مشفق خواجہ…
مشفق خواجہ نے بڑا وقیع اور معیاری کام اپنی یادگار چھوڑا ہے
یادش بخیر مشفق خواجہ ہماری علمی و ادبی دنیا میں ایک بلند مقام پر فائز ہیں۔ ان کی شخصیت بڑی پہلودار تھی۔ محقق' ناقد' شاعر' ادیب' مزاح نگار' غرض کسی خانے میں بند نہیں تھے۔ ''ہرہفت'' کی اصطلاح ان پر صادق آتی ہے۔ انھوں نے بڑا وقیع اور معیاری کام اپنی یادگار چھوڑا ہے اور اس سے کئی گنا زیادہ تحریری کام غیرمطبوعہ یا نامکمل حالت میں چھوڑ گئے ہیں۔ یہی نہیں وہ نہایت مہذب' نفیس طبع' بردبار' مرنجاں مرنج اور بڑے منضبط ذہن کے مالک تھے۔ کسی کی دل آزاری گوارا نہ کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کے بارے میں نامناسب بات کہتا یا الزام تراشی کرتا تو طرح دے جاتے۔ کبھی مجبوراً کچھ کہنا بھی پڑتا تو رد جواب میں حسن خطاب سے کام لیتے اور اصول و آداب کا خیال رکھتے تھے۔ ان کی خوش باشی اور شگفتگی بھی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی جس نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگا دیے تھے۔
میرے اور خواجہ صاحب کے خاندانوں میں پرانے تعلقات تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید کا لاہور میں میرے دادا جان (حافظ محمود شیرانی) سے میل جول تھا۔ ان کے تایا خواجہ عبدالمجید (صاحب جامع اللغات) کے بیٹے خواجہ محمود اور داماد میاں محمد حسن سے میرے والد (اختر شیرانی) کی گاڑھی چھنتی تھی۔ خواجہ محمود اور اختر صاحب نے ''جامع اللغات'' کے کام میں ہاتھ بٹایا تھا۔ میاں محمد حسن اور محمد عمر فاروق نے اختر صاحب کے ساتھ مل کر 1934-35میں لاہور سے ایک رسالہ ''اختر'' نکالا تھا۔ اس کے سرورق پر نگارندۂ خصوصی کی حیثیت سے اختر صاحب کا نام تھا۔
اس کے چند شمارے ہی شایع ہو سکے تھے۔مشفق خواجہ صاحب اور میں ہم عمر تھے۔ دونوں کی پیدائش 1935 کی تھی۔ میٹرک دونوں نے 1952 میں کیا اور ایم اے 1958 میں۔ اتفاق سے دونوں کی شادیاں بھی 1964 میں ہوئیں۔ فرق یہ تھا کہ وہ لڑکپن میں لاہور سے کراچی چلے گئے اور میں سندھ سے پنجاب آ گیا تھا۔ خواجہ صاحب کی مقبولیت کا راز صاحبان علم کی خدمت' طالبان علم کی معاونت اور تشنگان ادب کی رہنمائی میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں وہ درمے' قدمے' سخنے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی سی تھی جو بھٹکے ہوئے جہازوں اور کشتیوں کے لیے نشان منزل ہوتا ہے۔
وہ ضروری حوالوں کی نشاندہی کرنے' تلازمے فراہم کرنے' متعلقہ کتب و رسائل کے عکس تیار کروانے اور ضرورت مندوں کو روانہ کرنے بلکہ اصل کتابیں اور دستاویزات ارسال کرنے پر ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ مشفق محض ان کا نام ہی نہ تھا عملاً بھی وہ سراپا شفقت تھے۔ صوفیا کے مختلف مدارج میں ایک مرتبہ قطب کا ہوتا ہے۔ اگر علمی دنیا میں اس قسم کے مراتب کا رواج ہوتا تو یقیناً خواجہ صاحب کراچی کے قطب کہلانے کے مستحق تھے۔ شاید اسی لیے ''قطب از جا نمی جنبد'' کے مصداق وہ اشد ضرورت کے بغیر کراچی سے نہیں نکلتے تھے بلکہ شہر میں ہونے والی ادبی اور شعری تقریبات سے بھی محترز رہتے تھے۔
ویسے بڑے باخبر آدمی تھے۔ پاکستان' ہندوستان اور دوسرے ممالک کے علمی مراکز میں اردو زبان و ادب سے متعلق جو کام ہو رہا ہوتا تھا ان کے علم میں رہتا تھا۔ اس غرض سے خط کتابت کثرت سے کرتے اور فون پر رابطے بحال رکھتے تھے۔ انھی خوبیوں کے باعث ان کی وفات کا صدمہ ہر اس شخص کا ذاتی صدمہ بن گیا جو زندگی میں کسی موقعے پر ان سے تعلق میں آیا۔ ان کی فیض رسانی اور ہر دلعزیزی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اب تک مختلف مؤلفین کی کم و بیش ایک سو کتابوں کا انتساب ان کے نام کیا جا چکا ہے۔
علمی سرپرستی کے میدان میں خواجہ صاحب کا سب سے کارگر ہتھیار نو واردان بساط علم کی حوصلہ افزائی تھا۔ باز سے شکار کھیلنے والوں کا قاعدہ ہے کہ جب بھی ان کا پالتو باز کوئی پرندہ شکار کرتا ہے' وہ پرندے کو ذبح کرتے ہی اس کا دل اور کلیجی نکال کر بطور انعام باز کو کھلا دیتے ہیں۔ اس عمل سے باز کا دھیان شکار پر لگا رہتا ہے۔ خواجہ صاحب مبتدیوں کے کام کی تعریف سے یہی مقصد حاصل کرتے تھے۔ انھوں نے بلامبالغہ بیسیوں لوگوں کو قلم فرسائی کی دھت لگا دی۔ ان میں چند ایسے بھے تھے جو خواجہ صاحب کی ہمت افزائی کی غرض سے کی جانے والی توصیف کو سند کمال سمجھتے ہوئے پٹڑی سے اتر گئے یا خامی میں پختہ ہو گئے' تاہم اس میں خواجہ صاحب کا کوئی قصور نہ تھا بلکہ خود ان لوگوں کی تنگ ظرفی ان کی بھٹکنے کا سبب بنی۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر وحید قریشی صاحب خواجہ صاحب کو چھیڑنے کے لیے کہتے تھے کہ آپ ناقصوں کے پیر کامل ہیں۔
پیر حسام الدین راشدی کی وفات پر خواجہ صاحب نے ایک خط میں لکھا تھا۔''یہ سانحہ میرے لیے ذاتی نوعیت کا ہے۔ مرحوم سے 25 برس کی نیازمندی کا رشتہ تھا۔ اب کراچی میرے لیے سنسان ہو گئی ہے''۔ اے مشفق و مہربان! میرے آپ سے مخلصانہ تعلقات تو 42-40 برس پر محیط تھے۔ سچ پوچھیے تو آپ کے جانے سے میرے لیے بھی آپ کا شہر ویران ہو گیا ہے:
واقفان حال جانتے ہیں کہ وہ مصیبت زدہ اور ضرورت مند لوگوں کی حتی المقدور امداد پوشیدہ طور پر کیا کرتے تھے۔ وفات پا جانے والے ادیبوں اور شاعروں کے ورثاء کے لیے سرکاری' نیم سرکاری اور نجی ذرایع سے وظائف کی فراہمی کے لیے کوشاں رہتے اور اکثر ان کی مساعی مشکور ہوا کرتی تھیں۔
(مظہر محمود شیرانی کی تصنیف 'کہاں سے
لائوں اُنہیں' سے ایک اقتباس)
میرے اور خواجہ صاحب کے خاندانوں میں پرانے تعلقات تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید کا لاہور میں میرے دادا جان (حافظ محمود شیرانی) سے میل جول تھا۔ ان کے تایا خواجہ عبدالمجید (صاحب جامع اللغات) کے بیٹے خواجہ محمود اور داماد میاں محمد حسن سے میرے والد (اختر شیرانی) کی گاڑھی چھنتی تھی۔ خواجہ محمود اور اختر صاحب نے ''جامع اللغات'' کے کام میں ہاتھ بٹایا تھا۔ میاں محمد حسن اور محمد عمر فاروق نے اختر صاحب کے ساتھ مل کر 1934-35میں لاہور سے ایک رسالہ ''اختر'' نکالا تھا۔ اس کے سرورق پر نگارندۂ خصوصی کی حیثیت سے اختر صاحب کا نام تھا۔
اس کے چند شمارے ہی شایع ہو سکے تھے۔مشفق خواجہ صاحب اور میں ہم عمر تھے۔ دونوں کی پیدائش 1935 کی تھی۔ میٹرک دونوں نے 1952 میں کیا اور ایم اے 1958 میں۔ اتفاق سے دونوں کی شادیاں بھی 1964 میں ہوئیں۔ فرق یہ تھا کہ وہ لڑکپن میں لاہور سے کراچی چلے گئے اور میں سندھ سے پنجاب آ گیا تھا۔ خواجہ صاحب کی مقبولیت کا راز صاحبان علم کی خدمت' طالبان علم کی معاونت اور تشنگان ادب کی رہنمائی میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں وہ درمے' قدمے' سخنے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی سی تھی جو بھٹکے ہوئے جہازوں اور کشتیوں کے لیے نشان منزل ہوتا ہے۔
وہ ضروری حوالوں کی نشاندہی کرنے' تلازمے فراہم کرنے' متعلقہ کتب و رسائل کے عکس تیار کروانے اور ضرورت مندوں کو روانہ کرنے بلکہ اصل کتابیں اور دستاویزات ارسال کرنے پر ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ مشفق محض ان کا نام ہی نہ تھا عملاً بھی وہ سراپا شفقت تھے۔ صوفیا کے مختلف مدارج میں ایک مرتبہ قطب کا ہوتا ہے۔ اگر علمی دنیا میں اس قسم کے مراتب کا رواج ہوتا تو یقیناً خواجہ صاحب کراچی کے قطب کہلانے کے مستحق تھے۔ شاید اسی لیے ''قطب از جا نمی جنبد'' کے مصداق وہ اشد ضرورت کے بغیر کراچی سے نہیں نکلتے تھے بلکہ شہر میں ہونے والی ادبی اور شعری تقریبات سے بھی محترز رہتے تھے۔
ویسے بڑے باخبر آدمی تھے۔ پاکستان' ہندوستان اور دوسرے ممالک کے علمی مراکز میں اردو زبان و ادب سے متعلق جو کام ہو رہا ہوتا تھا ان کے علم میں رہتا تھا۔ اس غرض سے خط کتابت کثرت سے کرتے اور فون پر رابطے بحال رکھتے تھے۔ انھی خوبیوں کے باعث ان کی وفات کا صدمہ ہر اس شخص کا ذاتی صدمہ بن گیا جو زندگی میں کسی موقعے پر ان سے تعلق میں آیا۔ ان کی فیض رسانی اور ہر دلعزیزی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اب تک مختلف مؤلفین کی کم و بیش ایک سو کتابوں کا انتساب ان کے نام کیا جا چکا ہے۔
علمی سرپرستی کے میدان میں خواجہ صاحب کا سب سے کارگر ہتھیار نو واردان بساط علم کی حوصلہ افزائی تھا۔ باز سے شکار کھیلنے والوں کا قاعدہ ہے کہ جب بھی ان کا پالتو باز کوئی پرندہ شکار کرتا ہے' وہ پرندے کو ذبح کرتے ہی اس کا دل اور کلیجی نکال کر بطور انعام باز کو کھلا دیتے ہیں۔ اس عمل سے باز کا دھیان شکار پر لگا رہتا ہے۔ خواجہ صاحب مبتدیوں کے کام کی تعریف سے یہی مقصد حاصل کرتے تھے۔ انھوں نے بلامبالغہ بیسیوں لوگوں کو قلم فرسائی کی دھت لگا دی۔ ان میں چند ایسے بھے تھے جو خواجہ صاحب کی ہمت افزائی کی غرض سے کی جانے والی توصیف کو سند کمال سمجھتے ہوئے پٹڑی سے اتر گئے یا خامی میں پختہ ہو گئے' تاہم اس میں خواجہ صاحب کا کوئی قصور نہ تھا بلکہ خود ان لوگوں کی تنگ ظرفی ان کی بھٹکنے کا سبب بنی۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر وحید قریشی صاحب خواجہ صاحب کو چھیڑنے کے لیے کہتے تھے کہ آپ ناقصوں کے پیر کامل ہیں۔
پیر حسام الدین راشدی کی وفات پر خواجہ صاحب نے ایک خط میں لکھا تھا۔''یہ سانحہ میرے لیے ذاتی نوعیت کا ہے۔ مرحوم سے 25 برس کی نیازمندی کا رشتہ تھا۔ اب کراچی میرے لیے سنسان ہو گئی ہے''۔ اے مشفق و مہربان! میرے آپ سے مخلصانہ تعلقات تو 42-40 برس پر محیط تھے۔ سچ پوچھیے تو آپ کے جانے سے میرے لیے بھی آپ کا شہر ویران ہو گیا ہے:
واقفان حال جانتے ہیں کہ وہ مصیبت زدہ اور ضرورت مند لوگوں کی حتی المقدور امداد پوشیدہ طور پر کیا کرتے تھے۔ وفات پا جانے والے ادیبوں اور شاعروں کے ورثاء کے لیے سرکاری' نیم سرکاری اور نجی ذرایع سے وظائف کی فراہمی کے لیے کوشاں رہتے اور اکثر ان کی مساعی مشکور ہوا کرتی تھیں۔
(مظہر محمود شیرانی کی تصنیف 'کہاں سے
لائوں اُنہیں' سے ایک اقتباس)