نئے پاکستان میں ریٹائرڈ لوگوں کا حشر
ریاست مدینہ میں ضعیف اور کام کرنے سے قاصر عوام کے مسائل کو اولیت دی جاتی تھی
جن حکمرانوں کو عوام کے اہم ترین مسائل کا علم ہی نہ ہو وہ کیا خاک نیا پاکستان بنائیں گے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم بار بار ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ کو تو چھوڑیے خلفائے راشدین کے بعد ایسے مسلم حکمران گزرے ہیں جو بھیس بدل کر راتوں کو عوام میں پہنچ جاتے تھے اور مسائل معلوم کرکے انھیں حل کرتے تھے۔
کیا آج کا حکمران طبقہ ریاست مدینہ تو چھوڑیے بعض مسلم حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ آج کا دور میڈیا کا دور ہے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک میڈیا میں خبروں کا بہاؤ جاری رہتا ہے۔ اہم اور غیر اہم خبریں 24 گھنٹے نشر ہوتی رہتی ہیں اور ٹی وی چینل رات دن حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن ہماری نئی حکومت کے نئے حکمرانوں کو غالباً عوامی مسائل کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔
ہم سے ریٹائرڈ ملازمین ،انفرادی اور اجتماعی طور پر ملکر اپنی درد بھری داستانیں سناتے رہتے ہیں۔ سرکاری ملازمین اپنی زندگی کا دو تہائی حصہ سرکاری ملازمت میں گزارنے کے بعد جب ریٹائر ہوتے ہیں، تو اپنے واجبات کے منتظر رہتے ہیں کوئی عمرہ کرنے کا پروگرام بناتا ہے کوئی حج کا پروگرام بناتا ہے تو کوئی بیٹوں بیٹیوں کی شادی کا پروگرام بناتا ہے تو کوئی بے گھر اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا گھر بنانے کی امید میں زندگی کے دن گزارتا ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سرکاری ملازمتوں میں اپنے بال سفید کرلیتے ہیں۔
خان صاحب بھی عوام کو نیا پاکستان بنانے کی ہر روز خوشخبریاں سناتے ہیں، پرانے لوگ حیرت سے نئے پاکستان کے تصور میں کھو جاتے ہیں لیکن ان کے سامنے وہی پرانا پاکستان آجاتا ہے جس میں جائز کام کے لیے بھی سفارشیں اور رشوت درکار ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اب سرکاری ملازمین سے اپنے جائزکام کروانے کے لیے نہ کسی سفارش کی ضرورت ہے نہ رشوت کی۔ کاش وزیر اعظم کا یہ ارشاد درست ہو لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس اور انتہائی مایوس کن ہے 71 سالوں سے سرکاری اہلکاروں نے جو سیٹ اپ بنا رکھا ہے اسے کوئی پھنے خان بھی ابھی تک توڑ نہیں سکا۔
کے ایم سی ایک عوامی سروس کا عوامی ادارہ ہے اور اس کی باگ ڈور ہمارے محترم دوست میئر کراچی وسیم اختر کے ہاتھوں میں ہے۔کے ایم سی میں ایسے سیکڑوں ریٹائرڈ ملازمین ہیں جن کو ریٹائر ہوئے چار چار پانچ پانچ سال ہو رہے ہیں لیکن انھیں اب تک ان کے واجبات نہیں مل رہے ہیں ۔ان میں سے کئی تو واجبات کے حصول عمرہ کی سعادت کی آرزو میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں لیکن نئے پاکستان میں ان کی پرانی فریاد سننے والا کوئی نہیں، اب ماشا اللہ ایم کیو ایم کو ایک اور وزارت ملنے والی ہے اگر یہ وزارت ملتی ہے تو اس وزارت کو وزارت ریٹائرڈ ملازمین بنا دیا جائے کیونکہ برسر روزگار لوگوں کے لیے تو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکل آتا ہے لیکن ریٹائرڈ ملازمین ایسے بے سہارا لوگ ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
ہمارے وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے میئر حضرات کو ان کی ضرورتوں کے مطابق فنڈز دیے جائیں گے اگر واقعی میئر حضرات کو ضرورت کے مطابق فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں تو ان فنڈز میں سے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کرنے کا لازمی احترام کیا جائے۔ کے ایم سی شہری سہولتیں فراہم کرنے والا ایک ذمے دار ادارہ ہے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ مجبور، ضعیف اور بے بس ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کو اولیت دے۔
ریاست مدینہ میں ضعیف اور کام کرنے سے قاصر عوام کے مسائل کو اولیت دی جاتی تھی اور ان کے لیے آرام سے زندگی گزارنے کے لیے ضرورت کے مطابق وظائف دیے جاتے تھے۔ ہمارے بزرگوں خاص طور پر ریٹائرڈ ملازمین کی دو سب سے بڑی خواہشیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ اپنے واجبات مل جائیں تو حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کریں دوسرا اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کردیں۔ جو نوجوان ملازمت کر رہے ہیں ان کی اتنی معاشی حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ضعیف ماں باپ کی خواہش پوری کرتے ہوئے انھیں حج یا عمرہ کروائیں۔ ان کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ضعیف ریٹائرڈ ماں باپ کے واجبات ملیں تو ماں باپ کی خواہش پوری کرتے ہوئے انھیں حج یا عمرہ کرادیں۔
ہمارے وزیر اعظم نئی تہذیب یعنی ماڈرن کلچر سے پوری طرح واقف ہیں لیکن ان کے اندر کا مذہبی انسان انھیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ ماضی کے ساتھ جڑے رہیں ریاست مدینہ کا خواب ماضی کے ساتھ جڑے رہنے ہی کی خواہش کا ایک حصہ ہے۔ وزیر اعظم کو بے شمار اہم ترین مسائل کا سامنا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بزرگوں کی خواہش کا احترام بھی انھی بڑے کاموں کا ایک حصہ ہے۔ یہ بات بڑی حیرت کی ہے کہ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ ماڈرن تہذیب کے ساتھ گزارنے کے باوجود ہمارے وزیر اعظم ابھی تک ماضی سے جڑی ہوئے ہیں۔
ہماری نہیں بلکہ ان تمام بزرگوں کی خواہش ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کی دلی آرزو کو پورا کرنے یعنی حج یا عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی جائز خواہش کو پورا کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے ان کی کوئی مدد نہ کریں بلکہ ان کی زندگی بھر کی محنت کا صلہ ان کے واجبات ادا کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو حکم دیں۔ وزیر اعظم نے کراچی اور حیدرآباد کے میئر حضرات کو مزید فنڈنگ کی جو یقین دہانی کرائی ہے اس فنڈ میں سے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کرنے کی سبیل فرمائیں۔