حیرت انگیز روبوٹک مچھلی جو ’برقی خون‘ سے آگے بڑھتی ہے

کورنیل یونیورسٹی کے ماہرین نے ’خون کی مانند بیٹری مائع‘ بنایا ہے جس کی توانائی سے مچھلی چلتی ہے


ویب ڈیسک June 21, 2019
کورنیل یونیورسٹی کے ماہرین کی تیارکردہ روبوٹ مچھلی۔ فوٹو: جیمز پیکل ، کورنیل یونیورسٹی

حقیقت بلکہ زندگی سے قریب تر ایک ایجاد سامنے آئی ہے جس میں سائنسدانوں نے ایک نرم بدن والی روبوٹ مچھلی بنائی ہے جو اپنے جسم میں موجود بیٹری نما 'برق خون' کو بطور توانائی استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور دیگر امور انجام دیتی ہے۔

کورنیل یونیورسٹی میں واقع آرگینک روبوٹک لیب نے لائن فش جیسا ایک روبوٹ بنایا ہے۔ اس میں نہ کوئی بیٹری ہے اور نہ ہی کوئی سیل لگا ہے بلکہ اس میں برقی مائع ہے جو مچھلی کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی انقلابی مائع اسے پانی میں آگے بڑھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

اس طرح روبوٹ مچھلی نے بغیر تار کے آگے بڑھنے کا ایک اہم سنگِ میل عبور کرلیا ہے جو ایک عرصے سے ماہرین کے لیے چیلنج بنا ہوا تھا۔



بیٹریاں ایسے آلات اورروبوٹ کا وزن بڑھادیتی ہیں اور یوں وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ پھر کچھ بھی کرلیا جائے روبوٹ کی حرکت اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر یونیورسٹی کے ماہر جیمز پکل اور ان کے ساتھیوں نے 40 سینٹی میٹر طویل مچھلی سلیکن سے تیار کی ہے۔

اس میں دو ہائیڈرالک پمپ ہیں جس میں باہم جڑی ہوئی زنک آئیوڈائڈ فلو سیل بیٹریاں لگی ہیں۔ ایک پمپ مائع کو دم کے ایک جانب سے دوسری جانب بھیجتا ہے۔ دوسرا پمپ مائع کو مچھلی کے پچھلے اور اگلے پروں کی جانب گھماتا ہے۔ اس طرح مچھلی میں حرکت ہوتی ہے اور آگے کی جانب تیرتی ہے۔ تاہم اس کی رفتار ابھی بہت سست ہے یعنی یہ ایک منٹ میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے وہ اس کے جسم کی کل لمبائی کا بھی آدھا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری پیدا ہوگی۔

اگرچہ نرم اور لجلجے بدن والے روبوٹ عرصے سے بنائے جارہے ہیں ۔ اس میں الیکٹرولائٹ والی ایک سلوشن ڈالی جاتی ہے جو روبوٹ کو برقی اور میکانکی دونوں طرح کی توانائی دیتی ہے اور اسے روبوٹ کا خون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ روبوٹ مچھلی کسی مداخلت کے بغیر مسلسل 36 گھنٹے تک تیرتی رہتی ہے۔

اگرچہ اب بھی یہ روبوٹ ایک کھلونا نما شے ہی ہے، تاہم مستقبل میں اسے بہتر بنا کر اسے مچھلیوں کی نقل و حمل، آبی تحقیق اور سمندروں کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں