شام پر امریکی حملے سے پورے خطے کا امن خطرے میں پڑجائے گا

طویل مدت کی غلامی سے نجات کے بعد اب پھر وہی غلامی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

امریکہ کے اس کردار سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے اسلیے ہم سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں انصاف پسند اور اقدار پر یقین رکھنے والی قوتوں کو امریکی موقف کی مخالفت کرنی چاہیے۔ فوٹو: فائل

یوں تو عالم اسلام ایک عرصہ سے ہی آزمائش و ابتلا سے گزررہاہے اور کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب سامراج اوراس کے گماشتے اپنے مکروہ عزائم کے لیے مسلم ممالک کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ نہیں بناتے اور انہیں اپنا تابع مہمل بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال نہیں کرتے ۔

لیکن مصر اور شام دو ممالک ایسے ہیں کہ جو گزشتہ چند ماہ سے سامراج کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں کہیں وردی اور کہیں بغیر وردی طاقت واقتدار رکھنے والے عناصر اور قوتوں نے اپنے نہتے ،معصوم اور بے گناہ شہریوں پرظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں جن کو بنیاد بنا کر عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنے کے لیے کوئی وقت ضائع کیے بغیر میدان میں کود پڑتی ہیں۔ اس سے پہلے عراق اور لیبیا اور اس سے بھی پہلے افغانستان ،بوسنیا ،چیچنیااور کشمیر کے مسلمان جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں اب مصراور شام کے عوام اپنی غیر نمائندہ حکومتوں کے نشانے پر ہیں اور عالمی طاقتیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں ۔ اس صورت حال نے پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کو پریشانی اور تشویش میں مبتلا کررکھاہے ۔امریکہ اپنی تمام تر مکارانہ اور شاطرانہ چالوں کے ساتھ بروئے کار ہے ۔



ادھر روس نے بھی شام کی حمایت کرتے ہوئے سعودی عرب پر حملے کی دھمکی دے دی ہے یوں جنگ کے مہیب سائے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ہاتھیوں کی اس لڑائی میں چیونٹیوں کے مسلے جانے کے مزیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں اس صورت حال کا تجزیہ کرنے اور مستقبل کے لیے پیش بینی کرنے کے لیے ہم نے ماہرین اور اہل دانش کو فورم میں مدعو کیاہے کہ وہ اس موضوع پر اظہارخیال کریں اوراپنی دانش اور فہم سے اس گرہ کو کھولنے کی سعی کریں۔

ایکسپریس فورم میں جن شخصیات نے اظہار خیال کیا ان میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، جنرل ریٹائرڈ راحت لطیف، ماہر امور خارجہ محمدمہدی ، امیر تنظیم اسلامی پاکستان حافظ عاکف سعید اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنمااور امورسیاسیات کے سربراہ سید ناصر شیرازی شامل ہیں ۔ان حضرات نے مصراور شام کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے جو گفتگو کی اس کی تفصیل نذر قارئین ہے ۔

لیاقت بلوچ
(سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)


مصر اور شام کی موجودہ صورتحال پر جماعت اسلامی کا موقف یہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کو شام پر حملے کی اجازت دے یا نہ دے، کانگریس سے اجازت ملے یا نہ ملے اور امریکی صدر جو بھی اختیارات رکھتا ہو اسے کسی بھی آزاد خودمختار ملک پر حملے کا کوئی حق نہیں ہے۔اسی لئے ہم شام پر حملے کے حق میں بھی نہیں ہے۔ امریکہ دنیا کا گاڈ فادر نہیں ہے، اسکی غلامی میں ساری دنیا نہیں آسکتی۔ امریکہ کے اس کردار سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے اسلیے ہم سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں انصاف پسند اور اقدار پر یقین رکھنے والی قوتوں کو امریکی موقف کی مخالفت کرنی چاہیے۔

اس سے پہلے مصر میں شب خون مارا گیا، افغانستان اور عراق کو تہہ تیغ کیا گیا اور اب شام میں ایسا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ امریکہ اس وقت بدمست ملک بنا ہوا ہے اسلیے تمام مظلوم ملکوں کو اب متحد ہونا ہوگا۔ شام میں طویل مدت سے اندرونی اختلافات تو موجود ہیں اور پچاس ساٹھ سال سے اسد خاندان قابض ہے جن کی عوام تبدیلی بھی چاہتے ہیں کیونکہ عوام ایک عرصے سے بشار الاسد اور حافظ الاسد کے مظالم بھگت رہے ہیں لیکن شام کے حکمرانوں نے مصر، لیبیا، عراق، الجزائر کے حشر سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمانوں میں حکمران اقتدار پر قابض رہنے کیلئے اپنے ہی عوام کے قتل عام کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں اور ایسے حکمرانوں کو استعماری قوتیں اپنا آلۂ کار بناتی ہیں۔

اسی طرح کی صورتحال موجودہ شام کی ہے، پورے عرب میں جدوجہد ہوئی اور اسلامی بہار آئی اور عوام نے استعماری قوتوں کے ذہنی غلام حکمرانوں کا تختہ الٹا لیکن عالم اسلام کو ایک بار پھر منتشرکرنے کیلئے سازشیں کی جارہی ہیں۔ مصر میں الاخوان نے تو اقتدار میں آنے کے بعد عیسائیوں اور دیگر تمام طبقات سے بہتر تعلقات پیدا کئے۔ عیسائیوں میں سے نائب مرشد عام بھی مصری حکومت نے رکھا جبکہ ڈاکٹر مرسی نے ایک عیسائی نائب صدر بھی اپنے ساتھ رکھا جو پاکستان کے دورے کے موقع پر بھی انکے ساتھ تھا۔ایک منظم سازش کے تحت اسرائیل کو سرپرستی دلوانے کیلئے اور عالم اسلام کو باہم متصادم کرنے کیلئے سارا کام ہورہا ہے۔

عراق اور بحرین شیعہ اکثریت کے علاقے ہیں جبکہ شام اور لبنان سنی اکثریتی علاقے ہیں جہاں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنا اسی سازش کا شاخسانہ ہے۔ عالم اسلام کو اس صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے اور اسکا حل تلاش کرنا چاہیے۔ او آئی سی ایک مفلوج ، بے حس اور لاتعلق ادارہ ہے مسلمانوں پر کوئی قیامت بیت جائے یہ ادارہ کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اقوام متحدہ امریکہ کا زر خرید ادارہ ہے جو اسکے مفادات کیلئے کام کرتا ہے۔ اس وقت مسلم عوام اور عالم اسلام کو جہاں دین کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے وہیں باہم متحد ہونے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ طویل مدت کی غلامی سے نجات کے بعد اب پھر وہی غلامی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی اس کوشش کے خلاف بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ان ممالک کی جتنی بھی عزت ہے وہ عالم اسلام کے جڑے رہنے میں ہے، اگر عالم اسلام بڑی تباہی کی طرف جاتا ہے تو اسکے ذمہ دار یہ ممالک بھی ہونگے۔ان ممالک میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے۔ مصر، شام کے حوالے سے بھی حکومت کا اچھا بیان تو آیا ہے لیکن صرف بیان کی بجائے مذید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمارا وزیر خارجہ ہی کوئی نہیں ہے، اندرونی سیاسی دھڑے بندی کی بنیاد پر جب ہم اپنے معاملات ٹھیک نہیں کرسکتے تو باہر کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت نے وزارت خارجہ میں بھی دو بابے بٹھا رکھے ہیں وہ کیا موثرکردار ادا کرینگے۔ وزیراعظم نوازشریف واضح چارٹر کے ساتھ ایران ، سعودی عرب اور ترکی جائیں اور انہیں بتائیں کہ ہمیں اپنے مسائل مل کر خود حل کرنے چاہئیں ورنہ عراق، مصر اور لیبیا کی طرح کے مسائل کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑیگا۔

میجر جنرل(ر) راحت لطیف


مشرق وسطیٰ کی صورتھال جاننے کیلئے ماضی میں جائیں تو 1967ء میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوئی تو اسرائیل نے تمام عرب ممالک کو شکست دے کر گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ میں مصر کی فوج نے اہم کردا ادا کیاتھا اور اسرائیل بھی اس سے آگاہ ہے۔ اسرائیل کا دفاع امریکہ کیلئے بہت اہم ہے اسی لئے جب بھی نیا امریکی صدر اقتدار میں آتا ہے تو وہ اپنے منشور میں رکھتا ہے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل کرے گا اس سے وہ عرب ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرلیتا ہے مگر فلسطین کے مسئلہ کے حل کیلئے اسرائیل کا 67ء کی پوزیشن پر واپس جانا ضروری ہے مگر امریکہ ایسا کرنہیں سکتا بلکہ الٹا وہ اسرائیل کو مزید توسیع دینا چاہتے ہیں۔

اس وقت یہودیوں کیلئے شام میں مداخلت کا بہترین موقع ہے کیونکہ شام میں حالات خراب ہیں اور یہودی چاہتے ہیں امریکہ یہاں حملہ کردے تاکہ اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں میں توسیع کا موقع مل سکے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ شام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور کوئی اگر اس کا ساتھ نہ بھی دے تو وہ حملہ کردے گا اسے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کہ عالمی برادری یا اقوام متحدہ کیا کہتی ہے۔ انگریز نے ہر معاملے میں ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے اس معاملے میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہیں مگر وہاں کی پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہوئی اور پارلیمنٹ نے اس جنگ میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور وزیراعظم کیمرون نے پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہوئے جنگ میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ۔

امریکی صدر کا بھی پہلے کانگریس میں جانے کے ارادہ نہیں تھا ان کے بحری بیڑے پہنچ چکے تھے اور میزائل بھی لگادیئے گئے اس موقع پر نیٹو نے بھی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کردیا مگر نیٹو میں شامل فرانس نے کہہ دیا کہ وہ جنگ میں حصہ لے گا اس کے مفادات ہیں دوسری طرف ترکی اور اردن بھی امریکہ کو حملے کیلئے مجبور کررہے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اردن اور مصر کی 67ء کی جنگ میں کامیابیوں کی وجہ سے امریکہ نے ان کے ساتھ طے کیا تھا کہ ہر ایک کو سالانہ 3ارب ڈالر دے گا اور اسرائیل کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے یہ دونوں ممالک اب یہ وصول کررہے ہیں، برطانیہ، جرمنی اور نیٹو اس کا ساتھ نہیں دے رہے کیونکہ ابھی تک کیمیائی ہتھیاروں کے ماہرین تحقیقات کررہے ہیں اور ابھی تک یہ بھی واضح نہیںہوا کہ کیمیائی ہتھیار استعمال بھی ہوئے ہیں کہ نہیں یہ بھی بعد میں دیکھنا ہے کہ کس نے استعمال کئے ہیں ، امریکہ نے دیکھا کہ اس کے اتحادی ممالک اس کا ساتھ نہیں دے رہے تو اس نے بھی کانگریس میںجانے کا فیصلہ کرلیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اقوام متحدہ اس معاملے سے غیر متعلق ہے حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے خود ہی اقوام متحدہ بنائی تھی۔

مگر چونکہ وہ عالمی غنڈہ ہے اور کسی کا لحاظ نہیں کرتا بلکہ اپنی من مانی کرتا ہے اس لئے وہ اب بھی اپنی من مانی کرے گا۔ اس وقت ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ شامی حکومت ظالم ہے یا نہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ اس کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی حکومت کو تبدیل کریںجس کیلئے وہ کوشش کررہے ہیں۔ اس وقت امریکہ وہی کررہا ہے جو عراق میں حملہ کرتے وقت کیا تھا ۔ وہاں بھی تباہ کن ہتھیاروں کا بہانہ بنا کرآیا تھا اور ہتھیار بھی وہی جو اس نے خود ہی عراق کو دیئے تھے ایسی صورتحال پاکستان میں بھی بنادی ہے کہ 18ہزار کنٹینرز لاپتہ ہونے کی باتیں ہورہی ہیں اور ایک ذمہ دار بندے رینجرز کے ڈی جی نے یہ بات کہی ہے۔

یہی صورتحال شام میں پیدا کی گئی ہے گرچہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کئے ہیں یا کئے بھی ہیں کہ نہیں ۔ امریکہ اس کو استعمال کرنا چاہتاہے جبکہ دوسری طرف روس اور چین کیمیائی ہتھیار کے معاملے کو استعمال کرنے کے خلاف ہیں بلکہ روس تو شام کی حمایت میں ہے۔ اس صورتحال کے بعد اوبامہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی پارلیمنٹ کی مرضی سے حملہ کرے گا جس سے لگتا ہے کہ وہ مذاکرات کا امکان بھی رکھا ہے تاہم حالات بتاتے ہیں کہ امریکہ یہ جنگ ضرور کرے گا تاہم وہ شامی زمین پر نہیں اترے گا بلکہ جہاز سے حملہ کرے گا اور اس سے اسرائیل اپنی سرحدوں میں توسیع کا موقع ملے جائے گا اور امریکہ اسے یہ موقع دینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے کیونکہ پاکستان ایک مضبوط ایٹمی ملک ہے اور اس کے پاس بہترین ایٹمی سسٹم موجود ہے۔ پاکستان کو اس معاملے میں کردار ادا کرکے اپنی اتھارٹی منوانی چاہیے۔

حافظ عاکف سعید

(مرکزی امیر تنظیم اسلامی پاکستان)


مصر اور شام کے معاملات ایساا یشو ہے کہ جس نے لوگوں کی نیندیںاڑادی ہیں افغانستان میں امریکہ نے جوکچھ کیا ،امن وامان کی جس طرح تہہ بالا کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔عراق کے ساتھ اس نے جوکچھ کیا اور کیمیاوی ہتھیاروں کے بہانے بے گناہ عوام کا خون بہایا۔ میانماراور برما میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے ۔کشمیر کی صورت حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔اہل اسلام اس تمام صورت حال کوتشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ صورت حال غور وفکر کاتقاضا کرتی ہے ۔

جب کہ اﷲ تعالیٰ کابھی وعدہ ہے کہ تم ہی سربلند ہوگے اگر واقعی مومن ہوگے ۔حضرت علامہ اقبال ؒ اور الطاف حسین حالی ؒ کا کلام بھی اس موقع پریاد آرہاہے ۔حکیم الامت نے ان حالات میں ہماری رہنمائی کی ہے ۔شکوہ جواب شکوہ پڑھ لیجئے ۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان محکوم بنالیے گئے تھے انہیں جوآزادی حاصل تھی وہ محض ظاہری تھی۔آج صورت حال یہ ہے کہ وقت کا سب سے بڑا فرعون امریکہ اور سب سے بڑی شیطانی قوت اسرائیل ہے ۔یہ خطہ بلاشبہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں پر تین مذاہب کے لوگ( یہودی، عیسائی اور مسلمان) آبادہیں جن کے لیے الگ الگ رسول اور کتابیں بھیجی گئیں ۔یہودی مغضوبِ الٰہی ہیں اور روئے زمین پر شیطان کے سب سے بڑے ایجنٹ ہیں جو دین سے لوگوں کو برگشتہ اور گمراہ کرکے دجالیت میں لارہے ہیں ۔

آج امت جن حالات سے دوچارہے اس کاسبب اﷲ سے بیوفائی ہے یہ دین سے بیوفائی، رسول ﷺ سے بیوفائی اور قرآن سے بیوفائی ہے۔ پینسٹھ سال قبل ہم نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کرتے وقت اﷲسے یہ وعدہ کیاتھا کہ یہاں اس کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کریں گے اور اس کے دین کے مطابق حکمرانی ہوگی لیکن ہم نے اس عہد کووفا نہیں کیا اور بدعہدی کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایک سو ساٹھ کروڑ سے زائد مسلمان ہونے کے باوجود بے بس اور لاچار ہیں۔ حضوراکرم ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق ہماری تعداد تو زیادہ ہوگی لیکن ہمارا کوئی رعب ودبدبانہ ہوگا۔ دنیا کی محبت اور موت کاخوف دلوں میں آجانے سے ہمارا یہ حشر ہوا ہے۔ چنانچہ جو نقشہ ہمیں آج دکھائی دے رہا ہے اس میں اچنبے یا حیرت کی کوئی بات نہیں ہے ۔

ایک اطلاع کے مطابق ایسے بائیالوجیکل ہتھیا ر بھی بنائے جارہے ہیں جوجینز کی بنیاد پر ہوں گے اور ان سے عربوں کو ختم کیاجاسکے گا یوں عرب نسل یہ کا خاتمہ کرنے کا پروگرام بنایا جارہاہے ۔شام سے معاملہ بڑھے گا مزید حالات خراب ہوں گے ،تاہم ان حالات میں امید کی کرن یہ ہے کہ بالآخر دجالی قوتوں کو شکست فاش ہوگی اور اﷲ کادین غالب ہوگا افغانستان میں نہتے طالبان کے مقابلے میں امریکہ اور نیٹو سمیت تمام عالم کفر جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوا لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔چنانچہ ایک طرف انتہائی مایوس کن صورت حال ہے دوسری طرف بہتری کے امکانا ت بھی موجود ہیں اور بتدریج خیر کی طرف معاملہ نکلے گا لیکن اس سے پہلے ابھی بہت سخت مراحل آنے والے ہیں ۔اگر ہم خود کو اﷲ کی مدد کا مستحق بنالیں تو حالات بہتر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

محمد مہدی
(ماہرامور خارجہ)


اسلامی دنیا کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ انہیں مستحکم نہیں ہونے دیاجاتا ۔الجزائر میں اسلامی حکومت بنی تو اسے چلنے نہیں دیا گیا وہاں امن وآشتی نہیں آسکی اورعوام کے نمائندوں کو حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔مصر کی ڈاکٹر مرسی کی حکومت بھی اگرچہ کوئی مثالی حکومت نہیں تھی اس سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں مثلاً عیسائیوں کو یہ کہنا پڑا ہمارا یہاں زندہ رہنا مشکل ہے ۔ لیکن مصر کی قوم نے انہیں ووٹ دیا تھا اور وہ اس کے منتخب نمائندہ تھے ۔اس لیے کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک نمائندہ اور منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرے تاہم مصرکے معاملے میں امریکہ سے زیادہ بعض دیگر اسلامی ممالک کو جلدی تھی کہ کسی طرح مصر کی منتخب حکومت کوختم کردیاجائے کیونکہ یہ ممالک مرسی کی منتخب حکومت سے خائف تھے ۔

جہاں تک شام کا تعلق ہے وہاں بشار الاسد کی حکومت کو بھی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ۔وہاں اپوزیشن کی تحریک کی وجہ سے معاملہ بڑھا اور خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوگئی ۔البتہ یہاں اپوزیشن بھی متحد نہیں وہ آپس میں الجھ گئی اور اس کے اندر تنازعہ پیدا ہوگیا۔ دوسری طرف سعودی عرب اور قطر میں بھی بعض معاملات میں اختلافات پیدا ہوگئے اس صورت حال سے امریکہ نے فائدہ اٹھانے کافیصلہ کیا ۔ اس نے پہلے سلامتی کونسل کے ذریعے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا اب وہ کانگریس میں جارہا ہے۔تاکہ شام پر حملہ سے پہلے اس کی منظوری حاصل کرسکے ۔

روس بھی سامنے آگیا ہے اور امریکہ کے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلقہ موقف کو وہ تسلیم نہیں کررہا ۔اس نے شام پر حملے کی مخالفت کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور روس محض شام کے عوام کے ساتھ محبت میں ایسا نہیں کررہے ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔ ایران بھی شامی حکومت کا زبردست طرفدارہے اس کی وجہ بھی کچھ روس والی ہے ایران کا بھی اس خطے میں شام کے علاوہ کوئی دوسرا دوست نہیں ہے اورشام کو کھونے کے بعد ایران میں امریکی برتری اوراپنی ناکامی کا تصور پنپ سکتا ہے کہ ہم تنہا رہ گئے ہیں اوراس تنہائی کی وجہ ایران کا انقلاب ہے ۔

چین ایران یاروس کی مانند تونہیں لیکن امریکی مداخلت کے خلاف ہے سلامتی کونسل میں اُس کے رویے نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ اس اقدام کو امریکی راج کے بڑھنے کے علاوہ اورکچھ نہیں سمجھتا ہے۔ان تمام حالات میں پاکستان کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔وزارت خارجہ نے اس حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے وہ قابل تعریف تو ہے کافی نہیں ہے ۔پاکستان کو اقوام متحدہ میں جانا چاہیے اور امریکہ کو شام میں کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روکنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں ۔

سید ناصر شیرازی
(سربراہ سیاسی امور مجلس وحدت المسلمین)


مشرق وسطیٰ ایسا علاقہ ہے جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے تاریخی طور پر اس کی بہت اہمیت ہے۔ یہ تین براعظموں ایشیا افریقہ اور یورپ کو ملاتا ہے اس لئے اس کی تجارتی اور تاریخی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس سب کے علاوہ اس علاقے کی مذہبی اہمیت بھی بہت ہے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہت مسلمان، عیسائی اور یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ پر قابض ہونے والا پوری دنیا پر قابض ہوسکتا ہے۔ یہودی تورات کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ علاقہ ان کو ملے تو وہ پوری دنیا پر حکومت کرسکتے ہیں۔

عیسائیوں کا بھی یقین ہے کہ حضرت عیسیٰؑ بھی اسی علاقے میں آئیں گے اور مسلمانوں کے بھی دونوں بڑے سکول آف تھاٹ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کا ظہور بھی یہیں ہوگا۔ یہ علاقہ پہاڑی چوٹی کی طرح کی اہمیت رکھتا ہے اور جو پہاڑی چوٹی پر قابض ہوگا اس کی ہر جگہ نظر ہوگی۔ مشرق وسطیٰ اسرائیل، شام ، فلسطین کے علاقے اس دو بلاکس پر مشتمل ہیں، ایک بلاک استعماری قوتوں پر مشتمل جبکہ دوسرا مزاحمتی قوتوں پر مشتمل ہے۔ استعماری قوتوں کا لیڈر امریکہ ہے یہاں پر وہ ڈائریکٹ کنٹرول نہیں کرسکتااس لئے عرب ممالک اس بلاک میں شامل ہیں ۔

دوسرا بلاک مزاحمتی قوتوں کا ہے ان میں حماس، حزب اﷲ، شام، ایران شامل ہیں۔ اسرائیل امریکہ ناجائز اولاد ہے مگر اسے خطے میں سٹریٹی جیکل ڈیپتھ حاصل نہیں ہے اس کے چاروں بارڈرز کے ساتھ کوئی ملک اس کا حمایتی نہیں ہے۔ استعماری قوتوں نے اسرائیل کو غیر محفوظ دیکھا کیونکہ مصر میں حسنی مبارک کے جانے کے بعد مرسی کی حکومت اسرائیل کے خلاف تھی امریکہ نے مصر میں مرسی کی حکومت کے خاتمے کیلئے فنڈنگ کی ۔ مرسی کی حکومت ایک جمہوری حکومت تھی اور مصر کی تاریخ میں یہ بہترین حکومت تھی گرچہ اس میں بھی خامیاںتھیں۔ اس حکومت نے آتے ہیں غزہ کا رستہ کھول دیا جوکہ عرصہ دراز سے بند تھا۔ شام کا قصور یہ ہے کہ شام فلسطین کی مزاحمتی قوتوں کا سب سے بڑا مرکز تھا، فلسطینی مجاہدین شام میں تھے اور وہ فلسطین کی حمایت میں اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں کھڑا تھا۔



شام کا حکمران بھی اگرچہ آئیڈیل نہیں تھا مگر وہاں دیگر عرب ممالک کی طرح مخالف مذہبی گروپوں پر اتنی پابندیاں نہیں تھیں اور اس نے دیگر عرب ممالک کی طرح کمپرومائز نہیں کیا۔ اب امریکہ مصر اور شام کا بارڈر اسرائیل کیلئے محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں مزاحمتی بلاک بہت مضبوط ہوا ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو حزب اﷲ نے اس کا ساتھ دیا اور اسرائیل کو شکست دی، اس جنگ سے پہلے صرف ایک بارڈر پر حزب اﷲ بیٹھی تھی اب بولان پر بھی بیٹھی ہے۔ اس مزاحمتی بلاک کے پاس گرچہ بحری بیڑا اور سیٹلائیٹ نہیں ہیں مگر بحری بیڑے اور سیٹلائیٹ کو تباہ ضرور کرسکتے ہیں جس کا انہیں بہت دکھ ہے۔ اگر عرب ممالک امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کبھی شام میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔ شام کی جنگ علاقے کے حقوق کی جنگ نہیں ہے۔

کیمیائی ہتھیار دمشق میں استعمال ہوئے جہاں پر حکومت کا پوری طرح کنٹرول ہے ، حکومت کو کیا ضرورت تھی کہ اپنے زیر کنٹرول علاقے میں کیمیائی حملہ کرتی۔ یہ ایسی ہی صورتحال ہے جیسے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بناکر آئے مگر ملا کچھ نہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے اور 13سو لوگ جاں بحق ہوئے تو 13سو لوگوں کیلئے لاکھوں لوگوں کو مارا جائے گا اور ایسا وہ امریکہ کرے گا جس کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے لاکھوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں جلاکر راکھ کردیا تھا۔

موجودہ حالات میں اگر امریکہ نے شام پر حملہ کیا اور جو کہ وہ کرے گا کیونکہ اب اگر امریکہ حملہ نہیں کرتا تو اس کی پریسٹیج کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ تو مزاحمتی بلاک اب امریکہ کو سبق سکھا دے گا، اس کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ یہ اس کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔ ہم ہر ظلم کی مذمت کرتے ہیں شام میں عام لوگ مررہے ہیں مگر پناہ گزین کیمپوں میں اس سے بھی زیادہ مسائل کا شکار ہیں وہاں ان کی عزت نفس ختم ہورہی ہے۔ مشرق وسطیٰ ایک آگ میں جل رہا ہے اگر امریکہ اس آگ کو بڑھائے گا تو خود بھی اس آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
Load Next Story