صوبائی بجٹ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے گا وزیر اعلیٰ کا دعویٰ
آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ سے عوام کا حکومت اور حکومتی اداروں پر اعتماد مستحکم ہوگا۔
بلوچستان کے مالی سال2019-20 کا بجٹ19 جون یعنی آج پیش کیا جا رہا ہے۔
وزیراعلیٰ جام کمال خان کا کہنا ہے کہ صوبائی بجٹ ایک عوام دوست بجٹ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی معنوں میں عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کرے گا ۔ ماضی میں روایات سے ہٹ کر پی ایس ڈی پی کی تیاری کیلئے محکموں نے عملی طور پر کام کیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ سے عوام کا حکومت اور حکومتی اداروں پر اعتماد مستحکم ہوگا۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی پروگرام میں ایسے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جن پر عملدرآمد سے غربت کا خاتمہ، مقامی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ، روزگار کے بہتر مواقع کی فراہمی، پیداواری شعبوں کی ترقی اور صوبے کے وسائل میں اضافے کے ذریعے خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنا ممکن ہو سکے گا ۔ منصوبوں میں صحت، تعلیم، انسانی وسائل، اِسکل ڈیویلپمنٹ، مواصلات، زراعت، ماہی گیری، معدنیات ، لائیو سٹاک، پانی، توانائی اور سیاحت جیسے شعبوں کی ترقی کو ترجیح حاصل رہے گی ۔
وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی پی ایس ڈی پی عوامی مسائل کے حل اور اُنہیں بہتر سہولتوں کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے ۔ تاہم ماضی میں کبھی بھی صحیح معنوں میں بھرپور نظم و نسق کے ساتھ اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔ پی ایس ڈی پی کے ذریعے سکول، ہسپتال، سڑکیں، پولی ٹیکنیک ادارے، کالجز، واٹر سپلائی اسکیمیں، ڈیمز اور دیگر منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ ہمیں عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا کہ ان کے پیسے انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے ۔ عوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے یہ سال بہت اہمیت کا حامل ہے اس حوالے سے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کی پی ایس پی ڈی پی میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ہم نے صوبے کی ترقی کی سمت کا تعین کیا ہے اور آنے والا بجٹ ترقی کے سفر کا آغاز ثابت ہوگا ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے 20 فیصد حصہ دینے اور صوبے کے منصوبوں کی شمولیت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بلوچستان کی موجودہ حکومت کے موقف کو ایک مرتبہ پھر دوہرایا ہے کہ وفاق سے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا جو حق بنتا ہے وہ ضرور لیں گے ۔
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20ء کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، خصوصاً صوبائی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو صوبائی مخلوط حکومت سے تحفظات ابھی تک ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے پہلے ہی احتجاج کی دھمکی دے چکی ہیں۔
19 جون کو پیش ہونے والے صوبائی بجٹ میں اپوزیشن جماعتیں کیا حکمت عملی اپناتی ہیں یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ حکومتی ارکان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ صوبائی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن کے جو تحفظات تھے اُنہیں کافی حد تک دور کر لیا گیا ہے اور صوبائی بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن جماعتیں بھی اُن کی حمایت کریں گی۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ ابھی تک حکومت اُنہیں پی ایس ڈی پی پر مطمئن نہیں کر سکی ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبائی مخلوط حکومت اگر صوبائی پی ایس ڈی پی پر اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن نہیں کر پائی تو بلاشبہ بجٹ اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوگا ۔ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور تیاری کرکے اسمبلی اجلاس میں آئیں گی ۔
بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جام حکومت اپنا یہ بجٹ اسمبلی سے تو منظور کرا لے گی لیکن آگے چل کر سیاسی لحاظ سے اُس کے لئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں جس کے لئے اپوزیشن جماعتیں بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام (ف) ہوم ورک کر رہی ہیں ۔ بی این پی کی قیادت تو تواتر کے ساتھ جام حکومت پر تنقید کر رہی ہے اس کی قیادت کا کہنا ہے کہ جام حکومت صوبے کی کمزور ترین حکومت ہے اس میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ صوبے کے حقوق پر اسٹینڈ لے سکے ۔ جام حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں بی این پی ، جے یو آئی (ف) سمیت بلوچستان اسمبلی کے آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا تہیہ کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن بجٹ اجلاس میں بھی جام حکومت کو ٹف ٹائم دے گی اور اپنے نمبر آف گیم کو پورا کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کرے گی جس کا اظہار بی این پی کی مرکزی قیادت بارہا کر چکی ہے کہ بعض حکومتی ارکان ان کے رابطے میں ہیں ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جام حکومت اپنے حکومتی ارکان کو آئندہ مالی سال کے بجٹ اور پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں کس قدر مطمئن کر پاتی ہے جس پر وہ عمل کر رہی ہے۔ اگر وہ اس حکمت عملی میں کامیاب ہوگئی تو پھر اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا ۔ اُنہیں اپنی نمبر آف گیم پوری کرنے میں بھی مشکلات ہوں گی اور ساتھ ہی ساتھ تحریک عدم اعتماد بھی پیش نہیں کر پائے گی جس کا وہ کافی عرصے سے شور مچائے ہوئے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال صحیح سیاسی پتے کھیلتے ہیں یا اپوزیشن جماعتیں؟ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے صورتحال واضح ہو جائے گی ۔
وزیراعلیٰ جام کمال خان کا کہنا ہے کہ صوبائی بجٹ ایک عوام دوست بجٹ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی معنوں میں عوام کی اُمنگوں کی ترجمانی کرے گا ۔ ماضی میں روایات سے ہٹ کر پی ایس ڈی پی کی تیاری کیلئے محکموں نے عملی طور پر کام کیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ سے عوام کا حکومت اور حکومتی اداروں پر اعتماد مستحکم ہوگا۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی پروگرام میں ایسے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جن پر عملدرآمد سے غربت کا خاتمہ، مقامی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ، روزگار کے بہتر مواقع کی فراہمی، پیداواری شعبوں کی ترقی اور صوبے کے وسائل میں اضافے کے ذریعے خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنا ممکن ہو سکے گا ۔ منصوبوں میں صحت، تعلیم، انسانی وسائل، اِسکل ڈیویلپمنٹ، مواصلات، زراعت، ماہی گیری، معدنیات ، لائیو سٹاک، پانی، توانائی اور سیاحت جیسے شعبوں کی ترقی کو ترجیح حاصل رہے گی ۔
وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی پی ایس ڈی پی عوامی مسائل کے حل اور اُنہیں بہتر سہولتوں کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے ۔ تاہم ماضی میں کبھی بھی صحیح معنوں میں بھرپور نظم و نسق کے ساتھ اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔ پی ایس ڈی پی کے ذریعے سکول، ہسپتال، سڑکیں، پولی ٹیکنیک ادارے، کالجز، واٹر سپلائی اسکیمیں، ڈیمز اور دیگر منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ ہمیں عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا کہ ان کے پیسے انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے ۔ عوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے یہ سال بہت اہمیت کا حامل ہے اس حوالے سے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کی پی ایس پی ڈی پی میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ہم نے صوبے کی ترقی کی سمت کا تعین کیا ہے اور آنے والا بجٹ ترقی کے سفر کا آغاز ثابت ہوگا ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کیلئے 20 فیصد حصہ دینے اور صوبے کے منصوبوں کی شمولیت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بلوچستان کی موجودہ حکومت کے موقف کو ایک مرتبہ پھر دوہرایا ہے کہ وفاق سے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا جو حق بنتا ہے وہ ضرور لیں گے ۔
بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20ء کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، خصوصاً صوبائی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کو صوبائی مخلوط حکومت سے تحفظات ابھی تک ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے پہلے ہی احتجاج کی دھمکی دے چکی ہیں۔
19 جون کو پیش ہونے والے صوبائی بجٹ میں اپوزیشن جماعتیں کیا حکمت عملی اپناتی ہیں یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ حکومتی ارکان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ صوبائی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن کے جو تحفظات تھے اُنہیں کافی حد تک دور کر لیا گیا ہے اور صوبائی بجٹ کی منظوری میں اپوزیشن جماعتیں بھی اُن کی حمایت کریں گی۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اس حوالے سے یہ موقف ہے کہ ابھی تک حکومت اُنہیں پی ایس ڈی پی پر مطمئن نہیں کر سکی ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبائی مخلوط حکومت اگر صوبائی پی ایس ڈی پی پر اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن نہیں کر پائی تو بلاشبہ بجٹ اجلاس انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوگا ۔ اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ بھرپور تیاری کرکے اسمبلی اجلاس میں آئیں گی ۔
بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جام حکومت اپنا یہ بجٹ اسمبلی سے تو منظور کرا لے گی لیکن آگے چل کر سیاسی لحاظ سے اُس کے لئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں جس کے لئے اپوزیشن جماعتیں بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام (ف) ہوم ورک کر رہی ہیں ۔ بی این پی کی قیادت تو تواتر کے ساتھ جام حکومت پر تنقید کر رہی ہے اس کی قیادت کا کہنا ہے کہ جام حکومت صوبے کی کمزور ترین حکومت ہے اس میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ صوبے کے حقوق پر اسٹینڈ لے سکے ۔ جام حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں بی این پی ، جے یو آئی (ف) سمیت بلوچستان اسمبلی کے آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی نے جام حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا تہیہ کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن بجٹ اجلاس میں بھی جام حکومت کو ٹف ٹائم دے گی اور اپنے نمبر آف گیم کو پورا کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کرے گی جس کا اظہار بی این پی کی مرکزی قیادت بارہا کر چکی ہے کہ بعض حکومتی ارکان ان کے رابطے میں ہیں ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جام حکومت اپنے حکومتی ارکان کو آئندہ مالی سال کے بجٹ اور پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں کس قدر مطمئن کر پاتی ہے جس پر وہ عمل کر رہی ہے۔ اگر وہ اس حکمت عملی میں کامیاب ہوگئی تو پھر اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا ۔ اُنہیں اپنی نمبر آف گیم پوری کرنے میں بھی مشکلات ہوں گی اور ساتھ ہی ساتھ تحریک عدم اعتماد بھی پیش نہیں کر پائے گی جس کا وہ کافی عرصے سے شور مچائے ہوئے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال صحیح سیاسی پتے کھیلتے ہیں یا اپوزیشن جماعتیں؟ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے صورتحال واضح ہو جائے گی ۔