ڈاکٹر مرسی کی مظلومانہ موت

مصر میں محمد مرسی کی مظلومانہ موت اخوان المسلمون کی طرف سے پیش کی گئی کوئی پہلی قربانی نہیں۔


Asghar Abdullah June 20, 2019
[email protected]

مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی اور دوران سماعت آن واحد میں اپنے خلاف تمام جھوٹے مقدمات سے نجات پا گئے۔ مرسی پچھلے چھ سال سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اور قیدوبند بھی ایسی سخت کہ سارا عرصہ تنہائی میں ہی رہے۔ ان کے رشتہ داروں اور وکلا کو بھی ان سے بہت کم ملنے دیا گیا، ادویہ کی فراہمی اورکھانے پینے میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئیں، اوراس پر مستزاد وہ ذہنی اذیت تھی، جو پے در پے مقدمات بنا کر ان کو دی جا رہی تھی۔

مصر میں محمد مرسی کی مظلومانہ موت اخوان المسلمون کی طرف سے پیش کی گئی کوئی پہلی قربانی نہیں، بلکہ یہ قربانیوں کے اسی تاریخی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کو اس کے بانی حسن البنا شہید نے اپنے خون سے اور ان کے بعد سید قطب اور یوسف القرضاوی سمیت ان کے ساتھیوں نے پھانسیوں کے پھندے چوم کر آغاز کیا۔

2011 ء کے اوائل میں جب مشرق وسطیٰ کے ملکوں ( تیونس، مصر، یمن ، لیبیا ) میں '' آمرحکمرانوں'' کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں اور یکے بعد دیگرے کامیاب بھی ہو گئیں تو اسے arab spring ( عرب بہار ) قرار دیا گیا؛ یعنی عرب دنیا کو موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کے تسلط سے نجات مل رہی ہے اور اس پر ''جمہوریت'' کی بہارآ رہی ہے۔ اخوان المسلمون، جس کے اثرات مشرق وسطیٰ کے ان سارے ملکوں میں ہیں، اس'عرب بہار' کا خیرمقدم کرنے میں پیش پیش تھی۔ اس کو اسلامی بیداری کی لہر اور مشرق وسطیٰ میں ''اسلامی انقلاب'' کی تمہید قرار دے رہی تھی۔

اخوان المسلمون نے ماضی میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بڑے مصائب سہے ہیں، لیکن جنرل سیسی کی شکل میں جو آزمایش اب اس کو درپیش ہے، وہ کچھ اس سے سوا ہے ۔ ستم یہ ہے کہ جنرل سیسی کو ڈاکٹر مرسی ہی نے، جب وہ صدر تھے، اگست 2012 ء میں انٹیلی جنس چیف کے عہدے سے ترقی دے کر محمد حسین طنطاوی کی جگہ آرمی چیف مقرر کیا تھا، بلکہ وزیر دفاع کے عہدے سے بھی سرفراز کر دیا تھا۔ حالانکہ حسنی مبارک کے بعدابتدائی طو رپر امور مملکت چلانے کے لیے جو عبوری فوجی کونسل تشکیل دی گئی، اس میں جنرل سیسی سب سے کم عمر فوجی افسر تھے۔

تاثریہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کی ترجمان جماعت ''فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی'' کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ایک ہی سال میں مگر جنرل سیسی نے اس طرح رنگ بدلا کہ اپنے محسن ڈاکٹر مرسی کا تختہ الٹ دیا، بلکہ بعد میں ان کو ایک ایسے ''جرم'' میں سزائے موت سنائی گئی، جس میں نہ صرف یہ کہ ان کا کوئی قصور نہ تھا، بلکہ یہ وقوعہ ان دنوںپیش آیا تھا، جب مصر میں حسنی مبارک کے خلاف ''عرب بہار'' جوبن پر تھی اور فوج، اخوان المسلمون کی قیادت اورعدلیہ تینوں ایک صفحہ پر تھے۔

اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ جن دنوں حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی تحریک زوروں پر تھی ۔ وادی النظر ون نامی جیل میں11161 قیدی اپنی سزائیں کاٹ رہے تھے۔ انھی قیدیوں میں اخوان المسلمون کے ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے24 ساتھی بھی تھے، جن کا جرم حسنی حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونا تھا۔اواخر جنوری 2011 ء کی ایک سہ پہر کو وادی النظروں جیل کا عملہ اچانک پراسرار طور پر غائب ہو گیا تمام قیدی فرار ہو گئے۔ ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھیوں نے مگر حکومت کی اس سازش کو بھانپ لیا اور جیل انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ جب وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا، تو الجزیرہ ٹی وی سمیت کئی دوسرے چینلوں کو ٹیلی فون کیا اورکہا کہ دیکھیے، یہاں جیل کاعملہ غائب ہو گیا ہے اور سارے قیدی جا چکے ہیں۔

ہم بغیر کسی قانونی کارروائی کے یہاں سے جانا نہیں چاہتے ہیں ۔ تھوڑی دیر میں ٹی وی رپورٹر پہنچ گئے اور جائے وقوعہ سے براہ راست کوریج کی۔ کئی گھنٹے گزر گئے، لیکن حکومت کا کوئی نمایندہ وہاں نہ پہنچا۔ لہٰذا ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھی بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ اخوان المسلمون کاکہنا ہے کہ اس واقعہ کی ساری ریکارڈنگ ٹی وی چینلوں کے پاس اب بھی موجود ہے اور دیکھی جا سکتی ہے۔

صدر حسنی مبارک کی حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ نئے صدر کے لیے انتخاب ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد مرسی اخوان المسلمون کی ترجمان ' فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی' کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر مرسی انتہائی تعلیم یافتہ سیاست دان تھے۔1982ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد امریکا اور مصر کی یونیورسٹیوں میں پڑھا چکے تھے۔ 2013ء میں بحیثیت صدر دورہ پاکستان پر آئے تو یہاں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیNUST نے بھی ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔

صدارتی الیکشن میں ڈاکٹر مرسی کا مقابلہ حسنی مبارک کے آخری وزیراعظم احمد شفیق سے ہوا۔ ڈاکٹر مرسی51.73 فی صد ووٹ لے کرصدر منتخب ہوگئے۔ وادی النطروں جیل کے واقعہ کے بعد یہ سارا سلسلہء واقعات ثابت کرتا ہے کہ اس واقعہ میں ڈاکٹر مرسی کو ہمیشہ بری الذمہ سمجھا گیا۔ مگر تعجب ہے کہ بعد میں فوج اور عدلیہ کی طرف سے اس واقعہ میں ان ہی کو ''مرکزی مجرم'' قرار دے کر پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ قاہرہ کی عدالت میں جب جج صاحب ڈاکٹر مرسی سمیت 124 افراد کو سزائے موت کا فیصلہ سنا چکے تو وہاں موجود ایک سرپھرے شخص نے کہا، ''مائی لارڈ، آج جن ''ملزموں'' کو آپ نے سزائے موت سنائی ہے، ان میں سے کئی ''ملزم'' کئی سال پہلے انتقال فرما چکے ہیں۔'' جج صاحب نے گھور کر اس شخص کو دیکھا اور دانت پیستے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔

اخوان المسلمون کے خلاف فوجی اور عدالتی کارروائیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مصر میں ''عرب بہار''کے نام پر اٹھنے والی تحریک کے پیچھے جو اندرونی اور بیرونی قوتیں کارفرما تھیں، ان کا بنیادی مقصد حسنی مبارک کو راستے سے ہٹانا اور مصر کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا۔ جن لوگوں کو مصر کی سیاست اور معاشرت میں اخوان المسلمون کی اثر پذیری کا کچھ بھی اندازہ ہے ، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اخوان کو ساتھ ملائے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اخوانی قیادت کی سوچ شاید یہ تھی کہ اگر حسنی مخالف فوجی عناصر اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو اس کو جھٹک دینا خلاف مصلحت ہو گا۔

بعد کو جب الیکشن میں اخوان کی فریڈم اینڈجسٹس پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کر لی اور اخوان کے ڈاکٹر مرسی51 فی صد سے زائد ووٹ لے کر صدر منتخب ہو گئے تو فوج نے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس کے بعد پہلے عدلیہ کو ہلہ شیری دے کر منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کرایا گیا اور جب صدر مرسی نے پارلیمنٹ کو بحال کرکے عدلیہ کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی تو فوج نے ان کو بھی فارغ کردیا۔ 2013 ء میں فوج اورعدلیہ کے درمیان ملی بھگت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل سیسی نے ڈاکٹر مرسی کو برطرف کرنے کے بعدان کی جگہ چیف جسٹس ہی کو عبوری حکومت کا سربراہی سونپی تھی۔ یوں جنرل سیسی ان خوںریز ہنگاموںسے بھی بری الذمہ قرار پا گئے، جو ' فوجی انقلاب ' کے فوراً بعد مصر میں وسیع پیمانے پر پھوٹ پڑے تھے اور جس میں سیکڑوں لوگ مر گئے تھے ۔

اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر مرسی کی موت سے جنرل سیسی کو وقتی طور پر کچھ فائدہ ضرورہو گا، لیکن جس حوصلہ مندی سے ڈاکٹر مرسی نے قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا، اور جس مظلومانہ حالت میں کمرہ عدالت میں دوران سماعت داعی اجل کو لبیک کہا، اس سے اخوان المسلمون کی اندرونی طاقت، جس کو وہ اپنی روحانی اور حقیقی طاقت قرار دیتی ہے، میں بھی بہت اضافہ ہو گا؛ وہ طاقت ہے جو ہمیشہ سے مصر میں اخوان المسلمون کی پہچان رہی ہے اور جس کے بل پر وہ قیدوبند کی صعوبتوں سے گزر اورپھانسی کے پھندوں سے جھول کر بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، شاعر نے کہا تھا ،

برتراز اندیشہء سودوزیاں ہے زندگی

ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں