فاقہ زدہ لڑکیاں
فاقہ زدگی نو عمر اور نوجوان لڑکیوں کے گھمبیر ترین نفسیاتی مرض کے طور پر سامنے آیا ہے
آج کل کی لڑکیوں کوlean mean نظر آنے کا خبط سا ہو گیا ہے۔ اس خبط کے تحت وہ کھانا پینا فاقہ زدگی کی حد تک کم کر دیتی ہیں۔ ''کیرن کار پنٹر'' (2/3/1950 - 4/2/1983) بھی ایسی ہی ایک لڑکی تھی۔ اس کا یہ خبط اتنا بڑھا کہ اس نے خود کو فاقے کر کر کے ہلاک کر لیا۔ ہمارے آپ کے لیے یہ نام شاید اتنا معروف نہیں لیکن امریکا میں بہ طور مغنّیہ اور ڈھولچی ''کیرن'' کا بڑا نام ہے۔ اس نے اپنے بھائی ''رچرڈ کار پنٹر'' کے ساتھ گانا شروع کیا اور ایک عالم میں دھوم مچا دی۔
پاکستان میں گانے والے بہن بھائیوں کی جوڑی'' نازیہ زوہیب'' کو جو شہرت ملی'' کار پنٹرز'' کی شہرت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ موسیقی کے امریکی جریدے ''رولنگ اسٹون'' نے 2008میں 100 ایسے گلوکاروں کی ایک فہرست مرتب کی جنھیں ہر دور میں عظیم کہا جا سکتا ہے۔ ''کیرن'' اُس فہرست میں 94 نمبر پر ہے۔ 1999میں VH1 (ویڈیو ہٹس و ن امریکی کیبل ٹی وی نیٹ ورک نے ''راک ان رول'' کی 100 عظیم خواتین کی فہرست مرتّب کی۔ ''کیرن'' کا مقام اس میں 29 واں تھا۔ اپنے وقت کے کئی عظیم ڈھولچی مثلاً ہال بلین، کبّی اوبرآن، اور'' بڈی ِرِک'' وغیرہ ''کیرن'' کے فن کے معترف اور مدّاح رہے ہیں۔
کیرن کی مقبولیت اور کم خوراکی کا آغاز ساتھ ساتھ ہوا۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی مقبولیت کی انتہائوں کو تھی تو اس کی کم خوراکی بڑھتے بڑھتے فاقہ زدگی کو پہنچ چکی تھی۔ جوں ہی اُسے یہ احساس ہوا کہ اُسے خود کو دوسرں کو دکھانا ہے، خوبصورت نظر آنا ہے، تو اُس نے تقلیلِ طعام پر عمل شروع کر دیا۔ کیرن کا قد 5.4" تھا اور وزن 66 کلو۔ اپنے انتقال سے 8 برس قبل کیرن کا وزن کم ہوتے ہوتے صرف 41 کلو رہ گیا تھا۔ فلم اور فن کی دنیا سے وابستہ خود کو ہلاک کرنے والی کیرن واحد لڑکی نہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ مثال کے طور پر ''ایزابیلاکارو''، یہ فرانسیسی ماڈل تھی۔ اسے بھی ''باربی ڈول'' کی طرح مُنحنی نظر آنے کا خبط سوار ہوا۔ اس نے بھی فاقہ زدگی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ نومبر 2010 میں یہ فاقوں کے سبب جاں بحق ہو گئی۔ ہلاکت کے وقت اس کا وزن 25 کلو گرام تھا۔ ''اینا کیرولینا ایسٹن''۔ یہ برازیل کی ماڈل تھی۔
اس نے بھی خود کو فاقے کر کر کے صرف 21 برس کی عمر میں ہلاک کیا۔ ( نومبر 2006)۔ ''ہیدی گنتھر'' ایک ''بیلے ڈانسر'' تھی۔ اس کا قد5.5"ـ اور وزن 96 پونڈ تھا۔ نہ معلوم کیوں اسے بھی احساس ہوا کہ یہ موٹی ہے، بس صاحب اس نے بھی فاقے شروع کر دیے یہاں تک کہ محض22 برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئی۔ ۔ ۔ حسرت اُن غنچوں پہ ہے ۔
اس فہرست میں بعض شاہی گھرانوں کی خواتین کے نام بھی آتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق شاہِ ایران کی صاحب زادی، لیلیٰ پہلوی اور لیڈی ڈیانا وغیرہ۔ لیلیٰ پہلوی 31 برس کی عمر میں لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی۔ انھوں نے سکون آور ادویات اور ''کوکین'' زیادہ مقدار میں استعمال کر لی تھیں۔ جسم پر فاقہ زدگی کے اثرات بھی نمایاں تھے۔''این کولٹر'' ایک امریکی مصنّفہ اور صحافی ہیں۔ آپ کی تمام کی تمام 8 کتب''نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ'' پر رہی ہیں۔ مجموعی طور پر 30 لاکھ سے زائد کتب کی فروخت کا ریکارڈ ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈیانا بھی فاقہ زدگی کے مرض کا شکار رہی ہیں۔
خوبصورت نظر آنا ہر عورت کا پیدائشی حق ہے۔ اداکارائوں، رقاصائوں، گانے والیوں اور ملازمت پیشہ خواتین کے دل میں گھردار خواتین کی نسبت یہ احساس بوجوہ زیادہ گھر کر لیتا ہے۔ بسا اوقات مرض کا روپ بھی دھار لیتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں خاص خواتین کے کئی شعبے، کئی ملازمتیں ایسی ہیں جو ایک خاص کمزور سی جسمانی ساخت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ کم وزنی کو عالمی سطح پر معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ سب اس کے حصول کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ کچھ دہائیوں قبل کی مائیں اپنی بچیوں کی خوش خوراکی کا خصوصی دھیان رکھتی تھیں۔
خیال آج کی مائیں بھی کر رہی ہیں لیکن معاملہ اُلٹ گیا ہے۔ کہ یہ نہ کھائو وہ نہ کھائو ورنہ موٹی ہو جائو گی اور موٹی ہو گئیں تو گویا مستْقبل تاریک ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ ہفتے بی بی سی نے ایک دل چسپ تحقیق شایع کی۔ یہ تحقیق لندن کی ''ویسٹ منسٹر یونی ورسٹی''، ملائیشیا کی''ہیلپ یونی ورسٹی'' اور برطانیہ ہی کی ''نیو کیسل یونیورسٹی'' کی ٹیم نے کی۔ تحقیق کے مطابق شدید تنائو کے ماحول میں کام کرنے والے مَردوں کو نسبتاً فربہ خواتین زیادہ متوجہ کرتی ہیں۔
ساری دنیا کی بچیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں۔ صنعت گڑیا سازی میں ''باربی ڈولز'' کو ایک خاص پہچان اور اعتبار حاصل ہے۔ اب ذرا ایک دل چسپ تناسب ملاحظہ ہو۔ ایک عام خاتون کا اوسط قد 5.4" ہوتا ہے۔ اوسط وزن 145 پونڈ۔ آپ باربی کے قد اور وزن سے واقف ہیں؟ جناب باربی کا قد ہے 6.0" اور وزن ہے صرف 101 پونڈ۔ اب فرمائیے دنیا بھر کی بچیوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ وہ نو عمری ہی سے فاقے کر کر کے نہ مریں تو کیا کریں۔فاقہ زدگی نو عمر اور نوجوان لڑکیوں کے گھمبیر ترین نفسیاتی مرض کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ دورِ جدید کا وہ تحفہ ہے جس میں لڑکیوں کی کسی بھی دوسرے نفسیاتی مرض کی نسبت زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
15سے 24 برس کی عمر کی لڑکیوں میں کسی بھی وجہ سے ہونے والی اموات کی نسبت محض فاقہ زدگی سے ہلا کتوںکی تعداد 12 فی صد زائد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف امریکا میں ہر برس ایک ہزار سے زائد خواتین خود کو فاقے کر کر کے ہلاک کر لیتی ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق، 13 برس کی 53 فی صد امریکی لڑکیاں اپنے وزن اور جسم سے ناخوش ہوتی ہیں۔ 17 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہ اوسط بڑھ کر 78 فی صد تک جا پہنچتا ہے۔ بھلا بتائیے ایسی جوانی کس کام کی جب اپنا آپ ہی برا لگنے لگے؟
یہ مسئلہ صرف مغرب ہی تک محدود نہیں رہا اس کے متاثرین میںشمالی کوریا، سیئول، ہانگ کانگ، سنگاپور، فلپائن، بھارت یہاں تک کہ یہ ارضِ پاک بھی شامل ہے۔ کراچی میں میڈیکل کالج کے طلبا اور طالبات کی غذائی عادات کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔ اس کے نتائج کچھ یوں تھے۔ EAT-26-eating attitude test کے ٹیسٹ کے نتیجے میں22.75 فی صد طلبا غذائی عدم اعتدال کے '' ہائی رسک'' زون میں تھے۔ 87.9 فی صد طالبات اور 12.1 فی صد طلبا۔ SCOFF-Eating Disorder Questionnaire کے نتائج کے مطابق17فی صد طلبا ہائی رسک تھے۔ 78.4 فی صد طالبات اور 21.6 فی صد طلبا۔ جس معاشرے میں میڈیکل کالج کے طلبا کے تغذیہ کا یہ حال ہو، وہاں عمومی معاشرتی رجحان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں حمل ضایع ہونے اور عملِ جراحی کے ذریعے زچگی کے تیزی سے بڑھتے اوسط کا یہ ایک بڑا سبب ہے۔
فاقہ زدہ ناتواں، مدقوق جسم و جاں اور خوب صورت جسم اور شاداب چہرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق صدیوں سے نہ کسی لڑکی کو بتایا جاتا تھا نہ سکھایا جاتا تھا، پھر بھی سب کو معلوم تھا۔ کیا کیجیے اس جدید تعلیم و تہذیب کو جس نے یہ فرق و تفاوت بھی پاٹ دیا۔