بے بنیاد اور یکطرفہ خبروں پر پاکستان کا بی بی سی سے احتجاج معافی کا مطالبہ

خبر کا مقصد حقائق جاننا نہیں بلکہ پاک فوج کے خلاف ایجنڈے کا فروغ تھا، ڈوزیئر


ویب ڈیسک June 18, 2019
ریاسی اداروں کے جائز آپریشن کودہشت گردی کے مساوی قراردینا گمراہ کن ہے، ڈوزیئر: فوٹو: فائل

حکومت پاکستان کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی 2 جون کی یک طرفہ خبرپرباضابطہ احتجاج کیا گیا ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزارت اطلاعات کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی 2 جون کی بے بنیاد اوریکطرفہ خبروں پر19 صفحات پر مشتمل احتجاجی ڈوزیئر بی بی سی کے نمائندے کے حوالے کردیا گیا ہے۔

حکومت پاکستان نے موقف اختیارکیا کہ بی بی سی کی خبر میں فریقین کا موقف نہیں لیا گیا جوکہ بی بی سی کی ادارتی پالیسی کے خلاف ہے، تجزیئے سے واضح ہوتا ہے کہ خبرمیں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

ڈوزیئرمیں مزید کہا گیا کہ خبرکا تفصیلی تجزیہ علیحدہ مراسلے میں ارسال کیا جارہا ہے، خبر میں حتمی نتائج کا اخذ کرنا غیرجانبدار اور معروضی صحافت کیخلاف ہے، بی بی سی معافی مانگ کرمتعلقہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے، امید ہے کہ آئندہ پاکستان مخالف جعلی خبروں کی اشاعت سے اجتناب کیا جائے گا اور خبر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

ڈوزیئرمیں کہا گیا کہ اگر بی بی سی نے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو پاکستان اور برطانیہ میں تمام قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں، برطانیہ میں پریس اتاشی معاملہ آفس آف کمیونیکیشن اور بی بی سی کے سامنے اٹھائیں گے جبکہ احتجاجی مراسلہ برطانیہ میں میڈیا کے ریگولیٹری ادارے کو بھی بھجوایا جائے گا۔

ڈوزیئرکے مطابق ریاسی اداروں کے جائز آپریشن کو دہشت گردی کے مساوی قرار دینا گمراہ کن ہے، صحافی نے خبر میں پاکستان کے فضائی حملوں کا ذکر کیا مگر ڈرون حملوں کا نہیں، خبر کا مقصد حقائق جاننا نہیں بلکہ پاک فوج کے خلاف ایجنڈے کا فروغ تھا، صحافی کی جانبداری اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے واضح ہے جب کہ خبر شائع کرنے والے رپورٹر نے کبھی بھی وزیرستان جانے کی درخواست نہیں دی تاہم بی بی سی کے مختلف نمائندوں نے 14 مرتبہ قبائلی علاقوں کا دورہ کیا۔

اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آرکی جانب سے بھی بی بی سی کی پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی خبرکو جھوٹ کا پلندہ اور حقائق کے منافی قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں