وزیر اعظم صاحب قوم کو اعتماد دیں
وزیر اعظم کی ذات کسی بھی قسم کے مالی الزامات سے پاک ہے اور وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ مال کہاں ہے کتنا ہے
اگرچہ اقتصادی معاملات کے بارے میں میرا علم بہت کمزور ہے لیکن معاشی مسائل کی سنگینی نے ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی یہ علم سکھا دیا ہے جو چیز زندگی میں سب سے اہم بن جائے وہ استاد بن جاتی ہے چنانچہ معاشی مسائل میرے استاد ہیں اور میں دن رات ان سے سبق لیتا رہتا ہوں۔
اس کے علاوہ کچھ ایسی معلومات بھی ملتی رہتی ہیں جو میرے اس الہامی علم میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ سابقہ حکمران جو کھا پی گئے ہیں اس کی کچھ جھلک تو عوام نے پاناما اور بے نامی اکاؤنٹس کی صورت میں دیکھ ہی لی ہے وہ اپنی نفسانی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو جس طرح زیر بار کر گئے ہیں وہ بڑی ہی خوفناک صورتحال ہے اور اس کی تفصیلات رفتہ رفتہ مل رہی ہیں۔
غیر ملکوں کی حکومتیں ہوں ، کاروباری ادارے ہوں یا عالمی حیثیت کے مالیاتی ادارے ہوں ان کے ساتھ حکومت جومعاہدے کرتی ہے ان کی ذمے داری ان حکمرانوں پر نہیں ہوتی جنہوں نے یہ معاہدے کیے ہیں بلکہ اس ملک پر ہوتی ہے جس کے یہ نمایندہ ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اقتدار سے علیحدہ بھی ہوجائیں تب بھی اس سے ان غیر ملکی اداروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کی جگہ آنے والے حکمران ان کے خود بخود ذمے دار بن جاتے ہیں۔
ایک پریشان حال شریک اقتدار نے مجھے بتایا ہے کہ ماضی میں کیے گئے ان معاشی معاہدوں پر میںجب نظر ڈالتا ہوں اور ان کے تحت ہمیں جو ادائیگیاں ایک عرصہ تک مسلسل کرنا ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو میرا چہرہ زرد پڑ جاتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو سکے گا ہم کہاں سے یہ رقم ادا کریں گے ۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ تو ایک الگ دردِ سر ہیں لیکن جو کاروباری معاہدے دوست ممالک کے ساتھ کیے گئے ہیں وہ تو دردِ جگر ہیں اور ملک کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور چونکہ یہ مخصوص وقفوں کے ساتھ مسلسل پورے کرنے ہیں اس لیے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم مسلسل دیوالیہ ہوتے رہیں گے۔
یہ مسلسل دیوالیہ پن شاید ہی کبھی کسی ملک کو پیش آیا ہو۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ کتنے ہی قارون کے خزانے ہوں تو ان ذمے داریوں کو شاید پھر بھی پورا نہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو عوام ووٹ دے کر اپنے بھوکے منہ کھولے بیٹھے ہیں اور نئے حکمران حیران ہیں کہ ہم ان کروڑوں بھوکے ہم وطنوں کے پیٹ کیسے بھریں گے اور اگر نہیں بھریں گے تو اپنی جان کیسے بچائیں گے۔ کاش کہ میں علم اقتصاد میں کچھ دسترس رکھتا تو شاید کوئی ٹھوس بات کہہ سکتا لیکن ایک بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا بہت سا سرمایہ تو بد انتظامی اور بے حسی کی وجہ سے ضایع ہو جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ حکمرانوں کے دستِ بازو کھا جاتے ہیں ۔ فوری طور پر تو وزیر اعظم نے عوام کو صرف یہ بتایا ہے کہ ملک کے سابقہ حکمرانوں نے کتنی لوٹ مار کی ہے اور وہ اس لوٹ مار کے نتیجے میں نیب کے الزامات کے تحت قید میں ہیں۔
ملک کو قرضوں سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی حکومت کو بلکہ عمران خان کو ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں کو کوئی ایسی پیشکش ضرور کرنی چاہیے تا کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کریں اس سے پہلے بھی وزیر اعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر موجود پاکستانیوں سے بھی امداد کی درخواست کرنی چاہیے۔ وہ ملک جو کسی میلے ٹھیلے میں کروڑوں اڑا دیتا ہے کیا واقعی اتنا غریب ہے کہ دیوالیہ پن میں مسلسل مبتلا رہے اور رسوا ہوتا رہے۔
بڑے لوگوں کا تو کیا کہنا میرے جیسے لوگ بھی جو صحافت میں عمر گزار دینے کے باوجود اپنا کچھ بھرم رکھنے کے لیے مونچھوں کو چمکا کر گھر سے باہر نکلتے ہیں کچھ نہ کچھ مالی خدمت ضرور کر سکتے ہیں ۔ کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جانا چاہیے کہ ہر پاکستانی اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اس خدمت میں حصہ لے سکے۔ ایسا نہیں کہ ٹیکس بڑھا کر بے گناہ پاکستانیوں کو سرکاری محصولات وصول کرنے والے کارندوں کے سپرد کر دیا جائے یا سرکاری طرز کا کوئی دوسرا ظالمانہ طریقہ اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے کسی خدمت اور ایثار کو جرمانہ سمجھنا پڑے۔
اور سو نہیں ہزار باتوں کی ایک بات کہ ہمارے سیاسی حکمران بھی ایثار و قربانی اور جزرسی کا مزا خود بھی تھوڑا سا چکھ لیں اور اس ذائقے سے عوام کو بھی مطلع کریں کہ ملک و قوم کے لیے قربانی کا مزا کیسا ہوتا ہے۔ قوم کی مٹی میں ذرا سا نم ملا کر دیکھیں کہ کیسے کیسے گل و گلزار کھلتے ہیں اور ان کی مہک کیا سماں باندھتی ہے ۔
مدتوں سے ایک جملہ زبان زد عام ہے کہ پاکستان کی قوم امیر اور ملک غریب ہے اور یہ اس لیے ہے کہ پاکستان کو چلانے والوں نے قوم کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا بلکہ انھوں نے اور ان کے کارندوں نے ہمیشہ قوم کے خلاف ایک محاذ کھولے رکھا ہے ۔اس ملک میں کوئی بھی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے آتے ہی قوم سے قربانی کی اپیل نہ کی ہو اور کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے خود کبھی اس ملک کے لیے کوئی قربانی دی ہو۔ آج قوم عمران خان کی قیادت میں قربانی دینے کے موڈ میں ہے۔ اگر حکمران قوم کے ساتھ مل جائیں تو وہ نہ صرف خود بلکہ یہ آئی ایم ایف والے بھی ایسا تماشہ دیکھیں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ آج کے حکمرانوں کو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے اور قوم کے جذبات کو کیش کرانا چاہیے لیکن شرط وہی پرانی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
وزیر اعظم کی ذات کسی بھی قسم کے مالی الزامات سے پاک ہے اور وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ مال کہاں ہے کتنا ہے اور اسے ملک کے لیے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں ان کی سمع خراشی کی کوئی ضرورت نہیں صرف ایک عرض کرنی ہے کہ وہ قوم کو اس کے قومی حال سے باخبر رکھیں ماضی میں قوم کو ہمیشہ بے خبر رکھا گیا اور جب پانی سر سے گزرنے لگا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو دیوالیہ ہو چکی ہے ۔ غلط کار حکمرانوں کے دلوں میں چور رہتا ہے اب یہ بات نہیں ہونا چاہیے وزیر اعظم خودقوم کو بتاتے رہیں کہ اس کا کیا حال چال ہے اور وہ کیسے اپنے حال کو بہتر کر سکتی ہے ۔پردہ پوشی کس سے کرنی ہے ساری دنیا کو علم کہ پاکستان کس حال میں ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
قوم کو ساتھ لے کر چلیے آپ کو بے مثال اعتماد دینے والی قوم ساتھ چلنے کو سامان باندھ چکی ہے جو اعتماد قوم نے دیا ہے وہی اعتماد قوم کو بھی دیجیے۔
اس کے علاوہ کچھ ایسی معلومات بھی ملتی رہتی ہیں جو میرے اس الہامی علم میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ سابقہ حکمران جو کھا پی گئے ہیں اس کی کچھ جھلک تو عوام نے پاناما اور بے نامی اکاؤنٹس کی صورت میں دیکھ ہی لی ہے وہ اپنی نفسانی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو جس طرح زیر بار کر گئے ہیں وہ بڑی ہی خوفناک صورتحال ہے اور اس کی تفصیلات رفتہ رفتہ مل رہی ہیں۔
غیر ملکوں کی حکومتیں ہوں ، کاروباری ادارے ہوں یا عالمی حیثیت کے مالیاتی ادارے ہوں ان کے ساتھ حکومت جومعاہدے کرتی ہے ان کی ذمے داری ان حکمرانوں پر نہیں ہوتی جنہوں نے یہ معاہدے کیے ہیں بلکہ اس ملک پر ہوتی ہے جس کے یہ نمایندہ ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اقتدار سے علیحدہ بھی ہوجائیں تب بھی اس سے ان غیر ملکی اداروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کی جگہ آنے والے حکمران ان کے خود بخود ذمے دار بن جاتے ہیں۔
ایک پریشان حال شریک اقتدار نے مجھے بتایا ہے کہ ماضی میں کیے گئے ان معاشی معاہدوں پر میںجب نظر ڈالتا ہوں اور ان کے تحت ہمیں جو ادائیگیاں ایک عرصہ تک مسلسل کرنا ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو میرا چہرہ زرد پڑ جاتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو سکے گا ہم کہاں سے یہ رقم ادا کریں گے ۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ تو ایک الگ دردِ سر ہیں لیکن جو کاروباری معاہدے دوست ممالک کے ساتھ کیے گئے ہیں وہ تو دردِ جگر ہیں اور ملک کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور چونکہ یہ مخصوص وقفوں کے ساتھ مسلسل پورے کرنے ہیں اس لیے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم مسلسل دیوالیہ ہوتے رہیں گے۔
یہ مسلسل دیوالیہ پن شاید ہی کبھی کسی ملک کو پیش آیا ہو۔ یہ سن کر میں نے سوچا کہ کتنے ہی قارون کے خزانے ہوں تو ان ذمے داریوں کو شاید پھر بھی پورا نہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو عوام ووٹ دے کر اپنے بھوکے منہ کھولے بیٹھے ہیں اور نئے حکمران حیران ہیں کہ ہم ان کروڑوں بھوکے ہم وطنوں کے پیٹ کیسے بھریں گے اور اگر نہیں بھریں گے تو اپنی جان کیسے بچائیں گے۔ کاش کہ میں علم اقتصاد میں کچھ دسترس رکھتا تو شاید کوئی ٹھوس بات کہہ سکتا لیکن ایک بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا بہت سا سرمایہ تو بد انتظامی اور بے حسی کی وجہ سے ضایع ہو جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ حکمرانوں کے دستِ بازو کھا جاتے ہیں ۔ فوری طور پر تو وزیر اعظم نے عوام کو صرف یہ بتایا ہے کہ ملک کے سابقہ حکمرانوں نے کتنی لوٹ مار کی ہے اور وہ اس لوٹ مار کے نتیجے میں نیب کے الزامات کے تحت قید میں ہیں۔
ملک کو قرضوں سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی حکومت کو بلکہ عمران خان کو ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں کو کوئی ایسی پیشکش ضرور کرنی چاہیے تا کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کریں اس سے پہلے بھی وزیر اعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی تھی لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر موجود پاکستانیوں سے بھی امداد کی درخواست کرنی چاہیے۔ وہ ملک جو کسی میلے ٹھیلے میں کروڑوں اڑا دیتا ہے کیا واقعی اتنا غریب ہے کہ دیوالیہ پن میں مسلسل مبتلا رہے اور رسوا ہوتا رہے۔
بڑے لوگوں کا تو کیا کہنا میرے جیسے لوگ بھی جو صحافت میں عمر گزار دینے کے باوجود اپنا کچھ بھرم رکھنے کے لیے مونچھوں کو چمکا کر گھر سے باہر نکلتے ہیں کچھ نہ کچھ مالی خدمت ضرور کر سکتے ہیں ۔ کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جانا چاہیے کہ ہر پاکستانی اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اس خدمت میں حصہ لے سکے۔ ایسا نہیں کہ ٹیکس بڑھا کر بے گناہ پاکستانیوں کو سرکاری محصولات وصول کرنے والے کارندوں کے سپرد کر دیا جائے یا سرکاری طرز کا کوئی دوسرا ظالمانہ طریقہ اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے کسی خدمت اور ایثار کو جرمانہ سمجھنا پڑے۔
اور سو نہیں ہزار باتوں کی ایک بات کہ ہمارے سیاسی حکمران بھی ایثار و قربانی اور جزرسی کا مزا خود بھی تھوڑا سا چکھ لیں اور اس ذائقے سے عوام کو بھی مطلع کریں کہ ملک و قوم کے لیے قربانی کا مزا کیسا ہوتا ہے۔ قوم کی مٹی میں ذرا سا نم ملا کر دیکھیں کہ کیسے کیسے گل و گلزار کھلتے ہیں اور ان کی مہک کیا سماں باندھتی ہے ۔
مدتوں سے ایک جملہ زبان زد عام ہے کہ پاکستان کی قوم امیر اور ملک غریب ہے اور یہ اس لیے ہے کہ پاکستان کو چلانے والوں نے قوم کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا بلکہ انھوں نے اور ان کے کارندوں نے ہمیشہ قوم کے خلاف ایک محاذ کھولے رکھا ہے ۔اس ملک میں کوئی بھی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے آتے ہی قوم سے قربانی کی اپیل نہ کی ہو اور کوئی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے خود کبھی اس ملک کے لیے کوئی قربانی دی ہو۔ آج قوم عمران خان کی قیادت میں قربانی دینے کے موڈ میں ہے۔ اگر حکمران قوم کے ساتھ مل جائیں تو وہ نہ صرف خود بلکہ یہ آئی ایم ایف والے بھی ایسا تماشہ دیکھیں گے کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ آج کے حکمرانوں کو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے اور قوم کے جذبات کو کیش کرانا چاہیے لیکن شرط وہی پرانی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
وزیر اعظم کی ذات کسی بھی قسم کے مالی الزامات سے پاک ہے اور وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ مال کہاں ہے کتنا ہے اور اسے ملک کے لیے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اس ضمن میں ان کی سمع خراشی کی کوئی ضرورت نہیں صرف ایک عرض کرنی ہے کہ وہ قوم کو اس کے قومی حال سے باخبر رکھیں ماضی میں قوم کو ہمیشہ بے خبر رکھا گیا اور جب پانی سر سے گزرنے لگا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو دیوالیہ ہو چکی ہے ۔ غلط کار حکمرانوں کے دلوں میں چور رہتا ہے اب یہ بات نہیں ہونا چاہیے وزیر اعظم خودقوم کو بتاتے رہیں کہ اس کا کیا حال چال ہے اور وہ کیسے اپنے حال کو بہتر کر سکتی ہے ۔پردہ پوشی کس سے کرنی ہے ساری دنیا کو علم کہ پاکستان کس حال میں ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
قوم کو ساتھ لے کر چلیے آپ کو بے مثال اعتماد دینے والی قوم ساتھ چلنے کو سامان باندھ چکی ہے جو اعتماد قوم نے دیا ہے وہی اعتماد قوم کو بھی دیجیے۔