ہیں۔ عفیفی پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک رپورٹ میں ''اخوان حکومت کے خلاف افواہیں اڑائی ہیں، اخوان صدر محمد مرسی کی توہین کی ہے اور یوں مصری عوام اور ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی دانستہ (اور قابلِ گرفت) حرکت کی ہے۔'' اِن الزامات کی بنیاد پر انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور اُن کے خلاف کھڑے کیے گئے (جعلی) مقدمات کی سماعت اگلے ماہ ستمبر 2012کے وسط میں ہو گی۔ مصر بھر کے اخبار نویسوں کی تنظیم ''نیشنل جرنلسٹ ایسوسی ایشن'' حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے لیکن مصر کے نئے فرعون صفت حکمران طبقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

ملک کے ممتاز اخبار نویس ابو حمید جنہوں نے ایامِ انقلاب کے دوران اخوان المسلمون کے ساتھ مل کر حسُنی مبارک اقتدار کے خلاف زبردست کردار ادا کیا تھا، کا کہنا ہے کہ مصری صدر کے خلاف ''توہین کا ارتکاب'' ایک مبہم الزام ہے، اِسے آسانی سے اپنے سیاسی مفادات کے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ابو حمید نے کہا: ''کل کو اگر کوئی صحافی یہ لکھتا ہے کہ صدر محمد مرسی ایک کمزور صدر ہے تو کیا اُسے بھی توہینِ صدر کے الزام میں حوالۂ زنداں کر دیا جائے گا؟'' اخوان المسلمون حکومت نے صحافی اسلام عفیفی ہی پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ آزاد میڈیا کا گلا دبانے کے لیے اُس نے ایک نجی ٹی وی ''الفارین'' کے ایک اینکرپرسن توفیق عکاشہ کی بھی زباں بند کر دی ہے۔ اِس کے ساتھ مصر کے نئے فرعونوں نے ''صَوت الامہ'' اور ''الفجر'' ایسے مقبول ہفت روزہ اخبارات کے ایڈیٹروں پر بھی مقدمات قائم کر دیے ہیں۔

اِسی پر بس نہیں، اخوان المسلمین کے بعض مولویوں نے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا ہے کہ اخوان حکومت کے مخالفین کا مکمل ''قلع قمع'' بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِس پر سخت ردِعمل آیا ہے اور اِس کی مخالفت کرنے والوں میں مصر کے نامور سیاستدان اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت محمد البرادعی بھی شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہا: ''اِس فتوے کا ایک مطلب یہ بھی ہے جیسے مصر میں انقلاب سِرے سے آیا ہی نہیں۔''

مصری روز نامہ ''الدستور'' کے چیف ایڈیٹر اسلام عفیفی، مصر کے نجی ٹی وی کے اینکرز اور دو ممتاز ترین ہفت روزہ اخبارات کے ایڈیٹرز کے خلاف مقتدر اخوان المسلمون اور مصری صدر نے جو اقدامات کیے ہیں اور مصری میڈیا کے ہاتھ پائوں میں زنجیریں ڈالنے کی جو ناقابلِ رشک (بلکہ ظالمانہ) روایت ڈالنے کا آغاز کیا ہے، اِسے مصر میں تو سخت ناپسند کیا ہی جارہا ہے، عالمی سطح پر بھی اِن اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اخوانوں کے خلاف آزاد صحافت کے علم برداروں کے احتجاجی جلوس بڑھتے جارہے ہیں، مصری صدر مرسی صاحب کو دوسرا حسُنی مبارک قرار دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اخوانوںکے صدر صاحب میڈیا پر ظلم ڈھانے اور اِسے اپنی گرفت میں جکڑنے کے لیے حسُنی مبارک کے نقشِ قدم پر چلنے لگے ہیں۔

ممتاز امریکی ہفت روزہ جریدے ''نیشن'' نے لکھا ہے: ''اگر صدر پر تنقید کرنا جُرم ہے، جیسا کہ اِس سلسلے میں صدر مرسی اور مقتدر اخوان اقدامات کر رہے ہیں، تو پھر امریکا کی نصف آبادی تو جیلوں میں ڈال دی جائے گی۔'' یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ابھی تو صدر مرسی کی شکل میں مقتدر اخوانوں نے ابتدائی پر پُرزے نکالے ہیں، آگے جا کر وہ تمام مخالف صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اِس حوالے سے الازہر یونیورسٹی کے ایک ممتاز دانشور، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کا کہا ہے، نے مقتدر اخوان المسلمین اور اِن کے منتخب صدر کے تازہ اور ظالمانہ اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے طنزاً کہا: Meet the new boss, same as the old boss (اِس کا سادہ زبان میں ترجمہ یوں ہو سکتا ہے: مصری صدر مرسی بھی اپنے پیشرو، حسنی مبارک، کی مانند ہیں۔

ظلم ڈھانے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں مصری شہری انگشت بدنداں ہیں کہ کیا یہی دن دیکھنے کے لیے ہم نے سابق مصری آمر صدور کے خلاف جدوجہد کی تھی اور حُسنی مبارک کے ظلم و استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے لاتعداد مصریوں کی قربانی دی گئی تھی جن کے ناموں سے آج بھی التحریر چوک گونجتا رہتا ہے؟ مصریوں کے سارے خواب چکنا چُور ہو رہے ہیں۔

ایسے میں ہمیں الجزائر ، سوڈان، فلسطین، شام، اُردن اور تیونس وغیرہ میں پھیلے اخوان المسلمون کے رہبروں کا ایک مشترکہ اعلان یاد آ رہا ہے(خصوصاً تیونس کے راشد الغنوشی) اِن اسلام پسندوں کا اعلان ہے: ''ہم ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئیں گے اور پھر ووٹ ڈالنے کی روایت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔'' یعنی ملک میں مذہبی آمریت قائم کر کے تھیوکریٹک مطلق اقتدار قائم کر دیا جائے گا۔ خدا نہ کرے مصر میں ایسا ہو۔ اور اگر شومئی قسمت سے ایسا ہوا تو یہ صرف مصر اور عالمِ عرب ہی کے لیے مہلک ثابت نہیں ہوگا بلکہ اِس کی ہلاکت خیزی سارے عالمِ اسلام کی رہی سہی جمہوریت کو بھی چاٹ جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں