ٹیکنو کریٹ دھماکے کا امکان ختم ہو گیا

صدر اس بات کے حامی ہیں کہ منتخب وزیر اعظم کو غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنا ملک کے لیے انتہائی خطر ناک ہو گا


Latif Chaudhry August 28, 2012
[email protected]

پیر کا دن سیاسی حوالے سے بڑا اہم رہا۔ راجہ پرویز اشرف نے فاضل جج صاحبان کے روبرو پیش ہو کر جو استدعا کی، اسے منظور کر لیا گیا اور وہ صحیح سلامت وزیر اعظم ہائوس واپس آ گئے۔ وفاقی حکومت نے یقیناً اطمینان کا سانس لیا ہو گا کہ اس کے وزیر اعظم کو بائیس روز کی مزید مہلت مل گئی ہے اور اب وہ آرام وسکون کے ساتھ چین کا دورہ کریں گے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آٹھ اگست کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر شوکاز نو ٹس جاری کیا جس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو ستائیس اگست کو جواب دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

اس کے بعد ستائیس اگست کا دن جوں جوں قریب آتا گیا، افواہیں اور قیاس آرائیاں زور پکڑتی رہیں اور آخری دو ایام میں تو تجزیئے، تبصرے اور ذرایع کی رپورٹیں عروج پر پہنچ گئیں۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی پیشی سے تین روز قبل جمعے کی رات کو ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈروں کا اہم اجلاس ہوا۔ اس میں وزیر اعظم کے عدالت میں پیش ہونے یا نہ ہونے اور اس سے پیدا ہونے والے امکانی منظر نامے پر طویل مشاورت ہوئی۔ پیپلز پارٹی کا ایک مزاحمتی کردار رہا ہے، اس اجلاس میں بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کی باتیں ہوئیں۔

بعض جوشیلے رہنمائوں کی دلیل یہ تھی کہ جب یہ طے شدہ ہے کہ سوئس حکام کو کسی صورت میں خط نہیں لکھا جائے گا تو پھر ایک اور وزیر اعظم کی قربانی دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر ان لوگوں میں شامل تھے جن کا خیال تھا کہ آئین کے تحت وزیر اعظم اپنے امور کی انجام دہی میں عدلیہ کو جواب دہ نہیں ہیں۔ جیالا سوچ یہ تھی کہ اب پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیر اعظم کی نااہلی کو خاموشی سے ہضم نہ کیا جائے بلکہ سخت جواب دینے کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ یوسف رضا گیلانی' اٹارنی جنرل عرفان قادر اور سندھ رہنمائوں اور بعض وزیروں نے صدر کو مشورہ دیا ہے کہ دوسرے وزیر اعظم کو ہرگز نااہل نہ ہونے دیا جائے اور نااہلی کے کسی فیصلے کو خاموشی سے تسلیم نہ کیا جائے۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مشورہ تھا کہ راجہ پرویز اشرف عدالت میں پیش نہ ہوں، شاید وہ چاہتے تھے کہ جس طرح انھوں نے اپنی سزا کے خلاف اپیل نہ کر کے شہادت کا رتبہ پایا، راجہ صاحب بھی اسی بلند مرتبے پر فائز ہو جائیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا'جمعے کی رات کو ہونے والے اس گرما گرم اجلاس میں صدر آصف علی زرداری نے ٹکرائو اور تصادم کا راستہ اختیار نہ کرنے کی بات کی، میڈیا نے اس حوالے سے یہ رپورٹ دی کہ اس موقعے پر صدر نے جوشیلے پارٹی رہنمائوں کو کہا ہے کہ جمہوریت کا سفر متوازن انداز میں جاری رکھا جائے تاکہ ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوئی سازش یا کوشش کامیاب نہ ہو سکے۔

صدر اس بات کے حامی ہیں کہ منتخب وزیر اعظم کو غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنا ملک کے لیے انتہائی خطر ناک ہو گا' وہ عدلیہ سے ٹکرائو نہیں چاہتے مگر پارلیمنٹ کو نقصان پہنچانے کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس صورتحال سے تو یہی لگتا ہے کہ اس وقت تک پارٹی کے رہنمائوں کو یہ یقین تھا کہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے گا لہٰذا یا تو وہ عدالت میں جائیں ہی نہ اور اگر جائیں تو نااہلی کا فیصلہ آنے پر احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ راستہ تباہ کن تھا۔ اگر حکومت عدالتی فیصلہ ماننے سے انکار کردیتی تو پھر ایسا دھماکا ہو سکتا تھا جس میں جمہوریت شہید ہوجاتی اور سارے جمہوریت پسند منہ دیکھتے رہ جاتے۔ لیکن صدر آصف زرداری کے ذہن میں کچھ اور تھا اور وہ آنے والے منظرنامے سے کسی حد تک آگاہ تھے، شاید اسی لیے انھوں نے مزاحمت کے آپشن کو ترک کردیا۔

پیپلز پارٹی کے اس اجلاس کے بعد 26 اگست کو ایوان صدر ہی میں اتحادی جماعتوں کا فیصلہ کن اجلاس ہوا۔ اتحادیوں کے مشورے کے بعد صدارتی ترجمان فرحت اﷲ بابر نے ہینڈ آئوٹ کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم، اے این پی اور ق لیگ کی قیادت نے یہی مشورہ دیا کہ ٹکرائو کے بجائے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادی پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ نہ صرف موجودہ سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرے بلکہ جمہوریت کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے، پیپلز پارٹی کو پہلی بار خوش قسمتی کا طعنہ دیا جاسکتا ہے ورنہ اسے تو اپنوں نے بھی نہیں بخشا ، کسی غیر سے کیا توقع، تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کو وفادار اور مخلصی کے ذائقہ سے آشنائی ہوئی۔

اپنوں نے بھی وفا کی اور غیروں نے بھی۔ اتحادی مخلص نہ ہوتے تو وہ پیپلزپارٹی کو ایسے مقام پر لے جا سکتے تھے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوتی۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو اس معجزے پر غور کرنا چاہیے۔ سیاست میں لچک بہت اہم ہوتی ہے، صدر زرداری نے ایسا کیا اور تمام اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھا۔

وزیر اعظم کو بائیس روز مہلت ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ میرے ایک باخبر دوست کا کہنا ہے کہ خاصے دنوں سے درپردہ سرگرمیاں جاری تھیں، معاملات سلجھانے کے لیے کئی شخصیات کردار ادا کر رہی تھیں۔ انھی کا نتیجہ پیر کو سامنے آیا۔ اس روز دو اہم اشارے اور سامنے آئے۔ حج اسکینڈل میں جیل کاٹنے والے سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کی ضمانت منظور ہوئی اور وہ جیل سے رہا ہو گئے۔ انھیں دوبارہ وزیر بنانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ منظور وسان نے ایک اور خواب دیکھا ہے، جس میں انھیں آیندہ برس اٹھارہ فروری کو نگران سیٹ اپ قائم ہوتا اور چار اپریل کوعوام پولنگ بوتھوں پر ووٹ کاسٹ کرتے نظر آئے۔ ادھراپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے اپنی طرف سے نگران وزیر اعظم کے ناموں کو شارٹ لسٹ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

یہ سب اشارے آنے والے امکانی سیاسی منظر نامے کی شکل کو بتدریج واضح کر رہے ہیں۔ یعنی ادارے حدود میں رہیں گے، خط کے معاملے پر بھی گونگلوئوں کی مٹی جھاڑ کر اس قصے کو تمام کردیا جائے گا۔ یوں سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ میرا خیال ہے کہ اب قوم اپنی اپنی مرضی کی پارٹی اور امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کی تیاری کرے، کسی ٹیکنو کریٹ دھماکے کا امکان نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں