’آنہ لائبریری‘ کے ایک ’برے‘ ناول نے مجھے ادیب بنا دیا۔۔۔ ایچ اقبال
والد نے جوشؔ صاحب سے میری شکایت کی کہ میں پڑھائی پر دھیان نہیں دیتا۔۔۔!
اُس دن برنس روڈ کی 'آنہ لائبریری' سے ابن صفی کے بہ جائے دوسرا ناول دیا گیا، کہتے ہیں کہ 'وہ اتنا غیر معیاری لگا کہ نسخہ پھاڑ دیا اور کہا اس کی قیمت مجھ سے لے لیں۔۔۔ اس سے اچھا ناول تو میں لکھ لوں۔۔۔! لائبریرین بولے کہ لکھیں، میں چھاپوں گا۔
اگلے دن ایک ناول 'مظلوم لٹیرے' لکھ کر انہیں دے آئے، ایک گھنٹے بعد لائبریرین گھر آگئے اور بولے کہ بس اب تم لکھنا شروع ہو جاؤ، میں یہ ناول کتابت کے لیے دینے جا رہا ہوں۔ اِس طرح اُس دن 'آنہ لائبریری' والے عبدالشافع شمسی ناشر اور میں ناول نگار بن گیا۔۔۔'
یہ 1960ء کی بات ہے۔۔۔ ادب کی سمت یہ انوکھی شروعات نام وَر جاسوسی ادیب 'ایچ اقبال' کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ 'تین چار ناولوں بعد میری اتنی پذیرائی ہو گئی کہ میرے 'جعلی' ناول آنے لگے۔۔۔ مصنف 'ایچ اقبال' اور پھر قوسین میں حمید اقبال اور حسن اقبال لکھا ہوتا، مجبوراً مجھے تخصیص کے لیے ناولوں پر اپنی تصویر دینا پڑی، ورنہ میں مصنف کی تصویر چھاپنے کا قائل نہیں، یہ تو فلمی اداکاروں کا کام ہے۔'
ابن صفی سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ایچ اقبال بتاتے ہیں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جن دنوں وہ بیمار تھے، تب اُن کے گھر میں میرے ناول پڑھے جاتے۔ پھر میں نے ابن صفی کے بہ جائے اپنے کرداروں پر لکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن زیادہ نہ لکھ سکا، کیوںکہ ڈائجسٹوں کی ایک دوڑ چل پڑی تھی۔ معراج رسول نے مجھ سے ڈائجسٹ نکالنے کے لیے شراکت داری کی، کہا میں پانچ ہزار روپے لگاتا ہوں، کام تم کرو، یوں 'جاسوسی ڈائجسٹ' کا اجرا ہوا، جلد ہی اشاعت 19 ہزار تک جا پہنچی، پھر کچھ لوگوں نے معراج رسول کو ورغلایا، میں نام نہیں لوں گا، ان میں سے ایک دنیا سے جا چکے ہیں۔ جب میں نے گڑبڑ محسوس کی، تو خوش اسلوبی سے خود الگ ہو گیا۔ 'جاسوسی' سے رفاقت 1972ء تک رہی۔
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ 'جاسوسی سے علاحدگی کے بعد 'الف لیلہ' ڈائجسٹ جاری کیا، لوگ اِسے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے بعد دوم کہتے، لیکن درحقیقت دوسرا نمبر 'جاسوسی' کا تھا، میں جھنجھلاتا کہ 'الف لیلہ' ڈائجسٹ 'جاسوسی' سے آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہا۔ پھر میں نے اس میں 'جنس' کا عنصر شامل کیا، کیوں کہ یہ 'سب رنگ' اور دوسرے ڈائجسٹ میں روا تھا۔۔۔ میں نے اِسے فحاشی نہیں بننے دیا۔ اس طرح لکھا کہ 18، 20 برس کا لڑکا بھی بہ مشکل سمجھ پاتا۔
اپنے مشہور سلسلے 'چھلاوہ' کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ اِسے صبیحہ بانو کے نام سے لکھنے کا سبب یہ تھا کہ یہ 'فرسٹ پرسن' کے نام سے لکھا گیا، مہینوں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ یہ میں ہوں۔ 200 صفحے کے 'الف لیلہ' میں آدھا مواد میرا ہوتا۔ کڑے معیار کے باعث سالانہ 11 شمارے ہی آپاتے، پھر دو ماہی شمارہ دے کر خلا پاٹ لیتا۔
ایچ اقبال کے بقول اُس زمانے میں ڈائجسٹ کوشش کرتے کہ اُن کے شمارے 'سب رنگ' کے ساتھ نہ آئیں، کہ 'سب رنگ' اُن پر حاوی ہو، جب کہ میں چاہتا کہ 'الف لیلہ' 'سب رنگ' کے ساتھ آئے اور قاری دونوں کا موازنہ کریں۔ ایک مرتبہ خبر ہوئی کہ 'سب رنگ' چاند رات کو آرہا ہے، تو 72 گھنٹے جاگ کر کام کیا اور آخری کاپی دے کر بے ہوش ہو گیا۔۔۔!
ہمارے خیال میں شاید یہی مرحلہ 'الف لیلہ' کے زوال کا سبب بنا۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ 'معالج کے مشورے پر آرام کی غرض سے ذمہ داریاں نائب کو سونپ کر سال بھر 'الف لیلہ' سے لاتعلق رہا، مگر جب لوٹا تو اشاعت 55 ہزار سے 15 ہزار تک گر چکی تھی، یہ شاید 1985ء کی بات ہے۔ میں اُن کا نام نہیں لینا چاہتا، انتقال ہو چکا ہے، یہ اُن کی نہیں، میری غلطی تھی کہ میں نے غلط انتخاب کیا۔
ایک گرتے ہوئے پرچے کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے نئے پرچے کا ڈول ڈالا۔ ایک ادیب ذکاؤالرحمان کا ڈمی پرچا 'نئی نسلیں' خریدا، یہ سلسلہ حوصلہ افزا رہا۔ ضیاالحق کی مضحکہ خیز 'سنسر شپ' تھی کہ ایک شخص گھر چھوڑتے ہوئے دیواروں کو بوسہ دیتا ہے، تو لفظ 'بوسہ' کٹ جاتا۔ ننگے پاؤں میں 'ننگے' حذف ہو جاتا۔ اگرچہ میں عربی وفارسی میں گھما کر لکھتا، لیکن محکمہ اطلاعات میں ایک غنوی صاحب تھے، ایک دن انہیں موقع مل گیا، انہوں نے 'ڈیکلریشن' منسوخ کر دیا، تو چیف سیکریٹری احمد مقصود (انور مقصود کے بھائی) کی کوششوں سے 'ڈیکلریشن' بحال ہوا، پھر منسوخ ہوا، تو پھر انہی سے بحال کرایا، لیکن جب تیسری مرتبہ 'ڈیکلریشن' منسوخ ہوا، تو میں مالی طور پر بہت کم زور ہو چکا تھا، یوں 'نئی نسلیں' برقرار نہ رہا، پھر معراج رسول سے بات کی، اور 'جاسوسی ڈائجسٹ' سے بطور لکھاری وابستگی کا آغاز ہوا۔
ایچ اقبال نے بتایا کہ انہوں نے 6 جولائی 1941ء کو رام پور میں آنکھ کھولی، اصل نام 'ہمایوں اقبال' اور اجداد کا تعلق بلگرام سے ہے، والد ساحل بلگرامی شاعر اور رام پور میں نواب صاحب کے لائبریرین تھے، کراچی آکر 'اسٹیٹ بینک' کے لائبریرین ہوئے۔ 1947ء میں کراچی ہجرت کی تو عمر چھے برس تھی، بحری جہاز سے آنا یادداشت میں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ والدہ فوت ہو گئیں، تو والد نے خود ہماری پرورش کی۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی تھے، بڑی بہن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا۔ رام پور میں گھریلو طور پر تھوڑا بہت پڑھا، یہاں آکر سٹی ہائی اسکول میں داخلہ لیا، والد تعلیم پر زور دیتے جب کہ میری توجہ 'ادب' پر تھی، 12، 13 سال کی عمر میں جوش اور اقبال کو پڑھنے لگا تھا۔ والد برہم ہوتے کہ میں حساب پر توجہ نہیں دیتا اور میر وغالب، کرشن اور بیدی میں پڑا رہتا ہوں۔
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ میں جوشؔ ملیح آبادی کا دیوانہ تھا، وہ والد کے دوستوں میں سے تھے، 1954ء میں وہ حالات دیکھنے پاکستان آئے، تو والد نے مجھے ملوایا اور کہا کہ یہ ہے میرا ناخلف بیٹا، جو آٹھویں میں فیل ہوگیا اور یہ پڑھائی چھوڑ کر اس طرف پڑا رہتا ہے۔ جس پر جوشؔ الٹا والد سے بولے کہ تم نے تعلیم حاصل کر کے کیا تیر مار لیا، جو اُسے پڑھاؤ گے، یہ سن کر والد جھنجھلا گئے، پھر جوشؔ نے سمجھایا کہ بیٹا پڑھائی پر دھیان دو۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے ملازمت نہیں کرنا اور مجھے یہ تعلیم ملازمت حاصل کرنے کا سفارش نامہ لگتی ہے، لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ 'نہیں بیٹا پڑھا کرو۔'
1958ء میں ایچ اقبال کے والد کا سانحۂ ارتحال ہو گیا، کہتے ہیں کہ پھر میں نے پڑھائی سے جان چھڑائی، تعلیم انٹر تک رہی۔ میں نے والد کے 'پی ایف' سے 100 روپے لیے اور معاشی جدوجہد میں لگ گیا، باقی رقم چھوٹی بہن کی شادی کے لیے چھوڑ دی۔
رئیس امرہوی والد کے دوست تھے، انہوں نے سنا کہ میں ملازمت نہیں کرنا چاہتا، تو اپنے ادبی پرچے 'انشا' اور روزنامے 'شیراز' میں کام کرنے کو کہا، بولے، میں چیک دستخط کر دوں گا، جتنے روپے چاہیے ہوں لے لیا کرنا۔ تنخواہ طے نہیں، اس لیے اسے ملازمت نہ سمجھو۔ کچھ مہینے یہاں گزارے۔ اسی زمانے میں شکیل عادل زادہ اور جون ایلیا سے بھی ملاقات ہوئی۔
'اب تک کتنے ناول لکھ چکے؟' اس سوال پر ایچ اقبال گویا ہوئے کہ اس معاملے میں، میں کافی لابالی واقع ہوا، پھر میرا ریکارڈ 'کراچی آپریشن' کے زمانے میں کافی ضایع ہوا۔۔۔ میری زندگی خطرے میں تھی، بار بار نقل مکانی کے نتیجے میں کافی ناولوں کے نسخے محفوظ نہیں رہ پائے۔ ہم نے پوچھا کیا کوئی مقدمہ تھا؟ وہ بولے کہ نہیں، بس گرفتاری کا خدشہ تھا۔ ہم نے پوچھا کس معاملے میں؟ بولے 'یہ تو نہیں پتا، لیکن 'امن' کے مدیر اجمل دہلوی گرفتار ہو چکے تھے اور میری گرفتاری متوقع تھی تو میں دوسری جگہ چلا گیا۔
ایچ اقبال نے انکشاف کیا کہ اُن کی 'کتابیں' ہندوستان میں خوب چھپ رہی ہیں، 1980ء میں وہ ہندوستان گئے، توایک کتب خانے میں ہزار سے زائد اردو اور ہندی کے ناول اپنے نام مع تصویر پائے! حالاں کہ تب تک 125 ناول لکھے تھے، وہاں ہر ناول پر 'اصلی ایچ اقبال' لکھا ہوا تھا۔
ناولوں کے شمار کے حوالے سے ایچ اقبال کہتے ہیں کہ یہاں کسی کتب خانے میں مکمل ذخیرہ نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ میرے 150 ناول ہیں، لیکن میرے ایک مداح محمد حنیف (کویت) کے ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد 136 ہے، میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں، میرے پاس اپنے صرف 20، 25 ناول ہی ہیں۔ اصلی اور نقلی 'ایچ اقبال' کی پہچان ناول پر درج پتا ہے، جب کہ دہلی میں چھپنے والے جعلی ناولوں کی کسوٹی کوئی نہیں۔
ایچ اقبال کا خیال ہے کہ ''ڈائجسٹوں کا وہ مواد تو 'ادب' ہے، جو جُہلا نہیں لکھتے۔۔۔ جُہلا جو لکھتے ہیں، وہ ادب نہیں!'' ہم نے پوچھا جُہلا کون ہیں؟ تو وہ بولے کہ ''بہت ہیں، پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے۔''
ایچ اقبال کہتے ہیں میں نے کبھی بلا معاوضہ نہیں لکھا۔ ٹی وی سیریل کے بھی پیشگی پیسے لیے، ٹی وی پر ایک کہانی کی منظر کشی سے مطمئن نہ ہوا تو اس پر سے اپنا نام ہٹوا دیا۔ میں کسی غیر معیاری چیز پر اپنا نام نہیں دینا چاہتا۔ ٹی وی کے لیے لکھوانے کے بہت سے خواہش مند پیشگی معاوضے کا سن کر چلے جاتے ہیں۔
ایچ اقبال بتاتے ہیں کہ وہ روزنامہ 92 سے بھی کچھ ماہ بطور کہانی کار جڑے رہے، تاہم اِس علاحدگی پر بات کرنے سے گریزاں رہے۔ وہ 'فیس بُک' پر مختلف سوفٹ ویئر سے آراستہ کر کے چیزیں مشتہر کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں جوش کا اثر ہے، کلام کی ضخامت اتنی کہ کتاب بن سکتی ہے۔ مشاعروں میں کم گئے کہ بن بلائے نہیں جاتے، کہتے ہیں کہ ہمارے شعرا کسی کو آگے نہیں آنے دیتے، لیکن جون ایلیا نے چاہا تھا کہ میں شاعری کروں، البتہ وہ ہمایوں اقبال کو 'ایچ اقبال' کرنے پر شاکی رہے۔ مجھے لگتا تھا کہ 'ہمایوں اقبال' کے نام سے کچھ سنجیدہ لکھوں گا، لیکن پھر 'ایچ اقبال' ہی میری پہچان بن گیا۔ رئیس امروہی سے یہ سیکھا کہ انگریزی وہاں لکھتا ہوں، جہاں کام نہ چلے، چیک تک اردو میں لکھتا ہوں۔
ایچ اقبال کا خیال ہے کہ اردو کے لیے اہل زبان سے زیادہ کام پنجاب نے کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے فارسی اور عربی سے دور ہونے سے اردو ختم ہوتی جا رہی ہے، اس تباہی میں ذرایع اِبلاغ کا بہت ہاتھ ہے۔ بدنصیبی ہے کہ اب ہمارے ہاں بڑے لوگ پیدا نہیں ہو رہے، کیوں کہ وہ ماحول نہیں رہا۔
''جب میری زندگی کی شام ہو رہی ہے۔۔۔!''
جاسوسی اور تاریخی ادب کے شہ سوار 'ایچ اقبال' نے موسیقی کے حوالے سے اپنا عبور ایک تصنیف 'ابجد موسیقی' میں سمویا، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مصوری بھی کی، لیکن اب مصروفیات لکھنے پڑھنے تک محدود ہیں۔ راول پنڈی کے ایک ادارے نے ناول 'چھلاوہ' کے کچھ صفحات انگریزی میں ڈھالے۔ 'نیو یارک ٹائمز' کے نمائندے نے اُسے پڑھا، تو متاثر ہو کر میرا انٹرویو کیا، جو 2010ء میں شایع ہوا۔
ایچ اقبال کے ذخیرہ کتب کا شمار ڈھائی ہزار ہے۔ وہ 1965ء میں شادی ہوئی، جسے 'ایک حد تک پسند کی' کہتے ہیں، اولاد نہیں ہے۔ انہیں اپنے سارے ناولوں پسند ہیں، لیکن پسندیدہ کہانی 'مضراب' بتاتے ہیں۔ اُن کے بقول 400 سے زائد کہانیاں لکھ چکے، یعنی یہ آٹھ، دس کتب کا مواد ہے۔ وہ اپنی ڈائجسٹ کی کہانیوں کا ریکارڈ بھی نہیں رکھتے۔
ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اُن کے کام پر کسی محقق نے 'پی ایچ ڈی' نہیں کی، وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'معلوم نہیں میں اس قابل ہوں یا نہیں۔۔۔ ایک بار محکمہ ثقافت نے یاد کیا اور گزشتہ برس 'آرٹس کونسل' میں ایک شام منائی گئی، تب میں نے کہا کہ 'یہ شام اس وقت منائی جا رہی ہے، جب میری زندگی کی شام ہو رہی ہے۔'
مرتضیٰ بھٹو نے کہا آپ عجیب صحافی ہیں!
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ 'پرچم' اخبار سے وابستگی کے زمانے میں مرتضیٰ بھٹو نے مجھ سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ الطاف صاحب کے حلقے انہیں برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔ میں نے کہا آپ الطاف صاحب کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ کہنے لگے لیکن وہ جو کہتے ہیں، میں نے کہا یہی تو سیاست ہے کہ وہ کریں، مگر آپ نہ کریں۔
ایچ اقبال کے بقول مرتضیٰ کے سامنے کسی کی مخالفت میں بولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، کئی بار ایسا ہوا کہ وہ چپ رہے، تو مرتضیٰ نے مخاطب کر کے ان سے پوچھا، تب انہوں نے اپنی اختلافی رائے دی، جس پر ایک بار مرتضیٰ بھٹو بولے کہ آپ بہت عجیب وغریب صحافی ہیں۔ میں نے کہا صحافی جب سیاست داں کے گھرسے نکلتا ہے، تو اس کی جیب میں لفافہ ہوتا ہے، لیکن میری جیب میں کوئی لفافہ نہیں ہوتا، جس پر وہ ہنس دیے۔
'مجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی الطاف حسین سے بے تکلف رہا ہو!'
دوران گفتگو رئیس امرہوی کا ذکر ہوا، تو ہم نے اُن کی سیاست کی بات چھیڑی۔۔۔ وہ بولے کہ 'ایم کیو ایم' کیسے بنی؟ یہ نہیں جانتا، میں الطاف صاحب کی ایک تقریر سے متاثر ہوا، پھر ان سے قربت ہو گئی اور بہت اچھے تعلقات رہے۔
ہم نے شہر میں تشدد کے الزامات اور 'ایم کیو ایم' کا ذکر کیا، وہ بولے ''میرے سامنے کبھی کوئی ایسی بات نہیں آئی!''
'آپ نے ان الزامات کا کچھ پوچھا نہیں؟' ہم نے کریدا، تو انہوں نے نفی کی۔ 'خوف محسوس ہوتا تھا؟' ہم نے ایک روایتی تاثر کے تحت استفسار کیا، بولے کہ ''پوری تنظیم میں مجھ سے زیادہ اُن سے بے تکلف شاید کوئی اور رہا ہو۔ میں ان سے متعلق اچھی یا بری، کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا، تاوقتے کہ کوئی بات ثبوت کے ساتھ سامنے نہ آجائے۔ غلطیاں ہو سکتی ہیں، وہ انسان ہیں۔
'آپ کے خیال میں کیا غلطیاں ہوئیں؟' ہم نے بطور بزرگ سیاسی کارکن ان کی رائے کھوجی، وہ بولے کہ اُن کی تقاریر، جس پر پابندی لگی۔۔۔ حالاں کہ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی نے بھی ایسی باتیں کیں۔ نواز شریف نے بھی ہندوستانیوں کو کہا ہم ایک جیسے ہیں وغیرہ، لیکن ان کو کچھ نہیں کہا گیا، اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ 'مہاجر دشمنی' ہے۔
ایچ اقبال نے بتایا کہ الطاف حسین سے 2016ء تک رابطہ رہا، ہم نے پوچھا 'کیا بات ہوتی تھی؟' کہتے ہیں ''حالات حاضرہ پر۔'' ہم نے لقمہ دیا: ''پھر آپ نے رابطہ چھوڑا یا انہوں نے۔۔۔؟'' وہ بولے کہ 'انہوں نے بھی اور میں نے بھی۔۔۔!'
''وہ مشورے لیتے تھے؟'' اس سوال پر وہ بولے کہ 'میں دیتا ہی نہیں تھا۔۔۔! میرا اُن سے بطور سیاست داں رابطہ تھا، کوئی تنظیمی عہدہ نہ تھا، اب میں سیاست سے کنارہ کش ہوں۔ ان کے کسی دھڑے سے رابطہ نہیں، حالاں کہ ایک جگہ سے 'اشارے' بھی ملے۔ 'کہاں سے؟' ہم پوچھے بنا نہ رہ سکے، تو انہوں نے ٹالا اور کہا کہ 'اِسے چھوڑ دیں، اس کی بات مناسب نہیں۔۔۔!'
وہ سیاسی ماضی بھول جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جس کے ساتھ تھا، وہ ساتھ چھوٹ گیا، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی اور کے ساتھ ہو جاؤں۔' الطاف حسین کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
''پاک ایشیا باقی رہے گا یا آپ۔۔۔؟''
ایچ اقبال شام کے ایک اخبار 'پرچم' سے منسلک رہے، جس پر 'ایم کیو ایم' کی گہری چھاپ تھی، وہ کہتے ہیں کہ اس کا ڈیکلریشن میرے نام تھا اور اس میں 'ایم کیو ایم' کے رکن زاہد قریشی کی مالی شراکت تھی، اب وہ روپیا 'ایم کیو ایم' کا تھا یا نہیں، یہ نہیں پتا، پھر بوجوہ ایچ اقبال 'پرچم' سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے ہفت روزہ 'تکبیر' کے 'ایم کیو ایم' مخالف مواد کا 'جواب' دینے کے لیے ایک ہفتہ وار رسالہ 'پاک ایشیا' بھی نکالا، کہتے ہیں کہ 'پاک ایشیا' الطاف صاحب کے لندن جانے سے دو ماہ قبل جاری ہوا، اس کے لیے اُن کی کوئی مالی مدد نہیں لی، اُن سے کہا کہ میں اپنے شعور کے مطابق پالیسی رکھوں گا، آپ کی حمایت کر سکتا ہوں، یہ میرے دل میں ہے۔ اس وقت میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا، جو آج 'را' کے ایجنٹ اور ملک دشمنی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ مجھے نہیں پتا یہ حقیقت ہیں یا نہیں۔ عمران فاروق کے قتل کے الزام الطاف حسین پر ہونے کی صداقت بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ثبوت سے نتھی ہے۔
ایچ اقبال 'تکبیر' میں 'ایم کیو ایم' مخالف مواد کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں 'تکبیر' کے ''فکشن'' کا آپریشن کرتا تھا۔ ہم نے ایچ اقبال سے 'پاک ایشیا' میں 'ٹیبل اسٹوریز' کا استفسار کیا، تو انہوں نے مانا اور کہا کہ کچھ شایع ہوئیں، لیکن اُن میں حقائق تھے، باقی مواد بھی حقیقت سے قریب ترین لکھا۔ پھر 'تکبیر' کے مدیر صلاح الدین کا قتل ہوا، اس کے ایک دن بعد میرے دفتر پر حملہ ہوا اور میرے مینجر صمدانی صاحب قتل ہو گئے۔ میں دو منٹ پہلے ہی دفتر سے نکلا تھا، خیال یہ ہے کہ ہدف میں تھا، میری سفید کپڑوں اور واسکٹ کی مماثلت کے سبب صمدانی صاحب نشانہ بن گئے، جس کا مجھے بہت قلق ہوا۔
ایچ اقبال کے خیال میں اس قتل میں 'ایم کیو ایم' اور جماعت اسلامی کو لڑوانے والی قوتیں ملوث تھیں، جو صلاح الدین کے بعد مجھے مار کر تصادم بڑھانا چاہتی تھیں۔ پھر مجھے حکومت کی طرف سے دھمکیاں ملیں۔ اشارتاً یہ کہا گیا کہ 'پاک ایشیا' رہے گا یا آپ۔۔۔!' پھر سرکاری اشتہار روک دیے گئے، اس لیے 'پاک ایشیا' بند کر دیا۔
اگلے دن ایک ناول 'مظلوم لٹیرے' لکھ کر انہیں دے آئے، ایک گھنٹے بعد لائبریرین گھر آگئے اور بولے کہ بس اب تم لکھنا شروع ہو جاؤ، میں یہ ناول کتابت کے لیے دینے جا رہا ہوں۔ اِس طرح اُس دن 'آنہ لائبریری' والے عبدالشافع شمسی ناشر اور میں ناول نگار بن گیا۔۔۔'
یہ 1960ء کی بات ہے۔۔۔ ادب کی سمت یہ انوکھی شروعات نام وَر جاسوسی ادیب 'ایچ اقبال' کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ 'تین چار ناولوں بعد میری اتنی پذیرائی ہو گئی کہ میرے 'جعلی' ناول آنے لگے۔۔۔ مصنف 'ایچ اقبال' اور پھر قوسین میں حمید اقبال اور حسن اقبال لکھا ہوتا، مجبوراً مجھے تخصیص کے لیے ناولوں پر اپنی تصویر دینا پڑی، ورنہ میں مصنف کی تصویر چھاپنے کا قائل نہیں، یہ تو فلمی اداکاروں کا کام ہے۔'
ابن صفی سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ایچ اقبال بتاتے ہیں کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جن دنوں وہ بیمار تھے، تب اُن کے گھر میں میرے ناول پڑھے جاتے۔ پھر میں نے ابن صفی کے بہ جائے اپنے کرداروں پر لکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن زیادہ نہ لکھ سکا، کیوںکہ ڈائجسٹوں کی ایک دوڑ چل پڑی تھی۔ معراج رسول نے مجھ سے ڈائجسٹ نکالنے کے لیے شراکت داری کی، کہا میں پانچ ہزار روپے لگاتا ہوں، کام تم کرو، یوں 'جاسوسی ڈائجسٹ' کا اجرا ہوا، جلد ہی اشاعت 19 ہزار تک جا پہنچی، پھر کچھ لوگوں نے معراج رسول کو ورغلایا، میں نام نہیں لوں گا، ان میں سے ایک دنیا سے جا چکے ہیں۔ جب میں نے گڑبڑ محسوس کی، تو خوش اسلوبی سے خود الگ ہو گیا۔ 'جاسوسی' سے رفاقت 1972ء تک رہی۔
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ 'جاسوسی سے علاحدگی کے بعد 'الف لیلہ' ڈائجسٹ جاری کیا، لوگ اِسے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے بعد دوم کہتے، لیکن درحقیقت دوسرا نمبر 'جاسوسی' کا تھا، میں جھنجھلاتا کہ 'الف لیلہ' ڈائجسٹ 'جاسوسی' سے آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہا۔ پھر میں نے اس میں 'جنس' کا عنصر شامل کیا، کیوں کہ یہ 'سب رنگ' اور دوسرے ڈائجسٹ میں روا تھا۔۔۔ میں نے اِسے فحاشی نہیں بننے دیا۔ اس طرح لکھا کہ 18، 20 برس کا لڑکا بھی بہ مشکل سمجھ پاتا۔
اپنے مشہور سلسلے 'چھلاوہ' کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ اِسے صبیحہ بانو کے نام سے لکھنے کا سبب یہ تھا کہ یہ 'فرسٹ پرسن' کے نام سے لکھا گیا، مہینوں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ یہ میں ہوں۔ 200 صفحے کے 'الف لیلہ' میں آدھا مواد میرا ہوتا۔ کڑے معیار کے باعث سالانہ 11 شمارے ہی آپاتے، پھر دو ماہی شمارہ دے کر خلا پاٹ لیتا۔
ایچ اقبال کے بقول اُس زمانے میں ڈائجسٹ کوشش کرتے کہ اُن کے شمارے 'سب رنگ' کے ساتھ نہ آئیں، کہ 'سب رنگ' اُن پر حاوی ہو، جب کہ میں چاہتا کہ 'الف لیلہ' 'سب رنگ' کے ساتھ آئے اور قاری دونوں کا موازنہ کریں۔ ایک مرتبہ خبر ہوئی کہ 'سب رنگ' چاند رات کو آرہا ہے، تو 72 گھنٹے جاگ کر کام کیا اور آخری کاپی دے کر بے ہوش ہو گیا۔۔۔!
ہمارے خیال میں شاید یہی مرحلہ 'الف لیلہ' کے زوال کا سبب بنا۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ 'معالج کے مشورے پر آرام کی غرض سے ذمہ داریاں نائب کو سونپ کر سال بھر 'الف لیلہ' سے لاتعلق رہا، مگر جب لوٹا تو اشاعت 55 ہزار سے 15 ہزار تک گر چکی تھی، یہ شاید 1985ء کی بات ہے۔ میں اُن کا نام نہیں لینا چاہتا، انتقال ہو چکا ہے، یہ اُن کی نہیں، میری غلطی تھی کہ میں نے غلط انتخاب کیا۔
ایک گرتے ہوئے پرچے کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے نئے پرچے کا ڈول ڈالا۔ ایک ادیب ذکاؤالرحمان کا ڈمی پرچا 'نئی نسلیں' خریدا، یہ سلسلہ حوصلہ افزا رہا۔ ضیاالحق کی مضحکہ خیز 'سنسر شپ' تھی کہ ایک شخص گھر چھوڑتے ہوئے دیواروں کو بوسہ دیتا ہے، تو لفظ 'بوسہ' کٹ جاتا۔ ننگے پاؤں میں 'ننگے' حذف ہو جاتا۔ اگرچہ میں عربی وفارسی میں گھما کر لکھتا، لیکن محکمہ اطلاعات میں ایک غنوی صاحب تھے، ایک دن انہیں موقع مل گیا، انہوں نے 'ڈیکلریشن' منسوخ کر دیا، تو چیف سیکریٹری احمد مقصود (انور مقصود کے بھائی) کی کوششوں سے 'ڈیکلریشن' بحال ہوا، پھر منسوخ ہوا، تو پھر انہی سے بحال کرایا، لیکن جب تیسری مرتبہ 'ڈیکلریشن' منسوخ ہوا، تو میں مالی طور پر بہت کم زور ہو چکا تھا، یوں 'نئی نسلیں' برقرار نہ رہا، پھر معراج رسول سے بات کی، اور 'جاسوسی ڈائجسٹ' سے بطور لکھاری وابستگی کا آغاز ہوا۔
ایچ اقبال نے بتایا کہ انہوں نے 6 جولائی 1941ء کو رام پور میں آنکھ کھولی، اصل نام 'ہمایوں اقبال' اور اجداد کا تعلق بلگرام سے ہے، والد ساحل بلگرامی شاعر اور رام پور میں نواب صاحب کے لائبریرین تھے، کراچی آکر 'اسٹیٹ بینک' کے لائبریرین ہوئے۔ 1947ء میں کراچی ہجرت کی تو عمر چھے برس تھی، بحری جہاز سے آنا یادداشت میں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ والدہ فوت ہو گئیں، تو والد نے خود ہماری پرورش کی۔ ہم دو بہنیں اور ایک بھائی تھے، بڑی بہن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا۔ رام پور میں گھریلو طور پر تھوڑا بہت پڑھا، یہاں آکر سٹی ہائی اسکول میں داخلہ لیا، والد تعلیم پر زور دیتے جب کہ میری توجہ 'ادب' پر تھی، 12، 13 سال کی عمر میں جوش اور اقبال کو پڑھنے لگا تھا۔ والد برہم ہوتے کہ میں حساب پر توجہ نہیں دیتا اور میر وغالب، کرشن اور بیدی میں پڑا رہتا ہوں۔
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ میں جوشؔ ملیح آبادی کا دیوانہ تھا، وہ والد کے دوستوں میں سے تھے، 1954ء میں وہ حالات دیکھنے پاکستان آئے، تو والد نے مجھے ملوایا اور کہا کہ یہ ہے میرا ناخلف بیٹا، جو آٹھویں میں فیل ہوگیا اور یہ پڑھائی چھوڑ کر اس طرف پڑا رہتا ہے۔ جس پر جوشؔ الٹا والد سے بولے کہ تم نے تعلیم حاصل کر کے کیا تیر مار لیا، جو اُسے پڑھاؤ گے، یہ سن کر والد جھنجھلا گئے، پھر جوشؔ نے سمجھایا کہ بیٹا پڑھائی پر دھیان دو۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے ملازمت نہیں کرنا اور مجھے یہ تعلیم ملازمت حاصل کرنے کا سفارش نامہ لگتی ہے، لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ 'نہیں بیٹا پڑھا کرو۔'
1958ء میں ایچ اقبال کے والد کا سانحۂ ارتحال ہو گیا، کہتے ہیں کہ پھر میں نے پڑھائی سے جان چھڑائی، تعلیم انٹر تک رہی۔ میں نے والد کے 'پی ایف' سے 100 روپے لیے اور معاشی جدوجہد میں لگ گیا، باقی رقم چھوٹی بہن کی شادی کے لیے چھوڑ دی۔
رئیس امرہوی والد کے دوست تھے، انہوں نے سنا کہ میں ملازمت نہیں کرنا چاہتا، تو اپنے ادبی پرچے 'انشا' اور روزنامے 'شیراز' میں کام کرنے کو کہا، بولے، میں چیک دستخط کر دوں گا، جتنے روپے چاہیے ہوں لے لیا کرنا۔ تنخواہ طے نہیں، اس لیے اسے ملازمت نہ سمجھو۔ کچھ مہینے یہاں گزارے۔ اسی زمانے میں شکیل عادل زادہ اور جون ایلیا سے بھی ملاقات ہوئی۔
'اب تک کتنے ناول لکھ چکے؟' اس سوال پر ایچ اقبال گویا ہوئے کہ اس معاملے میں، میں کافی لابالی واقع ہوا، پھر میرا ریکارڈ 'کراچی آپریشن' کے زمانے میں کافی ضایع ہوا۔۔۔ میری زندگی خطرے میں تھی، بار بار نقل مکانی کے نتیجے میں کافی ناولوں کے نسخے محفوظ نہیں رہ پائے۔ ہم نے پوچھا کیا کوئی مقدمہ تھا؟ وہ بولے کہ نہیں، بس گرفتاری کا خدشہ تھا۔ ہم نے پوچھا کس معاملے میں؟ بولے 'یہ تو نہیں پتا، لیکن 'امن' کے مدیر اجمل دہلوی گرفتار ہو چکے تھے اور میری گرفتاری متوقع تھی تو میں دوسری جگہ چلا گیا۔
ایچ اقبال نے انکشاف کیا کہ اُن کی 'کتابیں' ہندوستان میں خوب چھپ رہی ہیں، 1980ء میں وہ ہندوستان گئے، توایک کتب خانے میں ہزار سے زائد اردو اور ہندی کے ناول اپنے نام مع تصویر پائے! حالاں کہ تب تک 125 ناول لکھے تھے، وہاں ہر ناول پر 'اصلی ایچ اقبال' لکھا ہوا تھا۔
ناولوں کے شمار کے حوالے سے ایچ اقبال کہتے ہیں کہ یہاں کسی کتب خانے میں مکمل ذخیرہ نہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ میرے 150 ناول ہیں، لیکن میرے ایک مداح محمد حنیف (کویت) کے ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد 136 ہے، میں بھی اسے درست سمجھتا ہوں، میرے پاس اپنے صرف 20، 25 ناول ہی ہیں۔ اصلی اور نقلی 'ایچ اقبال' کی پہچان ناول پر درج پتا ہے، جب کہ دہلی میں چھپنے والے جعلی ناولوں کی کسوٹی کوئی نہیں۔
ایچ اقبال کا خیال ہے کہ ''ڈائجسٹوں کا وہ مواد تو 'ادب' ہے، جو جُہلا نہیں لکھتے۔۔۔ جُہلا جو لکھتے ہیں، وہ ادب نہیں!'' ہم نے پوچھا جُہلا کون ہیں؟ تو وہ بولے کہ ''بہت ہیں، پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے۔''
ایچ اقبال کہتے ہیں میں نے کبھی بلا معاوضہ نہیں لکھا۔ ٹی وی سیریل کے بھی پیشگی پیسے لیے، ٹی وی پر ایک کہانی کی منظر کشی سے مطمئن نہ ہوا تو اس پر سے اپنا نام ہٹوا دیا۔ میں کسی غیر معیاری چیز پر اپنا نام نہیں دینا چاہتا۔ ٹی وی کے لیے لکھوانے کے بہت سے خواہش مند پیشگی معاوضے کا سن کر چلے جاتے ہیں۔
ایچ اقبال بتاتے ہیں کہ وہ روزنامہ 92 سے بھی کچھ ماہ بطور کہانی کار جڑے رہے، تاہم اِس علاحدگی پر بات کرنے سے گریزاں رہے۔ وہ 'فیس بُک' پر مختلف سوفٹ ویئر سے آراستہ کر کے چیزیں مشتہر کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں جوش کا اثر ہے، کلام کی ضخامت اتنی کہ کتاب بن سکتی ہے۔ مشاعروں میں کم گئے کہ بن بلائے نہیں جاتے، کہتے ہیں کہ ہمارے شعرا کسی کو آگے نہیں آنے دیتے، لیکن جون ایلیا نے چاہا تھا کہ میں شاعری کروں، البتہ وہ ہمایوں اقبال کو 'ایچ اقبال' کرنے پر شاکی رہے۔ مجھے لگتا تھا کہ 'ہمایوں اقبال' کے نام سے کچھ سنجیدہ لکھوں گا، لیکن پھر 'ایچ اقبال' ہی میری پہچان بن گیا۔ رئیس امروہی سے یہ سیکھا کہ انگریزی وہاں لکھتا ہوں، جہاں کام نہ چلے، چیک تک اردو میں لکھتا ہوں۔
ایچ اقبال کا خیال ہے کہ اردو کے لیے اہل زبان سے زیادہ کام پنجاب نے کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے فارسی اور عربی سے دور ہونے سے اردو ختم ہوتی جا رہی ہے، اس تباہی میں ذرایع اِبلاغ کا بہت ہاتھ ہے۔ بدنصیبی ہے کہ اب ہمارے ہاں بڑے لوگ پیدا نہیں ہو رہے، کیوں کہ وہ ماحول نہیں رہا۔
''جب میری زندگی کی شام ہو رہی ہے۔۔۔!''
جاسوسی اور تاریخی ادب کے شہ سوار 'ایچ اقبال' نے موسیقی کے حوالے سے اپنا عبور ایک تصنیف 'ابجد موسیقی' میں سمویا، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مصوری بھی کی، لیکن اب مصروفیات لکھنے پڑھنے تک محدود ہیں۔ راول پنڈی کے ایک ادارے نے ناول 'چھلاوہ' کے کچھ صفحات انگریزی میں ڈھالے۔ 'نیو یارک ٹائمز' کے نمائندے نے اُسے پڑھا، تو متاثر ہو کر میرا انٹرویو کیا، جو 2010ء میں شایع ہوا۔
ایچ اقبال کے ذخیرہ کتب کا شمار ڈھائی ہزار ہے۔ وہ 1965ء میں شادی ہوئی، جسے 'ایک حد تک پسند کی' کہتے ہیں، اولاد نہیں ہے۔ انہیں اپنے سارے ناولوں پسند ہیں، لیکن پسندیدہ کہانی 'مضراب' بتاتے ہیں۔ اُن کے بقول 400 سے زائد کہانیاں لکھ چکے، یعنی یہ آٹھ، دس کتب کا مواد ہے۔ وہ اپنی ڈائجسٹ کی کہانیوں کا ریکارڈ بھی نہیں رکھتے۔
ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اُن کے کام پر کسی محقق نے 'پی ایچ ڈی' نہیں کی، وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'معلوم نہیں میں اس قابل ہوں یا نہیں۔۔۔ ایک بار محکمہ ثقافت نے یاد کیا اور گزشتہ برس 'آرٹس کونسل' میں ایک شام منائی گئی، تب میں نے کہا کہ 'یہ شام اس وقت منائی جا رہی ہے، جب میری زندگی کی شام ہو رہی ہے۔'
مرتضیٰ بھٹو نے کہا آپ عجیب صحافی ہیں!
ایچ اقبال کہتے ہیں کہ 'پرچم' اخبار سے وابستگی کے زمانے میں مرتضیٰ بھٹو نے مجھ سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ الطاف صاحب کے حلقے انہیں برا بھلا کہنا چھوڑ دیں۔ میں نے کہا آپ الطاف صاحب کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ کہنے لگے لیکن وہ جو کہتے ہیں، میں نے کہا یہی تو سیاست ہے کہ وہ کریں، مگر آپ نہ کریں۔
ایچ اقبال کے بقول مرتضیٰ کے سامنے کسی کی مخالفت میں بولنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، کئی بار ایسا ہوا کہ وہ چپ رہے، تو مرتضیٰ نے مخاطب کر کے ان سے پوچھا، تب انہوں نے اپنی اختلافی رائے دی، جس پر ایک بار مرتضیٰ بھٹو بولے کہ آپ بہت عجیب وغریب صحافی ہیں۔ میں نے کہا صحافی جب سیاست داں کے گھرسے نکلتا ہے، تو اس کی جیب میں لفافہ ہوتا ہے، لیکن میری جیب میں کوئی لفافہ نہیں ہوتا، جس پر وہ ہنس دیے۔
'مجھ سے زیادہ شاید ہی کوئی الطاف حسین سے بے تکلف رہا ہو!'
دوران گفتگو رئیس امرہوی کا ذکر ہوا، تو ہم نے اُن کی سیاست کی بات چھیڑی۔۔۔ وہ بولے کہ 'ایم کیو ایم' کیسے بنی؟ یہ نہیں جانتا، میں الطاف صاحب کی ایک تقریر سے متاثر ہوا، پھر ان سے قربت ہو گئی اور بہت اچھے تعلقات رہے۔
ہم نے شہر میں تشدد کے الزامات اور 'ایم کیو ایم' کا ذکر کیا، وہ بولے ''میرے سامنے کبھی کوئی ایسی بات نہیں آئی!''
'آپ نے ان الزامات کا کچھ پوچھا نہیں؟' ہم نے کریدا، تو انہوں نے نفی کی۔ 'خوف محسوس ہوتا تھا؟' ہم نے ایک روایتی تاثر کے تحت استفسار کیا، بولے کہ ''پوری تنظیم میں مجھ سے زیادہ اُن سے بے تکلف شاید کوئی اور رہا ہو۔ میں ان سے متعلق اچھی یا بری، کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا، تاوقتے کہ کوئی بات ثبوت کے ساتھ سامنے نہ آجائے۔ غلطیاں ہو سکتی ہیں، وہ انسان ہیں۔
'آپ کے خیال میں کیا غلطیاں ہوئیں؟' ہم نے بطور بزرگ سیاسی کارکن ان کی رائے کھوجی، وہ بولے کہ اُن کی تقاریر، جس پر پابندی لگی۔۔۔ حالاں کہ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی نے بھی ایسی باتیں کیں۔ نواز شریف نے بھی ہندوستانیوں کو کہا ہم ایک جیسے ہیں وغیرہ، لیکن ان کو کچھ نہیں کہا گیا، اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ 'مہاجر دشمنی' ہے۔
ایچ اقبال نے بتایا کہ الطاف حسین سے 2016ء تک رابطہ رہا، ہم نے پوچھا 'کیا بات ہوتی تھی؟' کہتے ہیں ''حالات حاضرہ پر۔'' ہم نے لقمہ دیا: ''پھر آپ نے رابطہ چھوڑا یا انہوں نے۔۔۔؟'' وہ بولے کہ 'انہوں نے بھی اور میں نے بھی۔۔۔!'
''وہ مشورے لیتے تھے؟'' اس سوال پر وہ بولے کہ 'میں دیتا ہی نہیں تھا۔۔۔! میرا اُن سے بطور سیاست داں رابطہ تھا، کوئی تنظیمی عہدہ نہ تھا، اب میں سیاست سے کنارہ کش ہوں۔ ان کے کسی دھڑے سے رابطہ نہیں، حالاں کہ ایک جگہ سے 'اشارے' بھی ملے۔ 'کہاں سے؟' ہم پوچھے بنا نہ رہ سکے، تو انہوں نے ٹالا اور کہا کہ 'اِسے چھوڑ دیں، اس کی بات مناسب نہیں۔۔۔!'
وہ سیاسی ماضی بھول جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'جس کے ساتھ تھا، وہ ساتھ چھوٹ گیا، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی اور کے ساتھ ہو جاؤں۔' الطاف حسین کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
''پاک ایشیا باقی رہے گا یا آپ۔۔۔؟''
ایچ اقبال شام کے ایک اخبار 'پرچم' سے منسلک رہے، جس پر 'ایم کیو ایم' کی گہری چھاپ تھی، وہ کہتے ہیں کہ اس کا ڈیکلریشن میرے نام تھا اور اس میں 'ایم کیو ایم' کے رکن زاہد قریشی کی مالی شراکت تھی، اب وہ روپیا 'ایم کیو ایم' کا تھا یا نہیں، یہ نہیں پتا، پھر بوجوہ ایچ اقبال 'پرچم' سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے ہفت روزہ 'تکبیر' کے 'ایم کیو ایم' مخالف مواد کا 'جواب' دینے کے لیے ایک ہفتہ وار رسالہ 'پاک ایشیا' بھی نکالا، کہتے ہیں کہ 'پاک ایشیا' الطاف صاحب کے لندن جانے سے دو ماہ قبل جاری ہوا، اس کے لیے اُن کی کوئی مالی مدد نہیں لی، اُن سے کہا کہ میں اپنے شعور کے مطابق پالیسی رکھوں گا، آپ کی حمایت کر سکتا ہوں، یہ میرے دل میں ہے۔ اس وقت میں یہ نہیں سوچ سکتا تھا، جو آج 'را' کے ایجنٹ اور ملک دشمنی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ مجھے نہیں پتا یہ حقیقت ہیں یا نہیں۔ عمران فاروق کے قتل کے الزام الطاف حسین پر ہونے کی صداقت بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ثبوت سے نتھی ہے۔
ایچ اقبال 'تکبیر' میں 'ایم کیو ایم' مخالف مواد کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں 'تکبیر' کے ''فکشن'' کا آپریشن کرتا تھا۔ ہم نے ایچ اقبال سے 'پاک ایشیا' میں 'ٹیبل اسٹوریز' کا استفسار کیا، تو انہوں نے مانا اور کہا کہ کچھ شایع ہوئیں، لیکن اُن میں حقائق تھے، باقی مواد بھی حقیقت سے قریب ترین لکھا۔ پھر 'تکبیر' کے مدیر صلاح الدین کا قتل ہوا، اس کے ایک دن بعد میرے دفتر پر حملہ ہوا اور میرے مینجر صمدانی صاحب قتل ہو گئے۔ میں دو منٹ پہلے ہی دفتر سے نکلا تھا، خیال یہ ہے کہ ہدف میں تھا، میری سفید کپڑوں اور واسکٹ کی مماثلت کے سبب صمدانی صاحب نشانہ بن گئے، جس کا مجھے بہت قلق ہوا۔
ایچ اقبال کے خیال میں اس قتل میں 'ایم کیو ایم' اور جماعت اسلامی کو لڑوانے والی قوتیں ملوث تھیں، جو صلاح الدین کے بعد مجھے مار کر تصادم بڑھانا چاہتی تھیں۔ پھر مجھے حکومت کی طرف سے دھمکیاں ملیں۔ اشارتاً یہ کہا گیا کہ 'پاک ایشیا' رہے گا یا آپ۔۔۔!' پھر سرکاری اشتہار روک دیے گئے، اس لیے 'پاک ایشیا' بند کر دیا۔