ٹنڈو آدم سے کراچی
بابا دینو سے تعلق رضوان اللہ کے روحانی سفر کی پہلی منزل تھی۔
ڈاکٹر رضوان اللہ خان اپنی کتاب '' ٹنڈو آدم سے کراچی'' کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ یہ میرے سفر زندگی کی داستان ہے جس میں تین پڑاؤ ہیں۔ پہلا پڑاؤ ٹنڈو آدم جہاں پیدائش سے میٹرک تک کا سفر مکمل ہوا۔ اس سفر کا دورانیہ سولہ برس ہے۔ دوسرا پڑاؤ حیدرآباد جہاں کالج سے میڈیکل کالج اور ہاؤس جاب تک کا سفر طے ہوا۔ اس سفر کا دورانیہ گیارہ برس رہا۔ تیسرا پڑاؤ کراچی۔ اس میں ملازمت، شادی اور ریٹائرمنٹ کے معاملات طے ہوئے۔ اس کا دورانیہ 33 بحروں پر محیط ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک چوتھا پڑاؤ بھی ہے۔ ان کے سفر زندگی کے پہلے تین پڑاؤ وقتی اور مقامی تھے، یہ چوتھا پڑاؤ وقت کی قید سے آزاد روحانی ہے۔ اس میں ایسے کچھ واقعات اور مشاہدات کا ذکر ہے جنھوں نے انھیں ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا اور کچھ ایسی شخصیتوں کا ذکر ہے ، جو دنیا کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے اور اپنی جھکی ہوئی نگاہوں میں سارا عالم چھپائے بیٹھے تھے، جن کی صحبت میں بنا پوچھے انھیں ان کے سوالوں کے جواب مل گئے، جنھوں نے ان کے ذہن کی الجھنوں کو سلجھا دیا، ان کی سوچ کو نئے زاویے دے دیے اور ان کی بے چینیوں کو قرار اور بے سکونی کو سکون جیسی نعمت عطا کردی۔
ڈاکٹر صاحب کے والد کنور امداد اللہ خان مسلم لیگ کے ورکر تھے، آزادی کے بعد ہند میں رہنا مشکل تھا، راجستھان سے پاکستان چلے آئے۔ ٹنڈو آدم میں قیام کیا۔ رضوان اللہ یہیں پیدا ہوئے پلے بڑھے۔ نو سال کے ہوئے تھے کہ باپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ یہ اسکول میں پڑھتے تھے ہر سال اپنی کلاس میں اول آتے تھے۔ باپ کا سایہ اٹھنے سے معاشی حالات دگرگوں ہوگئے۔ ان کی ماں بڑی حوصلہ مند، سمجھدار خاتون تھیں انھوں نے معاملات سنبھالے۔ بیٹے سے کہہ دیا کہ تمہیں پڑھنا ہے، آگے بڑھنا ہے یہ بھی بتا دیا کہ تمہیں ڈاکٹر بننا ہے چاہو یا نہ چاہو۔
رضوان اللہ نے میٹرک کا امتحان دیا ، رزلٹ آیا تو والدہ نے فیصلہ سنا دیا کہ حیدرآباد شفٹ ہونا ہے۔ اب کالج اور میڈیکل کی تعلیم وہیں ہونی ہے۔ رضوان اللہ کی مخالفت کے باوجود فیصلہ نہ بدلا۔ان کی بڑی بہن حیدرآباد میں رہتی تھیں، رہائش کا انتظام ہوگیا۔کالج میں ان کا داخلہ بھی ہوگیا۔ حیدرآباد آکرکچھ ذہنی کیفیت بدلنے لگی،کتابوں سے دوستی ہوگئی۔ پہلے شاعری سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اب شاعری اچھی لگنے لگی تھی۔ فرسٹ ایئرکا نتیجہ آگیا کچھ بہتر نہیں تھا، سیکنڈ ایئر بھی کم و بیش اسی طرح گزرگیا۔
رضوان اللہ خان کہتے ہیں کہ میں حیدرآباد سے آتے وقت یہ فیصلہ کرکے آیا تھا کہ انٹر میں اتنی محنت کروں گا ہی نہیں کہ اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے۔ ادھر ان کی والدہ بدستور اس یقین پر قائم تھیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا ۔ رضوان اللہ کے میڈیکل کالج میں داخلے کی راہ میں اور بھی کئی رکاوٹیں آئیں اور پھر جب اچانک انھیں یہ معلوم ہوا کہ ان کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا ہے تو وہ حیران رہ گئے، لکھتے ہیں ''میں نے یہ خبر گھر پہنچ کر والدہ کو سنائی اور مارے خوشی کے ان سے لپٹ گیا۔ والدہ کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔''
اب رضوان اللہ کی ساری توجہ تعلیم کی طرف تھی۔ جنوری 1983 میں ڈاکٹر بن گئے۔ پھر ہاؤس جاب شروع ہوا۔ انھوں نے اپنی پسند سے شعبہ ہڈی اور جوڑ کا انتخاب کیا۔ پھر اپنے دوسرے ہاؤس جاب کے آنکھوں کے شعبے کا انتخاب کیا۔ لکھتے ہیں ''نیلی، پیلی، بھوری، کالی، سرمئی، چھوٹی، بڑی، غزالی، نشیلی، بھینگی، نور والی، بے نور ہر طرح کی آنکھیں دیکھنے کو ملیں۔ آنکھیں سوال کرتی ہوئی بھی نظر آئیں اور جواب دیتے ہوئے بھی۔'' (یہ بھی اتفاق ہے کہ انھیں آنکھوں میں بال تو نظر آئے مگر کبھی شہتیر نظر نہ آیا۔)
ڈاکٹر رضوان اللہ کو جلد ہی نوکری مل گئی اور یوں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگیا۔ اب ایک شریک زندگی کی ضرورت تھی، وہ بھی پسند کی مل گئی۔ یہ روبینہ تھیں انھی کی طرح ایک نوخیز ڈاکٹر۔ رضوان اللہ کی تقرری سول اسپتال، سانگھڑ میں ہوئی۔ روبینہ کی عمر کوٹ میں ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر ہیلتھ، سجن میمن تھے۔ بھلے آدمی۔ ان کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے روبینہ کا تقرر بھی سانگھڑ میں کردیا۔ ایک نیا بنگلہ بھی وہاں دے دیا۔ اب کیا تھا، نئی نوکری، نئی شادی اور نیا بنگلہ۔ روبینہ بہت خوش تھیں۔ سانگھڑ میں تین سال سے اوپر گزرے تھے کہ دونوں کا کراچی تبادلہ ہوگیا۔ اس دوران رضوان اللہ دو پیاری سی بچیوں کے باپ بن چکے تھے۔ یہ سارے معاملات اتنی آسانی سے نہیں ہوئے تھے، ایک لمبی داستان ہے جو انھوں نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے پڑھنے کے لائق۔
کراچی میں ڈاکٹر رضوان اللہ کی زندگی اسی طرح نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ ابھی ملازمت کو آٹھ سال نہ ہوئے تھے کہ 17 گریڈ سے 18 گریڈ میں ترقی کا پروانہ مل گیا۔ سینئر میڈیکل آفیسر کہلانے لگے۔ پھر یہ ہوا کہ کچھ ملازمت کے معاملات اور کچھ شہر کے واقعات نے انھیں ایک عجیب سی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ شاعری سے زیادہ دلچسپی بڑھ گئی۔ طرح طرح کے سوالات ذہن میں آتے تھے۔ اس کیفیت میں ایک کتاب ماحولیات کے موضوع پر پڑھی۔ اس موضوع نے ان کے ذہن کو گرفت میں لے لیا اور ان کی سوچ کا رخ مثبت سمت مڑ گیا۔ اس کے انہماک میں ماحولیاتی موضوعات پر شاعری لکھوائی اور ایک مشاعرہ بھی کر ڈالا۔ HEBA کے نام سے ایک سماجی تنظیم بھی بنالی۔
اپنی شریک حیات کے بارے میں کہتے ہیں ''روبینہ ایک اچھی بیوی، اچھی ماں، اچھی ڈاکٹر ہے۔ رشتوں کو نبھانا اس کو آتا ہے۔ وہ خوش مزاج، شائستہ اور کم گو ہے۔''
ڈاکٹر رضوان نے اپنے بھائی اور بہنوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی محبتوں کا مجھ پر اتنا قرض چڑھ چکا ہے کہ مجھ جیسے کم مایہ انسان کے لیے اسے لوٹایا جانا ممکن نہیں۔
رضوان اللہ کے والد تصوف کی طرف مائل تھے، میلاد اور عرس کی محفلیں منعقد کرواتے تھے۔ مشائخ اور پیروں فقیروں سے ان کا تعلق تھا۔ رضوان کو بھی علما کی تقریریں سننے کا شوق ہوا۔ وہ قرآن کریم کو بھی ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے رہتے تھے۔ یوں ایک اپنے انداز میں ان کا اپنے رب سے ایک تعلق ہمیشہ قائم ہوا۔ دین سے متعلق ذہن میں کچھ الجھنیں بھی تھیں جو انھوں نے اپنے تک ہی رکھیں۔ پھر انھوں نے ایک خواب دیکھا جس کے بعد ذہن میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ وہ راستہ کون سا ہے جو صراط مستقیم کہلاتا ہے۔ ایک دن شیو کرنے کے لیے آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے۔ اچانک اندر سے ایک آواز آئی۔ ریزر ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے رکھ دیا۔
پھر یہ ہوا کہ ان کے دوست ڈاکٹر واحد کے کزن بابا رمضان انھیں ایک عمر رسیدہ بزرگ کے علاج کے لیے مکلی لے گئے۔ یہ بابا دین محمد تھے۔ ڈاکٹر رضوان اللہ سے ان کی یہ پہلی ملاقات تھی، پھر دوسری ملاقات اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ رضوان اللہ لکھتے ہیں ''یہ باتیں 2003 کی ہیں۔ میرے بابا دینو کے پاس جانے سے ذہن کے سوچنے کا انداز تبدیل ہوا۔ روح میں کچھ تازگی محسوس ہوئی۔''
بابا دینو سے تعلق رضوان اللہ کے روحانی سفر کی پہلی منزل تھی۔ دوسری منزل اس وقت شروع ہوئی جب بابا رمضان نے ان کی ملاقات عبداللہ شاہ اصحابیؒ کے مزار پر خواجہ سراج الدین سے کرائی۔ یہ ماموں کہلاتے تھے اور مسجد سے ملحق ایک کمرے میں مقیم تھے۔ یہ ہندوستان سے اپنے مرشد کی تلاش میں کراچی آئے۔ ان سے ملاقات کے بعد رضوان اللہ خان نے اپنے دوست ڈاکٹر واحد سے کہا، ''اب ہمیں یہاں بھی آنا پڑے گا۔'' اور پھر ہوا بھی یہی۔ خواجہ سے قربت بڑھ گئی۔یہ ایک لمبی داستان ہے جو تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ پڑھنے کے قابل ہے۔
ڈاکٹر رضوان اللہ کی آپ بیتی ''ٹنڈو آدم سے کراچی'' راشد اشرف نے شایع کی ہے اور ان سے یہ لکھوائی بھی انھوں نے ہی ہے۔ دونوں کام اچھے کیے ہیں۔ خوش رہیں۔