مزاح کی تحریک غم سے ہوتی ہے

لوگ کہتے ہیں، بھلا اِن حالات میں کوئی کیسے ہنسے، کیسے مسکرائے؟

یہ معروف مزاح نگار، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کہانی ہے، مگر اِس میں مزاح نہیں، اس پر تو سنجیدگی غالب ہے۔فوٹو: فائل

دو بجے دفتر سے چھٹی ہوا کرتی تھی۔

اگلے چند گھنٹے ٹیوشن پڑھانے میں صَرف ہوتے۔ پانچ بجے طالب علم کا روپ دھارے وہ کالج پہنچ جاتے۔ رات دس بجے بس میں لٹک کر گھر لوٹتے، جہاں لالٹین کی مدھم روشنی استقبال کرتی۔ اُس زمانے میں دہلی کالونی میں بجلی نہیں آئی تھی۔ کھانا کھا کر کتابیں بغل میں دابے گھر سے نکل جاتے۔ ترقیاتی منصوبے آج کی طرح اس وقت بھی تعطل کا شکار رہتے تھے۔ سڑک پر بڑے بڑے پائپ پڑے ہوتے۔ وہ پائپ پر چڑھ جاتے، تاکہ اسٹریٹ لائٹ کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں!

یہ معروف مزاح نگار، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کہانی ہے، مگر اِس میں مزاح نہیں، اس پر تو سنجیدگی غالب ہے۔ اوراق پلٹتے سمے سانحات سے بھی سامنا ہوتا ہے کہ اِس تخلیق کار نے کئی دُکھ جھیلے۔ 57ء میں گھر میں لگنے والی آگ نے تو جیسے خوشیوں کو جھلسا دیا تھا۔ سب خاکستر ہوگیا۔ گھر کی چھت ڈھے گئی۔ جسم پر موجود کپڑے تک جل گئے۔ والد بھی اُس آگ کی زد میں آئے، اور اُسی رات چل بسے۔
شاید دکھوں کی اُسی راکھ سے زندگی کی کونپل پھوٹی۔ ڈاکٹر صاحب کے بہ قول،''میرے نزدیک مزاح کی تحریک غم سے ہوتی ہے۔ انور مسعود کا شعر ہے:

بڑے نم ناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ہے تیرے اشعار کے پیچھے

اور مزاح ہے کیا؟ اپنی حماقتوں اور غلطیوں پر ہنسنا۔ لوگ کہتے ہیں، بھلا اِن حالات میں کوئی کیسے ہنسے، کیسے مسکرائے؟ رشید انجم نے کہا تھا:

رنج ہے، کرب ہے، اذیت ہے
مسکرانے کی اب ضرورت ہے

میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ان حالات میں تو مسکرانے کی ضرورت ہے۔'' تسلیم کرتے ہیں کہ مطالعے کا رجحان گھٹا ہے، مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ مزاحیہ ادب اور سفرناموں کے قارئین کل کی طرح آج بھی موجود ہیں۔ ''یہ کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ دراصل مزاح آپ کے ذہن کو تازگی بخشتا ہے، اور سفرنامے آپ کو دوسری دنیا میں لے جاتے ہیں۔''

اپنے تخلیقی سفر میں ایس ایم معین قریشی نے اردو اور انگریزی، دونوں ہی زبانوں کو یک ساں مہارت سے برتا، اور دونوں ہی میں شگفتگی پیدا کرنے میں کام یاب رہے۔ شفیق الرحمان نے اُنھیں بذلہ سنجی کی فطری صلاحیت سے مالامال قرار دیا۔ محمد خالد اختر کو اُن میں ظرافت کی چمک دکھائی دی۔ یوسفی صاحب نے موضوعات کے تنوع اور پیرایۂ اظہار پر گرفت کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر فرماں فتح پوری نے اُنھیں ایک صاحب اسلوب کے روپ میں دیکھا!

مزاح کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سیاحت، سیاست اور مذہب پر بھی لکھا۔ اب تک اُن کی 22 کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ اُن کا ہفتہ وار فکاہیہ کالم "Crocodile's Tears" گذشتہ تین عشروں سے ''ڈیلی نیوز'' میں شایع ہورہا ہے۔ ''برجانِ درویش'' کے زیرعنوان چھپنے والے اردو کالم کے آغاز کو بھی تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔ لگ بھگ بیس برس وہ ''ڈان'' میں مذہبی موضوعات پر لکھتے رہے۔ ڈراما نگاری کا بھی تجربہ کیا۔ سیریل ''کہتا ہوں سچ'' پی ٹی وی سے نشر ہوئی۔ بعد ازاں اِس نے ریڈیو کالمز کی صورت مقبولیت حاصل کی۔ پیشہ ورانہ سفر میں وہ 36 برس سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) سے منسلک رہے، اور بہ طور سینیر ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ 25 برس ادارے کے ترجمان ماہ نامہ ''بہبود'' کے چیف ایڈیٹر رہے۔ اِسی دوران پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ بہ قول ڈاکٹر صاحب، وہ سماجی تحفظ کے مضمون میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ خود کو اعتدال پسند قرار دیتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی فلاح کے آرزومند ہیں۔ ہر اُس نظریے کی حمایت کرتے ہیں، جو طبقاتی نظام کے خلاف ہو۔

اُنھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 96ء میں اے پی این ایس کی جانب سے بہترین اردو کالم نگار کا ایوارڈ اُنھوں نے وصول کیا۔ حکومت سندھ نے ادبی خدمات کے اعتراف پر اُنھیں 99ء میں نقد انعام سے نوازا۔ حکومت سندھ ہی کی جانب سے اُن کی ادبی زندگی کے پچاس سال مکمل ہونے پر 2003 میں گولڈ میڈل پیش کیا گیا۔


اُن کا پورا نام شیخ محمد معین قریشی ہے۔ 1942 میں اُنھوں نے دریا گنج، دہلی میں آنکھ کھولی۔ بٹوارے کے بعد خاندان لاہور چلا آیا۔ بعد میں کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں سکونت اختیار کی۔ والد، محمد صدیق کپڑے کی خرید و فروخت کے کام سے منسلک تھے۔ تقسیم کے بعد معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر محنت، مشکلات پر غالب آہی گئی۔ ایک بہن، چار بھائیوں میں معین قریشی چوتھے ہیں۔ بچپن میں خاصے کم گو ہوا کرتے تھے۔ یہ عادت اب بھی ساتھ ہے۔ والد اصول پسند، لیکن انتہائی نرم مزاج آدمی تھے، اس لیے کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی۔

تعلیمی سفر کا آغاز دریا گنج ہی میں ہوگیا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول، رنچھوڑ لائن کا حصہ بن گئے۔اسکول کی نچلی منزل پر صندوق تیار ہوتے تھے۔ یوں کھٹ پٹ اور الف بے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔کھیل کم ہی کھیلے، البتہ اسکول کی چھت پر کبڈی کا تجربہ ضرور کیا۔ 56ء میں میٹرک کرنے کے بعد معاشی مسائل نے تعلیم سے پرے دھکیل دیا۔کے پی ٹی میں وہ 110 روپے ماہ وار پر جونیر کلرک ہوگئے۔ تعلیمی سلسلہ بحال ہونے کے بعد 66ء میں بی کام کیا۔ پھر ادیب فاضل کا مرحلہ طے کیا، اور انگریزی کا پرچہ دے کر بی اے کی ڈگری حاصل کرلی۔

66ء میں وہ بہ طور ایوارڈنگ آفیسر سوشل سیکیورٹی کے محکمے کا حصہ بن گئے تھے۔ غیرسرکاری ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اس ادارے میں ترقی کے لیے قانون کی سمجھ ضروری تھی، اسی لیے 70ء میں ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔ پھر پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ ماسٹرز کے بعد وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ بہت پڑھ لیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب وہ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے عہدے پر فائز تھے۔ جو صاحبہ اُن کی پی آر او تھیں، وہ جرنلزم میں ایم اے تھیں، اور انگریزی میں لکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنے کیریر سے متعلق لکھے جانے والے ایک اخباری مضمون میں اپنے باس، یعنی ایس ایم معین قریشی کی بابت یوں اظہار خیال کیا،''وہ اپنی موجودی کا اظہار کرنے کے لیے میرے ڈرافٹس میں ترمیم کرتے ہیں، گو وہ غیرتکنیکی آدمی ہیں!'' طنز کا یہ نشتر سینے میں گیا۔ انھوں نے جرنلزم میں ماسٹرز کا مصمم ارادہ کر لیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اُن ہی صاحبہ سے کتابیں اور نوٹس لیے، اور 85ء میں سیکنڈ پوزیشن کے ساتھ یہ مرحلہ طے کر ڈالا۔ بعد میں تین برس جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔ پھر تحقیق کا سودا سمایا۔ مقالے کا موضوع ''پاکستان میں سماجی تحفظ: رجحان، مسائل اور پہلو'' تھا۔ تحقیق سات برس میں مکمل ہوئی۔ 94ء میں ڈگری ملی۔

83ء میں اُن کی پہلی اور اُن کے بہ قول، اِس موضوع پر اب تک کی اکلوتی کتاب ''سماجی تحفظ''شایع ہوئی۔ آنے والے برسوں میں اِس موضوع پر مضامین لکھے، قومی و بین الاقوامی سیمینارز میں لیکچرز دیے۔ الغرض انھیں اس شعبے کے ماہر کے طور پر شناخت کیا جانے لگا۔ اس عرصے میں بلوچستان حکومت کے لیے بہ طور ایڈوائزر کام کیا۔ وہ 2002 میں ریٹائر ہوئے۔ بعد کے برسوں کو تخلیقی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا۔

ادبی سفر پر بات شروع ہوئی، تو بتانے لگے کہ ان کے مطالعاتی سفر کا آغاز بچوں کے صفحات سے ہوا، جنھوں نے 53ء میں قلم تھامنے کی تحریک دی۔ پہلی تحریر ''رضیہ سلطانہ'' روزنامہ ''انجام'' کا حصہ بنی۔ پھر ''زندگی'' کے زیر عنوان ایک کہانی لکھی۔ یہ بھی ''انجام'' میں چھپی۔ باقاعدہ لکھنے کا آغاز 62ء میں ہوا۔ تحریریں مجید لاہوری کے پرچے ''نمک دان'' میں چھپنے لگیں۔ اسی پرچے کے طفیل اپنے اندر کے مزاح نگار کو دریافت کیا۔ مزاح نگاری کی جانب شفیق الرحمان کی کتاب ''لہریں'' نے راغب کیا، جو فٹ پاتھ سے دو روپے میں خریدی تھی۔ اس کتاب سے ذہن میں طنز و مزاح کی جو لہریں پیدا ہوئیں، انھوں نے معین قریشی کو مزاح نگار بنا دیا۔ آنے والے برسوں میں ''نمک دان'' کے ساتھ ''اردو پنچ''، ''ادب لطیف''، ''نیرنگ خیال'' اور ''قرطاس'' میں چھپتے رہے۔ ہندوستان سے نکلنے والے پرچے ''شگوفہ'' میں اُن کی تخلیقات نے جگہ پائی۔

کالم نگاری کا آغاز 85-86ء میں ہوا۔ ''برجانِ درویش'' کے عنوان سے وہ ایک موقر روزنامے میں پانچ برس لکھتے رہے۔ تحریروں کا بہت چرچا ہوا۔ بعد میں اِسی عنوان کے تحت ''نوائے وقت'' میں لکھنے لگے۔ گذشتہ بائیس برس سے اُن کا ہفتہ وار کالم شایع ہورہا ہے۔ اس عرصے میں ابن منشا کے قلمی نام سے پانچ برس ''ایکسپریس'' میں بھی کالم لکھے۔

انگریزی کالم نگاری کا موضوع نکلا، تو بتانے لگے کہ انگریزی اُن کی اچھی تھی، پھر پیشہ ورانہ سفر نے گرفت عطا کی، لکھنے کی جوت جگائی۔ 82ء میں ''ڈیلی نیوز'' میں پہلا کالم"To Be Fully Equipped" شایع ہوا۔ ردعمل شان دار رہا۔ اب وہ ہفتہ وار کالم لکھنے لگے۔ گو اِس دوران دو بار آپریشن کے مرحلے سے گزرے، حج اور عمرے کے لیے جانا ہوا، مگر کسی ہفتے وقفہ نہیں آیا۔ اس عرصے میں ان کے انگریزی کالمز نے ترکی، ایران، امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سے نکلنے والے پرچوں میں بھی جگہ پائی۔ 85ء میں ''ڈان'' میں لکھنا شروع کیا۔ جہاں میگزین کے لیے مزاح لکھا، وہیں مذہبی مضامین بھی لکھے۔ البتہ اب اس سلسلے میں وقفے آنے لگے ہیں، جنھیں وہ ''بدلتے رجحانات'' کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، اب انگریزی زبان بدل رہی ہے، ادبی چاشنی گھٹ گئی ہے، جس سے وہ خود کو ہم آہنگ نہیں پاتے۔

پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ تخلیقی سفر جاری رہا۔ وقت ضایع کرنے کے قائل وہ نہیں۔ کبھی خالی نہیں بیٹھتے تھے۔ جو لمحات میسر آئے، انھیں تخلیق ادب میں صرف کیا۔ یوں کتابوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ اوائل میں تو مختلف پبلشرز نے کتابیں شایع کیں، مگر اشاعت کے معیار سے وہ مطمئن نہیں تھے، سو خود اس کا اہتمام کرنے لگے۔ خوش قسمتی سے کبھی گھاٹا نہیں ہوا، بلکہ فائدے ہی میں رہے کہ بہ قول اُن کے، تمام کاپیاں فروخت ہوجاتی ہیں۔

مزاح نگاری کی جانب آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تسلیم کرتے ہیں کہ پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے، مگر ادب کی اِس صنف کا مستقبل اُنھیں روشن نظر آتا ہے۔
یوں تو زندگی میں کئی خوش گوار لمحات آئے، مگر ایک ایسا لمحہ بھی تھا، جو مسرت سے بھر گیا۔ بتاتے ہیں، اُس روز وہ بیت اﷲ میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ تلاوت کے اختتام پر پہلو میں بیٹھے شخص نے، جس کا تعلق مصر سے تھا، اُن سے کہا،''آپ عربوں سے بہتر لہجے میں قرآن پاک پڑھتے ہیں!'' ایک عرب کی زبان سے ادا ہونے والے اس جملے نے ذہن پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔

اردو ادب کی ترویج و ترقی پر بات کرتے ہوئے وہ لاہور کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتے ہیں، جسے وہ سب سے بڑا اشاعتی مرکز قرار دیتے ہیں۔ ہندوؤں کی خدمات کو بھی سراہتے ہیں۔ زبان کے مستقبل کی بابت کہنا ہے،''اب اردو معلیٰ کا نہیں، بلکہ 'اردو محلہ' کا دور ہے۔ بلاشبہہ میں دُرست زبان لکھنے، اسے برتنے کا قائل ہوں، مگر اس کی تطہیر کی انتہاپسندانہ کوششوں کے خلاف ہوں۔ جو الفاظ رائج ہیں، اُنھیں زبردستی غلط قرار دینے کا رویہ درست نہیں۔ اس سے اردو کو نقصان پہنچ رہا ہے۔''

شلوار قمیص میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سادہ خوراک لیتے ہیں۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ گائیکی سے گہرا شغف ہے۔ طلعت محمود کے وہ مداح ہیں۔ سنتوش کمار اور دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ''زندگی اور طوفان'' اور ''وعدہ'' پسندیدہ فلمیں ہیں۔ دیوآنند کی فلم ''ٹیکسی ڈرائیور'' گیارہ بار دیکھی۔ شعرا میں مومن کا نام لیتے ہیں۔ مزاحیہ شاعری میں دلاور فگار اور انور مسعود کا ذکر کرتے ہیں۔ انگریزی مزاح نگاروں میں آرٹ بک والڈ کو سراہتے ہیں۔ فکشن میں کرشن چندر کے مداح ہیں۔ 59ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے اُنھیں چار بیٹوں، ایک بیٹی سے نوازا۔ سب ہی کی شادی ہوچکی ہے۔ پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی کُل تعداد 19 ہے۔
Load Next Story