پاکستان تحریک انصاف کا پہلا بجٹ اور عوام

تاجر برادری بھی بجٹ سے ناخوش اور غیر مطمئن نظر آرہی ہے۔


Shakeel Farooqi June 18, 2019
[email protected]

''نیا پاکستان'' بنانے کی دعوے دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچاس فیصد خسارے، یعنی 31.3 کھرب خسارے اور مجموعی طور پر 70کھرب 22 ارب روپے کے تخمینے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا۔اس بجٹ میں جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں 11 کھرب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔

نیا پاکستان اور نئے ٹیکس۔ ان نئے ٹیکسوں میں چینی، خشک دودھ اورکوکنگ آئل جیسی عام آدمی کے روز مرہ استعمال کی ضروری اشیا بھی شامل ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام پر ڈالا جانے والا یہ مزید بوجھ مرے پہ سو دُرے کے مصداق ہے۔ عوام نے تحریک انصاف کو ''تبدیلی'' کے نام پر کامیاب کرایا تھا کہ ان کے حالات زندگی بہتر ہوجائیں گے۔ مگر افسوس کہ ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا:

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

حزب اختلاف نے وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کی بجٹ تقریر کا پہلا حصہ خاموشی اور تحمل سے سنا لیکن جوں ہی انھوں نے نئے ٹیکسوں کا ذکر چھیڑا تو اپوزیشن کے ارکان نے ایک ہنگامہ برپا کردیا جس کے نتیجے میں وزیر مملکت کی آواز نقار خانہ میں طوطی کی آواز میں تبدیل ہوگئی۔ اسمبلی ہال ''گو نیازی گو'' کے فلک شگاف نعروں سے ایسا گونج اٹھا کہ کان پڑی ہوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تاہم بجٹ تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم عمران خان نے خوشی سے اپنے ہاتھ لہراتے ہوئے یہ عندیہ دیا گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ:

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

اپوزیشن نے عوام سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اہل خانہ کے لیے باورچی خانہ چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ اس بجٹ نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ سب سے زیادہ خسارے والا بجٹ ہے۔ سرکاری ملازمین نے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کو مہنگائی میں بے لگام اضافے کے تناظر میں اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ یہی حال بے چارے پنشنرز کا ہے جن کا کوئی والی وارث اور پرسان حال نہیں ہے اور بڑھاپے میں اضافے کے نتیجے میں جنھیں آئے دن نئے نئے امراض لاحق ہو رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے دور حکمرانی میں دواؤں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے جو محدود آمدنی والے مجبور پنشنرز کی قوت خرید سے باہر ہے۔

تاجر برادری بھی بجٹ سے ناخوش اور غیر مطمئن نظر آرہی ہے۔ تاجر رہنماؤں کے مطابق بجٹ نہ صرف عوام کے لیے بلکہ صنعت کے لیے بھی تباہ کن ہوگا۔ ایف پی سی سی آئی نے بجٹ کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ پہلا بجٹ ہے جس میں قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والے شخص کو قابل سزا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ دیر سے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے پر ایک ہزار تا 20 ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بجٹ میں مزدور کی کم ازکم تنخواہ /اجرت بڑھا کر 17,500 کردی گئی ہے جوکہ ہوش ربا مہنگائی کے مقابلے میں حاتم کی قبر پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تبدیلی کی دعوے دار پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یہ بجٹ بھی ماضی کی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹوں کی طرح ایک روایتی بجٹ ہے جو اعداد و شمار اور الفاظ کا گورکھ دھندا ہے۔

حالات بتا رہے ہیں کہ موجودہ بجٹ مہنگائی کے سونامی کا سبب ثابت ہوگا جس کے نتیجے میں عوام کا کچومر نکل جائے گا اور کیسے کیسے ایسے ایسے ہوجائیں گے۔ سب سے زیادہ متاثر محدود آمدنی والا متوسط طبقہ ہوگا جس کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ گمبھیر صورتحال کب تک یوں ہی رہے گی؟ کیا ماضی کی حکومتوں کے کیے دھرے کا واویلا مچاتے رہنے اور لوٹ مار کے قصے بیان کرنے سے حالات سدھر جائیں گے اور قوم کے سر کی بلا ٹل جائے گی؟ آخر پی ٹی آئی نے ملک کا اقتدار سنبھالنے سے پہلے اس جانب توجہ کیوں نہیں کی کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑ جائیں گے؟

قومی بجٹ حکومت کی پالیسی، عزائم، ترجیحات اور کارکردگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ بجٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کا رخ اور سمت کیا ہے۔ اس زاویے سے دیکھا جائے اور بجٹ 2019-20 کا جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی صرف ایک ہی ترجیح ہے اور وہ ہے کسی بھی طریقے سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنا۔ چنانچہ بجٹ میں ایک طرف بے تحاشا ٹیکس لگائے گئے ہیں اور پرانے ٹیکسوں کی شرحوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو دوسری جانب کئی شعبوں اور محکموں کے بجٹوں میں کٹوتی کردی گئی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم پہلے مالی سال کے دوران تمام اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ گزشتہ دنوں اپنی پریس کانفرنس کے دوران بجٹ پیش کیے جانے سے قبل بذات خود کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ٹیم کی اس ناکامی کے اصل ذمے دار ٹیم کے کپتان ہیں جنھوں نے اس ٹیم کا انتخاب کیا تھا۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنی ٹیم کی ناکامی سے گھبرا کر کپتان نے اب ملکی معیشت کی چابیاں بیرون ملک سے درآمد شدہ عالمی بینک کے وفادار خدمت گزاروں کے حوالے کردی ہیں۔

عالمی بینک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ گویا وطن عزیز میں ایسے ماہرین معاشیات و اقتصادیات کا قحط الرجال ہے جو ملکی معیشت کی ڈوبتی نیا کو طوفان کے گرداب سے صحیح سلامت باہر نکال سکیں۔ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر محبوب الحق (مرحوم) جیسے عظیم المرتبت عالم گیر شہرت کے حامل نابغہ روزگار ماہر اقتصادیات کے جانشین اب بھی وطن عزیز کی خدمت انجام دینے کے لیے موجود ہیں بشرطیکہ حکومت نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تمام مصلحتوں سے پوری طرح بالاتر ہوکر ان کی خدمات اور مفید مشوروں سے استفادہ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔

''تبدیلی'' کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے دور میں عوام کے معاشی حالات میں کوئی سدھار آنے کے بجائے بگاڑ ہی آیا ہے۔ نیا پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے بجٹ میں بھی بالواسطہ ٹیکس لگانے کی وہی پرانی روش اختیار کی گئی ہے جس کے باعث ٹیکسوں کا بوجھ بے چارے عوام ہی کے ناتواں کندھوں پر منتقل ہوجاتا ہے جس پر ''مرے کو مارے شاہ مدار'' والی کہاوت صادق آتی ہے۔ کسی بھی ٹیکس نظام میں اصل اہمیت Incidence of Taxation جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ دیکھنا ہے کہ ٹیکس کی تان کہاں جاکر ٹوٹتی ہے اور کون اس کا آخری نشانہ بنتا ہے۔

حکومت کی جانب سے عوام کو اچھے دنوں کی آمد کی جو نوید سنائی جا رہی ہے اس کے حوالے سے فارسی کی وہ کہاوت یاد آرہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ '' جتنی دیر میں عراق سے تریاق آئے گا اتنی دیر میں سانپ کا ڈسا ہوا انسان مر جائے گا۔''مہنگائی اور بے روزگاری سے بری طرح نڈھال پاکستان کے مظلوم اور پسے ہوئے عوام مزید کسی تاخیر اور وعدہ فردا کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بھوکے، پیاسے اور گردشی حالات کا شکار بے بس عوام کو تحریک انصاف کی حکومت سے بلاتاخیر انصاف چاہیے۔ یاد رہے کہ انصاف تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے کہ عوام کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک جائے اور پانی سر سے اونچا ہوجائے جس سے مخالف قوتیں کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں حکومت وقت کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افراط زر میں اضافے کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات اٹھائے۔ قومی اور ملکی مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے:

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں