حکومت کو عوام دوست اور ریاستی وفادار بیوروکریسی کی تلاش
بہت سے اہل اور غیر معمولی افسروں کو چھوٹے محکموں میں تعینات کر کے ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے۔
لاہور:
پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اب پہلے جیسے ''بھولے'' نہیں رہے ہیں، گزشتہ 10 ماہ کے دوران اپنے خلاف ہونے والی سازشوں، تنقید اور میڈیا ٹرائل نے انہیں بہت ''میچور'' بنا دیا ہے جبکہ اس عرصہ میں وہ بیوروکریسی کو بھی کافی حد تک سمجھ چکے ہیں کہ کون سا افسر کتنی صلاحیت اور استعداد کا مالک ہے اور کون سے افسر کی سفارش کے پیچھے کیا مقاصد ہیں لیکن اس سب کے باوجود ابھی پنجاب کی سول و پولیس بیوروکریسی کے بعض ''رنگ باز'' اپنی کارروائی ڈالنے سے باز نہیں آ رہے ہیں جبکہ بعض افسروں کی تعیناتی کرتے وقت وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نے اپنی جانب سے انہیں عوام کی خدمت اور حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کا ایک موقع دیا لیکن یہ افسر کل کی طر ح آج بھی ''ن'' لیگی افسر ہیں اور ان کی وفاداریاں آج بھی جاتی امراء کے ساتھ وابستہ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ سے سول وپولیس بیوروکریسی کی ''غیر جانبداری'' پر زور دیتے رہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ابتدائی چند ماہ میں عمران خان نے بیوروکریسی کو فری ہینڈ بھی دیا تھا لیکن تین دہائیوں سے سیاست زدہ افسروں نے عمران خان کے اعتماد کو بری طرح ٹھیس پہنچائی اور اپنی وفاداریاں ریاست،حکومت اور عوام سے منسلک کرنے کی بجائے اپنے ان سیاسی آقاؤں کے ساتھ نبھائی ہیں جنہوں نے انہیں سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا اور پھر اپنی ذاتی ''افسر شاہی فورس'' کے طور پر ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ، ترقی اور احتساب سے بچانے کیلئے آشیر باد فراہم کی۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے سول سروس کو سیاست زدہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ بیوروکریسی ''ن'' اس قدر طاقتور اور بااثر ہو گئی تھی کہ سول سروس میں ان افسروں کے خلاف بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی اور بعض افسر تو اتنے زیادہ''شاہ کے وفادار'' تھے کہ وہ چیف سیکرٹری کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔میاں شہباز شریف کو ویسے بھی انڈر 19 ٹیم رکھنے کا شوق تھا کیونکہ جونیئر افسر اپنی پرکشش پوسٹنگ کیلئے ہر جائز و ناجائز کام کرنے کو زیادہ آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنایا جانا سول و پولیس افسر شاہی کیلئے بہت منافع بخش معاملہ بن گیا کیونکہ عثمان بزدار کو حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا جبکہ انہیں اپنی وزارت اعلیٰ کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے بھی دباؤ کا سامنا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی کابینہ میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام وزراء بھی اس اہلیت کے حامل نہیں تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو حکومت چلانے میں بامقصد اور بامعنی معاونت فراہم کر سکتے۔
حکومت کے ابتدائی ایام کے چیف سیکرٹریز اور آئی جیز نے بھی اپنی کارکردگی سے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی خوب مایوس کیا اور معاملہ جب زیادہ سنگینی اختیار کرنے لگا تو یوسف نسیم کھوکھر کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کردیا گیا ۔ یوسف نسیم کھوکھر کا شمار سول بیوروکریسی کے اچھے افسروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی بہت عمدگی کے ساتھ ذمہ داریاں نبھائی تھیں ۔
اس وقت یہ صورتحال ہے کہ عثمان بزدار اور یوسف نسیم کھوکھر کو حقیقی معنوں میں عوام دوست، ریاست اور حکومت کے وفادار اور پیشہ ورانہ طور پر مضبوط اور محنتی افسروں کی ٹیم بنانے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ چند ہفتے قبل جب وسیع پیمانے پر افسر شاہی میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی تو یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ یوسف نسیم کھوکھر کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے اور وفاقی سیکرٹری داخلہ میجر(ر) اعظم سلمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا جائے گا تاہم سپیکر پنجاب اسمبلی کی مبینہ مداخلت کی وجہ سے یوسف نسیم کھوکھر کا تبادلہ نہیں کیا گیا ہے۔
یوسف نسیم کھوکھر اپنی استعداد کے مطابق ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ پنجاب کے انتظامی امور کو بہتر طریقے سے چلایا جائے لیکن وہ بھی کیا کریں کہ تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سول اور پولیس بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے، ایوان وزیر اعلی، ایوان وزیراعظم ،بنی گالہ سمیت تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے طاقتور سیاستدانوں کی جانب سے افسروں کے تقرر وتبادلے کے حوالے سے سفارشیں ہوتی ہیں، بلکہ اب تو یہ باتیں زیادہ زور پکڑنے لگی ہیں کہ ''روحانی''حلقوں کے قرب والے افسر زیادہ پرکشش پوسٹنگ لے رہے ہیں اور روحانی حصار تک پہنچنے کیلئے سنٹرل پنجاب کے معروف میاں بیوی کا وسیلہ استعمال ہو رہا ہے۔
سردار عثمان بزدار کو اپنی بیوروکریٹک ٹیم کی جانب توجہ دینا چاہئے ، انہوں نے اپنے وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوشش کر کے دیکھ لی لیکن سیاست زدہ افسر خود کو بدلنے پر تیار نہیں ہیں، ان کی وفاداریاں اپنے سیاسی آقاوں یعنی ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں اور مبینہ طور پر وہ اپنے محکموں میں ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور اپوزیشن کو تنقید کا موقع مل رہا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو افسر میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے ''خاص الخاص'' تھے انہیں اب اہم عہدوں پر تعینات کیوں جا رہا ہے، تحریک انصاف کے اندر بھی ایسے افسروں کی تعیناتی پر بہت ناراضگی اور اشتعال پایا جاتا ہے اور بہت سے انصافین رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف میں آتے ہی وزیر اعلی بن جانے والے عثمان بزدار کو ن لیگی افسروں سے اتنی محبت کیوں ہے۔
موجودہ حکومت کو انتظامی طور پر بہتری لانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوںگے ، یہ بھی درست ہے کہ حکومت پر عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بعض معاملات میں دباو ہوتا ہے اور حکومت کے ہاتھ باندھ دئے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ کئی ماہ تک پنجاب میں تعینات ایک خاتون افسر کو تبدیل کرنے کیلئے پوری حکومت شدید کوشش کرتی رہی لیکن ایک عدالتی حکم آڑے آتا رہا اور اب کہیں جا کر اس افسر کا تبادلہ ممکن ہوا ہے جبکہ ایک اہم صوبائی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی ماتحت ایک افسر سر عام رشوت لیتی رہی اور اس کی پیسے وصول کرتے ویڈیوز بھی موجود ہیں لیکن وہ محکمانہ وزیر ہونے کے باوجود کئی ماہ تک اس افسر کو تبدیل نہیں کروا سکے۔
اسی طرح سیکرٹری فوڈ پنجاب نسیم صادق کے حوالے سے تحریک انصاف میں بہت تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ نسیم صادق کو میاں شہباز شریف کا نہایت خاص افسر قرار دیاجاتا ہے اور میاں شہباز شریف کے دس سالہ دور وزارت اعلی میں نسیم صادق چیف سیکرٹری سے بھی زیادہ طاقتور افسر شمار کئے جاتے تھے۔ حال ہی میں موجودہ حکومت نے انہیں سیکرٹری فوڈ تعینات کیا تھا لیکن نسیم صادق گندم خریداری مہم میں اہلیت ثابت نہیں کر سکے بلکہ فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ جنگ چھیڑ لی جس پر وزیر اعلی کی ہدایت پر چیف سیکرٹری نے مداخلت کر کے کمشنرز اور ڈی سی اوز کے ذریعے خریداری اہداف کو کسی حد تک مکمل کیا ہے۔
یہ صورتحال بھی عجب ہے کہ بہت سے اہل اور غیر معمولی افسروں کو چھوٹے محکموں میں تعینات کر کے ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے، جیسا کہ سیکرٹری ایکسائز نبیل اعوان، ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عثمان یونس، سیکرٹری مواصلات شہریار سلطان، سیکرٹری کوآرڈینیشن احمد عزیز تارڑ اور سیکرٹری سی ایم آفس آصف بلال لودھی جیسے افسروں کو اہم اور بڑے محکموں میں لا کر ان کی صلاحیت اور پیشہ ورانہ انرجی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اب پہلے جیسے ''بھولے'' نہیں رہے ہیں، گزشتہ 10 ماہ کے دوران اپنے خلاف ہونے والی سازشوں، تنقید اور میڈیا ٹرائل نے انہیں بہت ''میچور'' بنا دیا ہے جبکہ اس عرصہ میں وہ بیوروکریسی کو بھی کافی حد تک سمجھ چکے ہیں کہ کون سا افسر کتنی صلاحیت اور استعداد کا مالک ہے اور کون سے افسر کی سفارش کے پیچھے کیا مقاصد ہیں لیکن اس سب کے باوجود ابھی پنجاب کی سول و پولیس بیوروکریسی کے بعض ''رنگ باز'' اپنی کارروائی ڈالنے سے باز نہیں آ رہے ہیں جبکہ بعض افسروں کی تعیناتی کرتے وقت وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری نے اپنی جانب سے انہیں عوام کی خدمت اور حکومت وقت کے ساتھ وفاداری کا ایک موقع دیا لیکن یہ افسر کل کی طر ح آج بھی ''ن'' لیگی افسر ہیں اور ان کی وفاداریاں آج بھی جاتی امراء کے ساتھ وابستہ ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ سے سول وپولیس بیوروکریسی کی ''غیر جانبداری'' پر زور دیتے رہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد ابتدائی چند ماہ میں عمران خان نے بیوروکریسی کو فری ہینڈ بھی دیا تھا لیکن تین دہائیوں سے سیاست زدہ افسروں نے عمران خان کے اعتماد کو بری طرح ٹھیس پہنچائی اور اپنی وفاداریاں ریاست،حکومت اور عوام سے منسلک کرنے کی بجائے اپنے ان سیاسی آقاؤں کے ساتھ نبھائی ہیں جنہوں نے انہیں سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا اور پھر اپنی ذاتی ''افسر شاہی فورس'' کے طور پر ان کی ٹرانسفر پوسٹنگ، ترقی اور احتساب سے بچانے کیلئے آشیر باد فراہم کی۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے سول سروس کو سیاست زدہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ بیوروکریسی ''ن'' اس قدر طاقتور اور بااثر ہو گئی تھی کہ سول سروس میں ان افسروں کے خلاف بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی تھی اور بعض افسر تو اتنے زیادہ''شاہ کے وفادار'' تھے کہ وہ چیف سیکرٹری کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔میاں شہباز شریف کو ویسے بھی انڈر 19 ٹیم رکھنے کا شوق تھا کیونکہ جونیئر افسر اپنی پرکشش پوسٹنگ کیلئے ہر جائز و ناجائز کام کرنے کو زیادہ آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں۔
پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنایا جانا سول و پولیس افسر شاہی کیلئے بہت منافع بخش معاملہ بن گیا کیونکہ عثمان بزدار کو حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا جبکہ انہیں اپنی وزارت اعلیٰ کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے بھی دباؤ کا سامنا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی کابینہ میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام وزراء بھی اس اہلیت کے حامل نہیں تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو حکومت چلانے میں بامقصد اور بامعنی معاونت فراہم کر سکتے۔
حکومت کے ابتدائی ایام کے چیف سیکرٹریز اور آئی جیز نے بھی اپنی کارکردگی سے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی خوب مایوس کیا اور معاملہ جب زیادہ سنگینی اختیار کرنے لگا تو یوسف نسیم کھوکھر کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کردیا گیا ۔ یوسف نسیم کھوکھر کا شمار سول بیوروکریسی کے اچھے افسروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی بہت عمدگی کے ساتھ ذمہ داریاں نبھائی تھیں ۔
اس وقت یہ صورتحال ہے کہ عثمان بزدار اور یوسف نسیم کھوکھر کو حقیقی معنوں میں عوام دوست، ریاست اور حکومت کے وفادار اور پیشہ ورانہ طور پر مضبوط اور محنتی افسروں کی ٹیم بنانے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ چند ہفتے قبل جب وسیع پیمانے پر افسر شاہی میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی تو یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ یوسف نسیم کھوکھر کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے اور وفاقی سیکرٹری داخلہ میجر(ر) اعظم سلمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا جائے گا تاہم سپیکر پنجاب اسمبلی کی مبینہ مداخلت کی وجہ سے یوسف نسیم کھوکھر کا تبادلہ نہیں کیا گیا ہے۔
یوسف نسیم کھوکھر اپنی استعداد کے مطابق ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ پنجاب کے انتظامی امور کو بہتر طریقے سے چلایا جائے لیکن وہ بھی کیا کریں کہ تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود اصل حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سول اور پولیس بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے، ایوان وزیر اعلی، ایوان وزیراعظم ،بنی گالہ سمیت تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے طاقتور سیاستدانوں کی جانب سے افسروں کے تقرر وتبادلے کے حوالے سے سفارشیں ہوتی ہیں، بلکہ اب تو یہ باتیں زیادہ زور پکڑنے لگی ہیں کہ ''روحانی''حلقوں کے قرب والے افسر زیادہ پرکشش پوسٹنگ لے رہے ہیں اور روحانی حصار تک پہنچنے کیلئے سنٹرل پنجاب کے معروف میاں بیوی کا وسیلہ استعمال ہو رہا ہے۔
سردار عثمان بزدار کو اپنی بیوروکریٹک ٹیم کی جانب توجہ دینا چاہئے ، انہوں نے اپنے وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوشش کر کے دیکھ لی لیکن سیاست زدہ افسر خود کو بدلنے پر تیار نہیں ہیں، ان کی وفاداریاں اپنے سیاسی آقاوں یعنی ماضی کے حکمرانوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں اور مبینہ طور پر وہ اپنے محکموں میں ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور اپوزیشن کو تنقید کا موقع مل رہا ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو افسر میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے ''خاص الخاص'' تھے انہیں اب اہم عہدوں پر تعینات کیوں جا رہا ہے، تحریک انصاف کے اندر بھی ایسے افسروں کی تعیناتی پر بہت ناراضگی اور اشتعال پایا جاتا ہے اور بہت سے انصافین رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف میں آتے ہی وزیر اعلی بن جانے والے عثمان بزدار کو ن لیگی افسروں سے اتنی محبت کیوں ہے۔
موجودہ حکومت کو انتظامی طور پر بہتری لانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوںگے ، یہ بھی درست ہے کہ حکومت پر عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بعض معاملات میں دباو ہوتا ہے اور حکومت کے ہاتھ باندھ دئے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ کئی ماہ تک پنجاب میں تعینات ایک خاتون افسر کو تبدیل کرنے کیلئے پوری حکومت شدید کوشش کرتی رہی لیکن ایک عدالتی حکم آڑے آتا رہا اور اب کہیں جا کر اس افسر کا تبادلہ ممکن ہوا ہے جبکہ ایک اہم صوبائی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی ماتحت ایک افسر سر عام رشوت لیتی رہی اور اس کی پیسے وصول کرتے ویڈیوز بھی موجود ہیں لیکن وہ محکمانہ وزیر ہونے کے باوجود کئی ماہ تک اس افسر کو تبدیل نہیں کروا سکے۔
اسی طرح سیکرٹری فوڈ پنجاب نسیم صادق کے حوالے سے تحریک انصاف میں بہت تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ نسیم صادق کو میاں شہباز شریف کا نہایت خاص افسر قرار دیاجاتا ہے اور میاں شہباز شریف کے دس سالہ دور وزارت اعلی میں نسیم صادق چیف سیکرٹری سے بھی زیادہ طاقتور افسر شمار کئے جاتے تھے۔ حال ہی میں موجودہ حکومت نے انہیں سیکرٹری فوڈ تعینات کیا تھا لیکن نسیم صادق گندم خریداری مہم میں اہلیت ثابت نہیں کر سکے بلکہ فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ جنگ چھیڑ لی جس پر وزیر اعلی کی ہدایت پر چیف سیکرٹری نے مداخلت کر کے کمشنرز اور ڈی سی اوز کے ذریعے خریداری اہداف کو کسی حد تک مکمل کیا ہے۔
یہ صورتحال بھی عجب ہے کہ بہت سے اہل اور غیر معمولی افسروں کو چھوٹے محکموں میں تعینات کر کے ان کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے، جیسا کہ سیکرٹری ایکسائز نبیل اعوان، ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عثمان یونس، سیکرٹری مواصلات شہریار سلطان، سیکرٹری کوآرڈینیشن احمد عزیز تارڑ اور سیکرٹری سی ایم آفس آصف بلال لودھی جیسے افسروں کو اہم اور بڑے محکموں میں لا کر ان کی صلاحیت اور پیشہ ورانہ انرجی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔