بھکاری مافیا اور انسانی اسمگلنگ
ہم میں سے کوئی ان والدین کے کرب کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا جو اپنے گمشدہ بچوں کی اب تک راہ تک رہے ہیں
کابل کی گلیوں میں بے فکری سے کھیلنے اور ماں باپ کی آغوش میں چین سے سونے والی بارہ سالہ مستورہ اور آٹھ سالہ فاطمہ کوکب پتہ تھا کہ ان پر ایسا برا وقت بھی آئے گا جب ان سے کراچی کی سڑکوں پر بھیک منگوائی جائے گی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ محمد حسن کی دونوں بیٹیاں بین الاقوامی بھکاری مافیا کے ہتھے چڑھ گئیں، راتوں رات جعلی کاغذات بناکر انھیں پاکستان اسمگل کردیا گیا۔ رمضان کی حالیہ گزرنے والی بابرکت ساعتوں میں ان بچیوں سے کراچی میں نہ صرف بھیک منگوائی گئی، بلکہ انھیں خوفزدہ کرنے کے لیے بے تحاشا تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
محمد حسن کی تقدیر اچھی تھی کہ کابل میں اس کا قریبی رشتے دارکسی اچھے سرکاری عہدے پر فائز تھا، جس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس معاملے کو سرکاری سطح پر اٹھایا اور ہلچل مچائی، ورنہ روزانہ جانے کتنے بچے دنیا بھر سے اغوا کر کے کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں، اور ان سے کیسے کیسے گھناؤنے کام لیے جاتے ہیں مگرکسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
محمد حسن کی بچیوں کو اغوا کرنے والی ایک عورت تھی، جو ان کے محلے میں نئی نئی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے حسن کے گھر والوں سے تعلقات بنائے اور ایک دن گھرکی سیٹنگ میں ہاتھ بٹانے کے بہانے اس کی دونوں بیٹیوں کو اپنے گھر لے گئی اور پلک جھپکتے میں انھیں لے اڑی۔ جانے کیسے شاعروں کو عورت کے سینے میں موم سا دل نظر آجاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب عورت ظلم ڈھانے پر آجائے تو اس کی سفاکی سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
محمد حسن کی بیوی جب اپنی معصوم بچیوں کو لینے اس عورت کے ہاں پہنچی تو خالی گھر میں چیختا چلاتا سناٹا دیکھ کر ہول گئی۔اس کو فوراً ہی بچیوں پر بیتے اس سانحے کا ادراک ہوگیا۔ خلوص اور نیکی ان کے خاندان کو اتنی مہنگی پڑے گی اس کا انھیں ذرا اندازہ نہ تھا۔اس حادثے نے ان کی دنیا اندھیرکر ڈالی۔ دوسری طرف اغوا کرنے والی عورت اور اس کے گروہ نے راتوں رات بچیوں کے جعلی کاغذات بنوائے اور انھیں قندہار اور اسپین بولدک کے راستے بنوں لا پھینکا۔ یہاں سے بچیوں کا اگلا پڑاؤ کراچی بنا۔ وہی کراچی جو پورے سال بالعموم اور رمضانوں میں بالخصوص بھکاریوں کے لیے جنت بنا رہتا ہے۔
بھکاری مافیا نے کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنے پنجے بہت سختی سے گاڑ رکھے ہیں۔ اس مافیا میں شامل افراد کے اثرورسوخ اور طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھ آواز اٹھانے اور شور مچانے کے باوجود ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے بھکاریوں کو قافلوں کی صورت جوق درجوق ایک جگہ سے دوسری جگہ اسمگل کیا جاتا ہے۔
ہر بڑے شہرکی طرح کراچی میں بھی بھکاری مافیا اپنی طاقت کے بل بوتے پر قانون کی ناک کے نیچے نہایت منظم طریقے سے یہ کاروبار چلا رہی ہے۔ محمد حسن کی دونوں بچیوں کو بھی کراچی میں بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیا گیا ۔ ستم بالائے ستم کہ ان کو روزانہ ایک ہزار روپے دیہاڑی کمانے کا پابند بھی کیا گیا۔
اس سے کم بھیک لانے پر ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا اور رات کے کھانے سے بھی محروم کردیا جاتا۔ افغانستان کی پولیس نے اغوا کرنے والی عورت کا موبائل نمبرکراچی میں ٹریس کیا تو اس معاملے پر حکومتِ پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا، خوش قسمتی سے یہاں سے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے صارم برنی ٹرسٹ کو بھی فوری طور پر اس واقعے کی تفصیلات فراہم کردی گئیں۔ ساتھ ہی محمد حسن کے خاندان اور محلے کے دیگر افراد نے کراچی میں اپنے جاننے والوں کو ان بچیوں کی تصاویر اور معلومات فراہم کیں اور سب نے مل کر بچیوں کو ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کردیے۔
دوسری طرف اغواکنندگان نے بھیک منگوانے کے بعد ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض محمد حسن کی بڑی بیٹی مستورہ کا سودا طے کردیا لیکن کسی وجہ سے بات نہ بن سکی، جس کی وجہ سے سودا منسوخ ہوگیا۔ اس منسوخی کے بعد فریقین کے درمیان شروع ہونے والا زبانی جھگڑا مارکٹائی تک جا پہنچا۔ اہلِ محلہ روزانہ کی طرح اس گھر سے شورشرابے کی آوازیں سن رہے تھے لیکن اس دن حد پار ہوجانے اور بچیوں کی بے تحاشا چیخ و پکار پر آخر کار اہلِ محلہ نے پولیس کو اطلاع کردی۔ ذرا سی تحقیقات سے ہی اصل کہانی سامنے آگئی، بچیاں بازیاب کروالی گئیں اورکیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا گیا۔
محمد حسن کا نصیب اچھا تھا کہ اس کے جگرکے ٹکڑے واپس اسے مل گئے، ایک ماں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا۔ بچیوں کو ان کے چنگل سے آزاد کروا کے صارم برنی ٹرسٹ پہنچا دیا گیا جہاں ایک ہفتے قیام کے بعد قانونی تقاضے پورے کرکے انھیں والدین کے حوالے کردیا گیا ۔ صارم برنی ٹرسٹ میں بچیوں کی والدین سے ملاقات کے مناظرکسی بھی دردمند انسان کا دل چیرنے کوکافی تھے۔اس وقت اغوا کرنے والی عورت اور اس کے سہولت کار کراچی کی ایک جیل میں ہیں، لیکن قانون کی بالادستی کا برا حال دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ان کا انجام رہائی کے سوا کچھ اور نہ ہوگا۔
انسانی اسمگلنگ اس وقت دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ بتیس بلین ڈالر سالانہ کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بھلا کیسے اپنے قدم پیچھے ہٹاسکتے ہیں؟ اس بڑے جرم اورگناہ کی مرتکب صرف مافیاز ہی نہیں بلکہ وہ قانون بھی ہے جو محافظ تو عوام کا کہلاتا ہے لیکن سرپرستی جرائم کی کرتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا سے ہر سال پچیس لاکھ لوگ اسمگل کیے جاتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے، یہ بچے عموماً دو سے آٹھ سال کی درمیانی عمروں کے ہوتے ہیں، جو زیادہ تر بھیک مانگنے اور انسان نما درندوں کی جنسی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بچے پھٹے کپڑوں اور اجاڑ حلیے میں ہر جگہ بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن کوئی ان کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتا۔ حکومتی سطح پر اس مذموم کاروبارکو روکنے کے لیے اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کیا گیا تو بس یہی کہ کچھ بھکاری گرفتارکرلیے اور پھر ان کو جلد ہی رہا کردیا گیا کیوں کہ یہاں کا قانون بھیک مانگنے کو جرم ہی نہیں سمجھتا۔ قانون کے اس آنکھیں بند کرنے کی وجہ سے ہی بھیک مانگنے کی صنعت اب اس قدر فروغ پاچکی ہے کہ اس میں جھونکنے کے لیے بچے اسمگل کرکے بھکاری بنائے جا رہے ہیں لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
محمد حسن تو خوش قسمت تھا کہ اس کی بچیاں اس کے پاس پہنچ گئیں۔ وہ انھیں لے کر جلد ہی پاکستان کی سرحد پار کر کے اپنے وطن چلا جائے گا لیکن ڈیورنڈ لائن پرکتنے ہی سوالات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ سوالات ہمیشہ کی طرح ذہنوں سے لے کر ہواؤں تک سب جگہ گردش کریں گے لیکن ان کا جواب دینے کے بجائے سب گریز کا راستہ اپنائیں گے۔ ان میں سے کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی ہیں، جو میں دونوں ملکوں کی سرکار سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں اور عوام سے بھی۔ کیا آپ بتائیں گے کہ بھکاری مافیا کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ایک عام فرد کی دریا دلی اور خدا ترسی کا آخرکتنا دخل ہے؟
درگاہوں ، مزاروں، بازاروں، سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک دینے والے ہاتھ کیا ایک بڑے استحصالی نظام کو تقویت دینے کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا مملکت کے چوکی داروں اور تنخواہ دار محافظوں کی اجازت اور سرپرستی کے بغیر سرحد پار انسانی اسمگلنگ ممکن ہے؟ اس مذموم کاروبار کے سرپرستوں کا سراغ لگانا اور ان کا قلع قمع کرنا کیا واقعی کسی حکومت کے لیے مشکل بلکہ ناممکن امرہے؟ اغوا شدہ ان ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بچوں کا مستقبل آخر کیا ہے؟ اور آخر میں سب سے اہم سوال یہ کہ کیا کسی ایسے ملک میں غربت ختم کرنے کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے جہاں غربت کا ننگا تماشا دکھانے پر نوٹ ملتے ہوں؟
ہم میں سے کوئی ان والدین کے کرب کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا جو اپنے گمشدہ بچوں کی اب تک راہ تک رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کے جگرگوشے دنیا کے کس کونے میں ہاتھوں میں کشکول تھامے کھڑے ہوں گے اور دنیا سے چند سکوں کی اور دنیا بنانے والے سے انصاف اور رحم کی بھیک طلب کر رہے ہوں گے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ محمد حسن کی دونوں بیٹیاں بین الاقوامی بھکاری مافیا کے ہتھے چڑھ گئیں، راتوں رات جعلی کاغذات بناکر انھیں پاکستان اسمگل کردیا گیا۔ رمضان کی حالیہ گزرنے والی بابرکت ساعتوں میں ان بچیوں سے کراچی میں نہ صرف بھیک منگوائی گئی، بلکہ انھیں خوفزدہ کرنے کے لیے بے تحاشا تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
محمد حسن کی تقدیر اچھی تھی کہ کابل میں اس کا قریبی رشتے دارکسی اچھے سرکاری عہدے پر فائز تھا، جس نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس معاملے کو سرکاری سطح پر اٹھایا اور ہلچل مچائی، ورنہ روزانہ جانے کتنے بچے دنیا بھر سے اغوا کر کے کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں، اور ان سے کیسے کیسے گھناؤنے کام لیے جاتے ہیں مگرکسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
محمد حسن کی بچیوں کو اغوا کرنے والی ایک عورت تھی، جو ان کے محلے میں نئی نئی منتقل ہوئی تھی۔ اس نے حسن کے گھر والوں سے تعلقات بنائے اور ایک دن گھرکی سیٹنگ میں ہاتھ بٹانے کے بہانے اس کی دونوں بیٹیوں کو اپنے گھر لے گئی اور پلک جھپکتے میں انھیں لے اڑی۔ جانے کیسے شاعروں کو عورت کے سینے میں موم سا دل نظر آجاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب عورت ظلم ڈھانے پر آجائے تو اس کی سفاکی سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔
محمد حسن کی بیوی جب اپنی معصوم بچیوں کو لینے اس عورت کے ہاں پہنچی تو خالی گھر میں چیختا چلاتا سناٹا دیکھ کر ہول گئی۔اس کو فوراً ہی بچیوں پر بیتے اس سانحے کا ادراک ہوگیا۔ خلوص اور نیکی ان کے خاندان کو اتنی مہنگی پڑے گی اس کا انھیں ذرا اندازہ نہ تھا۔اس حادثے نے ان کی دنیا اندھیرکر ڈالی۔ دوسری طرف اغوا کرنے والی عورت اور اس کے گروہ نے راتوں رات بچیوں کے جعلی کاغذات بنوائے اور انھیں قندہار اور اسپین بولدک کے راستے بنوں لا پھینکا۔ یہاں سے بچیوں کا اگلا پڑاؤ کراچی بنا۔ وہی کراچی جو پورے سال بالعموم اور رمضانوں میں بالخصوص بھکاریوں کے لیے جنت بنا رہتا ہے۔
بھکاری مافیا نے کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنے پنجے بہت سختی سے گاڑ رکھے ہیں۔ اس مافیا میں شامل افراد کے اثرورسوخ اور طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھ آواز اٹھانے اور شور مچانے کے باوجود ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے بھکاریوں کو قافلوں کی صورت جوق درجوق ایک جگہ سے دوسری جگہ اسمگل کیا جاتا ہے۔
ہر بڑے شہرکی طرح کراچی میں بھی بھکاری مافیا اپنی طاقت کے بل بوتے پر قانون کی ناک کے نیچے نہایت منظم طریقے سے یہ کاروبار چلا رہی ہے۔ محمد حسن کی دونوں بچیوں کو بھی کراچی میں بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیا گیا ۔ ستم بالائے ستم کہ ان کو روزانہ ایک ہزار روپے دیہاڑی کمانے کا پابند بھی کیا گیا۔
اس سے کم بھیک لانے پر ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا اور رات کے کھانے سے بھی محروم کردیا جاتا۔ افغانستان کی پولیس نے اغوا کرنے والی عورت کا موبائل نمبرکراچی میں ٹریس کیا تو اس معاملے پر حکومتِ پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا، خوش قسمتی سے یہاں سے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے صارم برنی ٹرسٹ کو بھی فوری طور پر اس واقعے کی تفصیلات فراہم کردی گئیں۔ ساتھ ہی محمد حسن کے خاندان اور محلے کے دیگر افراد نے کراچی میں اپنے جاننے والوں کو ان بچیوں کی تصاویر اور معلومات فراہم کیں اور سب نے مل کر بچیوں کو ڈھونڈنے کے لیے دن رات ایک کردیے۔
دوسری طرف اغواکنندگان نے بھیک منگوانے کے بعد ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض محمد حسن کی بڑی بیٹی مستورہ کا سودا طے کردیا لیکن کسی وجہ سے بات نہ بن سکی، جس کی وجہ سے سودا منسوخ ہوگیا۔ اس منسوخی کے بعد فریقین کے درمیان شروع ہونے والا زبانی جھگڑا مارکٹائی تک جا پہنچا۔ اہلِ محلہ روزانہ کی طرح اس گھر سے شورشرابے کی آوازیں سن رہے تھے لیکن اس دن حد پار ہوجانے اور بچیوں کی بے تحاشا چیخ و پکار پر آخر کار اہلِ محلہ نے پولیس کو اطلاع کردی۔ ذرا سی تحقیقات سے ہی اصل کہانی سامنے آگئی، بچیاں بازیاب کروالی گئیں اورکیس ایف آئی اے کے سپرد کر دیا گیا۔
محمد حسن کا نصیب اچھا تھا کہ اس کے جگرکے ٹکڑے واپس اسے مل گئے، ایک ماں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا۔ بچیوں کو ان کے چنگل سے آزاد کروا کے صارم برنی ٹرسٹ پہنچا دیا گیا جہاں ایک ہفتے قیام کے بعد قانونی تقاضے پورے کرکے انھیں والدین کے حوالے کردیا گیا ۔ صارم برنی ٹرسٹ میں بچیوں کی والدین سے ملاقات کے مناظرکسی بھی دردمند انسان کا دل چیرنے کوکافی تھے۔اس وقت اغوا کرنے والی عورت اور اس کے سہولت کار کراچی کی ایک جیل میں ہیں، لیکن قانون کی بالادستی کا برا حال دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ان کا انجام رہائی کے سوا کچھ اور نہ ہوگا۔
انسانی اسمگلنگ اس وقت دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ بتیس بلین ڈالر سالانہ کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بھلا کیسے اپنے قدم پیچھے ہٹاسکتے ہیں؟ اس بڑے جرم اورگناہ کی مرتکب صرف مافیاز ہی نہیں بلکہ وہ قانون بھی ہے جو محافظ تو عوام کا کہلاتا ہے لیکن سرپرستی جرائم کی کرتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا سے ہر سال پچیس لاکھ لوگ اسمگل کیے جاتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے، یہ بچے عموماً دو سے آٹھ سال کی درمیانی عمروں کے ہوتے ہیں، جو زیادہ تر بھیک مانگنے اور انسان نما درندوں کی جنسی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے بچے پھٹے کپڑوں اور اجاڑ حلیے میں ہر جگہ بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن کوئی ان کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتا۔ حکومتی سطح پر اس مذموم کاروبارکو روکنے کے لیے اگر زیادہ سے زیادہ کچھ کیا گیا تو بس یہی کہ کچھ بھکاری گرفتارکرلیے اور پھر ان کو جلد ہی رہا کردیا گیا کیوں کہ یہاں کا قانون بھیک مانگنے کو جرم ہی نہیں سمجھتا۔ قانون کے اس آنکھیں بند کرنے کی وجہ سے ہی بھیک مانگنے کی صنعت اب اس قدر فروغ پاچکی ہے کہ اس میں جھونکنے کے لیے بچے اسمگل کرکے بھکاری بنائے جا رہے ہیں لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
محمد حسن تو خوش قسمت تھا کہ اس کی بچیاں اس کے پاس پہنچ گئیں۔ وہ انھیں لے کر جلد ہی پاکستان کی سرحد پار کر کے اپنے وطن چلا جائے گا لیکن ڈیورنڈ لائن پرکتنے ہی سوالات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ سوالات ہمیشہ کی طرح ذہنوں سے لے کر ہواؤں تک سب جگہ گردش کریں گے لیکن ان کا جواب دینے کے بجائے سب گریز کا راستہ اپنائیں گے۔ ان میں سے کچھ سوالات میرے ذہن میں بھی ہیں، جو میں دونوں ملکوں کی سرکار سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں اور عوام سے بھی۔ کیا آپ بتائیں گے کہ بھکاری مافیا کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ایک عام فرد کی دریا دلی اور خدا ترسی کا آخرکتنا دخل ہے؟
درگاہوں ، مزاروں، بازاروں، سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک دینے والے ہاتھ کیا ایک بڑے استحصالی نظام کو تقویت دینے کا باعث نہیں بن رہے؟ کیا مملکت کے چوکی داروں اور تنخواہ دار محافظوں کی اجازت اور سرپرستی کے بغیر سرحد پار انسانی اسمگلنگ ممکن ہے؟ اس مذموم کاروبار کے سرپرستوں کا سراغ لگانا اور ان کا قلع قمع کرنا کیا واقعی کسی حکومت کے لیے مشکل بلکہ ناممکن امرہے؟ اغوا شدہ ان ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بچوں کا مستقبل آخر کیا ہے؟ اور آخر میں سب سے اہم سوال یہ کہ کیا کسی ایسے ملک میں غربت ختم کرنے کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے جہاں غربت کا ننگا تماشا دکھانے پر نوٹ ملتے ہوں؟
ہم میں سے کوئی ان والدین کے کرب کا اندازہ کر ہی نہیں سکتا جو اپنے گمشدہ بچوں کی اب تک راہ تک رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کے جگرگوشے دنیا کے کس کونے میں ہاتھوں میں کشکول تھامے کھڑے ہوں گے اور دنیا سے چند سکوں کی اور دنیا بنانے والے سے انصاف اور رحم کی بھیک طلب کر رہے ہوں گے۔