وفاقی بجٹ عوام کے حق میں نہیں پہلا حصہ

جتنی بھی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں ان کا گھوم پھر کر عام غریب آدمی پر اثر ہوتا ہے۔

ملک کا نظام چلانے کے لیے ہر سال ایک بجٹ بنایا جاتا ہے، جس میں خاص کرکے ملک کے لوگوں کے لیے حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ انھیں صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، امن و امان کے ساتھ انصاف، کھانے پینے کی اشیا کم قیمتوں میں عوام کو آسانی سے مہیا کریں۔ اس سلسلے میں ہر 5 سال کے بعد عام انتخابات کرائے جاتے ہیں ، جس میں عوام اپنے نمایندوں کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچاتے ہیں، لیکن اس میں سوائے چند سیاستدانوں کے بہت سارے اقتدار میں آکر عوام کو بھول جاتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جن سے ان کی کلاس کو فائدہ ملے۔

سیاست میں زیادہ تر وڈیرے، زمیندار، سردار، میر، پیر وغیرہ حصہ لیتے ہیں کیونکہ سیاست کھیل ہے پیسے کا۔ پیسے والوں کا ہمیشہ غریبوں سے ناانصافی کا سلوک رہا ہے اس لیے وہ انھیں خوش دیکھنا ہی نہیں چاہتے جس کی وجہ سے کچھ مثالوں کے علاوہ باقی سالانہ بجٹ میں عوام کے اوپر ٹیکس لگائے گئے ہیں جن کے بوجھ تلے وہ دب جاتے ہیں اور ساری عمرکھانے اور بچوں کا پیٹ پالنے میں گزار دیتے ہیں۔

11 جون 2019ء کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پہلا بجٹ پیش کیا جو 70 کھرب اور 22 ارب روپے ہے جس میں 35 کھرب اور 60 ارب روپے خسارہ دکھایا گیا ہے جسے 11 کھرب کے نئے ٹیکس اور باقی موجودہ Resorces کو استعمال کرکے پورا کیا جائے گا۔ یہ بجٹ اسٹیٹ منسٹر برائے ریونیو حماد اظہر نے پیش کیا جب کہ فنانس کے ایڈوائزر بجٹ پیش ہوتے ہوئے اور سنتے ہوئے رہے۔ اپوزیشن والوں نے اس بجٹ کو مسترد کردیا۔

اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کے سربراہ جو اب وزیر اعظم ہیں انھوں نے تقریروں میں کئی وعدے کیے تھے اور لوگوں نے سنہرے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے پی ٹی آئی کو اقتدار میں لائے۔ لیکن اقتدار کے دس مہینوں کے دوران اس نے اتنے یو ٹرن لیے اور اپنے وعدوں سے پھر گئے۔

بجٹ وہ ہوتا ہے جو عوام دوست ہو جس میں سب سے پہلے یہ ہوتا ہے کہ روزانہ کے استعمال میں آنے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے جسے غریب بھی استعمال کرتے ہیں اور امیر بھی جس میں تیل ، آٹا، چاول، آلو، ٹماٹر، چائے کی پتی، پیاز، دودھ، گوشت، دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تن کو ڈھانپنے کے لیے کپڑا ہوتا ہے جس پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے، اس کے ساتھ انسان کو سر چھپانے کے لیے گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا۔ اس بجٹ میں گوشت، دودھ، مچھلی، جوس، شربت کی قیمت بڑھائی گئی ہے جسے ہر عام آدمی استعمال کرتا ہے جب کہ موبائل سیٹ پر ڈیوٹی کم کی گئی ہے جس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔


انسان کو زندہ رکھنے کے لیے پینے کا صاف پانی چاہیے، بجلی، گیس بھی ہمارے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے جس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور اس بجٹ میں ان کی قیمتوں میں بھی زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے جس کا اثر ہر چیز پر ہوگا کیونکہ بجلی کی قیمت میں اضافے سے صارفین کو تو نقصان ہے مگر انھیں انڈسٹری کی طرف سے بڑھائی ہوئی قیمت بھی نقصان دے گی جب کہ گیس میں اضافہ اور پٹرول اور ڈیزل کا اضافہ بھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مزید اضافہ کردے گا۔ نہ صرف بس اور رکشے کے کرایوں میں اضافہ ہوگا بلکہ ٹرک، مزدا اور دیگر سامان اٹھانے والی ٹرانسپورٹ کے ذرایع بھی اضافہ کریں گے جس کی وجہ سے ہر سامان کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔

اس میں روزانہ استعمال کی اشیا بھی شامل ہیں جس میں سبزیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مجھے ایک بات یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ گورنمنٹ کسی بھی چیز پرکنٹرول نہیں کرسکتی جب کہ نہ صرف تنخواہ لیتے ہیں بلکہ گاڑیاں، فون، اے سی دفتر اور سرکاری گھر ملے ہوئے ہیں۔ حکومت بیوروکریٹس اور دوسرے بڑے افسروں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتی کیونکہ وہ تو صرف سیاستدانوں کے آگے پیچھے گھومتے رہتے ہیں۔ پہلے تو کہا گیا کہ سرکاری افسران اور وزرا وغیرہ اپنے اخراجات میں کمی کریں گے جو نہ ہوسکا اور ان کے لیے مہنگائی کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس تو رشوت اور دوسری سرکاری مراعاتیں اتنی ہیں کہ انھیں کسی بھی بڑھتے ہوئے بھاؤ کا کوئی ڈر نہیں ہے۔

جتنی بھی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہیں ان کا گھوم پھر کر عام غریب آدمی پر اثر ہوتا ہے۔ عام آدمی مہنگائی اور بیروزگاری کا اثر برداشت نہیں کرپاتا اور اس کے نتیجے میں یا تو خودکشی کرتا ہے یا پھر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتا ہے جس میں اسٹریٹ کرائم، فحاشی، دھوکہ، چوری، لوٹ مار شامل ہے۔ کیا عمران خان ملک کی مالی اور معاشی حالت نہیں جانتے اور اگر جانتے تھے تو پھر عوام کو مارنے کے لیے اتنے بڑے ٹیکس کیوں لائے جس کی وجہ سے ایک طرف تو مہنگائی کی مصیبت اور دوسرا روزگار نہیں مل رہا ہے، سرمایہ داروں نے پیسے کی سرکولیشن روک دی ہے، چوروں اور لٹیروں نے پیسے مارکیٹ سے اٹھا لیے ہیں۔ مگر عمران خان اور دوسرے سرمایہ دار سیاستدانوں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے کیونکہ ان کے پاس بے تحاشا دولت ہے جس سے اگر ایک پانی کا قطرہ خرچ ہوگیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہمیشہ تقریروں اور بجٹ میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے بارے میں بڑے اعلانات ہوتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے 5 سال پورے ہوجاتے ہیں اور نوجوانوں کی عمر نوکری کی حد کراس کرجاتی ہے، بوڑھے ماں باپ کی امیدیں اور آس ڈوب جاتی ہے لڑکیاں شادی کے بغیر بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ اب تو ڈالر کی قیمت میں 150 سے اوپر ہونا اور سونے کے بھاؤ میں بہت بڑا اضافہ ماں باپ کے لیے لمحہ فکریہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو جہیز میں سونے کے زیورات کہاں سے دیں، مہمانوں کے کھانے کے لیے اتنی رقم کہاں سے لائیں اور شادی ہال کا کرایہ جو آسمان سے باتیں کرتا ہے، لڑکیوں کے والدین کہاں سے لائیں۔

ہم نے اپنے آپ کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے جس کے لیے عمران خان نے کہا تھا کہ وہ خودکشی تو کرسکتے ہیں مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے جس کی وجہ سے ملک کے اندر مہنگائی اور بیروزگاری کا جن دندناتا پھر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کو 70 سال ہوگئے ہیں مگر کسی بھی غلط بات پر قابو نہیں پایا گیا ہے جس میں چور بازاری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری اور ناقابل برداشت فیس کے ساتھ کمپیوٹر، کھیل، یونیفارم، کتابیں کاپیاں اور وین کا کرایہ والدین کے لیے مصیبت اور عذاب بن گیا۔ سرکاری اسکول اتنے نہیں ہیں جہاں پر بچوں کو داخل کیا جائے جو موجود ہیں وہاں پر سہولتیں اور اساتذہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے انھیں چھوٹے چھوٹے کاموں پر لگا کر گھر کا چولہا جلانا پڑتا ہے۔

سرکاری ملازموں کی تنخواہ میں صرف 10 فیصد اضافہ اور 16 گریڈ سے اوپر 20 گریڈ کی تنخواہ میں 5 فیصد اضافہ جب کہ مہنگائی چار گنا بڑھ گئی ہے۔ مزدوروں کو 500 روپے دیہاڑی ملتی ہے اور کبھی نہیں بھی ملتی۔ مجھے یہ بتایا جائے کہ یہ لوگ اپنے گھر کا کاروبار کیسے چلائیں؟
Load Next Story