بڑھکوں اور دھمکیوں سے آگے بھی کچھ ہے یا نہیں
وزیراعظم کو چاہیے کہ خوش فہمی اورخوش گمانی کے طلسم سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں اب واپس آجائیں۔
خانصاحب کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے تقریباً دس ماہ ہوچکے ہیں لیکن اُن کے لب ولہجہ اور انداز تخاطب میں ابھی تک کوئی نمایاں فرق نہیں ہو پایا ہے۔ اپوزیشن کو للکارنے اور دھمکانے کے سوا اُن کا کوئی کارنامہ درج نہیں ہو پایا ہے۔
ملک کی معیشت کا اقتصادی صورتحال کا جوحشر اُن کے اِس مختصر سے دور میں ہوچکا ہے اُس کی انھیں چنداں فکر نہیں ہے۔ وہ بس اِسی میں خوش دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ قیادت اُن کے اِس دور میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاچکی ہے، جو شعلہ بیانی اورآتش فشانی انھیں بھارت کے حکمرانوں کے خلاف اپنانی چاہیے تھی وہ انھوں نے اپنے ہی ملک کے اُن سیاستدانوں کے خلاف اپنائی ہوئی ہے جسے یہاں کے مقتدر قوتوں نے پہلے ہی اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کو سزا دینے یا معاف کردینے کا معمولی سے بھی اختیار انھیں حاصل نہیں ہے لیکن وہ اپنی ہر تقریر اور بیان میں اپنے اِس خام خیالی اور خوش گمانی کا اعادہ اِس طرح سے کرتے ہیں جیسے یہ سب کچھ اُنہی کی مرضی ومنشاء کے تحت ہو رہا ہے۔این آر او نہیں دونگا اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا، سنتے سنتے لوگ بور ہوچکے ہیں وہ اِس سے آگے بھی اب کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔خان صاحب نے اپنی ساری الیکشن مہم میں اِس ضمن میں بہت بڑے بڑے دعوے اوروعدے کیے تھے لیکن دیکھایہ گیا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک دعویٰ بھی حقیقت کاروپ نہیں دھار سکا۔
قوم کے لٹیروں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا تودرکنار وہ ابھی تک اُن کے خلاف لوٹ مارکا کوئی ٹھوس ثبوت بھی ہماری عدالتوں کے روبرو نہیں لا سکے ہیں، حالانکہ وہ اب حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں گزشتہ حکمرانوں کی تمام فائلیں اورکاغذات اُن کی قبضے میں ہیں ۔میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبے سمیت کسی میگا پروجیکٹ میں ایک ڈھیلے کی کرپشن کا کوئی ثبوت وہ قوم کے سامنے نہیں رکھ پائے ہیں۔اُلٹا انھیں اپنے بنائے ہوئے پشاور میٹرو بس کی لاگت کے بارے میں شدید قسم کی ہزیمت کا سامنا درپیش ہے۔
وزیراعظم صاحب نے اپنے آخری خطاب میں سابقہ دس سالوں میں لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں کی چھان بین کے لیے ملک کے اداروں اور ایجنسیوں پر مشتمل اعلیٰ سطح کا ایک کمیشن بنانے کا اعلان مرحمت فرمایا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ اِس ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ رکھتے ہی نہیں ہے۔ وہ صرف طلسماتی نعروں اور سحر انگیزباتوں میں خود بھی مگن رہنا چاہتے ہیں اور قوم کا دل بھی بہلائے رکھنا چاہتے ہیں،گزشتہ دس ماہ توانھوں نے صرف اِسی الزام تراشی میں گزار لیے کہ سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے ہمیںمعیشت انتہائی شکستہ حالت میں ملی اور ہمارے پاس دوسروں سے اُس بھیک کو مانگنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہاجس کے لیے میں نے خودکشی کو ترجیح دینے کی دلفریب باتیں کی تھیں ۔ خان صاحب ملکی سیاست میں کوئی نئے نئے وارد تو نہیں ہوئے ہیں۔ وہ خود اپنے دعوؤں کے مطابق بیس بائیس سال سے جدوجہد کر رہے تھے ۔
پھر وہ ملک کی مالی حالت سے اتنے بے خبر اور لاعلم کیسے رہے ۔ اِسے اُن کی نااہلی سمجھاجائے یا پھردانستہ طور پر بولی جانے والی کذب بیانی کہ ہمیں معیشت کی اِس خستہ حالی کاکوئی ادراک اورفہم نہیں تھا۔خان صاحب نے اقتدار مل جانے کی صور ت میں صرف چند مہینوں میں کرپشن ختم کردینے اورلٹیروں سے پیسہ واپس دلوانے کے بڑے بڑے لارے لپے قوم کودیے تھے، لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ خان سے اپناکوئی وعدہ اوردعویٰ بھی پورا نہیں ہو پارہا۔وہ اپنی اِس بے بسی اورلاچاری کا برملا اظہارکرنے کی بجائے قوم کو نئے نئے مشغلوں میں الجھائے رکھناچاہتے ہیں۔
قرضوں سے متعلق اعلیٰ سطح کاکمیشن بنانے کی بجائے وہ اُن فائلوں اوردستاویزات ہی کودیکھ لیتے جواِس وقت اُن کی قبضے میں ہیں تو انھیں ساری صورتحال کا پتہ چل جاتا۔کمیشن بنانے کے اعلان سے پہلے وہ اگر2017ء میں سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت بنائی جانے والی جے آئی ٹی اوراُس کی دس جلدوں پرمبنی تحقیقاتی رپورٹ کاجائزہ ہی لے لیتے تو کم ازکم اُن اپنے کے لیے آنے والے دنوں کی ممکنہ پشیمانی سے بچ جانے کاکوئی راستہ نکل آتا۔خان صاحب کمیشن بنانے کا یہ شوق بھی پوراکرلیں لیکن ملکی سیاست کی معمولی سے سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی اِس مجوزہ کمیشن سے کوئی نتیجہ خیز توقع نہیں رکھتا ۔
ملک میں بنائے جانے والے تمام تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹیں اُٹھاکر دیکھ لیجیے کسی ایک میں بھی کوئی اطمینان بخش فیصلہ قوم کے سامنے نہیں آیا۔اگرکسی میں آیا بھی ہوتواُس پرعملدرآمد نہیں ہو پایا۔پھر ایسی صورتحال میںاِس نئے کمیشن کی ڈگڈگی بجانے سے کیا حاصل ہوگا ۔ بلاوجہ قوم کوکسی مخمصہ یا تذبذب میں رکھ کر وقت کیوں ضایع کیا جا رہا ہے۔اِس سے بہتر ہوتاکہ آپ لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی کوئی کوشش یا تدبیرکرتے جس کا آپ نے قوم سے وعدہ کیاتھا ۔
اُلٹاآپ نے اپنی اِس ناکامی کی سزا قوم کو نئے ٹیکسوں کی صورت میں دیدی۔ قوم تو آپ کے برسراقتدارآنے کے بعد تو اوربھی مشکل میں پھنس گئی ہے۔مختصر سے عرصے میں روپے کی اِتنی بے قدری اورگراوٹ ملک نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔جس کی وجہ سے ہم آج اِس خطے میںکسی سے آنکھ ملاکر بات بھی نہیں کرسکتے۔ بنگلہ دیش کے لوگ ہماری اِس حالت کو دیکھتے ہوئے یقینا شکر گزار ہونگے کہ وہ اِس ملک کا حصہ نہیں رہے ورنہ انھیں بھی دنیاکے سامنے آج ایسی ہی کسی شرمساری اورپشیمانی کاسامنا ہوتا۔
کرپشن ساری دنیا کامسئلہ ہے، لیکن کسی ملک نے اِس مسئلے کولے کر اِتناشوروغوغا اورپروپیگنڈہ نہیں کیا ہوگا جتنا ہم نے اِن چند سال میں کیا ہے۔ساری دنیا میں ہم خود کو سب سے بڑاکرپٹ اورٹیکس چورکہلاتے پھر رہے ہیں۔ پھر یہ اُمید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ بیرون ملک سے کوئی سرمایہ دار یہاں سرمایہ لگائے گا۔ ہمارے اپنے لوگ جب ہم پراعتماد اوربھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں پھرکوئی دوسرا ایسا کیوں کر کرے گا۔خان صاحب کو اپنے اُوپر بڑا زعم اوریقین تھا کہ اُن کی ایک آواز پر بیرون ملک بیٹھے سارے پاکستانی لبیک کہتے ہوئے اپناسارا پیسہ اِس ملک میں لے آئیں گے۔
شاید اِسی لیے انھوں نے جوش جذبات میں آ کر پہلے ایک ایک ہزار ڈالر بھیجنے اورپھر بھاشااور مہمند ڈیم کے لیے ریڈیواور ٹی وی پر آکر ایک فنڈ بنانے کا اعلان کرڈالا۔اِن دونوں مہمات کانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ملک کے اندر تو کجا ملک سے باہر بیٹھے ہوئے پاکستانی بھی اُن پراعتماد کرنے کو تیار نہیں۔1400ارب روپے کے اِس مجوزہ فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی کل رقم ساڑھے دس ارب ہے۔قوم کی اِس بد اعتمادی کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم پہلے اعتماد پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ، لیکن اُلٹا انھوں نے ایمنسٹی اسکیم لاکر خود کو ایک اور نئی مشکل سے دوچار کردیا ہے۔صرف ایک ماہ میں دوبار قوم سے اِس بارے میں خطاب کرچکے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کی تین پات ۔ یہ اسکیم بھی ڈیم فنڈکی مانند بری طرح ناکام ہونے جا رہی ہے۔
وزیراعظم کو چاہیے کہ خوش فہمی اورخوش گمانی کے طلسم سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں اب واپس آجائیں اور سنجیدگی اور متانت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ملک وقوم کی بہتری کاکچھ خیال کرلیں ۔ اپوزیشن کو مسمارکرنے اور جیلوں میں بند کرنے سے ملکی مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔معیشت کی بحالی اورسرمایہ داری کے لیے بے یقینی کی فضا ء کو ختم کرنا ہوگا۔حزب اختلاف کے مقدمات کو ملک کی عدالتوں پر چھوڑ دیجیے۔ آپ صرف ملکی مسائل حل کرکے قوم کواِس گرداب اور بھنورسے باہر نکالنے کا سوچیں۔