ابتری سے بہتری کی طرف آئیے
وزیراعظم عمران خان پی پی پی کے بلاول بھٹو کے ساتھ اتحاد کرلیں تا کہ پی پی پی جو آج بھی جمہوریت کی پاسبان ہے۔
میں حیران ہوں کہ 9ماہ کی حکومت پر وہ لوگ تنقید کر رہے ہیں جنہوں نے 1977کے بعد سے لے کر آج تک کم سے کم تین تین دفعہ حکمرانی کی ۔ وہ بھی اس طرح کہ ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف سے بھاری قرضے لیے، قومی اثاثوں کی نجکاری کی اور وہ تمام قومی ادارے جو اس ملک میں اقتصادی طور پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، اور ملک کی قومی آمدنی میں اضافہ کرتے تھے جیسے پی آئی اے، ریلوے ، پی ٹی سی ایل، بجلی اور گیس پیدا کرنیوالے ادارے ان سب کا بجٹ گزشتہ حکومتوں کے دور میں ہر سال خسارے میں جاتا رہا ، سابقہ حکومت اس میں پرویز مشرف کی حکومت بھی شامل ہے اس نے پاکستان انرجی کی پیداوار حسب طلب اضافہ نہیں کیا ، اس طرح ہمارا ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا کسی کو فکر نہ ہوئی ۔
ملک پر 33.172 ارب ڈالر قرضہ ہے یعنی پاکستانی روپے میں تقریبا 4975800کھرب روپیہ ہے، اور تمام قومی پیداوار کے ادارے خسارے میں ہیں ، ان سب کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں ہے ، اگر موجودہ حکومت ایک کمیشن مقرر کرے جس کا ابھی وزیراعظم نے اعلان کیا ہے،جو صرف صوبوں اور اسلام آباد کے بجٹ کے ان حصوں کا حساب چیک کرے جو ترقیات کے نام پر پاس ہوئے جو اربوں سے کھربوں تک تھے تو آپ کو حیرت ہوگی بعض جگہ کوئی ترقی نام کی چیز بھی وجود نہیں رکھتی مگر کھاتے میں اس کا حساب ضرور ہوگا۔
ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میاں نواز شریف کے دور میں وہ بھی پنجاب کے شہر لاہور میں کچھ ترقی نظر آئی اور انرجی پر گزشتہ چند سالوں میں کام ہوا، گیس کی کمی ایل این جی سے پوری کرنے کا معاہدہ قطر ہوا، مگر گزشتہ 35سالوں میں معاشی اور اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں کسی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ، ہمیں آج کی نسل کو یہ بھی بتانا ہے کہ 1971سے لے کر 5جولائی 1977تک جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو اس وقت پاکستان کی تمام نام نہاد سیاسی اور مذہبی جماعتیں ان کے خلاف متحد ہو کر صف آرا تھیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کو جو عوامی مقبولیت حاصل تھی اور ان کا وطن سے لگاؤ تھا وہ ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
جو انھوں نے سخت مخالفت کے باوجود کیا، 1973کا آئین دیا، ملک کو جوہری قوت دی، اسکولوں میں غریبوں کو پڑھنے کا موقع دیا، پاکستان کے شہر کراچی میں اسٹیل مل لگوایا، مزدوروں ،کسانوں ، ہاریوں، طلباء کو یونین کا حق دیا، ذوالفقار علی بھٹو نے لال فیتہ ختم کیا، طبقاتی امتیازات ختم کردیے، ہر غریب و امیر کو فوری پاسپورٹ کے حصول کے لیئے راستہ کی تمام رکاوٹیں دور کیں ، ایشیا میں پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی شناختی کارڈ کا ادارہ بنایا، مگر بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی جو اپنے والد کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کر رہی تھیں ان کو ضیاء الحق کے حامیوں نے عوام سے دور رکھا، ان کا دور پی پی پی کا کرپشن سے پاک دور تھا، مگرہائے بد قسمتی جب یہ پی پی پی کی قیادت بھٹو کے داماد نے سنبھالی تو آہستہ آہستہ کرپشن کا آغازہوا، یہاں تک کہ جب وہ صدر بن گئے اور ان کا ہی وزیراعظم اور ان کا ہی وزیراعلی سندھ تھا تو انھوں نے اپنے ذاتی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد کو سامنے رکھا، کبھی بی بی شہید کے نام سے کبھی بھٹو شہید کے نام سے ووٹ لیا، لیکن پی پی پی کی اس روایت کوختم کر دیا جو بھٹو اور بے نظیر کے زمانے میں تھی کہ ترقیاتی کام ہوتے تھے لیکن اب بادشاہی انداز میں حکومت ہونے لگی۔
بڑے بڑے کاروباری حضرات بڑے بڑے مل مالکان بڑے بڑے بلڈروں کے ساتھ اپنے مالی مفاد کو بڑھاتے رہے، اس کی جھلکیاں جے آئی ٹی رپورٹ میں نظر آرہی ہیں ، پی پی پی کے زرداری صاحب کی ان حرکتوں سے پی پی پی کو سب سے بڑا نقصان پاکستان کی 65فیصد آبادی والے صوبہ پنجاب میں ہوا، پی پی پی کا نام و نشان مٹ گیا پھر کشمیر میں بھی شکست ہوئی، اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ پی پی پی نے سندھ کے شہر کراچی کو متحدہ کے حوالے کر کے اس کی تباہی میں برابر کے شریک رہے، جس طرح مسلم لیگ نواز کی حکومت میں لاہور میں کسی حد تک ترقی ہوئی اس سے دوگنی ترقی کراچی میں ہونا چاہیے تھی، لیکن وہاں ایم کیو ایم جو اپنے مہاجرین کے حق کے نظریے سے دور ہو گئی اورمفاہمت اور سودے بازی سے اس تحریک کو نقصان پہنچا کہ آج مہاجر اپنے آپ کو مہاجر کہنا گالی سجھنے لگا، حالانکہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ، ادب و آداب اور ثقافت میں سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے یہی مہاجر تھے جو 1974کے بعد ہجرت کر کے آئے، لیکن آج ان مہاجروں میں بہت کم حیات ہیں ، لیکن ان کی اولادیں جو اب مہاجر ہیں وہ آج بھی شہر کراچی سے وابستہ ہیں بلکہ سندھ کے تمام بڑے شہر ابن مہاجر کے ہیں آج ان کی رہنمائی کرنیوالا کوئی نہیں ہے ۔
ہمارا مشورہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان پی پی پی کے بلاول بھٹو کے ساتھ اتحاد کرلیں تا کہ پی پی پی جو آج بھی جمہوریت کی پاسبان ہے اس نے اپنے دورحکومت میں عوامی بجٹ اچھے پیش کیے ہیں ان میں عوام کو سہولتیں دینے کا رجحان آج بھی ہے، مگر آصف علی زرداری پر بنے مقدمات یا ان کی ہمشیرہ پر ان مقدمات کا معاملہ نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دیں ، اسی طرح نواز لیگ میں بھی اچھے لوگ ہیں چوہدری نثار، غلام دستگیر ، احسن اقبال، ملک محمد خان ان سب کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں معاہد ہ کر کے پنجاب کی ترقی اور سرائیکی صوبے کی بنیاد رکھیں۔ پورا پاکستان اس وقت مہنگائی کی سونامی میں ڈوب رہا ہے جس کی ذمے داری موجودہ حکومت پرہی ہے، میرا ایک اور مشورہ ہے پاکستان میں ہزاروں نہیںلاکھوں بلکہ کروڑوں ایسے مقامات ہیں۔
جہاں پر ان سے ایک پائی ٹیکس نہیں لیا جاتا،مثلا پورے ملک میں جتنے شاپنگ مال جو سینٹرلی ائیر کنڈیشنر ہیں ان کی دکان میں جو چھوٹی ہو 10x10کی ان پر کم از کم پانچ ہزار روپے سالانہ ٹیکس لیا جائے اور پورے ملک میں وہ تمام بازار جہاں اے سی لگے ہوئے ہیں ان سے تین ہزار روپے سالانہ ٹیکس لیا جائے، اسی طرح پورے ملک میں جتنی بھی دکانیں ہیں چاہے وہ پرچون کی ہوں یا نان بائی، کسی ہیئر ڈریسر کی ہو یا پارلر کی، جتنے ہوٹل چاہے چائے کے ہوں یا کھانے کے ان پر کم سے کم ماہانہ سو روپیہ ٹیکس اور سالانہ بارہ سو روپیہ ٹیکس لگایا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں انٹرٹینمنٹ اور میوزمنٹ پارک ، فوڈ اسٹریٹ ، سینما گھر بنانے کے لیے حکومت زمین مفت فراہم کرے ، بعد میں ان سے تیس فیصد ٹیکس وصول کرتے رہیں اس ہی طرح بجلی ، پانی اور گیس کے بل کی فی یونٹ قیمت پلاٹ کے رقبے سے حساب سے ہو، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے، اب بھی سیکڑوں ایسے تجارتی مراکز ہیں جہاں کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا، انکم ٹیکس ان سے وصول کیجیے جو کاروبار سے منافع لیتے ہیں جو صنعتکار ہیں، بڑے بڑے تین سے پانچ اسٹار ہوٹل ہیں ان سب سے ٹیکس آسانی سے وصول ہوگا۔
ملک پر 33.172 ارب ڈالر قرضہ ہے یعنی پاکستانی روپے میں تقریبا 4975800کھرب روپیہ ہے، اور تمام قومی پیداوار کے ادارے خسارے میں ہیں ، ان سب کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں ہے ، اگر موجودہ حکومت ایک کمیشن مقرر کرے جس کا ابھی وزیراعظم نے اعلان کیا ہے،جو صرف صوبوں اور اسلام آباد کے بجٹ کے ان حصوں کا حساب چیک کرے جو ترقیات کے نام پر پاس ہوئے جو اربوں سے کھربوں تک تھے تو آپ کو حیرت ہوگی بعض جگہ کوئی ترقی نام کی چیز بھی وجود نہیں رکھتی مگر کھاتے میں اس کا حساب ضرور ہوگا۔
ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میاں نواز شریف کے دور میں وہ بھی پنجاب کے شہر لاہور میں کچھ ترقی نظر آئی اور انرجی پر گزشتہ چند سالوں میں کام ہوا، گیس کی کمی ایل این جی سے پوری کرنے کا معاہدہ قطر ہوا، مگر گزشتہ 35سالوں میں معاشی اور اقتصادی حالات کو بہتر بنانے میں کسی نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ، ہمیں آج کی نسل کو یہ بھی بتانا ہے کہ 1971سے لے کر 5جولائی 1977تک جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو اس وقت پاکستان کی تمام نام نہاد سیاسی اور مذہبی جماعتیں ان کے خلاف متحد ہو کر صف آرا تھیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کو جو عوامی مقبولیت حاصل تھی اور ان کا وطن سے لگاؤ تھا وہ ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
جو انھوں نے سخت مخالفت کے باوجود کیا، 1973کا آئین دیا، ملک کو جوہری قوت دی، اسکولوں میں غریبوں کو پڑھنے کا موقع دیا، پاکستان کے شہر کراچی میں اسٹیل مل لگوایا، مزدوروں ،کسانوں ، ہاریوں، طلباء کو یونین کا حق دیا، ذوالفقار علی بھٹو نے لال فیتہ ختم کیا، طبقاتی امتیازات ختم کردیے، ہر غریب و امیر کو فوری پاسپورٹ کے حصول کے لیئے راستہ کی تمام رکاوٹیں دور کیں ، ایشیا میں پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی شناختی کارڈ کا ادارہ بنایا، مگر بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی جو اپنے والد کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کر رہی تھیں ان کو ضیاء الحق کے حامیوں نے عوام سے دور رکھا، ان کا دور پی پی پی کا کرپشن سے پاک دور تھا، مگرہائے بد قسمتی جب یہ پی پی پی کی قیادت بھٹو کے داماد نے سنبھالی تو آہستہ آہستہ کرپشن کا آغازہوا، یہاں تک کہ جب وہ صدر بن گئے اور ان کا ہی وزیراعظم اور ان کا ہی وزیراعلی سندھ تھا تو انھوں نے اپنے ذاتی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد کو سامنے رکھا، کبھی بی بی شہید کے نام سے کبھی بھٹو شہید کے نام سے ووٹ لیا، لیکن پی پی پی کی اس روایت کوختم کر دیا جو بھٹو اور بے نظیر کے زمانے میں تھی کہ ترقیاتی کام ہوتے تھے لیکن اب بادشاہی انداز میں حکومت ہونے لگی۔
بڑے بڑے کاروباری حضرات بڑے بڑے مل مالکان بڑے بڑے بلڈروں کے ساتھ اپنے مالی مفاد کو بڑھاتے رہے، اس کی جھلکیاں جے آئی ٹی رپورٹ میں نظر آرہی ہیں ، پی پی پی کے زرداری صاحب کی ان حرکتوں سے پی پی پی کو سب سے بڑا نقصان پاکستان کی 65فیصد آبادی والے صوبہ پنجاب میں ہوا، پی پی پی کا نام و نشان مٹ گیا پھر کشمیر میں بھی شکست ہوئی، اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ پی پی پی نے سندھ کے شہر کراچی کو متحدہ کے حوالے کر کے اس کی تباہی میں برابر کے شریک رہے، جس طرح مسلم لیگ نواز کی حکومت میں لاہور میں کسی حد تک ترقی ہوئی اس سے دوگنی ترقی کراچی میں ہونا چاہیے تھی، لیکن وہاں ایم کیو ایم جو اپنے مہاجرین کے حق کے نظریے سے دور ہو گئی اورمفاہمت اور سودے بازی سے اس تحریک کو نقصان پہنچا کہ آج مہاجر اپنے آپ کو مہاجر کہنا گالی سجھنے لگا، حالانکہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ، ادب و آداب اور ثقافت میں سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے یہی مہاجر تھے جو 1974کے بعد ہجرت کر کے آئے، لیکن آج ان مہاجروں میں بہت کم حیات ہیں ، لیکن ان کی اولادیں جو اب مہاجر ہیں وہ آج بھی شہر کراچی سے وابستہ ہیں بلکہ سندھ کے تمام بڑے شہر ابن مہاجر کے ہیں آج ان کی رہنمائی کرنیوالا کوئی نہیں ہے ۔
ہمارا مشورہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان پی پی پی کے بلاول بھٹو کے ساتھ اتحاد کرلیں تا کہ پی پی پی جو آج بھی جمہوریت کی پاسبان ہے اس نے اپنے دورحکومت میں عوامی بجٹ اچھے پیش کیے ہیں ان میں عوام کو سہولتیں دینے کا رجحان آج بھی ہے، مگر آصف علی زرداری پر بنے مقدمات یا ان کی ہمشیرہ پر ان مقدمات کا معاملہ نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دیں ، اسی طرح نواز لیگ میں بھی اچھے لوگ ہیں چوہدری نثار، غلام دستگیر ، احسن اقبال، ملک محمد خان ان سب کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں معاہد ہ کر کے پنجاب کی ترقی اور سرائیکی صوبے کی بنیاد رکھیں۔ پورا پاکستان اس وقت مہنگائی کی سونامی میں ڈوب رہا ہے جس کی ذمے داری موجودہ حکومت پرہی ہے، میرا ایک اور مشورہ ہے پاکستان میں ہزاروں نہیںلاکھوں بلکہ کروڑوں ایسے مقامات ہیں۔
جہاں پر ان سے ایک پائی ٹیکس نہیں لیا جاتا،مثلا پورے ملک میں جتنے شاپنگ مال جو سینٹرلی ائیر کنڈیشنر ہیں ان کی دکان میں جو چھوٹی ہو 10x10کی ان پر کم از کم پانچ ہزار روپے سالانہ ٹیکس لیا جائے اور پورے ملک میں وہ تمام بازار جہاں اے سی لگے ہوئے ہیں ان سے تین ہزار روپے سالانہ ٹیکس لیا جائے، اسی طرح پورے ملک میں جتنی بھی دکانیں ہیں چاہے وہ پرچون کی ہوں یا نان بائی، کسی ہیئر ڈریسر کی ہو یا پارلر کی، جتنے ہوٹل چاہے چائے کے ہوں یا کھانے کے ان پر کم سے کم ماہانہ سو روپیہ ٹیکس اور سالانہ بارہ سو روپیہ ٹیکس لگایا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں انٹرٹینمنٹ اور میوزمنٹ پارک ، فوڈ اسٹریٹ ، سینما گھر بنانے کے لیے حکومت زمین مفت فراہم کرے ، بعد میں ان سے تیس فیصد ٹیکس وصول کرتے رہیں اس ہی طرح بجلی ، پانی اور گیس کے بل کی فی یونٹ قیمت پلاٹ کے رقبے سے حساب سے ہو، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے، اب بھی سیکڑوں ایسے تجارتی مراکز ہیں جہاں کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا، انکم ٹیکس ان سے وصول کیجیے جو کاروبار سے منافع لیتے ہیں جو صنعتکار ہیں، بڑے بڑے تین سے پانچ اسٹار ہوٹل ہیں ان سب سے ٹیکس آسانی سے وصول ہوگا۔