خوشحالی کا تمام تر انحصار تجارتی ترقی پر ہے

موجودہ بجٹ میں معاشی اور تجارتی انقلاب کو اہمیت دینے کی ضرورت تھی

موجودہ بجٹ میں معاشی اور تجارتی انقلاب کو اہمیت دینے کی ضرورت تھی

کسی بھی ریاست کے استحکام میں مضبوط معیشت بنیادی کردار ادا کرتی ہے، وطن عزیز میں اس وقت ریاست اور عوام دونوں ہی بحران کا شکار ہیں، معاشی ناہمواری میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں عوام کے دکھ اور مسائل بھول کر آپس میں دست و گریبان ہیں۔ایک انگریزی محاورے کا اُردوترجمہ'' چھوٹے ذہن! لوگوں کے متعلق بات کرتے ہیں'عام ذہن! عام چیزوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں' اور عظیم ذہن! آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں ۔'' اور موجودہ وقت میں ہماری سیاسی قوتیں صرف ذاتیات پر ہی بات کر رہی ہیں۔

ایک دوسرے کو ناکام بنانے اور غلط ثابت کرنے کیلئے صرف الزامات لگائے جا رہے ہیں، انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کس بحران کا شکار ہے، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوںکا اوّلین فرض تھا کہ نہ صرف لوٹی ہوئی دولت رضا کارانہ طور پر واپس کردیتے بلکہ ضرورت سے زیادہ دولت بھی ریاست کے خزانے میں جمع کروادیتے، دوسرے سرمایہ داروںاور دولت مند افراد کو ترغیب دیتے کہ اس وقت ریاست کو ہمارے ایثار اور قربانیوں کی ضرورت ہے،جبکہ سب لوگ ریاست کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اب جانی قربانیوں کا وقت نہیں، مالی قربانیوں کا وقت ہے، فوج نے رضاکارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ نہیں لیا، یہ بہت بڑا قدم ہے لیکن سرمایہ داروںاور کو آگے بڑھناچاہئے تھا کہ و ہ کہتے کہ فوج اپنا بجٹ کم نہ کرے، ہم لوگ محب وطنی کا فرض ادا کریں گے۔حیرت ہوتی ہے ان حالات میں بھی یہاں کے مفاد پرست اورخود غرض سرمایہ دار لوگ ملک کے استحکام کیلئے اپنے ملک سے ہی لوٹی ہوئی اور کمائی ہوئی اپنی بے پناہ دولت کا کچھ حصہ بھی ریاست کو دینے کیلئے تیار نہیںہیں ۔''یہ کیسے پاکستانی محب وطن ہیں؟'' ان سرمایہ داروں کو احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کن مشکلات کا سامناکر رہا ہے۔ عالمی ادارے ہماری اس مجبوری کا کیا کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

تحریک انصاف کی حکومت نے 11 جون 2019 ء کو اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا، بجٹ پیش کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادیں رکھنے والوں کو وارننگ دی کہ وہ 30 جون 2019 ء سے پہلے پہلے اپنے اثاثے اور اکاؤنٹس ظاہر کر دیں وگرنہ انھیں کوئی دوسرا موقع نہیں دیا جائے گا، جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے تو بجٹ نہ تو متاثر کن ہے اور نہ ہی استحصال زدہ عوام کو کوئی ریلیف دیا گیا ہے، اب حکومت کا ہدف یہی ہو سکتا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے، وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ان ملک دشمنوں سے لوٹی ہوئی دولت جلد از جلد ملک میں واپس لے آئیں، اس کام میں مزید دیر نہ کریں۔

تجارتی خسارہ 30 کھرب روپے سالانہ ہے، ملکی قرض کے سود کی ادائیگی کی رقم 21 کھرب روپے سے زائد ہے۔ اتنی بڑی رقم کچلی ہوئی عوام سے کسی صورت وصول نہیں کی جا سکتی، معلوم نہیں کس نے وزیراعظم عمران خان کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ، اب تو تما م پٹرولیم مصنوعات پر کئی قسم کے ٹیکسز لگے ہوئے ہیں ۔ استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس لگا ہوا ہے لوگ مصنوعات کی قیمت کے ساتھ یہ تمام ٹیکسز بھی ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ تمام یوٹیلیٹی بِلز کے ساتھ مختلف قسم کے ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ موبائل فون کے استعمال پر بھاری ٹیکسز عائد ہیں، موبائل فونز کا استعمال اب عوام کیلئے بھی ناگزیر ہے، قانون نافد کرنے والے اداروں کو بھی ان کا فائدہ ہے۔

ہر چیز پر ٹیکس ہے مگر حکومت کا بیانیہ یہی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی، یہاں سکت ہو یا نہ ٹیکس ضرور وصول کیا جاتا ہے۔عوام اور خواص نے نئے بجٹ سے خاص توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، پوری حکومت کہہ رہی ہے کہ تجارتی خسارہ 30 کھرب روپے سالانہ ہے سب سے پہلے یہ خسار ہ توازن میں لانے کیلئے موثر پالیساں نافذ کیوں نہیں کی جا رہیں ؟ یہ بجٹ ریاست کیلئے انتہائی اہم ہے حکومت کی توجہ ایکسپورٹ بڑھانے کی طرف ہونی چاہئے۔ اس کے لئے گراس روٹ پر انڈسٹری قائم کرنے کی ضرورت ہے، یہ بجٹ کاروبار ی دوست بجٹ ہونا چاہیے تھا ۔ بجٹ کا ہر راستہ، ہر سمت کاروبا ری ترقی اور سرمایہ کاری کی جانب ہونی چاہیے تھی۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ بجٹ بنانے والے بھی عوام دوست نہیں ہیں۔ اس بجٹ میں بھی صرف ٹیکس چوروں کو ریلیف دیا گیا ہے، جب تک معاشرے میں توازن قائم نہیں ہوگا مسائل بڑھتے جائیں گے، عوام کے استعمال کی عام اشیاء سے جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکسز ختم ہونے چاہئیں، ٹیکسوں کا سارا بوجھ ان افراد پر ڈالا جائے کہ جو ایک کنال یا اس سے بڑے گھر میں رہتے ہیں جن کے پاس ایک سے زائد گھر اور ایک سے زیادہ گاڑیاں ہیں، جن کے بچے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو ہر سال بیرون ممالک سیروتفریح کیلئے جاتے ہیں، جو تیس دن ہوٹلنگ کرتے ہیں، جو قیمتی ترین ملبوسات اور زیورات پہنتے ہیں، جن کے گھروں میں ملازمین کی فوج ہوتی ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے کسی بھی کونے میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کی نشاندہی باآسانی ہو جاتی ہے، مگر '' معاشی دہشت گرد'' کسی کو نظر نہیں آتے، بڑے بڑے پلازے ، شورومز، کاروبار، جائیدادیں اور دوسرے وسائل ہماری خفیہ ایجنسیوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

حکومتِ وقت کو احساس ہی نہیں ہے کہ عوام کی محرومی کا نتیجہ کیا نِکلتا ہے، معاشی و اقتصادی بحران سے نبٹنے کیلئے دولت اُن افراد سے وصول کی جائے جہنوں نے سرکاری و سیاسی مشینری کی مدد سے ریاست کے وسائل لوٹے، عوام کو بدحالی کی آخری سیڑھی تک پہنچایا، ہمارا پورا معاشرہ غیر متوازن ہو چکا ہے، غیر متوازن تجارت، غیرمتوازن روّیے، غیر متوازن طبقات، غیر متوازن معیشت، غیر متوازن اقتصادیات غرض کہ ہر چیز غیر متوازن ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری معاشرے میں توازن پیدا کرنا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی و اقتصادی ابتری، بدامنی، بے سکونی اور غیر یقینی صورتحال نے عوام سے زندگی کی رمِق اور تما م خوشیاں چھین لی ہیں، ہر حکومت عوام کی بد حالی کی اصل وجہ تجارتی خسارہ اورقرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ بتاتی ہے، عوام اور ریاست کو اس نہج پر پہچانے والی پاکستان کی نااہل حکومتیں اور نا اہل بیوروکریسی ہے۔

'' بیرونی تجارت میں توازن کیسے پیدا ہوگا؟''

کیا ''سیاسی بقراطوں '' پر مشتمل ہماری کسی حکومت اور بیوروکرسی کو اس بات کا علِم نہیں تھا کہ اُن کی پالیسیوں کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے؟ عجیب بات ہے کہ امراء اور حرام کمائی والوں کی زندگیوں کو شاندار بنانے کیلئے زرمبادلہ کے انبار خرچ کر کے تعِیشات زندگی پاکستان درآمد کی جا رہی ہیں، مگر ادائیگیوں کا توازان برقرار رکھنے کیلئے برآمدات بڑھانے کی جانب چنداں توجہ نہیں دی جا رہی، پاکستان کے تمام نمایاں شہروں میں شاہانہ زندگی گزارنے والوں کی شان و شوکت کے نمونے نظر آتے ہیں، سڑکوں پر بیش بہا قیمتی گاڑیوں کی بہتات نظر آتی ہے، کروڑوں ڈالر خرچ کرکے یہ گاڑیاں امپورٹ کی جا رہی ہیں، امراء اور حرام کمائی والوں کیلئے بیش قیمت سامان زندگی درآمد کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ''لگژری'' زندگی گزار سکیں۔

چند لاکھ افراد کی عیش و آرام کی زندگی کیلئے خزانے میں موجود رہا سہا زرمبادلہ خرچ کردیا جاتا ہے پھر 16 ارب ڈالر کی حد قائم رکھنے کیلئے امیر ممالک اور عالمی اداروں سے بھیک مانگی جاتی ہے۔ ستِم یہ کہ عوام کے سامنے امپورٹ ایکسپورٹ کے درست اعدادوشمار بھی نہیں رکھے جاتے کہ جس سے عوام کو اندازہ ہو کہ زرمبادلہ انتہائی ضرورت کی اشیاء پر خرچ کیا جا رہا ہے یا چند لاکھ افراد کیلئے فضول چیزیں،گاڑیاں اور الیکٹرونکس کے سامان پر زرمبادلہ لٹایا جا رہا ہے۔ ہماری حکومتیں، بیوروکریسی ، سفیر اور کمرشل اتاشی اپنے ملک کی برآمدات بڑھانے کیلئے کیا اقدامات اور کوششیں کرتی ہیں۔

جب تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تو ملک کے سنجیدہ طبقات نے اس پارٹی سے کچھ ایسی اُمیدیں وابستہ کیں کہ جو ابتدائی چند ماہ میں ہی ختم ہوگئیں۔

نمبر ۱: درآمدات اور برآمدات میں فوری طور پر توازن پیدا کرنے کے اقدامات کئے جائیںگے اور تعیشات صرف پر فوراً پابندی لگا دی جائے گی کہ طبقاتی تفریق کم کرنے کیلئے بھی اس قسم کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

نمبر ۲: محکمہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں گی۔ مگر پولیس کے روّیے میں چنداں تبدیلی نہ آئی بلکہ اب ان کے دِ لوں میں حکومت کے احتساب کا خوف بھی ختم ہوگیا اور ان کی ناانصافیوں اور من مانی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، صوبائی حکومتیں محکمہ پولیس پر گرفت مضبوط نہیں رکھ سکی ہیں۔



نمبر۳: ریاستی اداروں میں قابل اور دیانت دار افراد کو تعینات کیا جائے گا، مگر بیوروکریسی کو جلد ہی حکومت کی نا تجربہ کاری کا اندازہ ہو گیا، اس حکومت میں بھی ان کے ذاتی مفادات، ملکی مفادات پر غالب آ چکے ہیں، آ ج بھی نااہل اور سازشی افراد ہی کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں۔

نمبر۴: ادویات کی قیمتوں میں کمی اور ہسپتالوں کی صورتحال میں بہتری لائی جائے گی، مگر ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے، ہسپتالوں کی حالت اور بھی ابتر ہو چکی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج ہی ختم نہیں ہوتا ۔

نمبر۵: پورے ملک میں نظام تعلیم اور نصاب جدید بنیادوں پر استوّار کرکے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔ ملک کے تمام اساتذہ کی جدید تر بیت کی جائے گی، مگر اس طرف بھی نہ تو چنداں توجہ دی گئی اور نہ ہی کوئی بہتر قدم اٹھایا گیا۔

نمبر ۶ : انصاف لوگوں کی دہلیز تک پہنچایا جائے گا، عوام کو خوشحالی،امن اور سکون کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ مگر استحصالی طبقہ مزید مضبوط ہوگیا ہے۔

ان حا لات میں بھی قوم مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئی، مگر کسی بھی جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ۔

'' موجودہ حکومت بھی برآمداتبڑھانے میں سنجیدہ نہیں''


اگر ایک مخصوص طبقے کے بہترین طرز زندگی کیلئے زرمبادلہ خرچ کرنا ضروری ہی ہے تو برآمدات میں اضافہ کرنا چاہیے تھا، مگر اس معاملے میں حکومت سنجیدہ ہے نہ متعلقہ ادارے۔ الٹا عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہمارے حالات اور مصنوعات ہی ایسی نہیں ہیں کہ برآمدات کو بڑھایا جا سکے، حالا نکہ تمام معاشی اور اقتصادی اُمور کے ماہرین اور محب وطن سرمایہ کار اور تاجر بار بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ابھی برآمدات بڑھانے کے لا تعداد اور بے شمار مواقع موجود ہیں مگر بیوروکریسی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے، موجودہ حکومت بھی اس معاملے میں قطعاًسنجیدہ نہیں ہے۔

ہمارے سفارت خا نوںکو پاکستان کی بر آمدات بڑھانے میں دلچسپی نہیں ہے ، شائد اس کی وجہ حب الوطنی کا فقدان ہے یا خود غرضی کی انتہا ہے ، ان افرادکو صرف اپنی آسائشوں اور شان و شوکت سے غرض ہے، چند منظور ِ نظر افراد کو سفیر بنایا جائے گا اور سفارت خانوں میں سفارشی افراد کو تعینات کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہی نِکل سکتا ہے، جبکہ ہمارے حریف ملک بھارت کے سفارت خانے اپنے ملک کا وقار، کاروبار اور بیوپار بڑھانے کیلئے بہترین کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ملکی متعلقہ محکمے بھی برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی میں مصروف ہیں۔ متعلقہ محکموں کے ایک فرد کے ذہن میں بھی نہیں ہے کہ زرمبادلہ بڑھنے سے کتنے ملکی مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاخیری حربوں سے سرمایہ کاروں اور تاجروں کو بددل کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیا میں چھوٹے برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے بلکہ انکی '' بزنس فوج'' تیار کی جاتی ہے۔

یہ ''بزنس فوج '' دوسرے ممالک کے ایکسپورٹرز کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ اختیارکرتی ہے، مگر یہاں صرف بڑے ایکسپورٹرزکو ہی موقع مِلتا ہے اور اس میں حکومت کی کسی قسم کی مدد نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اندرون ملک مصنوعات کی وہ قیمت نہیں مِلتی جو کہ ایکسپورٹ کے نتیجے میں مل جاتی ہے، وطن عزیز میں پہلا قدم ہی یہ ہونا چاہیے تھا کہ تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں رکھا جاتا، اگر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہو رہا ہے تو پاکستان میں پائی جانے والی معدنیات برآمد کر کے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، مگر معانیات کو نکالنے کی صلاحیت ہی آج تک پیدا نہیں کی گئی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ ملک میں کوئی بھی ایسا جدید ادارہ نہیں ہے کہ جہاں لوگوں کو کان کنی کی بہترین تربیت دی جا سکے، معدنیات ، تیل اور گیس نکالنے کی جدید تربیت دی جا سکے۔ وطن عزیز میں معدنیات کے خزانے بھرے ہوئے ہیں مگر ہم میں انھیں نکالنے کی صلاحیت ہی نہیںہے۔

یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ صنعت وتجارت کا محکمہ کیا کر رہا ہے ؟ ایکسپورٹ پروموشن بیوروکی کارکردگی کیا ہے؟ دوسرے متعلقہ محکمے کیا کر رہے ہیں؟اگر حقائق کو غور سے دیکھا جائے توواضح نظر آتا ہے کہ ایف بی آر ٹیکس اکٹھا کرنے کے چکر میں سرمایہ کاروںاور تاجروں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی فضا بنا رہی ہے، اگر اس وقت ملک چلانے کیلئے سرمائے کی ضرورت ہے تو اُُن آ ٹھ سو افراد سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جن کی فہرست ایف بی آر اور تمام متعلقہ محکموں کے پاس ہے کہ ان آٹھ سو افراد کے پاس ظاہراً و پوشیدہ ملکی دولت کا تقریباً آدھا حصہ ہے۔ مشکل سے وقت گزارنے والے ہر شہری پر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت ہے، ایسی فضا قائم ہوکہ سرمایہ کار اور تاجر خود باآسانی اور رضا مندی کے ساتھ ٹیکس جمع کروائیں۔

حکومت براہ راست سرمایہ کاروں اور تاجروں کے ساتھ رابطہ قائم کرے اور انھیں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا جائزہ لے، ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور خصوصی عزت و تکریم ہونی چاہیے، سرمایہ کاروں، تاجروں اور صنعتکاروں کی بددلی کا سبب بننے والے افراد کو عبرت ناک سزادی جائے ۔تمام سفارت خانوں میں انتہائی تجربہ کا ر سفیر، کمرشل اتاشی اور دوسرا عملہ تعینات کیا جائے تا کہ وہ تجارت کو فروغ دے سکیں۔

''بے نامی اکاؤنٹس اور بے نامی جائیداد کی رقم سے تجارت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔''

اہم ترین بات یہ ہے کہ حکومت موجودہ ایمنٹسی سکیم کی کامیابی کیلئے یہ ا علان کرے کہ اگر کوئی فرد بھی بے نامی اکاؤنٹ یا جائیداد کی رقم کو تجارت، صنعت اور کاروبار میں استعمال کرے گا تو اس سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اگر بے نامی اکاؤنٹ اور جائیداد کی رقم کو تجارت اور صنعتی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے تو ملک میں سرمایہ کاری کا سیلاب آسکتا ہے۔

'' تاجر معاشی فورس ہیں انھیں منظم کیا جائے تو بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں''

''حکیم محمد عثمان''

مرحبا لیبارٹریز کے چیف ایگزیکٹیو حکیم عثمان کاکہنا ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاروں، تاجروں اور برآمد کنندگان کو خصو صی ا ہمیت دی جاتی ہے، کاروبار بڑھانے کیلئے ہر قسم کی سہولتیں دی جاتی ہیں، کسی بھی ملک کی مضبوطی کیلئے دفاعی افواج، سرمایہ کار اور تاجر اولیّن اہمیت رکھتے ہیں، سرمایہ کاروں اور تاجروں کو '' معاشی فوج'' قراردیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ تو یہی ہے کہ ملکی تجارت وہ بنیاد ہے کہ جس پر پور ے ملک کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والی فوج کی تنحواہیں فوجی ضروریات بھی اُس وقت پوری ہو سکتی ہیں کہ جب خزانے میں رقم ہوگی، دوسرے تمام اداروں کی مالی اور دوسری ضروریات پوری کرنے کیلئے بھی خزانے میں رقم کا ہونا ضروری ہے، خزانہ بھرنے کیلئے سب سے بڑا ذریعہ تجارت ہے، جس ملک میں کاروبار ترقی کر رہا ہو اُس ملک کا ہر ادارہ اور فرد بھی ترقی کرتا ہے،خوشحال ہوتا ہے۔

صنعتکار اور تاجر ملکی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں زرمبادلہ بھی کماتے ہیں۔ اور ٹیکسزکی شکل میں خزانے میں رقم جمع کرواتے ہیں۔ مگر میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ پاکستان میں تمام متعلقہ ادارے صنعت کارورں اور تاجروں کی راہنمائی اور مدد کرنے یا انھیں بزنس کے فروغ کیلئے سہولیتں مہیا کرنے کی بجائے ہراساں اور بددل کرتے ہیں۔ یہاں یہ تصور ہی مفقود ہے کہ صنعتی اور تجارتی ترقی سے ملک مضبوط اور خوشحال ہوگا۔ متعلقہ ادارے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری مراعات اور تنخواہوں کا سلسلہ بھی سرمایہ کار طبقے کی محنت اور کامیابی سے جُڑا ہوا ہے۔ عجیب سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ دوسرے ممالک سے قرضہ لیکر ملک چلایا جائے یہ سوچ ہی نہیں پیدا ہو رہی کہ اپنی ''معاشی فوج '' (سرمایہ کاروں اور تاجروں) کو حد درجہ مضبوط کیا جائے۔ عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ اگر گھر کا کوئی فرد کمانے والا ہو تو اُسے گھر میں خصوصی پذیرائی دی جاتی ہے کہ گھر کے تمام معاملات اسی کی کمائی سے چلتے ہیں۔ باپ کی کمائی سے بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، خوراک اور گھر کے دوسرے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر کی حیثیت ریاست میں کمانے والے فرد کی ہوتی ہے اُسے خصوصی پذیرائی ملنی چاہیے۔

حکیم عثمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ساڑھے تین سو (350) روپے سے کاروبار کا آغاز کیا۔اللہ پاک کے کرم سے آج ہر گھر میں مرحبا لیبارٹریز پرائیویٹ لمیٹیڈ کی مصنوعات نظر آتی ہیں ۔ میں دنیا کے 35 ممالک کا دورہ کر چکا ہوں، دنیا کے ان ممالک میں ہماری مصنوعات جا رہی ہیں مگر ہمارے کاروبار کے پھیلاؤ اور زرمبادلہ کے حصول میں حکومتی محکموں کا کوئی کردار، عمل دخل یا راہنمائی نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ہمیں ہماری بیوروکریسی یا متعلقہ محکموں کے روایتی روّیے کی وجہ سے تکلیف برداشت کرنی پڑی، پچھلے دنوں ہمیں ویت نام ملک سے آرڈر مِلا انھوں نے رقم بھی زرمبادلہ کی شکل میں بجھوا دی ۔



ہمیں ڈرگ اتھارٹی سے ایک سرٹیفکیٹ چاہیے تھا، ہمیں وقت پر نہیں مِلا ، نتیجہً ہمارآرڈر کینسل ہوگیا اور تمام زرمبادلہ واپس بھجوانا پڑا۔ پاکستان کواس وقت ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے ہمارے سرمایہ کار، تاجر اور برآمدکنند گان اس وقت ملک میں زرمبادلہ لانے کیلئے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں مگر بیوروکریسی اور متعلقہ اداروں کو حالات کی سنگینی کی ذرا پرواہ نہیں ہے۔ پاکستان ایک گھر ہے یہاں کمانے والے کی کامیابی کیلئے مدد کرنی چاہیے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور دعا بھی ہونی چاہیے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ سرمایہ کار، صنعتکار اور تاجر ملک کی خدمت کر رہے ہیں انھیں ایوارڈ سے نوازے، انھیں خصوصی سند دی جائے ، خدمت کا اعتراف ہمیشہ '' کماؤ مرد'' میں مزید حوصلہ اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ اس حوصلہ افزائی سے ملکی کاروبار فروغ پائے گا، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

موجودہ وقت میں حکومت کو چاہیے کہ اچھی ساکھ رکھنے والے کامیاب بزنس مینوں پر مشتمل '' بزنس پروموشن ٹیم '' بنائے،جو حکومت کو بزنس بڑھانے کیلئے مشورے دے۔ دفاتر میں بیٹھے سرکاری ملازمین جنہوں نے کبھی بزنس کیا ہی نہیں ہوتا وہ بزنس کے فروغ میں کیا مدد کرسکتے ہیں۔ '' بزنس مین '' سے مشورے ہی بزنس کو کامیاب کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چیمبر آف کا مرس میں بھی اب سیاست کا عنصر زیادہ ہو چکا ہے۔ مسا ئل حل کرنے کی جا نب پہلی سی توجہ نہیں ہے۔

حکیم محمد عثمان نے کہا کاروبا خصوصاً برآمد ات کی کامیابی کیلئے ایمانداری اور دیا نتداری کا ہونا بہت ضروری ہے، غیر ممالک میں ہمارے کچھ غیر ذمہ دار عناصر کی وجہ سے ہماری ساکھ خاصی خراب ہو چکی ہے، کئی پارٹیوں نے نمونے کے مطابق مال نہیں بجھوایا جس کی وجہ سے بھی ہماری برآمدات کم ہوئی ہیں ۔انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں اور تاجروں کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ بیرون ممالک بجھوایا جانے والا مال نمونے سے بھی بہت بہتر ہونا چاہیے۔ برآمدات کے معاملے میں ملاوٹ یا دونمبری کا تصور ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تاجر ایسا غیر ذمہ دارانہ روّیہ رکھتا ہے کہ جسکی وجہ سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوتی ہے اُس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے، مگر محب وطن سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور پوری ریاست کو اُسکی پشت پناہی کرنی چاہیے۔

انکا کہنا ہے کہ پاکستان کو '' بزنس دوست'' ملک بنانے کی جانب توجہ دی جانی چاہیے، نوجوان نسل کو کاروبار کی جانب راغب کرنا چاہیے، ہم طالبعلموں اور مختلف طبقات کو اپنے ادارے کا دورہ (وزِٹ) کرواتے رہتے ہیں انھیں کامیابی حاصل کرنے اور کاروبارکرنے کے طریقے بتاتے ہیں ،اس مقصد کیلئے جو محکمے قائم ہیں اُن کا دائرہ کار اور طریقہ کار بتاتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ بزنس کیلئے کونسے کونسے محکموں سے اُن کا واسطہ پڑے گا۔

حکیم محمد عثمان نے کہا'' مجھے یہ بات بڑے افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل ذہنی وجسمانی سہل پسندی کی طرف مائل ہے۔ ذہنی سہل پسندی میں مبتلا افراد ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں مگر اپنا کاروبار نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت اگر کاروبار کا فروغ چاہتی ہے تو وہ سرمایہ کار اور تاجر طبقے کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہے تاکہ انھیں علِم ہوکہ ملکی کاروبا ر اور برآمدات کی راہ میں کون لوگ اور کونسے ادارے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سرمایہ کاروں اور تاجروں کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے ، انکے ساتھ مجرموں والا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ جس دن حکومت نے '' معاشی فوج'' کی اہمیت کو محسوس کرلیا انھیں منظم کرنے میں کامیاب کوگئی تو ہم جلد ہی چین ، کوریا ، جاپان اور دوسرے صنعتی و تجارتی ممالک سے بازی لے جائیں گے۔ حوصلہ شکنی کرنے والے سرکاری عناصر کو ملک دشمن سمجھا جائے اور انھیں معاشی بد حالی کا مرتکب قرار دیا جائے، اقتصادیات کی تباہی کا سہولت کار سمجھا جائے۔''

'' اب ایف بی آر کا '' فن '' کام آئیگا''
کہاجاتا ہے کہ ایک مداری نے لیموں کاٹ کر زور لگا کر سارا رس نکال کرکہا کہ مجمع میں سے کوئی ایک قطرہ بھی مزیدنکال کر دکھا دے ، ایک دّبلا پتلا فرد آگے بڑھا اور اُس نے تین قطرے مزید نکال دئیے ، مداری ششدررہ گیا ، پوچھنے لگا کہ آپ کیا کرتے ہیں، جواب مِلا کہ میں '' ایف بی آر '' کا آفسرہوں'' وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایف بی آر کے چیئرمین شیر زیدی کے ساتھ مل کر 1000، ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کی کوشش کریں گے ، شائد یہ کاو ش کا میاب ہوجائے اور اس غریب عوام سے مزید تین قطرے نِکل آئیں ۔ ایف بی آر کو یہ فن تو آتا ہی ہے۔۔۔۔

'' وزیر اعظم عمران خان نہیں سرکاری مشینری نا اہل ہے ،سرکاری مشینری میں مطلوبہ اہلیت ہی نہیں ہے''
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نااہل سازشی اور بد دیانت سرکاری ملازمین ہیں۔ یہاں بار بار سیاسی نظام کے فلاپ ہونے کی اصل وجہ بھی نااہل سازشی اور بد دیانتی افسران و اہلکار ہیں، سیاستدان ملک و قوم کی ترقی کیلئے مختلف آئیڈیاز پیش کرتے ہیں ان پر سرکاری ملازمین نے عمل کرنا اور پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ موجودہ تما م تر سرکاری ملازمین میں مطلوبہ اہلیت نہیں ہے کہ حکومتی ایجیڈے کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے، جب تک اہل قابل اور دیانت دار افراد کو سرکاری ملازمتوں میں نہیں کھپایا جائے گا، حالات اور بھی دگرگوں ہونگے ، موجودہ نااہل سرکاری ملازمین بہترین سے بہترین آئیڈیا کا بھی ستیا ناس کردیتے ہیں۔یہ افراد اپنی ضد ،ہٹ دھرمی ،بے شرمی اور عوام سے ذلِت آمیز سلوک کی وجہ سے عوام کے دل میں ریاست کیلئے بددلی اور بیزاری پیدا کر رہے ہیں ۔

ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ماضی کی سیاسی حکومتوں نے محض اپنے ووٹ بنک کی خاطر نا اہل ، خود غرض ،غیر ذمہ دار اور منفی رحجانات رکھنے والے افراد کو ریاست پر مسلط کردیا ہے ،اور ملکی اداروں کو تباہ وبرباد کر دیا ہے،۔ خمیازہ تو انھوں نے بھی اپنے دور حکومت میں نا کامیوں کی صورت میں بُھگتا ہے مگر سب سے زیادہ مشکلات تحریک انصاف کی حکومت کودر پیش ہونگی۔ مو جودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ریاست کو مستحکم دیکھنے کی متمنی ہے مگر اس ناکارہ سرکاری مشینری میں معاملات کو چلانے یا بہتر بنانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت فوری طور پر اہل اورقابل افراد کی بھرتی کا سلسلہ شروع کرئے ۔ نا اہل افراد کو فارغ کیا جائے ،چاہے اسکے لئے صدارتی آرڈینس لانا پڑے ۔ موجودہ حکومت کو بہت بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔وگرنہ حالات کی بہتری کی کوئی اُمیدنظر نہیں آتی۔ گاڑی کے نا قابل استعمال پُرزوں کے ہوتے ہوئے ڈرائیور کی مہارت کسی کام نہیں آتی۔

''عوام بھی فضول خرچی چھوڑنے پر تیار نہیں''
یہ بھی حیران کُن بات ہے کہ موجودہ بحرانی کفیت میں عوام بھی فضول خرچی کرنے سے بازنہیں آئی ، آج سے چالیس سال قبل تک سادہ زندگی کزارنے والی عوام کا پیسہ کچھ ایسی ''ضررویات '' پر خرچ ہورہا ہے ، جسکے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے ، لو ئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس میں بھی سگریٹ،موبائیل ، بجلی ،موٹر سائیکل ، پیٹرولاور دوسری فضول اشیاء کا بے جا استعمال سے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خوراک ، تعلیم ،علاج اور دوسری بنیادی ضروریات کو پس پشُت ڈالکر یہ اخراجات پورے کئے جارہے ہیں ۔ مڈل کلاس میں مہنگے موبائیل ،ائیر کنڈیشنڈ کے استعمال ، گاڑیاںپر آوٹنگ اور ہوٹلنگ'' کے رحجاناتمیں اضافہ ہورہا ہے۔ '' قرض کی مے'' کی کچھ ایسی عادت پڑ چکی ہے کی فاقہ مستی کا خوف و خیال ہی ختم ہو چکا ہے۔ بیرونی قوتیں ہماری حالت زار اور ہماری''عیا شیوں '' پر ہنستی ہیں۔ n
Load Next Story