خیر سگالی کی بدہضمی
برطانیہ دراصل ہمارے کرپٹ جرائم پیشہ حکمران طبقے یعنی بدمعاشیہ کا میکہ ہے
اس سال 15 مارچ کو ایک آسٹریلین انتہا پسند عیسائی سفید فام دہشتگرد برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی النور مسجد اور لن وڈ اسلامک سینٹر میں موجود نہتے مسلمان شہریوں پہ مسلح حملہ کیا جس میں 51 مسلمان شہید ہوگئے اور پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔
اس موقع پہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ایک دردمند اور حساس سیاستدان کے طور پر سامنے آئیں، یہ مسلمانوں سے ملیں، کہیں انھوں نے السلام علیکم کہہ دیا، کہیں کالا دوپٹہ اوڑھ لیا اورکہیں کچھ مسلمانوں کو گلے لگا لیا۔ بس پھر کیا تھا دنیا بھر کے مسلمان خصوصاً پاکستانی توگویا محترمہ وزیر اعظم کے جیسے دیوانے ہوگئے۔
ٹی وی نیوز چینلزکے انسانی تاریخ اور معلومات میں تقریباً ناخواندہ نیوز ریڈر اور ٹی وی ٹاک شو اینکر تو اٹھتے بیٹھتے میڈم جیسنڈا آرڈرن پہ صدقے واری ہونے لگے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی پرفارمنس پہ ہمارے ہاں خیرسگالی کا ایسا طوفان اٹھا جو سانحے کے 51 شہیدوں کو بھی پس منظر میں بہا کر لے گیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ جو سوال نیوزی لینڈ کی حکومت سے بار بار پوچھا جانا چاہیے تھا وہ ہماری اندھا دھند خیرسگالی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
وہ سوال یہ تھا کہ آسٹریلین دہشتگرد ہیریسن ٹیرنٹ کا دہشتگرد حملہ 15 منٹ جاری رہا اس دوران اس نے مسجد النور اور اسلامک سینٹر کے علاوہ ان عمارتوں کے باہر سڑک پہ بھی گولیاں چلائیں، یہ النور مسجد میں قتل عام کرنے کے بعد دوبارہ ٹہلتا ہوا واپس آیا اور جو نمازی ابھی بھی زندہ تھے ان پہ گولیاں برسائیں اور اطمینان سے چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور فرار ہو گیا۔ دہشتگردی کی اس واردات میں اس نے درجنوں فائرکیے اور اپنی کارروائی بنا کسی عجلت کے اطمینان کے ساتھ ایسے مکمل کی کہ لگتا تھا کہ اسے یقین تھا کہ نیوزی لینڈ کی پولیس موقع پہ پہنچ کر اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی اور عجب اتفاق ہے کہ کچھ ایسا ہی ہوا۔ نیوزی لینڈ کی پولیس دہشتگرد کے موقع سے روانہ ہونے کے بعد ہی پہنچی۔
یہ وہ سوال تھا جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے بار بار پوچھنا چاہیے تھا کہ کرائسٹ چرچ جیسے ماڈرن با رونق شہر میں ایک شخص درجنوں گولیاں چلا کر درجنوں انسانوں کی جانیں لیتا رہا پھر بھی قریبی پولیس اسٹیشن سے پولیس موقع پر کیوں نہ پہنچی مگر جناب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے السلام علیکم کہہ کر اور کالا دوپٹہ اوڑھ کے معاملہ ہی کچھ سے کچھ کر دیا۔ ہمارا خیر سگالی کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس اہم ترین سوال کو بہا کر لے گیا۔ ہو سکتا ہے کہ محترمہ وزیر اعظم کبھی یہ سوچ کر محفوظ ہوتی ہوں کہ یہ کیسے سطحی لوگ ہیں جو ذرا سی پرفارمنس پہ جذباتی ہوکر منطقی تجزیہ کرنے اور سوال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
مگر جناب ہم بھی کریں تو کیا کریں کہ ہمارا خیر سگالی کا جذبہ ہمہ وقت ایک سیلابی کیفیت میں موجزن رہتا ہے اور کسی غیر ملکی خصوصاً کسی گورے کے تو معمولی سے اشارے پہ بھی بس ابل ہی پڑتا ہے، چاہے اس کے پس منظر میں ہمارے ساتھ کیسی ہی بڑی واردات کیوں نہ ہوگئی ہو۔ اب آپ پاکستان میں جرمنی کے عزت مآب سفیر ہی کو لے لیجیے۔ ہر ایکسی لینسی مارٹن کوبلر نے ٹوئٹر پہ ہم پسماندہ پاکستانیوں کو پانی بچانے، شہر میں سیوریج وغیرہ جیسے معاملات پہ ٹوئیٹ کرکے تو بس اپنا گرویدہ بنا ہی لیا تھا کہ اس پہ انھوں نے شلوار قمیض پہن کر اور اپنی اسکوٹر کو پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجا کر تو غضب ہی کر ڈالا، ہمارا سوشل میڈیا اور میڈیا ان کی ان اداؤں کا ایسا دیوانہ ہوا کہ کہیں انھیں پاکستان کا پکا سچا دوست قرار دیا گیا، کہیں تو انھیں پاکستان کا ہی سفیر بنا ڈالا گیا۔
لیجیے جناب اب خیر سگالی کے اس منہ زور سیلاب میں بھلا کون اس چھوٹی سی خبر پہ توجہ دیتا کہ جناب سفیر محترم نے شریف حکومت پہ مبینہ طور پر دباؤ ڈال کر پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او کا نام ای سی ایل سے نکال کر اسے پاکستان سے فرار کروا دیا۔ پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او کو پی آئی اے کو نقصان پہنچانے مثلاً قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی آئی اے کے ایئربیس A310 طیارے کو ایک جرمن فرم کو فروخت کرنے جیسے الزامات پہ قانونی تحقیقات کا سامنا تھا۔
اب آپ ذرا بتائیے کہ کیا جرمنی میں پاکستان کا کوئی سفیر یہ جرأت کرسکتا ہے کہ کسی چھوٹی سی بھی جرمن کمپنی کے کسی سابق پاکستانی سی ای او کو جسے جرمنی کے قوانین کی خلاف ورزی پہ تحقیقات کا سامنا ہو وہ جرمن حکومت پہ دباؤ ڈال کر جرمنی سے فرار کروا دے کہ جیسے کہ ''پاکستان دوست'' جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے مبینہ طور پر پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او مسٹر ہلڈن برینڈ کے معاملے میں کیا مگر جناب ہم کیا کریں ہمارا جذبہ خیر سگالی پاکستان کے مفادات اور پاکستان کی عزت پہ ہمیشہ ہی غالب آجاتا ہے۔
بھئی! آپ خود ہی دیکھ لیجیے، یہ رہی ایک اور مثال مثلاً اگر آپ پاکستان میں مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے شریف اور ایماندار شہری ہیں، ایک اچھی پرائیویٹ جاب بھی کرتے ہیں اور آپکو اپنے آفس کے کام سے بھی اگر چند روز کے لیے ہی برطانیہ جانا پڑ جائے تو آپ تیار رہیے کہ زیادہ امکان یہ ہوگا کہ برطانوی ہائی کمیشن میں حقارت سے اپنی بھویں چڑھائے اصلی یا دیسی گورے آپکو چند دن کا برطانوی ویزا بھی نہیں دینگے۔
ہاں البتہ اگر آپ پاکستان میں دہشتگردی خصوصاً بڑے پیمانے پہ دہشتگردی، قتل و غارتگری وغیرہ کرتے یا کرواتے رہے ہیں، اگر آپ نے پاکستان میں کرپشن اور دوسرے جرائم مثلاً بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، چائنا کٹنگ وغیرہ وغیرہ سے اربوں، کھربوں روپے لوٹ کر برطانیہ میں جمع کر رکھے ہیں، وہاں جائیدادیں خرید رکھی ہیں، اگر آپ پاکستان توڑنے کے منصوبوں خصوصاً پرتشدد منصوبوں پہ کام کر رہے ہیں، آپ نے پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے لیے این جی او کھول رکھی ہے، اگر آپ پاکستان میں لسانی و علاقائی منافرت پھیلاتے ہیں یا اس طرح کی دوسری قابل افزائش سرگرمیوں میں مشغول ہیں، اگر آپ معاشی دہشتگرد ہیں، آپ نے اپنی بدعنوان تباہ کن پالیسیوں سے پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے، پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا ہے۔
پاکستان کا خزانہ خالی کردیا ہے تو بس سمجھئے کہ آپکا کام ہوگیا، برطانیہ اب بہت زیادہ امکان ہوگا کہ نہ صرف آپکو ویزا دیگا بلکہ زیادہ امکان ہوگا کہ آپکو اپنی یعنی برطانوی شہریت ہی دے ڈالے اور یہی نہیں بلکہ برطانیہ آپ کو پاکستان کے قانون اور نظام انصاف سے بھی بچائیگا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پچیس تیس سال میں دو چار بار برطانوی پولیس آپ کو چند گھنٹے کے لیے گرفتار کرنے کا ہلکا پھلکا سا ڈرامہ کرلے مگر یہ بس دو چارگھنٹوں کے لیے ہی ہوگا۔
آپ چین اور سکون سے برطانیہ میں رہ کر اپنی جملہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں بس اتنا خیال رہے کہ کہیں کبھی کسی گورے برطانوی کو آپ سے کوئی شکایت نہ پیدا ہو جائے بس پھر آپ کی خیر نہیں۔ یہ لیجیے بھئی اب اس سے زیادہ خیر سگالی اور کیا ہو گی کہ برطانیہ خصوصاً پچھلے تین چار عشروں سے کھلم کھلا پاکستان کے خلاف دہشتگردی، قتل و غارت کرنیوالوں، معاشی دہشتگردی اور دوسرے بیشمار جرائم میں ملوث افراد اور تنظیموں کو پناہ دے رہا ہے، سرپرستی کر رہا ہے مگر آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے بھی کسی بھی فورم پہ برطانیہ سے ہلکا سا بھی احتجاج تک نہیں کیا۔
برطانیہ دراصل ہمارے کرپٹ جرائم پیشہ حکمران طبقے یعنی بدمعاشیہ کا میکہ ہے ان کا لوٹ کا مال، جائیدادیں، کاروبار، بچے سب برطانیہ میں سیٹ ہیں، یہ کمر میں چک پڑ جانے کا علاج بھی برطانیہ میں کرواتے ہیں، برطانیہ انکا آقا و ان داتا ہے چنانچہ برطانیہ کے لیے تو ہماری خیر سگالی بدہضمی سے بھی بڑھ کے ہیضے میں ڈھل گئی ہے اور کہاں کہاں سے نہیں نکلتی۔
اس موقع پہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ایک دردمند اور حساس سیاستدان کے طور پر سامنے آئیں، یہ مسلمانوں سے ملیں، کہیں انھوں نے السلام علیکم کہہ دیا، کہیں کالا دوپٹہ اوڑھ لیا اورکہیں کچھ مسلمانوں کو گلے لگا لیا۔ بس پھر کیا تھا دنیا بھر کے مسلمان خصوصاً پاکستانی توگویا محترمہ وزیر اعظم کے جیسے دیوانے ہوگئے۔
ٹی وی نیوز چینلزکے انسانی تاریخ اور معلومات میں تقریباً ناخواندہ نیوز ریڈر اور ٹی وی ٹاک شو اینکر تو اٹھتے بیٹھتے میڈم جیسنڈا آرڈرن پہ صدقے واری ہونے لگے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی پرفارمنس پہ ہمارے ہاں خیرسگالی کا ایسا طوفان اٹھا جو سانحے کے 51 شہیدوں کو بھی پس منظر میں بہا کر لے گیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ جو سوال نیوزی لینڈ کی حکومت سے بار بار پوچھا جانا چاہیے تھا وہ ہماری اندھا دھند خیرسگالی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
وہ سوال یہ تھا کہ آسٹریلین دہشتگرد ہیریسن ٹیرنٹ کا دہشتگرد حملہ 15 منٹ جاری رہا اس دوران اس نے مسجد النور اور اسلامک سینٹر کے علاوہ ان عمارتوں کے باہر سڑک پہ بھی گولیاں چلائیں، یہ النور مسجد میں قتل عام کرنے کے بعد دوبارہ ٹہلتا ہوا واپس آیا اور جو نمازی ابھی بھی زندہ تھے ان پہ گولیاں برسائیں اور اطمینان سے چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور فرار ہو گیا۔ دہشتگردی کی اس واردات میں اس نے درجنوں فائرکیے اور اپنی کارروائی بنا کسی عجلت کے اطمینان کے ساتھ ایسے مکمل کی کہ لگتا تھا کہ اسے یقین تھا کہ نیوزی لینڈ کی پولیس موقع پہ پہنچ کر اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی اور عجب اتفاق ہے کہ کچھ ایسا ہی ہوا۔ نیوزی لینڈ کی پولیس دہشتگرد کے موقع سے روانہ ہونے کے بعد ہی پہنچی۔
یہ وہ سوال تھا جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے بار بار پوچھنا چاہیے تھا کہ کرائسٹ چرچ جیسے ماڈرن با رونق شہر میں ایک شخص درجنوں گولیاں چلا کر درجنوں انسانوں کی جانیں لیتا رہا پھر بھی قریبی پولیس اسٹیشن سے پولیس موقع پر کیوں نہ پہنچی مگر جناب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے السلام علیکم کہہ کر اور کالا دوپٹہ اوڑھ کے معاملہ ہی کچھ سے کچھ کر دیا۔ ہمارا خیر سگالی کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس اہم ترین سوال کو بہا کر لے گیا۔ ہو سکتا ہے کہ محترمہ وزیر اعظم کبھی یہ سوچ کر محفوظ ہوتی ہوں کہ یہ کیسے سطحی لوگ ہیں جو ذرا سی پرفارمنس پہ جذباتی ہوکر منطقی تجزیہ کرنے اور سوال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
مگر جناب ہم بھی کریں تو کیا کریں کہ ہمارا خیر سگالی کا جذبہ ہمہ وقت ایک سیلابی کیفیت میں موجزن رہتا ہے اور کسی غیر ملکی خصوصاً کسی گورے کے تو معمولی سے اشارے پہ بھی بس ابل ہی پڑتا ہے، چاہے اس کے پس منظر میں ہمارے ساتھ کیسی ہی بڑی واردات کیوں نہ ہوگئی ہو۔ اب آپ پاکستان میں جرمنی کے عزت مآب سفیر ہی کو لے لیجیے۔ ہر ایکسی لینسی مارٹن کوبلر نے ٹوئٹر پہ ہم پسماندہ پاکستانیوں کو پانی بچانے، شہر میں سیوریج وغیرہ جیسے معاملات پہ ٹوئیٹ کرکے تو بس اپنا گرویدہ بنا ہی لیا تھا کہ اس پہ انھوں نے شلوار قمیض پہن کر اور اپنی اسکوٹر کو پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجا کر تو غضب ہی کر ڈالا، ہمارا سوشل میڈیا اور میڈیا ان کی ان اداؤں کا ایسا دیوانہ ہوا کہ کہیں انھیں پاکستان کا پکا سچا دوست قرار دیا گیا، کہیں تو انھیں پاکستان کا ہی سفیر بنا ڈالا گیا۔
لیجیے جناب اب خیر سگالی کے اس منہ زور سیلاب میں بھلا کون اس چھوٹی سی خبر پہ توجہ دیتا کہ جناب سفیر محترم نے شریف حکومت پہ مبینہ طور پر دباؤ ڈال کر پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او کا نام ای سی ایل سے نکال کر اسے پاکستان سے فرار کروا دیا۔ پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او کو پی آئی اے کو نقصان پہنچانے مثلاً قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی آئی اے کے ایئربیس A310 طیارے کو ایک جرمن فرم کو فروخت کرنے جیسے الزامات پہ قانونی تحقیقات کا سامنا تھا۔
اب آپ ذرا بتائیے کہ کیا جرمنی میں پاکستان کا کوئی سفیر یہ جرأت کرسکتا ہے کہ کسی چھوٹی سی بھی جرمن کمپنی کے کسی سابق پاکستانی سی ای او کو جسے جرمنی کے قوانین کی خلاف ورزی پہ تحقیقات کا سامنا ہو وہ جرمن حکومت پہ دباؤ ڈال کر جرمنی سے فرار کروا دے کہ جیسے کہ ''پاکستان دوست'' جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے مبینہ طور پر پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او مسٹر ہلڈن برینڈ کے معاملے میں کیا مگر جناب ہم کیا کریں ہمارا جذبہ خیر سگالی پاکستان کے مفادات اور پاکستان کی عزت پہ ہمیشہ ہی غالب آجاتا ہے۔
بھئی! آپ خود ہی دیکھ لیجیے، یہ رہی ایک اور مثال مثلاً اگر آپ پاکستان میں مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے شریف اور ایماندار شہری ہیں، ایک اچھی پرائیویٹ جاب بھی کرتے ہیں اور آپکو اپنے آفس کے کام سے بھی اگر چند روز کے لیے ہی برطانیہ جانا پڑ جائے تو آپ تیار رہیے کہ زیادہ امکان یہ ہوگا کہ برطانوی ہائی کمیشن میں حقارت سے اپنی بھویں چڑھائے اصلی یا دیسی گورے آپکو چند دن کا برطانوی ویزا بھی نہیں دینگے۔
ہاں البتہ اگر آپ پاکستان میں دہشتگردی خصوصاً بڑے پیمانے پہ دہشتگردی، قتل و غارتگری وغیرہ کرتے یا کرواتے رہے ہیں، اگر آپ نے پاکستان میں کرپشن اور دوسرے جرائم مثلاً بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، چائنا کٹنگ وغیرہ وغیرہ سے اربوں، کھربوں روپے لوٹ کر برطانیہ میں جمع کر رکھے ہیں، وہاں جائیدادیں خرید رکھی ہیں، اگر آپ پاکستان توڑنے کے منصوبوں خصوصاً پرتشدد منصوبوں پہ کام کر رہے ہیں، آپ نے پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے لیے این جی او کھول رکھی ہے، اگر آپ پاکستان میں لسانی و علاقائی منافرت پھیلاتے ہیں یا اس طرح کی دوسری قابل افزائش سرگرمیوں میں مشغول ہیں، اگر آپ معاشی دہشتگرد ہیں، آپ نے اپنی بدعنوان تباہ کن پالیسیوں سے پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے، پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا ہے۔
پاکستان کا خزانہ خالی کردیا ہے تو بس سمجھئے کہ آپکا کام ہوگیا، برطانیہ اب بہت زیادہ امکان ہوگا کہ نہ صرف آپکو ویزا دیگا بلکہ زیادہ امکان ہوگا کہ آپکو اپنی یعنی برطانوی شہریت ہی دے ڈالے اور یہی نہیں بلکہ برطانیہ آپ کو پاکستان کے قانون اور نظام انصاف سے بھی بچائیگا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پچیس تیس سال میں دو چار بار برطانوی پولیس آپ کو چند گھنٹے کے لیے گرفتار کرنے کا ہلکا پھلکا سا ڈرامہ کرلے مگر یہ بس دو چارگھنٹوں کے لیے ہی ہوگا۔
آپ چین اور سکون سے برطانیہ میں رہ کر اپنی جملہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں بس اتنا خیال رہے کہ کہیں کبھی کسی گورے برطانوی کو آپ سے کوئی شکایت نہ پیدا ہو جائے بس پھر آپ کی خیر نہیں۔ یہ لیجیے بھئی اب اس سے زیادہ خیر سگالی اور کیا ہو گی کہ برطانیہ خصوصاً پچھلے تین چار عشروں سے کھلم کھلا پاکستان کے خلاف دہشتگردی، قتل و غارت کرنیوالوں، معاشی دہشتگردی اور دوسرے بیشمار جرائم میں ملوث افراد اور تنظیموں کو پناہ دے رہا ہے، سرپرستی کر رہا ہے مگر آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے بھی کسی بھی فورم پہ برطانیہ سے ہلکا سا بھی احتجاج تک نہیں کیا۔
برطانیہ دراصل ہمارے کرپٹ جرائم پیشہ حکمران طبقے یعنی بدمعاشیہ کا میکہ ہے ان کا لوٹ کا مال، جائیدادیں، کاروبار، بچے سب برطانیہ میں سیٹ ہیں، یہ کمر میں چک پڑ جانے کا علاج بھی برطانیہ میں کرواتے ہیں، برطانیہ انکا آقا و ان داتا ہے چنانچہ برطانیہ کے لیے تو ہماری خیر سگالی بدہضمی سے بھی بڑھ کے ہیضے میں ڈھل گئی ہے اور کہاں کہاں سے نہیں نکلتی۔