وفاقی حکومت کی حالت یہ ہے اب تک چیئرمین نیب نہیں لاسکی چیف جسٹس

37 ارب کا منصوبہ 90ارب کا ہو چکا مگر ذمے داروں کا تعین نہیں ہوا، چیف جسٹس افتخارمحمد

اربوں روپے عوام کی جیب سے نکلے، کسی کو پروا نہیں، معاملہ دبایا جا رہا ہے، جسٹس جواد، معاہدے میں نئی کمپنیاں شامل کرنے پر وضاحت طلب۔ فوٹو: فائل

WASHINGTON:
سپریم کورٹ نے نیو بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ کی تعمیر کیلیے اصل جوائنٹ وینچر معاہدہ ختم کرکے نئی کمپنیوں کو معاہدے میں شامل کرنے پر وضاحت طلب کرلی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے معاہدے میں شامل کمپنی ٹیکنیکل کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ وضاحت کریں کہ جب ان کی کمپنی اصل معاہدے میں شامل نہیں تھی تو بعد میں کیسے شامل ہوگئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کی تو یہ حالت ہے کہ بدعنوانی کے سدباب کے لیے قائم ادارے (نیب) کا چیئرمین نہیں لا سکی، ایک معاہدہ جو اگست 2010میں مکمل ہونا تھا وہ اگست2013کے بعد بھی مکمل نہیں ہو سکا، ابھی تک یہ تعین نہیں ہوا کہ منصوبے میں تبدیلی سے فائدہ کس کو پہنچا لیکن یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوا ہے،37ارب کا منصوبہ 90ارب روپے کا ہو چکاہے لیکن نقصان پہنچانے والوں کا تعین نہیں ہوسکا بلکہ ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے تو خود معاہدے میں تبدیلی پر دستخط کیے۔




جسٹس جواد خواجہ نے کہا اگر اداروں کا اپنے معاملات پر یہ رویہ ہو تو پھر لوٹ مار کرنے والے تو سب کچھ لے جائیں گے، اربوں روپے عوام کی جیب سے نکلے اس کی کسی کو پروا نہیں اور نہ عوام سے ہمدردی ہے۔ ایئر پورٹ بنانے والی مرکزی کمپنی لیگن کے وکیل خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ یہ منصوبہ نااہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، تاخیر اور مالی نقصانات کی خود سول ایوی ایشن اتھارٹی ذمے دار ہے، ایئر پورٹ کے ڈیزائن میں سنگین غلطیاں کی گئی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تاخیر سے قوم کوکئی ارب روپے کا نقصان ہوا، جو کنٹریکٹر وقت پر کام مکمل نہیں کر تا اس پر جرمانہ ہونا چاہیے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر شاہد عزیز رپورٹ درست ہے تو پھر نیو بے نظیربھٹو ایئر پورٹ ناقابل استعمال ہے۔ آج ٹیکنیکل کمپنی کے وکیل حسن اورنگزیب دلائل دیں گے۔
Load Next Story