دورِ حاضر میں اولاد کی تربیت
یاد رکھیے! جو تربیت پیار و محبت سے ہوسکتی ہے وہ سختی اور ڈانٹ سے نہیں ہوسکتی۔ بے جا سختی اور تشدد سے پرہیز کریں
بلاشُبہ اولاد اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے قیمتی نعمت ہے سورۃ شوریٰ کی ایک آیت کا مفہوم ہے: '' آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں ملا جلا کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔''
بچوں کی پیدائش کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی بقاء کا سامان فراہم کیا ہے تاکہ نسل انسانی تاقیامت قائم رہے۔ پُرانے انسان اس دنیائے فانی سے کُوچ کر جاتے ہیں اور نئے انسان ان کی جگہ ذمے داریوں کو سنبھالتے جاتے ہیں، یعنی آج کے بچے کل کے معمار ہیں۔
بچے دین فطرت پر پیدا ہوتے ہیں یعنی ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑوں کے مقابلے میں زیادہ رکھتا ہے۔ بچے نرم مٹی کی طرح ہوتے ہیں، والدین کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ انہیں بچپن ہی سے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ جیسی تربیت وہ انہیں بچپن میں دیں گے اس کا پھل بڑھاپے میں کھائیں گے۔
والدین کی چار اہم ابتدائی ذمے داریاں بیان کی جاتی ہیں:
٭ بچے کی پیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت (تکبیر) کہی جائے۔ ٭ عقیقہ دراصل بچے کی جان کا صدقہ ہوتا ہے۔ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کریں ۔ لڑکے کے لیے دو بکرے یا جانور اور لڑکی کے لیے ایک بکرا یا جانور ذبح کریں۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکیں تو بعد میں جلد از جلد کردیں۔ ٭ والدین کی ذمے داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھیں یعنی جس کے معنی اچھے ہوں۔ یہ پہلا تحفہ ہے جو والدین کی طرف سے بچے کو ملتا ہے۔ ٭ قوت گویائی شروع ہوتے ہی اللہ کا نام بچے کو سکھائیں پھر کلمہ طیبہ سکھائیں۔
دور حاضر میں جب کہ معاشرے میں ہر سُو غیر اسلامی ماحول نظر آتا ہے پھر جدید ٹیکنالوجی نے بھی بچوں کی اسلامی طرز پر تربیت میں مشکل پیدا کردی ہے، یوں والدین کی ذمے داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ عصر حاضر میں بچوں کی تربیت کا پورا پورا دار و مدار والدین اور ان کے اپنے گھر کے ماحول پر منحصر ہوگیا ہے۔ خاص طور پر ماں کی ذمے داریوں میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ ماں کا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو اولین درس گاہ کہا جاتا ہے۔
والدین کی ذمے داری ہے کہ کم عمری ہی میں اسلامی اور اخلاقی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کا حقیقی مقصد انسان کو انسانیت سے ہم کنار کرنا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات کے لیے صاحب خیر ہوجائے بل کہ دوسروں کے لیے بھی خیر کا سبب بن جائے۔ خدائے واحد پر یقین کامل اس کی شخصیت کو پُراعتماد بنائے گا۔
اسلامی تعلیمات کا مرکزی محور اخلاق حسنہ ہے۔ تمام تربیت بے معنی ہے جب تک بچے کے اندر اخلاقی صفات نہ موجود ہوں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک اخلاق اچھا نہ ہو۔ حضور اکرمؐ نے ایک اور موقع پر فرمایا، مفہوم : ''ایک آدمی کا اپنی اولاد کو ادب دینا ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے۔'' (ترمذی)
کم عمری ہی سے بچوں کو سچ بولنے اور جُھوٹ سے پرہیز کرنے کی عادت ڈالیں کیوں کہ بچپن کی عادت بعد میں پختہ ہوجاتی ہے۔ والدین کی تربیت کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ کم سنی سے عفو و درگزر کی عادت ڈالیں یعنی دوسروں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو محسوس کرنے کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظرانداز کردینا اور معاف کردینا سکھائیں، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر ادا کرنا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا احساس دلائیں۔ اس کے علاوہ سنت نبوی ﷺ کے مطابق تمام روزمرہ کی دعائیں یاد کروانا بھی کم سنی میں زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ اس عمر میں حافظہ زیادہ تیز ہوتا ہے۔
والدین کی ایک اہم ذمے داری ہے کہ بچے کو سات سے دس سال کی عمر تک نماز کا پابند بنادیں۔ یوں پابندی نماز سے انسان ساری زندگی تمام قسم کی برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچ جاتا ہے۔ نیک کام کرنے، اجر اور اللہ کی رضامندی، بُرا کام کرنے پر گناہ اور اللہ کی ناراضی کا تصور واضح کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کا ڈر و خوف اس کے ذہن میں اتنا اثر انداز ہو جائے کہ بچہ ہر اس نیک کام کی طرف راغب ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہو اور وہ ہر بُرائی کے کاموں سے اجتناب کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہو۔
یعنی تقویٰ کی صفات پیدا ہوجائیں تاکہ بچہ عملی زندگی میں قدم رکھے تو غلط اور صحیح میں تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ بچوں کو بہت ہی پیار و شفقت بھرا خوش گوار ماحول فراہم کریں۔ یاد رکھیے! جو تربیت پیار و محبت سے ہوسکتی ہے وہ سختی اور ڈانٹ سے نہیں ہوسکتی۔ لیکن والدین کا رعب اور سختی بھی تربیت کا لازمی حصہ ہے پھر بھی بے جا سختی اور تشدد سے پرہیز کریں۔ بے جا پابندیاں بھی بچوں میں بغاوت کا عنصر پیدا کرتی ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پر مختلف خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اس کے علاوہ ذہنی استعداد بھی مختلف ہوتی ہیں دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ نہ کریں ورنہ بچے احساس کم تری کا شکار ہوجائیں گے۔ بچوں کی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
دور جدید کی نت نئی سائنسی ایجادات، میڈیا، سوشل میڈیا اور موبائل نے والدین کی ذمے داریوں میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بچوں کو ان کے مضر اثرات سے بچانا ایک اہم اور گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے اندر حق و باطل، اسلامی اور غیر اسلامی اقدار کو سمجھنے اور ان میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ ایسا ہیرا ہوتا ہے جس کو جیسے تراشا جائے وہی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ آج کل کا المیہ ہے کہ والدین خود ہی بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنی ان کو ضرورت ہے، بل کہ خود ہی بچوں کو سوشل میڈیا اور موبائل کے حوالے کردیتے ہیں اور چیک بھی نہیں کرتے کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے۔ پھر آج کل کی اکثر مائیں کھانا کھلانے کے لیے موبائل اور کارٹون کا سہارا لیتی ہیں اور بچے کو پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کھا رہا ہے یہ طریقہ بالکل غلط طریقہ ہے اور انتہائی نقصان دہ ہے۔
بچوں کو کارٹون، ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے بہ جائے کھیلوں میں دل چسپی پیدا کروائیں بل کہ خود بھی ان کے ساتھ کھیلیں۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق اجاگر کیا جائے۔ اخلاقیات اور اسلامی موضوعات پر مبنی بچوں کے معیار کے مطابق کتابیں بازار میں آسانی سے دست یاب ہوجاتی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ملک میں دارالمطالعے قائم کیے جائیں۔ میڈیا پر بھی بچوں کے لیے اخلاقیات پر مبنی اچھے پروگرام نشر کرنے چاہییں۔ حکومت وقت کی بھی ذمے داری ہے کہ ایسا نظام تعلیم اور نصاب متعین کرے جس سے اخلاقیات، دینی اور سائنسی علوم تینوں کی کمی پوری ہوسکے۔
قرآن پاک میں بار بار اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے، مفہوم: ''اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔'' یعنی گھر کے سربراہ کی یہ اہم ذمے داری ہے کہ دین کی تعلیم دے، بنیادی عقائد، امر و نہی، نیکی و بدی اور تقویٰ کے مفہوم کو واضح کرے، اسلامی طرز زندگی اپنائے اور گھر والوں کو تلقین کرے۔ لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ اکثر والدین بچوں کو دینی تعلیم نہیں دیتے، بچوں کو نماز و روزے کا پابند بھی نہیں بناتے کہ ابھی تو چھوٹا ہے پھر یہ کہ آج کل کے مصروف دور میں مشکل ہے، پیچھے رہ جائے گا، مجبوری ہے وغیرہ وغیرہ۔ بچیوں کے لباس اسلامی لحاظ سے بالکل درست نہیں ہوتے، خوش حالی کے باوجود کپڑے سکڑتے جا رہے ہیں اور حیا ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے ہی والدین کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ میں دھکیلنے والے ہیں۔ سورۃ الفرقان آیت نمبر 75 اللہ تعالیٰ رحمن کے بندوں یعنی مومنین کاملین کی اہم صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم: '' اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! تُو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔'' یعنی اللہ کے مقبول بندے صرف اپنے نفس کی اصلاح اور اعمال صالح کے لیے دعائیں نہیں کرتے بل کہ اپنی اولاد اور بیویوں کی اصلاح اعمال و اخلاق کی فکر کرتے ہیں اور دعاگو رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کرامؑ نے جب اولاد کی دعا مانگی تو صالح اور نیک اولاد کی۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے پروردگار سے دعا مانگی: ''اے ہمارے رب ہمیں نیک اور صالح اولاد عطا فرما۔''
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو بہترین مسلمان بنادے اور ان کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنادے۔ آمین
بچوں کی پیدائش کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی بقاء کا سامان فراہم کیا ہے تاکہ نسل انسانی تاقیامت قائم رہے۔ پُرانے انسان اس دنیائے فانی سے کُوچ کر جاتے ہیں اور نئے انسان ان کی جگہ ذمے داریوں کو سنبھالتے جاتے ہیں، یعنی آج کے بچے کل کے معمار ہیں۔
بچے دین فطرت پر پیدا ہوتے ہیں یعنی ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑوں کے مقابلے میں زیادہ رکھتا ہے۔ بچے نرم مٹی کی طرح ہوتے ہیں، والدین کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ انہیں بچپن ہی سے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ کیوں کہ جیسی تربیت وہ انہیں بچپن میں دیں گے اس کا پھل بڑھاپے میں کھائیں گے۔
والدین کی چار اہم ابتدائی ذمے داریاں بیان کی جاتی ہیں:
٭ بچے کی پیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت (تکبیر) کہی جائے۔ ٭ عقیقہ دراصل بچے کی جان کا صدقہ ہوتا ہے۔ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کریں ۔ لڑکے کے لیے دو بکرے یا جانور اور لڑکی کے لیے ایک بکرا یا جانور ذبح کریں۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکیں تو بعد میں جلد از جلد کردیں۔ ٭ والدین کی ذمے داری ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھیں یعنی جس کے معنی اچھے ہوں۔ یہ پہلا تحفہ ہے جو والدین کی طرف سے بچے کو ملتا ہے۔ ٭ قوت گویائی شروع ہوتے ہی اللہ کا نام بچے کو سکھائیں پھر کلمہ طیبہ سکھائیں۔
دور حاضر میں جب کہ معاشرے میں ہر سُو غیر اسلامی ماحول نظر آتا ہے پھر جدید ٹیکنالوجی نے بھی بچوں کی اسلامی طرز پر تربیت میں مشکل پیدا کردی ہے، یوں والدین کی ذمے داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ عصر حاضر میں بچوں کی تربیت کا پورا پورا دار و مدار والدین اور ان کے اپنے گھر کے ماحول پر منحصر ہوگیا ہے۔ خاص طور پر ماں کی ذمے داریوں میں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کیوں کہ ماں کا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو اولین درس گاہ کہا جاتا ہے۔
والدین کی ذمے داری ہے کہ کم عمری ہی میں اسلامی اور اخلاقی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کا حقیقی مقصد انسان کو انسانیت سے ہم کنار کرنا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات کے لیے صاحب خیر ہوجائے بل کہ دوسروں کے لیے بھی خیر کا سبب بن جائے۔ خدائے واحد پر یقین کامل اس کی شخصیت کو پُراعتماد بنائے گا۔
اسلامی تعلیمات کا مرکزی محور اخلاق حسنہ ہے۔ تمام تربیت بے معنی ہے جب تک بچے کے اندر اخلاقی صفات نہ موجود ہوں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک اخلاق اچھا نہ ہو۔ حضور اکرمؐ نے ایک اور موقع پر فرمایا، مفہوم : ''ایک آدمی کا اپنی اولاد کو ادب دینا ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے۔'' (ترمذی)
کم عمری ہی سے بچوں کو سچ بولنے اور جُھوٹ سے پرہیز کرنے کی عادت ڈالیں کیوں کہ بچپن کی عادت بعد میں پختہ ہوجاتی ہے۔ والدین کی تربیت کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ کم سنی سے عفو و درگزر کی عادت ڈالیں یعنی دوسروں کی غلطیوں اور زیادتیوں کو محسوس کرنے کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظرانداز کردینا اور معاف کردینا سکھائیں، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر ادا کرنا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا احساس دلائیں۔ اس کے علاوہ سنت نبوی ﷺ کے مطابق تمام روزمرہ کی دعائیں یاد کروانا بھی کم سنی میں زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ اس عمر میں حافظہ زیادہ تیز ہوتا ہے۔
والدین کی ایک اہم ذمے داری ہے کہ بچے کو سات سے دس سال کی عمر تک نماز کا پابند بنادیں۔ یوں پابندی نماز سے انسان ساری زندگی تمام قسم کی برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچ جاتا ہے۔ نیک کام کرنے، اجر اور اللہ کی رضامندی، بُرا کام کرنے پر گناہ اور اللہ کی ناراضی کا تصور واضح کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کا ڈر و خوف اس کے ذہن میں اتنا اثر انداز ہو جائے کہ بچہ ہر اس نیک کام کی طرف راغب ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہو اور وہ ہر بُرائی کے کاموں سے اجتناب کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہو۔
یعنی تقویٰ کی صفات پیدا ہوجائیں تاکہ بچہ عملی زندگی میں قدم رکھے تو غلط اور صحیح میں تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ بچوں کو بہت ہی پیار و شفقت بھرا خوش گوار ماحول فراہم کریں۔ یاد رکھیے! جو تربیت پیار و محبت سے ہوسکتی ہے وہ سختی اور ڈانٹ سے نہیں ہوسکتی۔ لیکن والدین کا رعب اور سختی بھی تربیت کا لازمی حصہ ہے پھر بھی بے جا سختی اور تشدد سے پرہیز کریں۔ بے جا پابندیاں بھی بچوں میں بغاوت کا عنصر پیدا کرتی ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پر مختلف خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اس کے علاوہ ذہنی استعداد بھی مختلف ہوتی ہیں دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ نہ کریں ورنہ بچے احساس کم تری کا شکار ہوجائیں گے۔ بچوں کی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
دور جدید کی نت نئی سائنسی ایجادات، میڈیا، سوشل میڈیا اور موبائل نے والدین کی ذمے داریوں میں مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بچوں کو ان کے مضر اثرات سے بچانا ایک اہم اور گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے اندر حق و باطل، اسلامی اور غیر اسلامی اقدار کو سمجھنے اور ان میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ ایسا ہیرا ہوتا ہے جس کو جیسے تراشا جائے وہی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ آج کل کا المیہ ہے کہ والدین خود ہی بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں دے پاتے جتنی ان کو ضرورت ہے، بل کہ خود ہی بچوں کو سوشل میڈیا اور موبائل کے حوالے کردیتے ہیں اور چیک بھی نہیں کرتے کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے۔ پھر آج کل کی اکثر مائیں کھانا کھلانے کے لیے موبائل اور کارٹون کا سہارا لیتی ہیں اور بچے کو پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کھا رہا ہے یہ طریقہ بالکل غلط طریقہ ہے اور انتہائی نقصان دہ ہے۔
بچوں کو کارٹون، ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے بہ جائے کھیلوں میں دل چسپی پیدا کروائیں بل کہ خود بھی ان کے ساتھ کھیلیں۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق اجاگر کیا جائے۔ اخلاقیات اور اسلامی موضوعات پر مبنی بچوں کے معیار کے مطابق کتابیں بازار میں آسانی سے دست یاب ہوجاتی ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی ملک میں دارالمطالعے قائم کیے جائیں۔ میڈیا پر بھی بچوں کے لیے اخلاقیات پر مبنی اچھے پروگرام نشر کرنے چاہییں۔ حکومت وقت کی بھی ذمے داری ہے کہ ایسا نظام تعلیم اور نصاب متعین کرے جس سے اخلاقیات، دینی اور سائنسی علوم تینوں کی کمی پوری ہوسکے۔
قرآن پاک میں بار بار اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے، مفہوم: ''اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔'' یعنی گھر کے سربراہ کی یہ اہم ذمے داری ہے کہ دین کی تعلیم دے، بنیادی عقائد، امر و نہی، نیکی و بدی اور تقویٰ کے مفہوم کو واضح کرے، اسلامی طرز زندگی اپنائے اور گھر والوں کو تلقین کرے۔ لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ اکثر والدین بچوں کو دینی تعلیم نہیں دیتے، بچوں کو نماز و روزے کا پابند بھی نہیں بناتے کہ ابھی تو چھوٹا ہے پھر یہ کہ آج کل کے مصروف دور میں مشکل ہے، پیچھے رہ جائے گا، مجبوری ہے وغیرہ وغیرہ۔ بچیوں کے لباس اسلامی لحاظ سے بالکل درست نہیں ہوتے، خوش حالی کے باوجود کپڑے سکڑتے جا رہے ہیں اور حیا ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے ہی والدین کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ میں دھکیلنے والے ہیں۔ سورۃ الفرقان آیت نمبر 75 اللہ تعالیٰ رحمن کے بندوں یعنی مومنین کاملین کی اہم صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم: '' اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! تُو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔'' یعنی اللہ کے مقبول بندے صرف اپنے نفس کی اصلاح اور اعمال صالح کے لیے دعائیں نہیں کرتے بل کہ اپنی اولاد اور بیویوں کی اصلاح اعمال و اخلاق کی فکر کرتے ہیں اور دعاگو رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا کرامؑ نے جب اولاد کی دعا مانگی تو صالح اور نیک اولاد کی۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے پروردگار سے دعا مانگی: ''اے ہمارے رب ہمیں نیک اور صالح اولاد عطا فرما۔''
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو بہترین مسلمان بنادے اور ان کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنادے۔ آمین