ن لیگ اور پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر متفق
اتفاق رائے بلاول اور مریم نوازمیں ملاقات کے دوران طے پایا، اے این پی پہلے ہی حمایت کرچکی
ن لیگ اور پیپلزپارٹی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلیے متفق ہوگئی ہیں جب کہ یہ اتفاق رائے گزشتہ دنوں بلاول اور مریم نوازکے مابین ملاقات کے دوران طے پایا۔
صادق سنجرانی گزشتہ سال پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔ انھوں نے 57 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے،اس وقت بھی ن لیگ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔
ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ف) کے سینیٹ میں 46 ارکان ہیں،29 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ن لیگ کے ساتھ ہے،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2سینیٹرہیں، اے این پی، فنکشنل لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 14 ،متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی 5جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 2 ہے ۔سینیٹ کو چلانے کیلیے چیئرمین کی اہمیت ہونے کے علاوہ وہ صدر پاکستان کی غیرموجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلیے 53 ارکان کی حمایت درکار ہے جو پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی،جے یو آئی ف اوردیگراپوزیشن جماعتیں مل کرآسانی سے پورے کرسکتی ہیں کیونکہ اے این پی پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کرچکی ہے۔
اے این پی کے رہنما زاہد خان کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو نہ ہٹایا گیا تو عوام بلاول اور مریم نواز پر اعتماد نہیں کریں گے،چیئرمین سینیٹ کے خلاف کارروائی آئین کے سیکشن 11کے تحت کی جاتی ہے۔
اس سیکشن میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق ایوان کے ایک چوتھائی ارکان آرٹیکل 61 کے تحت قرارداد کیلیے سیکریٹری کے پاس تحریری نوٹس جمع کرواتے ہیں جس کی کاپی ارکان میں تقسیم کی جاتی ہے اور خفیہ ووٹنک کرائی جاتی ہے۔
چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جس کیخلاف بھی قرارداد آئی ہو وہ اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔
صادق سنجرانی گزشتہ سال پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے چیئرمین سینیٹ بنے تھے۔ انھوں نے 57 ووٹ لیے تھے جبکہ ن لیگ کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے،اس وقت بھی ن لیگ سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔
ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ف) کے سینیٹ میں 46 ارکان ہیں،29 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں بیشتر کا تعلق ن لیگ کے ساتھ ہے،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2سینیٹرہیں، اے این پی، فنکشنل لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 14 ،متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی 5جبکہ جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد 2 ہے ۔سینیٹ کو چلانے کیلیے چیئرمین کی اہمیت ہونے کے علاوہ وہ صدر پاکستان کی غیرموجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ بھی سنبھالتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلیے 53 ارکان کی حمایت درکار ہے جو پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی،جے یو آئی ف اوردیگراپوزیشن جماعتیں مل کرآسانی سے پورے کرسکتی ہیں کیونکہ اے این پی پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کرچکی ہے۔
اے این پی کے رہنما زاہد خان کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو نہ ہٹایا گیا تو عوام بلاول اور مریم نواز پر اعتماد نہیں کریں گے،چیئرمین سینیٹ کے خلاف کارروائی آئین کے سیکشن 11کے تحت کی جاتی ہے۔
اس سیکشن میں دیے گئے طریقہ کارکے مطابق ایوان کے ایک چوتھائی ارکان آرٹیکل 61 کے تحت قرارداد کیلیے سیکریٹری کے پاس تحریری نوٹس جمع کرواتے ہیں جس کی کاپی ارکان میں تقسیم کی جاتی ہے اور خفیہ ووٹنک کرائی جاتی ہے۔
چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جس کیخلاف بھی قرارداد آئی ہو وہ اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔