لالٹو مرگیا
ارسطو نے کہا تھا کہ انسان سیاسی حیوان ہے یعنی سماجی حیوان۔
WASHINGTON:
جی ہاں آج شام ٹھیک 5 بجے گلی سے گزرتے ہوئے سیف نے کہا ''لالٹو مرگیا۔'' لالٹو کی ماں کے کل چار بچے تھے۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ بچوں کا باپ کون تھا مگر یہ معلوم تھا کہ اس کی ماں کلو کے چار بچے تھے۔ بڑی پیار دلار اور نخرے سے ان کی دیکھ بھال کرتی تھی اور لاڈ پیار سے کھلاتی پلاتی تھی۔ انتہائی غربت، نامناسب حالات، تنگ دستی اور غذائی قلت سے اس کے تین بچے مر گئے تھے۔ ایک بیٹا لالٹو بچ گیا۔ ابھی تو سال بھر کا نہ ہو پایا تھا، بس کھیل کود اور کھانے پینے میں ہی مگن تھا۔ ماں اور پڑوسیوں کے سوا اسے معلوم ہی کیا تھا۔ کبھی کبھی پڑوسی بچی سے کھیل لیتا تھا۔ اکثر بچوں کی جو جبلی عادت ہوتی ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ اور مستیاں کرنا وغیرہ۔
ارسطو نے کہا تھا کہ انسان سیاسی حیوان ہے یعنی سماجی حیوان۔ انسانوں کا رہن سہن جانوروں سے صرف اتنا الگ ہے کہ انسان سماجی شعور رکھتا ہے۔ کبھی بھی تن تنہا نہیں رہا اور نہ رہ کر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک بچے کو چلنے میں ہی ایک سال لگ جاتا ہے۔ وہ تنہا بڑھ سکتا ہے؟ دور وحشت میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ خونخوار جانوروں سے اپنے آپ کو بچانا تھا۔ اسی تگ و دو میں اس نے آگ جلانا سیکھا اور اس کے ذریعے درندوں کو بھگانا بھی۔ اس کا سماج ایک ایسا سماج تھا جن میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ شکار کرنا، پھل توڑنا اور مچھلی پکڑنا اس کا کام تھا۔ قبیلے میں خواہ سیکڑوں کارکنان کیوں نہ ہوں اگر شکار کرنے والے صرف پانچ افراد بھی جاتے تھے تو شکار کر کے لاتے تھے اور وہ سب کو برابر بانٹ دیا جاتا تھا۔ کسی کو بھوکا نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ ان کے سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد نہ کرنا تھا جب کہ آج کے اس مہذب سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد کرنا ہے۔ اسی لیے دنیا کے 2000 امیروں کے پاس 138 کھرب ڈالر ہیں جب کہ ہر ماہ 18 لاکھ انسان اس دنیا میں بھوک سے مر جاتے ہیں۔
جب ریاست کا وجود نہ تھا تو سارے وسائل یعنی جنگلات، آبی وسائل اور جانور کسی کی ملکیت نہ تھے۔ جو جب چاہے جس چیز کو حاصل کرے اور کھا لے۔ ہاں مگر اکثر اوقات غذا کے حصول میں کئی دنوں تک کوسوں مارے مارے پھرنا پڑتا تھا۔ زندگی کٹھن اور دشوار گزار ضرور تھی لیکن دشمن، میرا، تیرا، حسد اور خود غرضی ان کے سماج میں جرم سمجھا جاتا تھا۔ سائنس نے ترقی تو بہت کر لی ہے لیکن اس کے سرمایہ داروں کے مفاد میں استعمال ہونے کی وجہ سے 99 فیصد لوگ ان سائنسی نعمتوں سے محروم ہیں۔ صرف پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل سوار ہر سال حادثات کے باعث پانچ لاکھ افراد مر جاتے ہیں۔
لالٹو بھی اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوا تھا۔ کچھ لوگ تو اپنی غلطیوں، لاپرواہیوں اور شوخیوں کی وجہ سے بھی حادثات کے شکار ہوتے ہیں۔ لیکن لالٹو تو بے کس، بے بس اور بے سہارا تھا۔ جس کو بھی دیکھا یا جہاں سے کچھ آسرا ہوتا وہاں بھاگ کے مانگتا ضرور تھا۔ ہاں مگر یہ ضرور تھا کہ بعض لوگ دے دیتے تھے اور بعض لوگ حقارت سے دھتکار دیتے تھے۔ بے چارہ دھتکار سے خفا ہوتا اور نہ جواب میں کوئی ردعمل ظاہر کرتا۔ محلے کی ایک بچی اسے اپنے ساتھ کبھی کبھی گھر لاتی اور کھانا کھلاتی، پھر کچھ دیر کے لیے اس کے ساتھ کھیل بھی لیتی۔ پھر لالٹو اپنے روزگار پر یا مانگ کر کھانے کے لیے نکل پڑتا تھا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس طرح کی دھتکاروں سے بھرمار لاکھوں بھکاری مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لوگ روزگار سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
پہلے خاکروب پاکستان میں صرف عیسائی اور ہندو ہوتے تھے لیکن اب سرائیکی، پشتون اور پنجابی مسلمان بھی خاکروبی کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بھی عیسائی یا ہندو پشت در پشت خاکروبی نہیں کرتے تھے بلکہ تاریخی طور پر وقت، حالات اور ضرورتوں کے تقاضوں نے انھیں خاکروبی کے کاموں کی جانب متوجہ کیا۔ بیروزگاری میں جب اضافہ ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ کارخانے لگنے کے بجائے سیلز اور سروسز کے شعبوں میں جب اضافہ ہوا تو بیروزگار اور نیم بیروزگاروں میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر ہمت والا ڈاکا ڈالنے لگا، کم ہمت والا چوری کرنے لگا، مجبور ہو کر کوئی بھیک مانگنے لگا، کوئی مایوس ہو کر منشیات کا عادی ہو گیا تو کچھ لوگ زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے لگے۔
مگر لالٹو ان سب سے بے نیاز، اسے تو صرف مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ ''بابا کچھ کر لے'' تو کچھ کہتے تھے کہ ''ابھی تو بچہ ہے کیا کرے گا، ابھی اس کے کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں''۔ پھر گلی کے ایک صاحب اس بحث میں کود پڑے کہ کیوں نہیں؟ دیکھو تو چھوٹے چھوٹے پٹھان بچے کچرے کی کنڈیوں اور کوڑے میں سے کام کی چیزیں چن کر اپنا پیٹ تو پال لیتے ہیں۔ پھر گلی کے ایک اور بڑے میاں کہنے لگے کہ لالٹو بھی تو کوئی خوامخواہ بیٹھا نہیں رہتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر میں سے تو وہ بھی کھانے کی چیزیں تلاش کر ہی لیتا ہے، دیکھا تھا نہ منگل کو دو پٹھان بچوں کو روٹی کا ایک پیکٹ مل گیا تھا، جس پر دونوں جھپٹ پڑے اور اس چھینا جھپٹی میں روٹی کے کچھ چھوٹے ٹکڑے زمین پر آ گرے اور لالٹو لپک لپک کر اٹھاتا اور کھا لیتا۔ پیٹ بھرنے پر پھر پڑوسن کی بچی صفیہ سے کھیلنے لگتا۔ کھانا ملنے کے بعد کھیلتے وقت لالٹو کتنا خوش رہتا تھا۔ اس طرح کی زندگی گزارتے ہوئے ہمیں جکارتہ، دلی، ممبئی، کلکتہ، ڈھاکا، کراچی، قاہرہ اور بے شمار شہروں اور دیہاتوں میں کروڑوں بچے کام کرتے ہوئے، کوڑا چنتے ہوئے، بھیک مانگتے ہوئے، چوری کرتے ہوئے اور فاقوں سے اکتا کر مرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ کچھ لوگوں کے پاس دنیا کی تمام تر عیاشیوں کی سہولیات موجود ہیں تو باقی 99 فیصد تمام تر ضرورتوں سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنی بدمعاشیوں سے نجی ملکیت قائم کر رکھی ہے اور باقی لوگ بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی، بے گھری اور بیروزگاری سے دوچار ہیں۔ ان بے چارگی اور مفلسی کی وجہ سے روزانہ 75 ہزار انسان غذائی قلت، قحط، افلاس اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ تو لالٹو تھا۔ سیف گلی سے گزر رہا تھا اور مرے ہوئے لالٹو کو بار بار گھور رہا تھا تو ایک صاحب نے سیف کی آنکھ میں آنسو کا قطرہ دیکھ کر کہا کہ ''یہ کوئی مسلمان یا مہاجر تو نہیں تھا کہ آپ کی آنکھ سے آنسو آ جائے۔'' سیف نے جواباً کہا کہ ''یہ اگر انسان ہوتا تو مسلمان اور مہاجر بھی ہوتا۔ مگر یہ تو انسان نہیں تھا۔ لالٹو تو صرف ایک ''کلو'' بلی کا بچہ تھا۔ اس لیے تو یہ بے گور و کفن گلی میں پڑا ہے۔
شاید انسان ہوتا تو اسے کفناتے دفناتے اور پھر فاتحہ ہوتی، سوئم اور چہلم ہوتا۔ چلو اس خرچے سے گلی والے تو بچ گئے۔ یہ بلی کا بچہ لالٹو صرف 2 ماہ کا تھا۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کے گناہ و ثواب کا حساب کتاب کیسے ہو گا۔ اس لیے کہ یہ بلی کا بچہ تھا، آدم کا نہیں۔ یہاں تو روز درجنوں انسان نما حیوان انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ لالٹو اور اس کے خاندان نے کسی کا کوئی قتل نہیں کیا بلکہ خود قتل ہو گیا۔ اس کی ماں ''کلو'' کئی روز غم زدہ ہو کر بھول تو گئی لیکن لالٹو جس پڑوسن بچی صفیہ سے کھیلتا تھا اسے بھلا نہیں پائی۔ اکثر اس کے پاس آ کر ''میں آؤں'' کہہ کر اجازت لیتی اور کھانا مانگتی۔ یعنی آخری سوال ''روٹی'' کا ہے۔
جی ہاں آج شام ٹھیک 5 بجے گلی سے گزرتے ہوئے سیف نے کہا ''لالٹو مرگیا۔'' لالٹو کی ماں کے کل چار بچے تھے۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ بچوں کا باپ کون تھا مگر یہ معلوم تھا کہ اس کی ماں کلو کے چار بچے تھے۔ بڑی پیار دلار اور نخرے سے ان کی دیکھ بھال کرتی تھی اور لاڈ پیار سے کھلاتی پلاتی تھی۔ انتہائی غربت، نامناسب حالات، تنگ دستی اور غذائی قلت سے اس کے تین بچے مر گئے تھے۔ ایک بیٹا لالٹو بچ گیا۔ ابھی تو سال بھر کا نہ ہو پایا تھا، بس کھیل کود اور کھانے پینے میں ہی مگن تھا۔ ماں اور پڑوسیوں کے سوا اسے معلوم ہی کیا تھا۔ کبھی کبھی پڑوسی بچی سے کھیل لیتا تھا۔ اکثر بچوں کی جو جبلی عادت ہوتی ہے کہ اکھاڑ پچھاڑ اور مستیاں کرنا وغیرہ۔
ارسطو نے کہا تھا کہ انسان سیاسی حیوان ہے یعنی سماجی حیوان۔ انسانوں کا رہن سہن جانوروں سے صرف اتنا الگ ہے کہ انسان سماجی شعور رکھتا ہے۔ کبھی بھی تن تنہا نہیں رہا اور نہ رہ کر اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔ ایک بچے کو چلنے میں ہی ایک سال لگ جاتا ہے۔ وہ تنہا بڑھ سکتا ہے؟ دور وحشت میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ خونخوار جانوروں سے اپنے آپ کو بچانا تھا۔ اسی تگ و دو میں اس نے آگ جلانا سیکھا اور اس کے ذریعے درندوں کو بھگانا بھی۔ اس کا سماج ایک ایسا سماج تھا جن میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی تھی۔ شکار کرنا، پھل توڑنا اور مچھلی پکڑنا اس کا کام تھا۔ قبیلے میں خواہ سیکڑوں کارکنان کیوں نہ ہوں اگر شکار کرنے والے صرف پانچ افراد بھی جاتے تھے تو شکار کر کے لاتے تھے اور وہ سب کو برابر بانٹ دیا جاتا تھا۔ کسی کو بھوکا نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ ان کے سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد نہ کرنا تھا جب کہ آج کے اس مہذب سماج میں سب سے برا کام کسی کی مدد کرنا ہے۔ اسی لیے دنیا کے 2000 امیروں کے پاس 138 کھرب ڈالر ہیں جب کہ ہر ماہ 18 لاکھ انسان اس دنیا میں بھوک سے مر جاتے ہیں۔
جب ریاست کا وجود نہ تھا تو سارے وسائل یعنی جنگلات، آبی وسائل اور جانور کسی کی ملکیت نہ تھے۔ جو جب چاہے جس چیز کو حاصل کرے اور کھا لے۔ ہاں مگر اکثر اوقات غذا کے حصول میں کئی دنوں تک کوسوں مارے مارے پھرنا پڑتا تھا۔ زندگی کٹھن اور دشوار گزار ضرور تھی لیکن دشمن، میرا، تیرا، حسد اور خود غرضی ان کے سماج میں جرم سمجھا جاتا تھا۔ سائنس نے ترقی تو بہت کر لی ہے لیکن اس کے سرمایہ داروں کے مفاد میں استعمال ہونے کی وجہ سے 99 فیصد لوگ ان سائنسی نعمتوں سے محروم ہیں۔ صرف پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل سوار ہر سال حادثات کے باعث پانچ لاکھ افراد مر جاتے ہیں۔
لالٹو بھی اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوا تھا۔ کچھ لوگ تو اپنی غلطیوں، لاپرواہیوں اور شوخیوں کی وجہ سے بھی حادثات کے شکار ہوتے ہیں۔ لیکن لالٹو تو بے کس، بے بس اور بے سہارا تھا۔ جس کو بھی دیکھا یا جہاں سے کچھ آسرا ہوتا وہاں بھاگ کے مانگتا ضرور تھا۔ ہاں مگر یہ ضرور تھا کہ بعض لوگ دے دیتے تھے اور بعض لوگ حقارت سے دھتکار دیتے تھے۔ بے چارہ دھتکار سے خفا ہوتا اور نہ جواب میں کوئی ردعمل ظاہر کرتا۔ محلے کی ایک بچی اسے اپنے ساتھ کبھی کبھی گھر لاتی اور کھانا کھلاتی، پھر کچھ دیر کے لیے اس کے ساتھ کھیل بھی لیتی۔ پھر لالٹو اپنے روزگار پر یا مانگ کر کھانے کے لیے نکل پڑتا تھا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس طرح کی دھتکاروں سے بھرمار لاکھوں بھکاری مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لوگ روزگار سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
پہلے خاکروب پاکستان میں صرف عیسائی اور ہندو ہوتے تھے لیکن اب سرائیکی، پشتون اور پنجابی مسلمان بھی خاکروبی کا کام کرتے ہیں۔ پہلے بھی عیسائی یا ہندو پشت در پشت خاکروبی نہیں کرتے تھے بلکہ تاریخی طور پر وقت، حالات اور ضرورتوں کے تقاضوں نے انھیں خاکروبی کے کاموں کی جانب متوجہ کیا۔ بیروزگاری میں جب اضافہ ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ کارخانے لگنے کے بجائے سیلز اور سروسز کے شعبوں میں جب اضافہ ہوا تو بیروزگار اور نیم بیروزگاروں میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر ہمت والا ڈاکا ڈالنے لگا، کم ہمت والا چوری کرنے لگا، مجبور ہو کر کوئی بھیک مانگنے لگا، کوئی مایوس ہو کر منشیات کا عادی ہو گیا تو کچھ لوگ زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے لگے۔
مگر لالٹو ان سب سے بے نیاز، اسے تو صرف مانگنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ ''بابا کچھ کر لے'' تو کچھ کہتے تھے کہ ''ابھی تو بچہ ہے کیا کرے گا، ابھی اس کے کھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں''۔ پھر گلی کے ایک صاحب اس بحث میں کود پڑے کہ کیوں نہیں؟ دیکھو تو چھوٹے چھوٹے پٹھان بچے کچرے کی کنڈیوں اور کوڑے میں سے کام کی چیزیں چن کر اپنا پیٹ تو پال لیتے ہیں۔ پھر گلی کے ایک اور بڑے میاں کہنے لگے کہ لالٹو بھی تو کوئی خوامخواہ بیٹھا نہیں رہتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر میں سے تو وہ بھی کھانے کی چیزیں تلاش کر ہی لیتا ہے، دیکھا تھا نہ منگل کو دو پٹھان بچوں کو روٹی کا ایک پیکٹ مل گیا تھا، جس پر دونوں جھپٹ پڑے اور اس چھینا جھپٹی میں روٹی کے کچھ چھوٹے ٹکڑے زمین پر آ گرے اور لالٹو لپک لپک کر اٹھاتا اور کھا لیتا۔ پیٹ بھرنے پر پھر پڑوسن کی بچی صفیہ سے کھیلنے لگتا۔ کھانا ملنے کے بعد کھیلتے وقت لالٹو کتنا خوش رہتا تھا۔ اس طرح کی زندگی گزارتے ہوئے ہمیں جکارتہ، دلی، ممبئی، کلکتہ، ڈھاکا، کراچی، قاہرہ اور بے شمار شہروں اور دیہاتوں میں کروڑوں بچے کام کرتے ہوئے، کوڑا چنتے ہوئے، بھیک مانگتے ہوئے، چوری کرتے ہوئے اور فاقوں سے اکتا کر مرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ کچھ لوگوں کے پاس دنیا کی تمام تر عیاشیوں کی سہولیات موجود ہیں تو باقی 99 فیصد تمام تر ضرورتوں سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنی بدمعاشیوں سے نجی ملکیت قائم کر رکھی ہے اور باقی لوگ بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی، بے گھری اور بیروزگاری سے دوچار ہیں۔ ان بے چارگی اور مفلسی کی وجہ سے روزانہ 75 ہزار انسان غذائی قلت، قحط، افلاس اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ تو لالٹو تھا۔ سیف گلی سے گزر رہا تھا اور مرے ہوئے لالٹو کو بار بار گھور رہا تھا تو ایک صاحب نے سیف کی آنکھ میں آنسو کا قطرہ دیکھ کر کہا کہ ''یہ کوئی مسلمان یا مہاجر تو نہیں تھا کہ آپ کی آنکھ سے آنسو آ جائے۔'' سیف نے جواباً کہا کہ ''یہ اگر انسان ہوتا تو مسلمان اور مہاجر بھی ہوتا۔ مگر یہ تو انسان نہیں تھا۔ لالٹو تو صرف ایک ''کلو'' بلی کا بچہ تھا۔ اس لیے تو یہ بے گور و کفن گلی میں پڑا ہے۔
شاید انسان ہوتا تو اسے کفناتے دفناتے اور پھر فاتحہ ہوتی، سوئم اور چہلم ہوتا۔ چلو اس خرچے سے گلی والے تو بچ گئے۔ یہ بلی کا بچہ لالٹو صرف 2 ماہ کا تھا۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کے گناہ و ثواب کا حساب کتاب کیسے ہو گا۔ اس لیے کہ یہ بلی کا بچہ تھا، آدم کا نہیں۔ یہاں تو روز درجنوں انسان نما حیوان انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ لالٹو اور اس کے خاندان نے کسی کا کوئی قتل نہیں کیا بلکہ خود قتل ہو گیا۔ اس کی ماں ''کلو'' کئی روز غم زدہ ہو کر بھول تو گئی لیکن لالٹو جس پڑوسن بچی صفیہ سے کھیلتا تھا اسے بھلا نہیں پائی۔ اکثر اس کے پاس آ کر ''میں آؤں'' کہہ کر اجازت لیتی اور کھانا مانگتی۔ یعنی آخری سوال ''روٹی'' کا ہے۔