اس گھر کو آگ لگ گئی…
کیا معلوم تھا کہ وہ شاعر جو نوعمری میں اتناعمدہ شعر چھوڑ کر اس دنیاسے رخصت ہوجائے گا.
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
کیا معلوم تھا کہ وہ شاعر جو نوعمری میں اتناعمدہ شعر چھوڑ کر اس دنیاسے رخصت ہوجائے گا، اس کایہ شہرہ آفاق شعر پاکستان کے حالات کی تفسیر بن جائے گا۔چراغ جہاں روشنی دیتے ہیں،وہیں بھڑ ک جائیں تو سب کچھ جلاکر بھسم کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کو آگ ہمیشہ گھر کے اندر کے منور چراغوں ہی سے لگتی ہے۔لیکن پرائی آگ سے خوامخواہ کھیلنابھی اس آگ کو اپنی دہلیز تک لانے کا باعث بن جاتاہے۔عقل وخرد اوردانشمندی کا یہی تقاضاہوتا ہے کہ اپنے گھر کو چراغوںکے بھڑکنے سے لگنے والی آگ لگانے سے محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے،لیکن ساتھ ہی پرائی آگ کو بھی اپنے دامن تک پہنچنے سے روکا جائے۔
مگر ہمارے حکمرانوں نے ان باتوں پر کبھی توجہ دینے کی زحمت گوارانھیں کی۔جس کی وجہ سے آج ہم اندراور باہر کیا، چہار سو آگ میں گھرے ہوئے ہیں۔یعنی ہم سے اپناملک تو سنبھل نہیںپاتا ، مگردوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتے۔کچھ نہیں تو افغانستان میںتزویراتی گہرائی تلاش کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔جس سے نہ صرف اُس ملک میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، بلکہ خود ہمارا اپنا وجود بھی جھلس جاتاہے۔ان رویوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران اور منصوبہ سازکس حد تک دانشمنداور مسائل کوسمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور انھیں حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ غلط سمت میں سفر کا آغاز قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ مگر سرد جنگ کی وجہ سے اصلاح احوال کے تمام راستے بند ہوگئے اور ہم نے اسی راستے کو منزل تک رسائی کا ذریعہ سمجھ لیاتھا،جو تباہی کی کھائی کی طرف جاتاتھا۔نتیجتاًجہاں ایک طرف بیرونی قوتوں کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع ملا،وہیں ملک کے اندر وہ قوتیں مضبوط ہوئیں، جواپنی سرشت میںجمہوریت مخالف بلکہ فاشسٹ تھیں۔ ہمارے انھی رویوں کی وجہ سے فوج کو طویل عرصے تک ملک پر قابض رہنے کاموقع ملا۔جب کہ سیاسی جماعتیں بھی اپنے دورِ اقتدارمیں آئین اور پارلیمان کی بالادستی کے تصورکو عام کرنے میں ناکام رہیں۔
ہر فوجی آمر نے اپنی ذاتی اور ادارہ جاتی خواہشات کی تکمیل کی خاطر اس ملک کوتختہ مشق بنایا۔ایوب خان سے پرویزمشرف تک ہر آمر نے اس ملک کو نئے مسائل اور نئے بحرانوں میں مبتلا کیا۔لیکن جنرل ضیاء کا دور اس لحاظ سے سب سے زیادہ بھیانک تھا،کیونکہ اس دور میں اسلامائزیشن کے نام پرجو ایڈونچرہوا اس نے ایک طرف ملک میں متشدد فرقہ واریت کی راہ ہموارکی، تو دوسری طرف ملک کی مغربی سرحدوں کوبھی غیر محفوظ بنادیا۔اس کے علاوہ پورے ملک میں آتشیں اسلحے کے انبار لگے،منشیات گلی گلی عام ہوئی اورمخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک نیامظہر (Phenomenon) بھی متعارف ہوا۔
آج ملک کاکوئی حصہ ایسا نہیں جسے محفوظ کہا جاسکے۔ کہیں کم ،کہیں زیادہ حالات کی ابتری کے مہیب سائے پورے ملک پر چھائے ہوئے ہیں۔اگر خیبر پختونخواہ میں بم دھماکے اور خود کش حملے ہورہے ہیں،تو بلوچستان میں شورش پھیلی ہوئی ۔جب کہ سندھ کا دارالحکومت کراچی مختلف نوعیت کے سنگین جرائم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور پنجاب میں مختلف جرائم پنپ رہے ہیں۔ ایسا لگ رہاہے جیسے اس ملک میں جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے اور انھیں یقین دلادیاگیاہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چاہیںجو چاہیں واردات کریں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے خلاف کارروائی تو کجا ان کی معاونت کریں گے۔اب وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کا اجلاس کراچی کے شہرِ بے اماں میںبلایا ہے۔لیکن انھیں بھی اندازہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی عوامل انھیںکیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرنے دیں گے۔ مگر بہر حال اجلاس کرنے کی رسم توپوری کرکے دنیا اور اپنی فعالیت کودکھانا ہے۔معاملہ کراچی کا ہو کہ بلوچستان کا، خیبر پختونخواہ کا یا پنجاب کا،کسی اور کی نہیںہر طرف اپنے ہی چراغوں کی لگائی آگ بھڑک رہی ہے۔
حکمرانوں، سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کی فکری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اس قدر خون خرابہ اور قتل وغارت گری کے باوجود وہ مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کسی بہتری کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ عناصرجن کا کوئی بھی گروپ نہ تو پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتا ہے،نہ جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے اورنہ نظریاتی کثرتیت کو قبول کرتا ہے۔ان سے مذاکرات کن نکات پر کیے جائیں گے؟کیا حکومت پاکستان آئین کو طاق نسیاں کرکے جمہوریت اور جمہوری اقدار سے دست بردار ہونے پر تیارہوجائے گی؟اسی طرح بے گناہ شہریوں کوخودکش حملوںاور بم دھماکوں کو قتل کرنے،فوجی تنصیبا ت پرحملہ کرنے اور فوجی جوانوں کا گلا کاٹنے والے شدت پسند عناصرکیا اپنی کوئی شرط تسلیم کرائے بغیر ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوجائیں گے؟ ان سوالات کے جوابات نہ حکومت کے پاس ہیں اور نہ مذاکرات کی حامی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے پاس۔ یہ فکری نرگسیت کی بدترین مثال ہے۔
قبائلی علاقوں پر قابض عناصر کے ساتھ نمٹنے کے معاملات ایک طرف۔حکمرانوں کی فکری فرسودگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال بھر قبل جب Youtube پر توہین آمیز مواد کی موجودگی کاانکشاف ہوا،توحکمرانوں نے انتہائی چابک دستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس مواد کو بلاک کرنے کے بجائے Youtube ہی پر پابندی عائد کردی۔اب سال بھر سے زیادہ عرصہ گذرجانے کے باوجود اس پر سے پابندی اس لیے نہیں ہٹائی جاسکی ہے، کیونکہ مجاز ادارہ PTA ابھی تک کوئی ایسی Deviceتیار نہیں کرسکا ہے، جو ان سائٹس کو بلاک کرسکے،جن کے بارے میں غم وغصہ پایاجاتا ہے۔ اب ایک نئی شنید ہے کہ رات کے اوقات میںصارفین کوملنے والے ٹیلی فون پیکیجز پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔جس کا یہ جواز پیش کیا جارہاہے کہ ان کی وجہ سے اخلاقی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نئی ایجادات کے مثبت استعمال پر نوجوان نسل کو سائنسی طریقے سے راغب کرنے کے بجائے ان پر پابندی کیا ہمیںاپنے ہی ہاتھوںپتھرکے دور میںنہیں لے جائے گی؟مگر ان سوالات کی اہمیت کو وہی سمجھ سکتے ہیں ،جن میں عقل وخرد کا معمولی سا شائبہ بھی ہوتاہے۔یہاں تو عالم یہ ہے کہ کبھی مذہب وعقیدے کے نام پر کبھی ثقافت وروایات کے نام پرہمیشہ ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کو روکاگیاہے۔گویا ہر لحاظ سے علم دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا۔اگرآج سے صرف چالیس برس پہلے کے معاشرے کا آج کے دور سے تقابل کیا جائے تو بہت سے حقیقتیں آشکارہوجائیں گی۔پہلی بات یہ کہ اُس زمانے میںشراب کی فروخت پر پابندی تھی اور نہ ہی قحبہ خانے بندہوئے تھے۔
مگر نشے کے عادی افراد کی تعداد کا تناسب آج کے مقابلے میں بہت کم تھا۔آج پابندی کے باوجود شراب نوشی کرنے والوں کی شرح میںبے حساب اضافہ ہواہے بلکہ ہیروئن سمیت دیگر منشیات کے عادی افرادکی بہت بڑی تعداد فٹ پاتھوں، کھیل کے میدانوں اور پلوں کے نیچے پڑی نظر آتی ہے، جس کا اس زمانے میں تصور بھی محال تھا۔دراصل حکمرانوں نے جس غیر منطقی انداز میں فیصلے کیے ان کے نتیجے میں برائی کے ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوا۔دوسری طرف اس حقیقت کو بھی فراموش کردیا گیاکہ نوجوان نسل پر غیر فطری اندازمیں پابندیاں اور جدید ٹیکنالوجی سے دور کرنے کی حکمت عملی انھیںجھنجھلاہٹ کا شکار کرکے دہشت پسندانہ رجحانات کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے۔
درحقیقت حکمران اور منصوبہ ساز اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ مذہب کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ مسلمہ،لیکن بے وجہ کی مذہبیت (Religiosity) ذہنوں میں ابہام پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔اسی طرح راسخ العقیدگی بیشک ایک اعلیٰ انسانی وصف ہے،لیکن اپنے عقیدے کی پختگی دوسروں کی تحقیرکا سبب نہیں بنناچاہیے۔ معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فکری کثرتیت کے لیے قبولیت کے جذبے کو فروغ حاصل ہونا چاہیے، جس کی خاطردلیل کی بنیاد پر مکالمے کے لیے گنجائش کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ان تصورات کو ریاست،سیاسی جماعتیں اور اہل دانش فروغ دیتے ہیں۔ لیکن اگر ریاست خودہی فکری فرسودگی اور تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو تواس سے ان اعلیٰ اوصاف کے فروغ کی توقع عبث ہے۔لہٰذاموجودہ صورتحال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ گھر کے چراغ ہی گھر کو جلانے کا سبب بنے ہوئے ہیں اورگھر میں لگی آگ کوبجھانے کی بھی کسی کو فکر نہیں ہے۔