حکومتی حصار اور مخالفین
آصف زرداری اور محترمہ فریال پر یہ الزامات گھرانے کی مناسبت سے میل نہیں کھاتے۔
ملک بھر کے سیاسی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ آصف علی زرداری نہایت ہی ہوشیار اور زیرک سیاستدان ہیں اگر کہیں ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ اس سلسلے میں کوئی دلیل یا ثبوت پیش کریں تو فقط ان کا یہ جواب ہوتا تھا کہ ان کی حکومت کے 5 برس کی پرسکون قیادت نہ سیاسی خلفشار اور نہ سیاسی پکڑ دھکڑ۔
اگر اس استدلال سے بھی یہ عام لوگ خاموش نہ ہوئے تو خارجہ امور میں توازن، امریکا اور ایران سے اچھے تعلقات یہاں تک کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ اور افغان بھارت میں سکون، معیشت میں کوئی ہیجان نہیں تھا تو ہیجان کیونکر ہوتا، مباحثہ عام حالات میں ختم ہو جاتا۔ مگر بعض فکری نشستوں میں یہ بھی کہا جاتا کہ معیشت کی خستہ حالی انھی حکمرانوں کا عطیہ ہے اور ان کے بعد جنھوں نے عنان حکومت سنبھالی وہ ان سے بھی زیادہ زور آور نکلتے۔
یہ باتیں عام چائے کے ہوٹلوں میں یا گھروں میں جو سیاست کی محفل سجاتے ہیں وہاں ہوتی رہتی ہیں مگر آصف زرداری اور محترمہ فریال پر یہ الزامات گھرانے کی مناسبت سے میل نہیں کھاتے۔ جن میں بینک اکاؤنٹ کی ہیرا پھیری سرفہرست ہے۔
محترمہ فریال تالپر اور زرداری صاحب کا ریمانڈ خود ان کے لیے جو تکلیف کا باعث اور باعث شرم ہے اس سے کہیں زیادہ حاکم علی زرداری مرحوم کے لیے روحانی اذیت ہے۔ میری ان سے رفاقت نہ سہی لیکن سچائی، غربت اور عوامی امنگوں کی آئینہ دار تقریر جو انھوں نے سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں 1969 میں کسان کانفرنس سے خطاب میں کی تھی وہ ایک ہاری لیڈر ہی کر سکتا ہے۔ سکرنڈ کے اس جلسے کے شامیانے کا رقبہ لمبائی تقریباً 4 فرلانگ اور چوڑائی کم از کم 2 فرلانگ۔ شہر کا زیادہ تر اندرون سندھ سے اور ایک قافلہ جو کامریڈوں پر مشتمل تھا کراچی سے پیدل نوابشاہ پہنچا جن میں مزدور لیڈر اور چند سو طلبا تھے جو کامریڈ ہادی نقوی کی قیادت میں پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ دانشور، شاعر، ادیب حضرات چند سو تھے۔
شعرا میں حبیب جالبؔ، خالد علیگ کے علاوہ نوجوان شعرا اور ادیبوں میں سید سبط حسن، پروفیسر مجتبیٰ حسین کے علاوہ ادیبوں کی کثیر تعداد تھی۔ مجمع لاکھوں کا تھا۔ اس کانفرنس کی انتظامیہ میں ایڈووکیٹ رشید احمد جو زیر زمین کمیونسٹ پارٹی نوابشاہ کے روح رواں تھے۔ اس جلسے کے منتظم خاص تھے۔ اس جلسے کی صدارت کئی سینئر کامریڈ کر رہے تھے۔ ہر ایک کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا۔ ان تمام چیزوں کی تحریر کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عظیم اجتماع میں انھوں نے بھی صدارت کے فرائض انجام دیے اس سے ان کا ہاریوں (کسانوں) سے ربط اور غریبوں سے ربط باہم کا اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آپ نیشنل عوامی پارٹی کے اہم رکن تھے انھوں نے جاگیرداری سسٹم کے خلاف سندھی زبان میں زبردست تقریر کی اور بار بار پنڈال سے ہاری حق دار کے نعرے بلند ہوتے رہے۔
ظاہر ہے ایسے عزت دار خاندان کے مرد و زن کا دس روزہ ریمانڈ ہتک عزت بھی ہے۔ کیا حق ہے اور کیا باطل یہ فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ مگر مرحوم لیڈر حاکم علی زرداری کے وقار کو ٹھیس لگی۔ مسٹر آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ البتہ دوستوں کا پیپلز پارٹی سے تعلق رہا ہے۔ کیونکہ این ایس ایف کے یہ حضرات عہدیدار تھے جن میں عبدالباری خان (صدر) اور سابق ایم این اے اور دوسرے امیر حیدر کاظمی سابق وزیر صحت، بی بی کے دور میں۔ یہ بی بی کی حکومت تھی جو آبشار کی طرح شفاف اسی لیے ان کے کارکن جان ہتھیلی پہ لے کے چلتے تھے۔
کارکنوں کا نظریہ ہیرے کی طرح روشن اور فولاد سے سخت تھا مگر اب پارٹی کا دامن بی بی شہید کے جانثاروں سے خالی ہے یا ان کی اہمیت وہ نہ رہی۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے نئے اور پرانے سندھیوں میں تفریق کی نوکیلی تقسیم کی باڑ لگادی ہے اور مخالف پارٹیوں میں زندہ رہنے کا اصلی جواز پیدا کرکے شہری علاقوں سے احتجاجی جلوسوں سے محروم ہوگئی ہے لہٰذا بہراڑی کے جلسہ جلوسوں کی اہمیت حکومت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کرپشن کی حمایت میں تحریک چلانا کسی سورما کے بس میں نہیں۔ کیونکہ وہ جذبہ جو جان سے زیادہ عزیز ہو وہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ دوسرا ستم یہ کہ سخت موسم میں تحریکیں چلانا آسان نہیں۔ دنیا بھر کے انقلابات اور تحریکوں کے بھی موسم ہوتے ہیں، جن میں عام طور پر ستمبر اور اکتوبر خاصے مقبول ماہ ہیں ۔
رہ گئی نواز لیگ یہ اپنے لیڈر کے لیے کچھ نہ کرسکی۔ یہ ووٹوں کی جادوگری تو کرسکتے ہیں مگر روڈ ماسٹر نہیں کیونکہ یہ فوجی لیڈر جنرل ضیا الحق کی پروڈکشن ہیں۔ اگر جنرل ضیا الحق کی پروڈکٹ کو مسٹر بلاول جو نوخیز لیڈر ہیں اگر کوئی تحریک چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ بلاول کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اس حقیقت کو نوخیز لیڈر خود بھی سمجھ چکے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق وہ اور مریم نواز صرف ٹھنڈے کمروں کی سیاست کریں گے لہٰذا اس سیاسی احتجاج کا عملی مظاہرہ پارلیمنٹ میں ہی ہوگا۔ کیونکہ سڑک پر دھوپ، گرمی، موسم کی تمازت اپنی جگہ ، ایسے لوگوں کا چند ہزار کا اجتماع بھی ضروری ہے تو یہ سب عوام سے نہ ہو سکے گا کیونکہ پارٹیوں نے عوام کے دل میں وسوسے ڈال دیے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستان کو ڈی فالٹ کی دہلیز تک پہنچانے میں سابقہ حکومتوں کا اہم رول ہے اور جو الزامات لگے ہیں۔ ان میں قانونی جنگ کا پہلو نمایاں ہے۔ لہٰذا عوامی تحریک ان لیڈروں کا کھیل نہیں۔ حکومت وقت کی نااہلی اپنی جگہ لیکن سیاسی پارٹیوں پر جو ضرب لگائی گئی ہے۔
اس سے سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی ہے، اس کا عملی مظاہرہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ مٹھی بھر کارکن آوازیں نکال رہے تھے جو لاٹھی کھانے کی بھی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ عوام سڑکوں پر جب آتے ہیں جب ان کے مطالبات نمایاں ہوتے ہیں۔
مثلاً اجناس کی قیمت میں کمی اسکول کی فیسوں میں کمی۔ تنخواہوں میں اضافہ وغیرہ مگر بغیر جواز کے تحریک نہیں چلتی۔ موجودہ حکومت کامیابی سے مہنگائی کو گزشتہ لیڈروں کے گلے میں ڈال چکی ہے مگر یہ مہنگائی جلد حکومت کے لیے طوق بننے والی ہے کیونکہ ملک ڈی فالٹ کے دہانے کے قریب آن پہنچا ہے لہٰذا قیمتوں میں کئی بار اضافے کے امکانات موجود ہیں۔ بلکہ خودرو ہنگامہ پھوٹ پڑا ہوتا مگر موجودہ حکومت نے مہنگائی کا طوق کامیابی سے سابقہ حکمرانوں کے گلے میں ڈال دیا ہے مگر مزید مہنگائی کی صورت میں عوامی قوت برداشت دیرپا نہ ہوگی۔ کیونکہ عوامی صبر اور ضبط اور برداشت کا خاتمہ نزدیک ہے۔ کیونکہ قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بھی طویل نہیں جب کہ امپورٹ بلندی کی سمت ہے اور ایکسپورٹ لرزہ براندام۔ اگر جائزہ لیا جائے تو حزب مخالف اپنا وقار کھو چکی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اپنا وقار کھو چکی ہے اور (ن) لیگ پہلے ہی نیم جاں ہوچکی ہے۔ اب پی پی کا قیمتی وقار زرداری کی ذہانت پر منحصر ہے گوکہ حکومت خود معاشی گرداب میں ہے۔
اگر اس استدلال سے بھی یہ عام لوگ خاموش نہ ہوئے تو خارجہ امور میں توازن، امریکا اور ایران سے اچھے تعلقات یہاں تک کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ اور افغان بھارت میں سکون، معیشت میں کوئی ہیجان نہیں تھا تو ہیجان کیونکر ہوتا، مباحثہ عام حالات میں ختم ہو جاتا۔ مگر بعض فکری نشستوں میں یہ بھی کہا جاتا کہ معیشت کی خستہ حالی انھی حکمرانوں کا عطیہ ہے اور ان کے بعد جنھوں نے عنان حکومت سنبھالی وہ ان سے بھی زیادہ زور آور نکلتے۔
یہ باتیں عام چائے کے ہوٹلوں میں یا گھروں میں جو سیاست کی محفل سجاتے ہیں وہاں ہوتی رہتی ہیں مگر آصف زرداری اور محترمہ فریال پر یہ الزامات گھرانے کی مناسبت سے میل نہیں کھاتے۔ جن میں بینک اکاؤنٹ کی ہیرا پھیری سرفہرست ہے۔
محترمہ فریال تالپر اور زرداری صاحب کا ریمانڈ خود ان کے لیے جو تکلیف کا باعث اور باعث شرم ہے اس سے کہیں زیادہ حاکم علی زرداری مرحوم کے لیے روحانی اذیت ہے۔ میری ان سے رفاقت نہ سہی لیکن سچائی، غربت اور عوامی امنگوں کی آئینہ دار تقریر جو انھوں نے سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں 1969 میں کسان کانفرنس سے خطاب میں کی تھی وہ ایک ہاری لیڈر ہی کر سکتا ہے۔ سکرنڈ کے اس جلسے کے شامیانے کا رقبہ لمبائی تقریباً 4 فرلانگ اور چوڑائی کم از کم 2 فرلانگ۔ شہر کا زیادہ تر اندرون سندھ سے اور ایک قافلہ جو کامریڈوں پر مشتمل تھا کراچی سے پیدل نوابشاہ پہنچا جن میں مزدور لیڈر اور چند سو طلبا تھے جو کامریڈ ہادی نقوی کی قیادت میں پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ دانشور، شاعر، ادیب حضرات چند سو تھے۔
شعرا میں حبیب جالبؔ، خالد علیگ کے علاوہ نوجوان شعرا اور ادیبوں میں سید سبط حسن، پروفیسر مجتبیٰ حسین کے علاوہ ادیبوں کی کثیر تعداد تھی۔ مجمع لاکھوں کا تھا۔ اس کانفرنس کی انتظامیہ میں ایڈووکیٹ رشید احمد جو زیر زمین کمیونسٹ پارٹی نوابشاہ کے روح رواں تھے۔ اس جلسے کے منتظم خاص تھے۔ اس جلسے کی صدارت کئی سینئر کامریڈ کر رہے تھے۔ ہر ایک کا دورانیہ ایک گھنٹہ تھا۔ ان تمام چیزوں کی تحریر کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عظیم اجتماع میں انھوں نے بھی صدارت کے فرائض انجام دیے اس سے ان کا ہاریوں (کسانوں) سے ربط اور غریبوں سے ربط باہم کا اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آپ نیشنل عوامی پارٹی کے اہم رکن تھے انھوں نے جاگیرداری سسٹم کے خلاف سندھی زبان میں زبردست تقریر کی اور بار بار پنڈال سے ہاری حق دار کے نعرے بلند ہوتے رہے۔
ظاہر ہے ایسے عزت دار خاندان کے مرد و زن کا دس روزہ ریمانڈ ہتک عزت بھی ہے۔ کیا حق ہے اور کیا باطل یہ فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ مگر مرحوم لیڈر حاکم علی زرداری کے وقار کو ٹھیس لگی۔ مسٹر آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ البتہ دوستوں کا پیپلز پارٹی سے تعلق رہا ہے۔ کیونکہ این ایس ایف کے یہ حضرات عہدیدار تھے جن میں عبدالباری خان (صدر) اور سابق ایم این اے اور دوسرے امیر حیدر کاظمی سابق وزیر صحت، بی بی کے دور میں۔ یہ بی بی کی حکومت تھی جو آبشار کی طرح شفاف اسی لیے ان کے کارکن جان ہتھیلی پہ لے کے چلتے تھے۔
کارکنوں کا نظریہ ہیرے کی طرح روشن اور فولاد سے سخت تھا مگر اب پارٹی کا دامن بی بی شہید کے جانثاروں سے خالی ہے یا ان کی اہمیت وہ نہ رہی۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے نئے اور پرانے سندھیوں میں تفریق کی نوکیلی تقسیم کی باڑ لگادی ہے اور مخالف پارٹیوں میں زندہ رہنے کا اصلی جواز پیدا کرکے شہری علاقوں سے احتجاجی جلوسوں سے محروم ہوگئی ہے لہٰذا بہراڑی کے جلسہ جلوسوں کی اہمیت حکومت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ ویسے بھی کرپشن کی حمایت میں تحریک چلانا کسی سورما کے بس میں نہیں۔ کیونکہ وہ جذبہ جو جان سے زیادہ عزیز ہو وہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ دوسرا ستم یہ کہ سخت موسم میں تحریکیں چلانا آسان نہیں۔ دنیا بھر کے انقلابات اور تحریکوں کے بھی موسم ہوتے ہیں، جن میں عام طور پر ستمبر اور اکتوبر خاصے مقبول ماہ ہیں ۔
رہ گئی نواز لیگ یہ اپنے لیڈر کے لیے کچھ نہ کرسکی۔ یہ ووٹوں کی جادوگری تو کرسکتے ہیں مگر روڈ ماسٹر نہیں کیونکہ یہ فوجی لیڈر جنرل ضیا الحق کی پروڈکشن ہیں۔ اگر جنرل ضیا الحق کی پروڈکٹ کو مسٹر بلاول جو نوخیز لیڈر ہیں اگر کوئی تحریک چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ بلاول کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اس حقیقت کو نوخیز لیڈر خود بھی سمجھ چکے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق وہ اور مریم نواز صرف ٹھنڈے کمروں کی سیاست کریں گے لہٰذا اس سیاسی احتجاج کا عملی مظاہرہ پارلیمنٹ میں ہی ہوگا۔ کیونکہ سڑک پر دھوپ، گرمی، موسم کی تمازت اپنی جگہ ، ایسے لوگوں کا چند ہزار کا اجتماع بھی ضروری ہے تو یہ سب عوام سے نہ ہو سکے گا کیونکہ پارٹیوں نے عوام کے دل میں وسوسے ڈال دیے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستان کو ڈی فالٹ کی دہلیز تک پہنچانے میں سابقہ حکومتوں کا اہم رول ہے اور جو الزامات لگے ہیں۔ ان میں قانونی جنگ کا پہلو نمایاں ہے۔ لہٰذا عوامی تحریک ان لیڈروں کا کھیل نہیں۔ حکومت وقت کی نااہلی اپنی جگہ لیکن سیاسی پارٹیوں پر جو ضرب لگائی گئی ہے۔
اس سے سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی ہے، اس کا عملی مظاہرہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ مٹھی بھر کارکن آوازیں نکال رہے تھے جو لاٹھی کھانے کی بھی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ عوام سڑکوں پر جب آتے ہیں جب ان کے مطالبات نمایاں ہوتے ہیں۔
مثلاً اجناس کی قیمت میں کمی اسکول کی فیسوں میں کمی۔ تنخواہوں میں اضافہ وغیرہ مگر بغیر جواز کے تحریک نہیں چلتی۔ موجودہ حکومت کامیابی سے مہنگائی کو گزشتہ لیڈروں کے گلے میں ڈال چکی ہے مگر یہ مہنگائی جلد حکومت کے لیے طوق بننے والی ہے کیونکہ ملک ڈی فالٹ کے دہانے کے قریب آن پہنچا ہے لہٰذا قیمتوں میں کئی بار اضافے کے امکانات موجود ہیں۔ بلکہ خودرو ہنگامہ پھوٹ پڑا ہوتا مگر موجودہ حکومت نے مہنگائی کا طوق کامیابی سے سابقہ حکمرانوں کے گلے میں ڈال دیا ہے مگر مزید مہنگائی کی صورت میں عوامی قوت برداشت دیرپا نہ ہوگی۔ کیونکہ عوامی صبر اور ضبط اور برداشت کا خاتمہ نزدیک ہے۔ کیونکہ قرضوں کی ادائیگی کا دورانیہ بھی طویل نہیں جب کہ امپورٹ بلندی کی سمت ہے اور ایکسپورٹ لرزہ براندام۔ اگر جائزہ لیا جائے تو حزب مخالف اپنا وقار کھو چکی ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اپنا وقار کھو چکی ہے اور (ن) لیگ پہلے ہی نیم جاں ہوچکی ہے۔ اب پی پی کا قیمتی وقار زرداری کی ذہانت پر منحصر ہے گوکہ حکومت خود معاشی گرداب میں ہے۔