PESHAWAR:
صدی کی ڈیل جس کے بانی امریکا اور اسرائیل ہیں، اس ڈیل کے بارے میں اس سے قبل مقالہ جات میں قارئین کی خدمت میں حقائق بیان کیے جاچکے ہیں۔ کس طرح امریکا اور اسرائیل مل کر خطے کی چند عرب ریاستوں کے ہمراہ فلسطین کا سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ غرب ایشیا کے ممالک میں اپنے پنجوں کو گاڑنے کےلیے امریکا و اسرائیل نے داعش کے قیام و مدد کے بعد اب نیا راستہ اختیار کرلیا ہے، جس کو صدی کی ڈیل کہا جارہا ہے۔
اس ڈیل کا چرچہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے گونج رہا ہے اور عنقریب یہ ڈیل اپنے مقرر کردہ منصوبہ کے تحت بحرین کے دارالحکومت منامہ میں جون کے آخری ہفتہ میں سنائی جائے گی اور پھر تمام مسلمان و عرب ممالک سے اس پر دستخط کرنے کو کہا جائے گا۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صدی کی ڈیل ناکام ہوگی تو یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ہے، مگر دوسری طرف حقیقت یہی ہے کہ صدی کی ڈیل کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ مزاحمت فلسطین کی مزاحمت ہے۔ لہٰذا اگر اب یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ صدی کی حقیقت ڈیل نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مزاحمت ہے، جو دنیا کی سپر طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے۔ فلسطینیوں کا مسلسل حق واپسی احتجاج اور مارچ اس ڈیل کو ناکام کرنے کےلجے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ امریکا اس ڈیل کے تحت یہی چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کا واپسی کا حق ختم کردیا جائے اور فلسطین سے جبری طور پر جلاوطن کیے گئے فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقوں میں واپسی کا مطالبہ نہ کریں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں اس وقت فلسطینیوں کے حق واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے اور یہی بات امریکا اور اس کے حواریوں کےلیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
اگر فلسطین کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی بات کی جائے تو سب کے سب ایک ہی صفحہ پر نظر آرہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی، جس کے فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اختلافات موجود ہیں لیکن صدی کی ڈیل کے معاملے پر فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او نے بھی واضح موقف اپنا رکھا ہے اور کہا ہے کہ صدی کی ڈیل کو مسترد کرتے ہیں اور امریکا فلسطین کی باغیرت اور شجاع قوم کو پیسوں سے خرید نہیں سکتا۔ فلسطین کے عوام نے ستر سالہ جدوجہد صرف اس لیے کی ہے کہ فلسطین آزاد ہو اور یہاں بسنے والے عرب فلسطینی اپنے وطن اور گھروں کو واپس آسکیں۔
اسی طرح فلسطین کے پڑوس میں موجود اردن کی حکومت نے بھی امریکا کے اس فارمولے کو مسترد کردیا ہے۔ تاحال رسیدہ اطلاعات کے مطابق چند ایک اور ممالک بھی اسی فہرست میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جس نے صدی کی ڈیل کو مسترد کیا ہے۔ البتہ چند ایک عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، اور دیگر صدی کی ڈیل کی مکمل حمایت میں مصروف عمل ہیں۔
صدی کی ڈیل کی ناکامی کے بارے میں خود اب امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کرنا شروع کردیا ہے، جو کہ خود امریکا کی سب سے بڑی شکست کے مترادف ہے۔ خود امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ امریکی وزیر ریاست صدی کی ڈیل کی کامیابی سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ صدی کی ڈیل ناکامی کا شکار ہوجائے گی۔
واشنگٹن پوسٹ نامہ امریکی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بیان ہوا ہے کہ ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں امریکی وزیر ریاست پومپیو اور اسرائیلی عہدیداروں کے مابین ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے منظرعام پر آنے سے صدی کی ڈیل کی کامیابی مزید مشکوک ہوگئی ہے۔ اس آڈیو میں سنا گیا ہے کہ امریکی عہدیداران اسرائیلی عہدیداروں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ یعنی صدی کی ڈیل قابل قبول نہیں ہے اور اس کا نفاذ ناممکن ہوگا اور یہ شدت کے ساتھ مسترد کردی جائے گی۔ اسی طرح امریکن سی آئی اے کے سابق چیف نے بھی اپنے خیالات میں کہا ہے کہ یہ ڈیل کسی صورت قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ اس میں اگر دو باتیں اچھی ہیں تو نو باتیں خراب بھی موجود ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے کسی بھی فارمولے کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں اعلیٰ سطح کے سفارتکاروں اور عہدیداروں کے مابین ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ امریکی حکام نیتن یاہو کی حکمت عملیوں اور عام انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت بنانے میں ناکامی سے بھی شدید پریشان اور مایوس ہیں اور ان باتوں کا اظہار صہیونی ریاست کے عہدیداروں سے اسی اجلا س میں کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان، ایران سمیت قطر اور اردن ایسے ممالک ہیں کہ جنہوں نے غرب ایشیا کےلیے امریکا کے نام نہاد فارمولہ صدی کی ڈیل کو اس لیے مسترد کیا ہے، کیونکہ اس منصوبے میں فلسطین کا سودا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ جہاں اس ڈیل میں عرب دنیا کے کئی شہزادوں کو مستقبل میں بادشاہ بنانے کے خواب دکھائے گئے ہیں اور کئی افراد کو پچاس پچاس سال کے اقتدار اور بادشاہت کی امریکی ضمانت دی گئی ہے، وہاں اسی منصوبے میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق پر شب خون بھی مارا گیا ہے اور تاریخ کی ایسی بھیانک سازش رچائی گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں اصل ریاست فلسطین کو ختم کرکے اس کی جگہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو حتمی شکل دینے کی بات کی گئی ہے۔ صدی کی ڈیل کے معاملے پر فلسطینی عوام اور سیاسی دھڑوں سمیت مزاحمتی دھڑے سب کے سب متحد ہوکر ایک آواز ہیں اور اس ڈیل کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام کی یہ آواز اس بات کا باعث بن رہی ہے کہ اب بالآخر صدی کی ڈیل کو ناکامی کا سامنا ہے، جس کا اعتراف خود اس ڈیل کو بنانے والے امریکی عہدیدار کرتے نظر آرہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے وہ ممالک اور حکمران جو امریکی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں، وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کا حصہ اور شراکت دار نہ بنیں۔ کیونکہ یقیناً اس خیانت کاری پر مبنی صدی کی ڈیل کو مسترد اور ناکام ہونا ہے۔ عنقریب یہ ہونے والا ہے اور خدا کا وعدہ تو یہی ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کرتا ہے ظالموں کے مقابلے میں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔