کرنسی ڈی ویلیوایشن تھیوری حصہ سوم

ایکسپورٹرز نے ان ڈالروں کو ایکسچینج ٹریڈنگ کے دوران فی ڈالر پر نفع ڈالر 1.42 روپے حاصل کرلیا تھا۔

k_goraya@yahoo.com

امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ تمام ملکوں کے خلاف عالمی سازش اٹلانٹک چارٹر میں 14 اگست 1941 کوکھل کر سامنے آتی ہے۔ ابھی تک امریکا کھل کر جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا۔

اس چارٹرکے 8 نکات سے واضح نظر آتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ بھانپ چکے تھے کہ جرمنی کو لازماً کچل دیا جائے گا اور بعد میں تمام ملکوں کے مستقبل کا تعین امریکا اپنے طور پر کرچکا تھا۔ یاد رہے کہ برطانوی وزیر اعظم چرچل سے ملنے کے لیے امریکی صدر بحراوقیانوس میں موجود بحری جہاز پر ملاقات کے لیے گیا تھا۔اس سے قبل امریکا نے یورپی ملکوں کو پوری طرح اپنے مالیاتی جال میں جکڑنے کے لیے 11 مارچ 1941 کو Land Lease Act of 19 March 1941 کے تحت 48 ارب 89 کروڑ60 لاکھ ڈالرکا قرضہ دیا۔

امریکا نے 6 اور 9 اگست 1945 کو جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر جنگ کا پلڑا اپنے اتحادیوں کی طرف موڑ لیا اور اس کے بعد پوری دنیا کے نو آزاد ملکوں کو امریکی سامراجی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا آغازکردیا۔ امریکا نے 1940 میں عالمی مالیاتی سسٹم کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے پلاننگ شروع کردی تھی اور اپنی حمایت بڑے سامراجی ملک برطانیہ سے لے کر مسلسل پیش قدمی کر رہا تھا۔ 25 مئی 1944 کو امریکی اسٹیٹ سیکریٹری Morgenthau نے 44 ملکوں کو جولائی 1944 میں برٹین وڈز نیوہمشائر میں اکٹھے ہونے کے دعوت نامے روانہ کردیے تھے۔ اس کانفرنس میں International Monitory Fund اور International Bank for Reconstruction and Development کے اداروں کی بنیاد رکھنا تھا۔ IMF کے آرٹیکلز پر 30 ملکوں کے نمایندوں نے دستخط کر دیے اور 27 دسمبر 1945 سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بنا دیے گئے۔

اس سے قبل سامراجی ممالک برطانیہ، جاپان، فرانس، روس، اٹلی، جرمنی، ترکی، آسٹریا، ہنگری کے ممالک اپنی اپنی نوآبادیاں یا غلام ممالک رکھتے تھے۔ ان ملکوں کی کرنسیاں ان کے زیر اثر ملکوں میں چلتی تھیں۔ برطانوی سامراج بڑا ملک تھا اس کی کرنسی پونڈ اسٹرلنگ کسی حد تک عالمی درجہ رکھتی تھی لیکن عالمی سطح پر کوئی عالمی مالیاتی ادارہ نہیں تھا۔ امریکا نے 15 دسمبر 1923 کو EEF کا ادارہ بناکر یورپی ملکوں کو سود پر قرضے، ان کی کرنسیوں کی قیمتیں مقررکرنی شروع کر دی تھیں۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران امریکی تھنک ٹینک نے مالیاتی غلامی میں یورپی ملکوں کو جکڑنا شروع کیا اور پھر دوسری جنگ سے الگ رہ کر پوری دنیا کے ملکوں کی کرنسیوں کو کاغذی ڈالر کے ذریعے امریکی مالیاتی غلامی میں جکڑنے کی پلاننگ 1940 سے شروع کردی تھی۔ امریکا یورپی ملکوں کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے لیے مسلسل کاغذی ڈالر ان کی معیشتوں میں پمپ کرتا رہا ہے مارچ 1948 کو امریکا نے سوشلسٹ بلاک کے خلاف یورپی ملکوں کو 2 اپریل 1948 سے 30 جون 1952 تک بجٹ اور تجارتی خساروں سے نکلنے کے لیے مارشل پلان کے تحت 12 ارب 30 کروڑ ڈالر کا قرضہ دیا۔ اس میں سے 5 ارب 50 کروڑ ڈالرکی امریکی اشیا فروخت کی گئیں۔


امریکی اشیا ان ملکوں کو پہنچانے کے لیے اسی قرضے میں سے ایک ارب ڈالر وصول کیے۔ امریکی شیطانی چہرے کی ایک جھلک آپ دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک نہ جانے کتنے وزیر خزانہ رہے ہیں ملک غلام محمد، چوہدری محمد علی، 23 اکتوبر 1951 تک، میاں مشتاق احمد گورمانی، ڈاکٹر اے۔ایم مالک، سید امجد علی، 12 ستمبر 1956 سے 7 اکتوبر 1958 تک، محمد شعیب، عبدالقادر، محمد شعیب، نواب مظفر علی قزلباش، ڈاکٹر مبشر حسن20 اپریل 1972 سے 22 اکتوبر 1974 تک محمد حنیف، عبدالحفیظ پیرزادہ، اے جی این قاضی، غلام اسحاق خان، 5 جولائی 1978 سے فروری 1985 تک ڈاکٹر محبوب الحق، سرتاج عزیز، سردار آصف علی، رانا تنویر حسین 18 اکتوبر 1991، شوکت عزیز، اسحاق ڈار اور تحریک انصاف کے اسد عمر جو وزارت سے الگ ہوگیا اور مالیاتی اداروں ایف بی آر، اسٹیٹ بینک میں اعلیٰ ترین بیورو کریٹس اور وزارت خزانہ میں تمام اونچے گریڈ کے سیکریٹریز، افسران ہر دور میں موجود رہے۔ باہر کے ڈگری ہولڈرز ہوں یا ملکی اداروں سے پڑھے افسران ہوں یہ تمام کے تمام عالمی سرمایہ دارانہ تھیوریوں پر عمل پیرا ہیں۔ 1914 کے بعد عالمی معاشی سامراج کا مالیاتی ڈھانچہ ''نفع در نفع'' زر پر کھڑا کیا گیا ہے۔

کم سے کم لگا کر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے۔ ابتدا میں صنعتی کلچر کی ابتدا منڈی مقابلے سے ہوئی تھی کہ کم سے کم نفع پر زیادہ سے زیادہ اشیا عوام کی رسائی تک پہنچانا۔ ایک دوسرے سے مقابلے میں اعلیٰ معیاری، پائیدار اشیاؤں کی منڈی بنانا تھا۔ برطانوی سامراج کی جگہ جب امریکی سامراج نے لینی شروع کی تو امریکا نے کمزور ملکوں کی مجبوریوں کو استعمال کرتے ہوئے ان ملکوں کے مالیاتی نظاموں کو کاغذی ڈالر کا قیدی بنانا شروع۔ جس کے لیے امریکا نے 15 دسمبر 1923 ادارہ EEF قائم کرلیا تھا اور 27 دسمبر 1945 کو عالمی مالیاتی ادارے IMF اور ورلڈ بینک قائم کرکے تمام ملکوں میں مالیاتی آپریشن شروع کردیے تھے۔ ورلڈ بینک IMF قائم کرتے وقت کہا گیا۔ تجارتی خساروں سے نکلنے کے لیے قرضے دیے جائیں۔ کرنسیوں کی قیمتوں کو متوازن رکھا جائے گا۔ بجٹ خساروں سے نکلنے کے لیے قرضے دیے جائیں لیکن حقیقت میں ممبر ممالک کے ملکوں کی معیشت کو تباہ کرنا اور کرنسیوں کو امریکا کا غلام بنانا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان پر ستمبر 1949 میں سامراجی امریکا کا دباؤ آیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کم کی جائے۔

لیاقت علی خان نے انکارکردیا لیکن جب انگریزوں کے تربیت یافتہ ملک غلام محمد، میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، ملک فیروز خان نون، ان سب ملکوں نے برطانوی، امریکی حکم پر سازشیں کرکے لیاقت علی خان کو راولپنڈی باغ میں 16 اکتوبر 1951 میں برطانوی، امریکی و دیگر ملکوں کے ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرادیا تو میجر سکندر مرزا نے 6 جون 1955 کو قائم مقام مقام گورنر جنرل کا عہدہ حاصل کرلیا تو اس نے امریکی حکم پر جولائی 1955 میں 3.340 روپے سے 4.762 روپے کا ایک امریکی کاغذ ڈالر کردیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 43 فیصد ہونے سے ملکی پوری مجموعی معیشت خسارے میں چلی گئی۔ مالی سال 1954-55 میں تجارت 11 کروڑ 97 لاکھ روپے سے سرپلس تھی۔ مالی سال 1955-56میں ایکسپورٹرز نے غیر ملکی منڈی مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیا سستی فروخت کرکے زیادہ ڈالر حاصل کر لیے۔ اس سال تجارت بڑھ کر 45 کروڑ 86 لاکھ روپے ہو گئی تھی۔

ایکسپورٹرز نے ان ڈالروں کو ایکسچینج ٹریڈنگ کے دوران فی ڈالر پر نفع ڈالر 1.42 روپے حاصل کرلیا تھا لیکن مالی سال 1956-59 میں تجارتی خسارہ 72 کروڑ70 لاکھ روپے ہوگیا تھا۔ برطانوی مالیاتی اجارہ داری کا میکنزم غلام ملکوں کی امپورٹ پر ڈیوٹی کم سے کم رکھنا تھا کہ برطانوی صنعتی کلچر کی اشیا کو فروغ حاصل ہو اور غلام ملک کی ایکسپورٹ کو برطانیہ میں داخلے کے وقت زیادہ سے زیادہ ڈیوٹی (ٹیرف) لگا کر کمزور اور فیل کرنا تھا۔ غلام ملکوں پر برطانوی حکومت کی طرف عوام پر زیادہ ٹیکس لگا کر سرمایہ برطانیہ منتقل کیا گیا۔ امریکی مالیاتی اجارہ داری کا میکنزم کا مقصد وہی تھا جو برطانیہ کا مقصد تھا، لیکن طریقہ کار بدل گیا تھا۔

ثبوت کے طور پر تجارت میں کرنسی روپے کی قیمت میں CDMED کے لگنے کے بعد دوسرے سال تجارتی خسارہ پچھلے تمام خساروں سے بڑھ کر سامنے آگیا تھا۔ مالی سال جولائی 1955 میں روپے کی قیمت میں کمی 43 فیصد ہو جانے سے دوسرے سال امپورٹرز نے جو اشیا بیرونی منڈی سے خریدیں ان کی قیمتیں پہلے کی نسبت 43 فیصد زیادہ ادا کرنا پڑیں۔ جولائی 1955 میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول 1.93 ڈالر کا فی بیرل مل رہا تھا۔ 3.340 روپے فی ڈالر کے حساب سے پاکستان یہی تیل 6.45 روپے کا خرید رہا تھا۔ سڈمڈ لگنے کے بعد یہی پٹرولیم 4.762 روپے فی ڈالر کے حساب سے 9.19 روپے فی بیرل خریدنا پڑا یعنی روپے کی قیمت میں کاغذی ڈالر کے مقابلے میں کمی کی نسبت 43 فیصد زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی یعنی 2.74 روپے زیادہ ادا کرنے پڑے اس طرح بیرونی منڈی سے جو اشیا منگوائی گئیں ان سب کی قیمت 43 فیصد زیادہ ادا کرنی پڑی تھی۔ (جاری ہے)
Load Next Story