ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

بدھوں کے نزدیک جانوروں اور حشرات الارض کے حقوق مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں


August 28, 2012
[email protected]

برما (میانمار) جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ ڈھائی لاکھ مربع میل ہے۔ دارالحکومت رنگون (یانگون) ہے،کل 14 صوبے ہیں۔ آبادی تقریباً سات کروڑ ہے، جس میں اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے۔ دیگر مذاہب کے مقابلے میں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں۔ صوبہ اراکان میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ 1886سے 1948تک برما پر برطانوی سامراج کی حکومت رہی۔ 1948 میں برما کو آزادی ملی تو صوبۂ اراکان ایک مکمل آزاد مسلمان ریاست تھی، جس کا برما سے قطعی کوئی تعلق نہ تھا۔ خود صوبہ اراکان کے مسلمانوں کا بھی یہ مطالبہ تھا کہ اس صوبے کا الحاق مشرقی پاکستان کے ساتھ کر دیا جائے۔ 1948 میں برما کے راجا نے اراکان پر حملہ کر کے اسے جبراً برما کا صوبہ بنالیا۔ اس صوبے میں آج بھی بدھ مت برائے نام ہی ہیں۔

آج برما میں مسلمانوں کے ساتھ تاریخ کا بدترین ظلم ہو رہا ہے۔ آج پوری تاریخِ انسانی میں سفّاکیت کی ہولناک تاریخ رقم ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بدھوں کے نزدیک جانوروں اور حشرات الارض کے حقوق مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ برما میں گزشتہ چند ماہ سے انسانیت سوز مظالم ڈراما رچایا جا رہا ہے، اس کے بے حس تماشائی اقوام متحدہ سمیت پورا عالم اسلام و مسلم امّہ بھی ہے۔ ہمارے کٹھ پتلی حکمراں اور مصلحت اندیش علماء مسلسل خاموش تماشائی بنے رہنے کے باعث لاشعوری طور پر اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار OIC بھی ایک غیر موثر ادارہ ہے۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آج وہ عظیم و تاریخ ساز مسلم حکمراں اب قصّہ پارینہ بن چکے ہیں کہ جو سندھ کے ساحل دیبل سے ایک مظلوم عورت کی درد بھری صدا سن کر شمشیر بکف ہو کر اور کفن سر پر باندھ کر نکل پڑتے تھے، نیز اب عام مسلمانوں میں بھی وہ جذبۂ اخوت و بھائی چارہ اور ہمدردی نہ رہی کہ خود پانی کے ہاتھوں جاں بلب ہوتے تھے لیکن دوسرے زخمی کی کراہ سن کر سقے کو اس کی طرف بھیج دیتے تھے۔ تاہم اس تمام صورت حال کے باوجود ہمارے نزدیک اسلامی تعلیمات کی رو سے مایوسی کفر ہے اور ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، اﷲ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور اﷲ کی مدد آیا ہی چاہتی ہے اور قادرِ مطلق ہر چیز پر قادر ہے۔ احادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ جلد ہی نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی، ایسی خلافت جو پوری دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہو گی جس کے بعد عدل و انصاف کا دور دورہ شروع ہوگا اور ظلم و ناانصافی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔

مسلمانوں پر تاریخ میں جو سخت ترین ادوار آئے ہیں، انھی میں موجودہ دور بھی سرفہرست ہے بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو موجودہ دور میں عالمِ اسلام کے خلاف ملتِ کافرہ کا اتحاد گزشتہ تمام اتحادوں سے بڑا اور قوت و وسائل کے اعتبار سے بڑھ کر ہے لیکن اسلام ایک زندہ دین ہے، باطل کے سامنے دبنے کے بجائے حکمت و بصیرت، دانائی، صبر و تحمل نیز غیرت و شجاعت اور حمیت کے ساتھ مقابلہ کرنا سِکھاتا اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کی مدد و نصرت اور حمایت و تعاون کے لیے ابھارتا ہے۔ ''اسلامی اخوت'' ایک مقدس اور ناقابل فراموش تاریخی رشتہ ہے، جس سے تاریخِ اسلام کے تمام اوراق جگمگا رہے ہیں۔ آج بھی اسی اسلامی اخوت کے جذبے کو بیدار رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا درد جو لوگ اپنے دِلوں میں اجاگر رکھتے ہیں وہ اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ بیت رضوان، غزوۂ تبوک الغرض ایک پوری تاریخ ہے جو جگمگا رہی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمان حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک حصّے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم اس تکلیف سے متاثر ہوتا ہے۔ آج مسلمانوں کے اس جسد ملی کا ایک بہت بڑا حصّہ خوشیوں سے محروم اور کفار کے ظلم و ستم کا شکار نیز اپنوں ہی کی بے حسی کا شاہکار بن چکا ہے۔ آج فلسطین سے لے کر عراق تک اور کشمیر سے لے کر افغانستان تک فرزندانِ توحید جس جبرِ مسلسل، ہولناک قتل و غارت گری کا شکار ہیں، بے گور و کفن لاشوں سے اٹے یہ مسلمانوں کے شہر، جلا کر خاکستر کی گئیں اسلامی آبادیاں، تلواروں اور ترشولوں سے کٹے پھٹے نوجوان اور آہ و بکا کرتی عزت بچاتی مسلمان خواتین، بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت پر مجبور یہ بے چارے کمزور مسلمان... ایک حسّاس دل کی نیندیں اڑانے اور اسے بے قرار کرنے کے لیے کیا کافی نہیں؟

برما کا ذکر مذکورہ بالا سطور میں کرچکا ہوں جہاں مسلمانوں پر ایک قیامت بیت رہی ہے، ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے قتل کردیے گئے ہیں اور ہزاروں ہی بے گھر اور بے در مارے مارے پھر رہے ہیں۔ تمام عالمی اداروں نے اس وحشت ناک قتل عام پر چپ سادھ رکھی ہے۔ قبلۂ اوّل مسجدِ اقصیٰ بھی ابھی تک یہودیوں کے پنجۂ ستم میں سسک رہی ہے۔ جامع قرطبہ جسے سات سو برس تک مسلمانوں نے اپنی اذانوں اور سجدوں سے آباد رکھا، آج وہاں سرعام ہلا گلا ہو رہی ہیں، بابری مسجد کب سے اپنی شہادت پر نوحہ کناں ہے۔

فلسطینی مسلمان اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے ساٹھ برس سے زیادہ بِتا چکے ہیں مگر تمام دنیاوی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہ ہیں، افغانستان پر صلیبی پرچم ابھی تک لہرا رہا ہے اور افغانستان کے مظلوم مسلمان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں تاحال پس رہے، کشمیر میں آج بھی مسلمان ماں، بہن اور بیٹی کی عزت و عصمت محفوظ نہیں۔ عراق انبیاء علیہم السلام کی سرزمین پر ابھی تک صلیبی افواج قابض ہیں اور وہ اس کو ایک باج گزار ریاست کے طور پر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ الغرض آج پوری مسلم امّہ کی عالمی بے چارگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور عالمِ اسلام کی مظلومیت سے بھرپور حالت زار تاریخ کے سینے پر مسلسل رقم ہو رہی ہے۔

آج عالمی افق پر رونما ہوتے ہوئے یہ قدیم و جدید ظلم و ستم سے بھرپور تاریخی و زمینی حقائق تمام بڑی عالمی طاقتوں، انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں کی نہ صرف مستحق ہیں بلکہ چیخ چیخ کر کٹھ پتلی اقوام متحدہ سے بھی انسانی حقوق کے تناظر میں عدل و انصاف اور رحم و کرم کے متقاضی ہیں۔ دوسری جانب مسلمانوں کے یہ انتہائی مخدوش حالات اس امر کا شدّت سے تقاضا کرتے ہیں کہ پوری مسلم امّہ و عالمِ اسلام اپنے باہمی اختلافات و انتشار کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے وسیع تر مفاد اور مضبوط ترین دائمی بنیادوں پر اسلامی اخوت و عالمگیر اخوت کے پیش نظر مثالی اتحاد کا نمونہ پیش کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ورنہ دشمنانِ اسلام تو ازل سے تاامروز اسلام اور اہلِ اسلام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ بقول اقبال:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرار بوالہبی

لیکن اسلام کی حفاظت کا ذمہ چونکہ خود اﷲ عزوجل نے لیا ہے اور جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ جب تمام عالم پر صرف ایک جھنڈا لہرائے گا۔ اسلام کا جھنڈا!! لہٰذا یہی وجہ ہے کہ:

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں