پیپلز پارٹی کا وفاقی حکومت کیخلاف سندھ میں تحریک چلانے کا اعلان
ملک کے وسائل اور گورننس کے تحفظ کا وقت آگیا ہے۔
FAISALABAD:
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نئے مالی سال 2019-20 کے لیے 12 کھرب 17 ارب 89 کروڑ 79 لاکھ روپے کا بغیر خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جسے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان نے جگا ٹیکس، وڈیرہ ٹیکس اور عوام کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
بجٹ اخراجات کا تخمینہ 12 کھرب 17 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وفاقی حکومت سے صوبے کو 835 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ صوبائی حکومت کے محصولات کا ہدف 355 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 15 فیصد ایڈہاک اضافے اور محنت کشوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 17ہزار 500 روپے مقرر کرنے اور محکمہ پولیس میں 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ میں غربت میں کمی کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انتخابی وعدے کے مطابق '' پیپلز پرومس پروگرام '' بھی شروع کیا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جانتے بوجھتے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کو خطرے کے نشان پر رکھ دیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کر دی ہیں ۔11 ماہ میں 447 ارب روپے کی ریکارڈ کمی کے ساتھ ایف بی آرکی کارکردگی گذشتہ سال کے دوران کم ترین سطح پر رہی ہے نتیجے میں سندھ کو اس کے حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے ہی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں 117.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے اور اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سندھ کے حکمرانوں نے اپنی لوٹ مارکے لیے ہیر پھرکی ہے۔ نئے بجٹ کے مطابق 20 سے 25 لاکھ مالیت کے مالک چھوٹی کمپنیوں کو وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے میں بھی ٹیکس دینا ہو گا جوکہ غیر قانونی ہے اور اس سے مہنگائی میں اضافہ بھی ہوگا۔ صوبائی حکومت نے اضلاع کا بجٹ 30 ارب سے کم کر کے 20 ارب کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں برس صوبے کو وفاق سے قابل تقسیم پول کے حصے کا 25 فیصد زیادہ حصہ ملے گا ۔
اس بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہے، مہنگائی کی شرح میںبھی اضافہ ہوگا۔ صوبائی بجٹ عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ کی صوبائی حکومت نے مشکل حالات میں ایک بہتر بجٹ پیش کیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے اور نئی ملازمتوں سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے متعدد بار وفاق سے ادائیگیوں میں مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ صوبے کی ترقی راہ میں وفاقی حکومت کا رویہ رکاوٹ ہے لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی گزشتہ 11سال سے صوبے میں برسراقتدار ہے اور اس دوران وفاق میں اس کی اپنی حکومت بھی رہی ہے ۔گیارہ سال کے دوران پیپلزپارٹی عوام کے لیے وہ اقدامات نہیں کر سکی ہے جو اس کو کرنا چاہیے تھے۔ اپوزیشن کی تنقید کو محض تنقید برائے تنقید کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اضلاع کے بجٹ اور ٹیکسز کے حوالے سے ان کا موقف درست نظر آتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے ملک میں مہنگائی، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، وفاقی حکومت 2019-20 کے عوام دشمن بجٹ اور وفاقی حکومت و نیب کی انتقامی کارروائیوں کے خلاف 23 جون سے کراچی سمیت سندھ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ احتجاجی مظاہروں اور ریلی سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قائدین خطاب کریں گے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ ہماری عوامی رابطہ مہم مہنگائی، وفاقی حکومت و نیب کی انتقامی کاروائیوں اور معاشی دہشت گردی کے خلاف ہے۔
ہم آئین، جمہوریت، 18 ویں ترمیم کے تحفظ ، انسانی اور عوامی حقوق کی جدوجہد سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ہمارے جن جن لوگوں پر نیب نے جھوٹے کیسز بنائے ہیں وہ آج بھی ان کا عدالتوں میں قانونی طریقے سے سامنا کر رہے ہیں اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں عدالتوں سے انصاف کی توقع ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ موجودہ حالات میں اس کے لیے کسی بڑے ریلیف ملنے کا امکانات کم ہوگئے ہیں اور احتجاج ہی ایک واحد راستہ بچا ہے، جس کے ذریعہ وہ حکومت کو دباؤ میں لاسکتی ہے۔ یہاں یہ بات مد نظر رکھنا ہوگی کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے،اس لیے احتجاجی تحریک کا پرامن ہونا انتہائی ضروری ہے۔
یقینی طور پر پیپلزپارٹی کو بھی اس بات کا احساس ہے اوروہ ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گی ،جس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا خدشہ ہو، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی اپنے کارکنوں اور عوام کو اس احتجاجی تحریک میں متحرک کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیںاور یہی پارٹی قیادت کا امتحان ہوگا۔
جہاں ایک جانب پیپلزپارٹی نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے وہیں گرینڈڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) نے صاف شفاف احتساب کے لیے سندھ حکومت کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا کا کہنا ہے کہ سندھ میں کرپشن اور زرعی تباہی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ملک کے وسائل اور گورننس کے تحفظ کا وقت آگیا ہے۔
عدالتیں سندھ میں جرائم، خراب حکمرانی اور کرپشن کا نوٹس لیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کی سیاسی صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔ پیپلزپارٹی خود اپنی ہی حکومت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے جا رہی ہے تو اپوزیشن کے ایک بڑے سیاسی اتحاد نے سندھ حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کردیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں سندھ سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد صوبے میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی باتیں ہونا بھی شروع ہوگئی ہیں اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ارکان سند ھ اسمبلی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ پیپلزپارٹی نے موجود ہ حالات میں اگر دور اندیش فیصلے نہیں کیے تو آنے والے دنوں میں اس کے لیے سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نئے مالی سال 2019-20 کے لیے 12 کھرب 17 ارب 89 کروڑ 79 لاکھ روپے کا بغیر خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جسے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان نے جگا ٹیکس، وڈیرہ ٹیکس اور عوام کے ساتھ ظلم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
بجٹ اخراجات کا تخمینہ 12 کھرب 17 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وفاقی حکومت سے صوبے کو 835 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ صوبائی حکومت کے محصولات کا ہدف 355 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 15 فیصد ایڈہاک اضافے اور محنت کشوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 17ہزار 500 روپے مقرر کرنے اور محکمہ پولیس میں 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ میں غربت میں کمی کے لیے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے انتخابی وعدے کے مطابق '' پیپلز پرومس پروگرام '' بھی شروع کیا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی بجٹ تقریر میں وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جانتے بوجھتے پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کو خطرے کے نشان پر رکھ دیا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کر دی ہیں ۔11 ماہ میں 447 ارب روپے کی ریکارڈ کمی کے ساتھ ایف بی آرکی کارکردگی گذشتہ سال کے دوران کم ترین سطح پر رہی ہے نتیجے میں سندھ کو اس کے حصہ سے محروم رکھا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے ہی حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں 117.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے اور اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سندھ کے حکمرانوں نے اپنی لوٹ مارکے لیے ہیر پھرکی ہے۔ نئے بجٹ کے مطابق 20 سے 25 لاکھ مالیت کے مالک چھوٹی کمپنیوں کو وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے میں بھی ٹیکس دینا ہو گا جوکہ غیر قانونی ہے اور اس سے مہنگائی میں اضافہ بھی ہوگا۔ صوبائی حکومت نے اضلاع کا بجٹ 30 ارب سے کم کر کے 20 ارب کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں برس صوبے کو وفاق سے قابل تقسیم پول کے حصے کا 25 فیصد زیادہ حصہ ملے گا ۔
اس بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں ہے، مہنگائی کی شرح میںبھی اضافہ ہوگا۔ صوبائی بجٹ عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ کی صوبائی حکومت نے مشکل حالات میں ایک بہتر بجٹ پیش کیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے اور نئی ملازمتوں سے عوام کو ریلیف ملے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے متعدد بار وفاق سے ادائیگیوں میں مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ صوبے کی ترقی راہ میں وفاقی حکومت کا رویہ رکاوٹ ہے لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی گزشتہ 11سال سے صوبے میں برسراقتدار ہے اور اس دوران وفاق میں اس کی اپنی حکومت بھی رہی ہے ۔گیارہ سال کے دوران پیپلزپارٹی عوام کے لیے وہ اقدامات نہیں کر سکی ہے جو اس کو کرنا چاہیے تھے۔ اپوزیشن کی تنقید کو محض تنقید برائے تنقید کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اضلاع کے بجٹ اور ٹیکسز کے حوالے سے ان کا موقف درست نظر آتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے ملک میں مہنگائی، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، وفاقی حکومت 2019-20 کے عوام دشمن بجٹ اور وفاقی حکومت و نیب کی انتقامی کارروائیوں کے خلاف 23 جون سے کراچی سمیت سندھ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ احتجاجی مظاہروں اور ریلی سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قائدین خطاب کریں گے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ ہماری عوامی رابطہ مہم مہنگائی، وفاقی حکومت و نیب کی انتقامی کاروائیوں اور معاشی دہشت گردی کے خلاف ہے۔
ہم آئین، جمہوریت، 18 ویں ترمیم کے تحفظ ، انسانی اور عوامی حقوق کی جدوجہد سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ ہمارے جن جن لوگوں پر نیب نے جھوٹے کیسز بنائے ہیں وہ آج بھی ان کا عدالتوں میں قانونی طریقے سے سامنا کر رہے ہیں اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں عدالتوں سے انصاف کی توقع ہے۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ موجودہ حالات میں اس کے لیے کسی بڑے ریلیف ملنے کا امکانات کم ہوگئے ہیں اور احتجاج ہی ایک واحد راستہ بچا ہے، جس کے ذریعہ وہ حکومت کو دباؤ میں لاسکتی ہے۔ یہاں یہ بات مد نظر رکھنا ہوگی کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت ہے،اس لیے احتجاجی تحریک کا پرامن ہونا انتہائی ضروری ہے۔
یقینی طور پر پیپلزپارٹی کو بھی اس بات کا احساس ہے اوروہ ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گی ،جس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا خدشہ ہو، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی اپنے کارکنوں اور عوام کو اس احتجاجی تحریک میں متحرک کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیںاور یہی پارٹی قیادت کا امتحان ہوگا۔
جہاں ایک جانب پیپلزپارٹی نے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے وہیں گرینڈڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) نے صاف شفاف احتساب کے لیے سندھ حکومت کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ جی ڈی اے کے سربراہ پیر صاحب پگارا کا کہنا ہے کہ سندھ میں کرپشن اور زرعی تباہی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ملک کے وسائل اور گورننس کے تحفظ کا وقت آگیا ہے۔
عدالتیں سندھ میں جرائم، خراب حکمرانی اور کرپشن کا نوٹس لیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کی سیاسی صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔ پیپلزپارٹی خود اپنی ہی حکومت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے جا رہی ہے تو اپوزیشن کے ایک بڑے سیاسی اتحاد نے سندھ حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کردیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں سندھ سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد صوبے میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی باتیں ہونا بھی شروع ہوگئی ہیں اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پیپلزپارٹی کے ارکان سند ھ اسمبلی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ پیپلزپارٹی نے موجود ہ حالات میں اگر دور اندیش فیصلے نہیں کیے تو آنے والے دنوں میں اس کے لیے سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔