آئل ٹینکروں پر حملہ۔کشیدہ صورتحال
آئل ٹینکر پر یہ حملے امریکا، اسرائیل، خلیجی ممالک اور ایران کے مابین کشیدگی کی فضا میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
بہت لمبے عرصے کی تگ ودو اور انتہائی طویل، کٹھن، پیچیدہ اور صبر آزما مذاکرات کے بعد 9 مئی 2015 دو بج کر 35 منٹ پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران (امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین) یورپین یونین اور ایران کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کا مقصد ایٹمی ہتھیار بنانے کی ایرانی صلاحیت کو روکنا تھا۔
اس فریم ورک معاہدے کے نتیجے میں جہاںایک طرف ایران کے لیے یہ لازم ٹھہرا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو خاص حدود و قیود کے اندر رکھے، وہیں امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے ایران پر عائد بے شمار پابندیوں کو بتدریج اٹھانے کا عمل شروع ہوا۔
اس معاہدے کا ہر جگہ خیرمقدم کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے یہ خیال کیا گیا کہ امریکا اس کے اتحادی اور ایران کے مابین ایک نئے خوشگوار دور کا آغاز ہو گا اور یوں مشرق وسطیٰ میں عام طور پر اور خلیج میں خاص طور پرامن کو ایک نہت ہی اچھا موقع ملے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بر سرِاقتدار آتے ہی اس معاہدے سے کنارہ کش ہونے کا عندیہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ معا ہدہ ناقص اور بوسیدہ ہے اور وہ اس معاہدے کو امریکی سلامتی کے منافی سمجھتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے باقی ممبران اور یورپین یونین اس معاہدے سے جڑے رہنا چاہتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کا یہ یک طرفہ اقدام بین الاقوامی تعلقات میں بہت ہی منفی مثال کے طور پر ثبت رہے گا۔ سابق امریکی ڈیموکریٹک انتظامیہ میںنائب صدر جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو ایک بہت ہی بڑی اور دور رس نتائج کی حامل غلطی سے تعبیر کیا۔
معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ابھی پچھلے مہینے امریکا اور متحدہ عرب امارات نے الزام لگایا کہ ایک ریاستی اداکار نے متحدہ عرب امارات کے ساحل پر چار بحری جہازوں پر حملہ کر کے انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ الزامات کی اس بوچھاڑ میں البتہ براہِ راست ایران کا نام لینے سے گریز کیاگیا۔
جمعرات 13 جون 2019 کی صبح خلیج عمان میں آبنائے ہر مزکے دہانے سے تھوڑی دور دو تیل بردار بحری ٹینکروں پر یکے بعد دیگرے دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں مارشل جزیرے پر رجسٹرڈ ناروے کے ملکیتی آئیل ٹینکر ایم ٹی فرنٹ آلیٹر میں شعلے بھڑک اٹھے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اطلاع دی کہ یہ جہاز ڈوب رہا ہے جب کہ ناروے کی جہازران کمپنی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جہاز میں دھماکے کیوں کر ہوئے۔ ایک دوسرا پاناما رجسٹرڈ تیل بردار بحری جہاز جس کانام کوکو کا بتایا گیا ہے وہ جاپا ن کی ملکیت ہے اور وہ میتھانول لاد کر جاپان کے لیے عازم سفر تھا۔
کوکوکا میں دھماکے کی وجہ سے اس کی ہل کو شدید نقصان پہنچا۔ ناورے کے جہاز پر 23 افراد پر مشتمل روسی اور فلپائنی عملے کو بخفاظت نکال لیا گیا جب کہ جاپانی آئل ٹینکر پر 21 افرادی عملہ کو بھی نکال لیا گیا البتہ اس عملے کا ایک فرد زخمی ہے۔ امریکی الزامات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس بات پر حیرت ہو گی کہ ایران ناروے کے ایک ایسے آ ئل ٹینکر پر کیونکر حملہ کرے گا جسکا آدھے سے زیادہ عملہ روسی ہو اسی طرح جاپان بھی ایران سے اچھے روابط رکھتا ہے ۔ آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے چیئرمین پاآلو ڈی آمیکو نے اس خدشے کا برملا اظہار کیا کہ خلیج کا یہ علاقہ تیل کی بین الاقوامی ترسیل کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور ان حملوں سے تیل کی بین الاقوامی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔
آئل ٹینکر پر یہ حملے امریکا، اسرائیل، خلیجی ممالک اور ایران کے مابین کشیدگی کی فضا میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب جاپانی وزیر اعظم جو کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران کے دورے پر تھے اور عین اس وقت ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کر رہے تھے۔ ایرانی صدر جناب روحانی سے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے جاپانی وزیر اعظم نے کہا کہ خطرے کے پیشِ نظر اور حالات و واقعات کے تناظر میں کسی بھی حادثے سے بچنا ضروری ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جناب جواد ظریف نے بیان دیا کہ خطرے سے نبٹنے کے لیے علاقے کے ممالک کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔
آبنائے ہر مزایک بہت ہی تنگ سمندری آبی گزر گاہ ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو پہنچنے والے تیل کا 20 فی صد سے زائد اس آبنائے سے گزر کر مختلف ممالک کی تیل کی ضروریات پورا کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔ پانی کی یہ گزر گاہ اتنی تنگ ہے کہ اس میں جہازوں کے داخلے اور باہر نکلنے کے لیے دو ،دو میل چوڑی الگ کرنے والی لائنیںمقرر کر دی گئی ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔ آبنائے ہرمزکے کنارے متحدہ عرب امارات، سلطنت ِعمان، ایران اور عراق کے چند پمپنگ مقامات ہیں جہاں سے آئل ٹینکروں میں تیل لادا جاتا ہے۔
امریکا نے حملے کے پہلے دن ہی ایران کو براہِ راست موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ ایران نے ان امریکی الزامات کو مسترد کر دیا ۔ ایرانی وزیرِخارجہ جناب جواد ظریف نے کہا کہ تہران کی انتظامیہ آبنائے ہر مز میں سیکیورٹی کی ذمے دار ہے اور امریکا کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات سراسر بے بنیاد ہیں۔ امریکا اپنی اس چال سے سفارتکاری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی الزامات کو خطرناک قرار دے دیا۔ ایرانی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ جناب بہروز کمال وندی نے اعلان کیا کہ ایران افزودہ یورینیم کی طے شدہ مقدار سے آگے بڑھ رہا ہے اور وہ اسے بتدریج بڑھاتا چلا جائے گا۔ ایران دبنے والا نہیں۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو دونوں نے ایران کو براہِ راست ملوث ٹھہرایا ۔امریکی محکمہ دفاع نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔ جاپانی شپنگ کمپنی جن کے جہاز کو نقصان پہنچا ہے اس کمپنی نے ایک بیان میں کہاکہ یہ صاف واضح نہیں ہے کہ حملہ کس نے اور کیسے کیا ۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بھی ایران کی طرف انگلی اٹھائی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی امریکی الزامات کی تائید کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ آئل ٹینکر وں پر ایک مہینہ پہلے اور موجودہ حملوں سے خطرناک حد تک کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اماراتی وزیرِ خارجہ جناب قرقاش کا کہنا تھا کہ آبنائے ہر مز کے دہانے کے قریب یہ حملے قابلِ فکر ہیں اور ان سے کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ یورپین یونین نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایران کے ملوث ہونے کے الزامات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ تاہم یورپین یونین نے تمام فریقین سے ضبط و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوئٹرس نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تمام آپشنز کھلے رکھتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ تہران جب بھی چاہے وہ تہران کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ادھر ایرانی سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ایران نیو کلیئر ڈیل پر کبھی دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ امریکا ایک طرف تو ایران سے من مانی ڈیل چاہتا ہے اور دوسرای طرف اسرائیل کو خطے میں تسلط دلوانے کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ہٹانے پر تلا ہوا ہے اور ان کی سمجھ میں ایران ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں تمام فریقین اگر صبر وتحمل اور دانش مندی کا مظاہرہ کریں تب ہی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔
اس فریم ورک معاہدے کے نتیجے میں جہاںایک طرف ایران کے لیے یہ لازم ٹھہرا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو خاص حدود و قیود کے اندر رکھے، وہیں امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے ایران پر عائد بے شمار پابندیوں کو بتدریج اٹھانے کا عمل شروع ہوا۔
اس معاہدے کا ہر جگہ خیرمقدم کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے یہ خیال کیا گیا کہ امریکا اس کے اتحادی اور ایران کے مابین ایک نئے خوشگوار دور کا آغاز ہو گا اور یوں مشرق وسطیٰ میں عام طور پر اور خلیج میں خاص طور پرامن کو ایک نہت ہی اچھا موقع ملے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بر سرِاقتدار آتے ہی اس معاہدے سے کنارہ کش ہونے کا عندیہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ معا ہدہ ناقص اور بوسیدہ ہے اور وہ اس معاہدے کو امریکی سلامتی کے منافی سمجھتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے باقی ممبران اور یورپین یونین اس معاہدے سے جڑے رہنا چاہتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کا یہ یک طرفہ اقدام بین الاقوامی تعلقات میں بہت ہی منفی مثال کے طور پر ثبت رہے گا۔ سابق امریکی ڈیموکریٹک انتظامیہ میںنائب صدر جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو ایک بہت ہی بڑی اور دور رس نتائج کی حامل غلطی سے تعبیر کیا۔
معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ابھی پچھلے مہینے امریکا اور متحدہ عرب امارات نے الزام لگایا کہ ایک ریاستی اداکار نے متحدہ عرب امارات کے ساحل پر چار بحری جہازوں پر حملہ کر کے انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ الزامات کی اس بوچھاڑ میں البتہ براہِ راست ایران کا نام لینے سے گریز کیاگیا۔
جمعرات 13 جون 2019 کی صبح خلیج عمان میں آبنائے ہر مزکے دہانے سے تھوڑی دور دو تیل بردار بحری ٹینکروں پر یکے بعد دیگرے دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں مارشل جزیرے پر رجسٹرڈ ناروے کے ملکیتی آئیل ٹینکر ایم ٹی فرنٹ آلیٹر میں شعلے بھڑک اٹھے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اطلاع دی کہ یہ جہاز ڈوب رہا ہے جب کہ ناروے کی جہازران کمپنی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جہاز میں دھماکے کیوں کر ہوئے۔ ایک دوسرا پاناما رجسٹرڈ تیل بردار بحری جہاز جس کانام کوکو کا بتایا گیا ہے وہ جاپا ن کی ملکیت ہے اور وہ میتھانول لاد کر جاپان کے لیے عازم سفر تھا۔
کوکوکا میں دھماکے کی وجہ سے اس کی ہل کو شدید نقصان پہنچا۔ ناورے کے جہاز پر 23 افراد پر مشتمل روسی اور فلپائنی عملے کو بخفاظت نکال لیا گیا جب کہ جاپانی آئل ٹینکر پر 21 افرادی عملہ کو بھی نکال لیا گیا البتہ اس عملے کا ایک فرد زخمی ہے۔ امریکی الزامات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس بات پر حیرت ہو گی کہ ایران ناروے کے ایک ایسے آ ئل ٹینکر پر کیونکر حملہ کرے گا جسکا آدھے سے زیادہ عملہ روسی ہو اسی طرح جاپان بھی ایران سے اچھے روابط رکھتا ہے ۔ آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے چیئرمین پاآلو ڈی آمیکو نے اس خدشے کا برملا اظہار کیا کہ خلیج کا یہ علاقہ تیل کی بین الاقوامی ترسیل کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور ان حملوں سے تیل کی بین الاقوامی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔
آئل ٹینکر پر یہ حملے امریکا، اسرائیل، خلیجی ممالک اور ایران کے مابین کشیدگی کی فضا میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب جاپانی وزیر اعظم جو کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایران کے دورے پر تھے اور عین اس وقت ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کر رہے تھے۔ ایرانی صدر جناب روحانی سے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے جاپانی وزیر اعظم نے کہا کہ خطرے کے پیشِ نظر اور حالات و واقعات کے تناظر میں کسی بھی حادثے سے بچنا ضروری ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جناب جواد ظریف نے بیان دیا کہ خطرے سے نبٹنے کے لیے علاقے کے ممالک کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔
آبنائے ہر مزایک بہت ہی تنگ سمندری آبی گزر گاہ ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو پہنچنے والے تیل کا 20 فی صد سے زائد اس آبنائے سے گزر کر مختلف ممالک کی تیل کی ضروریات پورا کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔ پانی کی یہ گزر گاہ اتنی تنگ ہے کہ اس میں جہازوں کے داخلے اور باہر نکلنے کے لیے دو ،دو میل چوڑی الگ کرنے والی لائنیںمقرر کر دی گئی ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔ آبنائے ہرمزکے کنارے متحدہ عرب امارات، سلطنت ِعمان، ایران اور عراق کے چند پمپنگ مقامات ہیں جہاں سے آئل ٹینکروں میں تیل لادا جاتا ہے۔
امریکا نے حملے کے پہلے دن ہی ایران کو براہِ راست موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ ایران نے ان امریکی الزامات کو مسترد کر دیا ۔ ایرانی وزیرِخارجہ جناب جواد ظریف نے کہا کہ تہران کی انتظامیہ آبنائے ہر مز میں سیکیورٹی کی ذمے دار ہے اور امریکا کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات سراسر بے بنیاد ہیں۔ امریکا اپنی اس چال سے سفارتکاری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی الزامات کو خطرناک قرار دے دیا۔ ایرانی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ جناب بہروز کمال وندی نے اعلان کیا کہ ایران افزودہ یورینیم کی طے شدہ مقدار سے آگے بڑھ رہا ہے اور وہ اسے بتدریج بڑھاتا چلا جائے گا۔ ایران دبنے والا نہیں۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو دونوں نے ایران کو براہِ راست ملوث ٹھہرایا ۔امریکی محکمہ دفاع نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔ جاپانی شپنگ کمپنی جن کے جہاز کو نقصان پہنچا ہے اس کمپنی نے ایک بیان میں کہاکہ یہ صاف واضح نہیں ہے کہ حملہ کس نے اور کیسے کیا ۔ برطانوی وزیر خارجہ نے بھی ایران کی طرف انگلی اٹھائی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی امریکی الزامات کی تائید کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ آئل ٹینکر وں پر ایک مہینہ پہلے اور موجودہ حملوں سے خطرناک حد تک کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اماراتی وزیرِ خارجہ جناب قرقاش کا کہنا تھا کہ آبنائے ہر مز کے دہانے کے قریب یہ حملے قابلِ فکر ہیں اور ان سے کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ یورپین یونین نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایران کے ملوث ہونے کے الزامات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ تاہم یورپین یونین نے تمام فریقین سے ضبط و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوئٹرس نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے تمام آپشنز کھلے رکھتے ہوئے یہ عندیہ دیا ہے کہ تہران جب بھی چاہے وہ تہران کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ادھر ایرانی سپریم لیڈر جناب خامنہ ای نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ایران نیو کلیئر ڈیل پر کبھی دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ امریکا ایک طرف تو ایران سے من مانی ڈیل چاہتا ہے اور دوسرای طرف اسرائیل کو خطے میں تسلط دلوانے کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ہٹانے پر تلا ہوا ہے اور ان کی سمجھ میں ایران ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں تمام فریقین اگر صبر وتحمل اور دانش مندی کا مظاہرہ کریں تب ہی ممکنہ تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔