پی ٹی وی دو اہم کرکٹ سیریز دکھانے کے عمل سے باہر
بولی میں حصہ نہ لیکر ایک نجی چینل کیلیے میدان کھلاچھوڑدیا،40 کروڑکا نقصان ہوگا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے آئندہ چھ ماہ کے دوران دبئی میں ہونیوالی پاکستان کی سری لنکااورجنوبی افریقہ کے ساتھ دواہم کرکٹ سیریزکے نشریاتی حقوق کے حصول کیلیے بولی میں حصہ نہ لینے کانوٹس لیتے ہوئے پی ٹی وی کی انتظامیہ کووضاحت کیلیے طلب کرلیا ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے گفتگوکرتے ہوئے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کامل علی آغا نے تصدیق کی کہ پی ٹی وی انتظامیہ کو 9ستمبرکوطلب کیا گیا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم آئندہ چھ ماہ کے دوران دبئی میں یہ اہم سیریزکھیلے گی ۔اس بات کی توقع تھی کہ پی ٹی وی پہلے کی طرح ان میچوں کی براہ راست کوریج کیلیے نشریاتی حقوق حاصل کرتاجس سے اس کو35 سے 40 کروڑ روپے آمدن کے علاوہ لاکھوں ناظرین بھی لطف اندوز ہوتے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈنے ان دوسیریزکے نشریاتی حقوق کیلیے گزشتہ ہفتے خواہش مندپارٹیوں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ماضی کی طرح پی ٹی وی بولی کے اس عمل کااہم فریق تھااوراسے بولی میں حصہ بھی لیناتھالیکن مخصوص عناصرکے مفاد آڑے آئے اورپی ٹی وی نے اپنے مقابلے میں موجودچینل کیلیے میدان کھلاچھوڑدیااوربولی میںحصہ ہی نہیں لیا۔
کامل علی آغا نے کہا ہے کہ پاکستان کے لاکھوں ناظرین کی طرح سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کیلیے بھی اس بات پریقین کرنامشکل ہے کہ پی ٹی وی کی انتظامیہ اپنی مسابقت میںموجود چینلزکونشریاتی حقوق لینے کیلیے بولی سے باہر رہ کر ایسے موقع دے سکتی ہے۔ مقامی چینلز دوسیریزکیلیے پی ٹی وی کے مسابقت کارہیں۔ذرائع کے مطابق پی ٹی وی کابولی میں حصہ نہ لینے کافیصلہ جان بوجھ کرکیاگیا ،سینیٹ قائمہ کمیٹی کے ارکان اس معاملے پر 9ستمبرکواپنے اجلاس میں پی ٹی وی انتظامیہ سے بازپرس اور وضاحت طلب کریں گے۔
کامل علی آغانے کہاکہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے،کمیٹی تمام معاملہ کاجائزہ لیتے ہوئے سرکاری ٹی وی کی انتظامیہ سے پوچھے گی کہ ان اہم مقابلوںکی بولی کے عمل میں باہررہنے پراسے کس نے مجبورکیاہے۔سینیٹ قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی انتظامیہ کو تمام متعلقہ ریکارڈبھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔پی ٹی وی کی جانب سے بولی میںحصہ نہ لینے کے حوالے سے ذرائع نے بتایاکہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس معاملے میں مرکزی کردارادا کیاہے۔نجم سیٹھی کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین کاچارج سنبھالنے کے بعددبئی میں سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ کرکٹ سیریز وہ پہلابڑا ایونٹ ہوگاجس میں پی ٹی وی براہ راست کوریج کے حقوق حاصل نہیںکرسکا۔ اس حوالے سے قائم مقام ایم ڈی پی ٹی وی سے موقف جاننے کیلیے بار بار رابطہ کیاگیا تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے گفتگوکرتے ہوئے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کامل علی آغا نے تصدیق کی کہ پی ٹی وی انتظامیہ کو 9ستمبرکوطلب کیا گیا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم آئندہ چھ ماہ کے دوران دبئی میں یہ اہم سیریزکھیلے گی ۔اس بات کی توقع تھی کہ پی ٹی وی پہلے کی طرح ان میچوں کی براہ راست کوریج کیلیے نشریاتی حقوق حاصل کرتاجس سے اس کو35 سے 40 کروڑ روپے آمدن کے علاوہ لاکھوں ناظرین بھی لطف اندوز ہوتے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈنے ان دوسیریزکے نشریاتی حقوق کیلیے گزشتہ ہفتے خواہش مندپارٹیوں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ماضی کی طرح پی ٹی وی بولی کے اس عمل کااہم فریق تھااوراسے بولی میں حصہ بھی لیناتھالیکن مخصوص عناصرکے مفاد آڑے آئے اورپی ٹی وی نے اپنے مقابلے میں موجودچینل کیلیے میدان کھلاچھوڑدیااوربولی میںحصہ ہی نہیں لیا۔
کامل علی آغا نے کہا ہے کہ پاکستان کے لاکھوں ناظرین کی طرح سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کیلیے بھی اس بات پریقین کرنامشکل ہے کہ پی ٹی وی کی انتظامیہ اپنی مسابقت میںموجود چینلزکونشریاتی حقوق لینے کیلیے بولی سے باہر رہ کر ایسے موقع دے سکتی ہے۔ مقامی چینلز دوسیریزکیلیے پی ٹی وی کے مسابقت کارہیں۔ذرائع کے مطابق پی ٹی وی کابولی میں حصہ نہ لینے کافیصلہ جان بوجھ کرکیاگیا ،سینیٹ قائمہ کمیٹی کے ارکان اس معاملے پر 9ستمبرکواپنے اجلاس میں پی ٹی وی انتظامیہ سے بازپرس اور وضاحت طلب کریں گے۔
کامل علی آغانے کہاکہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے،کمیٹی تمام معاملہ کاجائزہ لیتے ہوئے سرکاری ٹی وی کی انتظامیہ سے پوچھے گی کہ ان اہم مقابلوںکی بولی کے عمل میں باہررہنے پراسے کس نے مجبورکیاہے۔سینیٹ قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی انتظامیہ کو تمام متعلقہ ریکارڈبھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔پی ٹی وی کی جانب سے بولی میںحصہ نہ لینے کے حوالے سے ذرائع نے بتایاکہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس معاملے میں مرکزی کردارادا کیاہے۔نجم سیٹھی کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین کاچارج سنبھالنے کے بعددبئی میں سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ کرکٹ سیریز وہ پہلابڑا ایونٹ ہوگاجس میں پی ٹی وی براہ راست کوریج کے حقوق حاصل نہیںکرسکا۔ اس حوالے سے قائم مقام ایم ڈی پی ٹی وی سے موقف جاننے کیلیے بار بار رابطہ کیاگیا تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔