ڈی ایٹ تنظیم اور باہمی تجارت

اگر دنیا کے 8 بڑی آبادی والے ملکوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ان میں سے 4 ممالک کا تعلق اسلامی دنیا سے ہے۔


ایم آئی خلیل September 04, 2013
[email protected]

ڈی ایٹ (D-8) تنظیم کا قیام 15 جون 1997 کو استنبول میں عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم کے محرک اول ترکی کے اسلام پسند رہنما اس وقت کے ترک وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان تھے۔ اس تنظیم میں آٹھ بڑے مسلمان ممالک انڈونیشیا، پاکستان، نائیجیریا، بنگلہ دیش، مصر، ایران، ترکی اور ملائشیا شامل ہیں۔ پہلے ان ممالک کی آبادی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی کا تخمینہ 7 ارب 11 کروڑ نفوس لگایا جا رہا ہے۔ جس میں سے ان آٹھ اسلامی ملکوں کی مجموعی آبادی کا تخمینہ ایک ارب پونے دو کروڑ ہے۔ انڈونیشیا جو کہ اسلامی دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہے۔ پاکستان کی آبادی کا اندازہ 18 کروڑ سے متجاوز ہے، نائیجیریا کی آبادی 17 کروڑ 36 لاکھ سے زائد ہے۔ بنگلہ دیش میں سوا 15 کروڑ سے زائد افراد بستے ہیں۔

اگر دنیا کے 8 بڑی آبادی والے ملکوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ان میں سے 4 ممالک کا تعلق اسلامی دنیا سے ہے۔ D-8 ملکوں میں مذکورہ ممالک کے بعد سب سے زیادہ آبادی والا ملک مصر ہے جس کی آبادی 8 کروڑ 40 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ پھر ایران کی آبادی کا تخمینہ 7 کروڑ 68 لاکھ افراد اور ترکی 7 کروڑ 56 لاکھ افراد کے علاوہ ملائیشیا کی آبادی کا تخمینہ 3 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ اس طرح ایک ارب ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ڈی ایٹ ملکوں کی تنظیم آبادی کے اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ہم مستقبل پر نظر رکھ کر بات کرتے ہیں تو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ موجودہ صدی کے آخری عشرے تک پہنچنے سے قبل ہی مسلمان آبادی کے لحاظ سے عیسائیوں، ہندوؤں اور چینیوں تینوں سے آگے نکل جائیں گے بعض اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی یا اس سے زاید ہو جائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر مسلمان ممالک میں25 سال سے کم عمر آبادی کا تناسب کہیں 50 فی صد یا 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان موجودہ عشرے اور آیندہ عشرے کے لیے انتہائی موثر کردار ادا کریں گے۔

گزشتہ سال 22 نومبر کو آٹھ ترقی پذیر اسلامی ملکوں کی تنظیم (D-8) کا آٹھواں سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس وقت اس تنظیم کے سربراہ نائیجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن نے D-8 کی سربراہی صدر پاکستان آصف علی زرداری کو سونپی تھی۔ پاکستان 2014 تک اس تنظیم کا سربراہ رہے گا۔ حتیٰ کہ 2014 میں جب ترکی میں D-8 تنظیم کی نویں سربراہی کانفرنس منعقد ہو گی تو پاکستان تنظیم کی سربراہی ترک صدر کو سونپ دے گا۔

D-8 تنظیم کا ویژن آپس میں اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینا، ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ ہم آہنگی قائم کرنا۔ 2012 میں تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقعے پر 35 نکاتی اعلان اسلام آباد کی منظوری دی گئی۔ جس کی اہم بات یہ تھی کہ تنظیم کے رکن ملکوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے تعاون کریں۔ دیگر تنظیموں خصوصاً او آئی سی آسیان، ریکو، سارک، عرب لیگ و دیگر کے ساتھ تعاون اور رابطہ رکھا جائے۔ اجلاس میں رکن ممالک میں زرعی پیداوار میں اضافہ، غذائی اشیاء کی پیداوار میں اضافہ خود انحصاری سے متعلق حکمت عملی وضع کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس بات پر زور دیا گیا کہ آٹھوں ممالک ترجیحی معاہدوں پر جلد از جلد عملدرآمد کے لیے اقدامات کریں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد میں 2 ستمبر سے شروع ہونے والا دو روزہ اجلاس جو D-8 تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون پر بیشتر وقت کا جائزہ لینے کے لیے کمشنر کی سطح پر ہوا ہے۔ اس اجلاس میں ایران، ترکی، بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا اور نائیجیریا کے نمایندوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے افتتاحی خطاب میں وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ تنظیم کے تمام رکن ممالک ترجیحی تجارت سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں خصوصی توجہ دیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی ایٹ ممالک کے درمیان استعداد کار میں اضافے، ٹیکنالوجی سرمائے اور افرادی قوت کے تبادلے اسلامی بینکاری اور حلال اشیا سے متعلق معاہدے پر جلد عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔

جہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان ترجیحی معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ڈی ایٹ کمشنرز اجلاس سے قبل ہی یکم ستمبر کو ہو چکا تھا۔ معاہدے کے مطابق پاکستان اور انڈونیشیا آپس میں تجارت ترجیحی نرخوں پر کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستانی کینو کو بھی جکارتہ ایئرپورٹ تک رسائی مل جائے گی۔ معاہدے پر عملدرآمد سے پاکستان کو آسیان ریجن تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس معاہدے کے نفاذ سے دونوں ملکوں کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ بھی جلد طے پا جائے گا۔ انڈونیشیا پاکستان میں کوئلے کی کان کنی کے شعبے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں انڈونیشیا سے پام آئل اور کوئلے کی درآمد میں بھی اضافہ ہو گا۔

وزیر اعظم کے مشیر خارجہ امور کا کہنا تھا کہ ڈی ایٹ ممالک کو توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ پاکستان جو کہ توانائی بحران کے حل کے لیے کئی پاور پراجیکٹس کو چلانے کے لیے تیل پر انحصار ختم کر کے کوئلے پر منتقل کرنا چاہ رہا ہے۔ اس طرح اس ترجیحی معاہدے کے فوائد پاکستان کو حاصل ہوں گے انڈونیشیا سے کوئلے کی درآمد میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں سربراہی اجلاس کے موقعے پر یہ طے ہوا تھا کہ تنظیم کے رکن ممالک آپس میں تجارت بڑھاتے ہوئے 2018 تک باہمی تجارت 500 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ اگرچہ اس بات کے آثار نظر نہیں آتے لیکن مختلف ممالک کے 2012 میں برآمدات کا جائزہ لیں اس کے بعد ہی اس بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

ڈی ایٹ تنظیم ملکوں میں سب سے کم آبادی والے ملک ملائیشیا کی برآمدات سب سے زیادہ ہیں 2012 کے اعداد و شمار کے مطابق 247 ارب ڈالر کی برآمدات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا کی برآمدات کا تخمینہ گزشتہ سال 87 ارب 70 کروڑ ڈالر ، ترکی 163 ارب 40 کروڑ ڈالر کی برآمدات 2012 میں کر چکا ہے۔ ایران کی برآمدات اندازاً 66 ارب 33 کروڑ ڈالر، نائیجیریا 92 ارب 16 کروڑ ڈالر کی برآمدات 2012کے اعداد و شمار کے مطابق۔ اس کے علاوہ مصر نے 26 ارب 83 کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ کی ہے اور بنگلہ دیش کی برآمدات کا 2012 میں تخمینہ 26 ارب 25 کروڑ ڈالر اور پاکستان جس کی برآمدات تنظیم کے ملکوں میں سب سے کم رہی 2012 کے تخمینے کے مطابق 24 ارب 63 کروڑ ڈالر کی رہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 16 سال قبل ہی موجودہ وزیر اعظم نے ہی 1997 میں D-8 سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ D-8 کمشنرز کے حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ممبر ممالک کے درمیان 2018 تک تجارت 150 ارب ڈالر سے بڑھا کر 500 ارب ڈالرز تک لے جانے اور اس معاہدے پر ہر صورت عملدرآمد کیا جائے گا۔ منگل 3 ستمبر 2013 کو ہونے والے D-8 کمشنرز اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ہیں اس کے بھرپور نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ممبر ممالک D-8 کا ویژن مدنظر رکھتے ہوئے آپس میں اقتصادی و تجارتی تعلقات کو تیز رفتاری کے ساتھ فروغ دیں تا کہ باہمی تجارت کو 2018 تک 500 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں