عدل

کوئی بھی ملک اور معاشرہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے کرپشن و...

ایم جے گوہر

آپ دنیا کے تمام ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہر ملک، قوم اور معاشرے میں کرپشن، بدعنوانی، بے ایمانی، چوری، ڈاکہ زنی، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، دھوکا دہی، جھوٹ، فریب کاری، رشوت، سفارش، اقربا پروری اور قومی دولت و ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ایک گمبھیر مسئلے کی صورت میں نظر آئے گی۔ دنیا کے انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی کی بلندیوں کو چھونے والے ممالک بھی اس پیچیدہ مسئلے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ اس مرض کے جڑ سے خاتمے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔

کرپٹ و بدعنوان عناصر کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنی ہوس میں اندھے ہو کر تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ بالخصوص حکومتوں میں رہنے والے بدعنوان سیاست دان، بیوروکریٹس اور دیگر با اختیار لوگ اپنی عاقبت کی پروا کیے بغیر دونوں طریقوں سے قومی دولت و ملکی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعے اپنے مال و اسباب و جائیدادوں میں اضافہ کرنے میں مست نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ملکوں، قوموں اورمعاشروں میں ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔

یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ کرپشن و بدعنوانی سے معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں، خرابیاں اور مسائل جنم لیتے ہیں جس سے نہ صرف اخلاقی، سماجی و معاشرتی اقدار متاثر ہوئی ہیں بلکہ اقتصادی و معاشی عدم مساوات اور نا انصافی کا کلچر فروغ پاتا ہے، نتیجتاً معاشرے کے مختلف طبقوںکے درمیان کشمکش کے باعث خلیج پیدا ہو جاتی ہے اور منظم معاشرہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھرنے لگتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بدعنوانی، کرپشن اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے باعث قومی دولت اور ملکی وسائل محض چند طریقوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں اور عام آدمی کی مشکلات و مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام الناس کی اکثریت بے روزگاری، غربت و افلاس، بھوک، بیماری کے اندھیروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے کروڑوں کی تعداد میں لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، انھیں دو وقت کی روٹی، رہنے کے لیے مکان، پینے کا صاف پانی، بچّوں کی تعلیم، طبی سہولتیں اور باعزت روزگار جیسی آسانیاں حاصل نہیں ہیں جب کہ حکمراں طبقے سے وابستہ اثر و رسوخ کے حامل امرا و رئوسا اور صاحب اختیار لوگوں کو دنیا جہاں کی نعمتیں، آسائشیں، آسانیاں اور مراعات حاصل ہیں۔ دنیا کی ہر شے ان کی دسترس میں ہے اور وہ ایک بھرپور اور پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔


ہر چند کہ کرپشن و بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ہر ملک نے اپنے اپنے نظام ہائے حکومت کے تحت ضابطے و قوانین بنا رکھے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی بھی ملک اور معاشرہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے کرپشن و بدعنوانی کا جڑ سے خاتمہ کر دیا۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز بھی ایک طویل عرصے سے دنیا کے بدعنوان اور کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں پر کرپشن و بدعنوانی کے مبینہ الزامات لگتے رہے ہیں، بعینہ حکمراں طبقے سے وابستہ لوگوں کی بدعنوانی و کرپشن کے قصّے کہانیاں اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں، نہ صرف حکمراں طبقہ بلکہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں سے متعلق لوگ بھی کرپشن و بدعنوانی کی گنگا میں ہاتھ دھونے اور دنیا بھر میں ملک و قوم کی بدنامی و رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیں، قیادت سے عدالت تک، سیاست سے صحافت تک اور معیشت سے معاشرت تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے حوالے سے ایک ناخوش گوار اور افسوس ناک تاثر جنم لے رہا ہے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل نہیں ہے کیونکہ یہ ملک سماجی و معاشی ناانصافی اور بدعنوانی و کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے اور کرپٹ عناصر کو حکمران طبقے کے طاقتور لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے، نتیجتاً بدعنوان لوگ قانون کی گرفت سے محفوظ آزادی کے ساتھ قومی و ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر سرکاری و حکومتی ادارے کو کرپشن کی آکاس بیل نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک عام آدمی رشوت اور سفارش کے بغیر اپنا جائز کام بھی نہیں کروا سکتا۔

سرکاری و نیم سرکاری شعبوں کو کرپشن و بدعنوانی کے عفریت سے نجات دِلانے اور قوم کو حکمراں طبقے کے بدعنوان عناصر اور معاشرے کے دیگر با اثر کرپٹ لوگوں کی بدعنوانیوں اور لوٹ مار سے محفوظ رکھنے اور ایسے لوگوں سے لوٹی ہوئی قومی دولت کی وصولیابی کے لیے ایک عشرہ قبل جب قومی احتساب بیورو المعروف نیب کا محکمہ قائم کیا گیا تو امید تھی کہ وطنِ عزیز سے بدعنوانی کی نحوستوں کا خاتمہ ہو جائے گا، ہر چند کہ اس ادارے نے بدعنوانی میں ملوث کرپٹ عناصر سے کروڑوں روپے وصول کیے اور نیب کی کارکردگی میں اضافے کے لیے قوانین بھی وضع کیے تاہم کرپشن کی لعنت کا کلیتاً خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔

نیب کے علاوہ بھی کئی حکومتی ادارے بدعنوانی کو کنٹرول کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں جن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکائونٹس کمیٹیاں بھی شامل ہیں جو مختلف سرکاری محکموں اور اعلیٰ سرکاری و حکومتی ارکان کی بدعنوانیوں اور قانون شکنی کی نشان دہی کرتی ہیں اور مزید کارروائی کرنے کی سفارش بھی کرتی ہیں لیکن بدعنوان وکرپٹ عناصر اپنی چالاکیوں، فن کاریوں اور چیرہ دستیوں سے باز نہیں آتے اور اپنے ''ٹارگٹ'' کو حاصل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، یہ بھی ہماری بدنصیبی ہے کہ عوام النّاس ہر سماجی و معاشرتی برائیوں، کمزوریوں اور خامیوں کے خاتمے کے لیے حکومت سے اس کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کرنے کی امید باندھ لیتے ہیں اور خود آگے بڑھ کر اپنی اخلاقی و سماجی ذمے داری ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے برائی ہوتا دیکھا کر منہ دوسری جانب پھیر لیتے ہیں، جس سے بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بدعنوانی وکرپشن کے خلاف عوامی سطح پر بھی موثر و مربوط ردّعمل کا اظہار اس کی حوصلہ شکنی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور حکومت مل کر بدعنوانی و کرپشن سے پاک صاف ستھرے سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام میں اپنا اپنا کردار پوری ایمان داری و مستعدی سے ادا کریں۔ نیب کے ادارے کو مزید فعال بنایا جائے بلا امتیاز قوانین کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے، قومی زندگی کے تمام شعبوں اور ریاست کے تمام اداروں کو احتساب کے دائرہ کار میں لایا جائے کہ ''عدل'' کا تقاضا یہی ہے۔
Load Next Story