یورپ کا سفر اور میرا پاکستان

انتہائی خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ گھر پر سلیقے سے رکھی ڈائیننگ ٹیبل خود بنائی ہے


مونا خان June 22, 2019

BANGKOK: ویسے تو زندگی ہے ہی ایک سفر مسلسل مگر:

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں

اور اس بار ہواؤں کے دوش پر ہم یورپ کو عزم سفر ہوئے۔ پہلا قیام جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں تھا جہاں ساجد صاحب کی پاکستانی '' مکس بلگیرین'' فیملی میری منتظر تو تھی لیکن ایک گھنٹہ صرف سامان آنے کا انتظار کرتے گزرا۔ اسی دوران چھوٹی بہن کی کال آئی خیریت دریافت کی تو یک لحظہ توقف کیے بنا انتظارکی روداد سنا دی ، مخاطبہ نے بجائے ہمدردی کے ازراہ تفنن کہا ''اچھا اچھا تو پاکستان میں جو پروٹوکول ملتا وہ نہیں ملا؟'' اور میں دل ہی دل میں کلس کے رہ گئی، مزید تاخیر پر ساجد صاحب کی اہلیہ Lyubka بھی ایئر پورٹ ہی آ گئیں جن کے ہمراہ ساجد صاحب کے دوست علی بھی تھے۔

ان کو آتا دیکھ کر ہم اپنا منہ کھری کھری انگریزی بولنے کو سیدھا کر ہی رہے تھے کہ سلیس اور صاف اردو میں سامنے سے حال دریافت کیا گیا اور چند دن میں ہی اندازہ ہو گیا کہ نہ صرف وہ اردو زبان اچھے سے جانتی ہیں بلکہ ایک مسلمان آدمی کی زوجیت میں آ کر مکمل مسلمان بیوی کے فرائض نبھانے کی سعی میں سرگرداں ہیں ۔ اپنے شوہرکی تابعداری کا عالم یہ تھا کہ پورے گھر کو خود سنبھالے ہوئے تھیں اور ان کی خوشی کے لیے انٹریئر ڈیزائننگ کے بھی شوق پال رکھے تھے۔

انتہائی خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ گھر پر سلیقے سے رکھی ڈائیننگ ٹیبل خود بنائی ہے، الغرض کہ وہ جاب بھی کرتی ہیں اور گھر لوٹنے پہ بنا تھکے انتہائی ذوق سے اپنے شوہر کے لیے کھانا پکاتی اور چار سال کی طویل مدت مذہب اسلام پہ تحقیق کے بعد اپنی مرضی اور خوشی سے اسے قبول کر کے ایک فرمانبردار عورت کی طرح اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ دوران گفتگو مجھ سے کہنے لگیں کہ '' اگر میں اپنے شوہرکی تابعدار رہوں گی ، تو اللہ مجھے جنت میں داخل کرینگے'' اس لمحے کی کیفیات میں ہی جانتی ہوں کہ جب مجھے اپنے پاکستان میں بیٹھی وہ تمام بیگمات یاد آ گئیں کہ جن کو زندگی کی ہر سہولت مہیا کرتے کرتے شوہروں کی زندگیاں تمام ہوتی ہیں لیکن وہ بیویاں کلمہ شکر کہنے کو راضی نہیں اور یہاں یہ سن کر ذہن و دل سْن ہوتے رہے۔

تیسرے دن صبح سویرے پیرس کو روانگی تھی وہاں جانے میں دو باتیں مخفی تھیں ایک تو مونا لیزا کو آداب بجا لانا تھا اور دوسرا ایفل ٹاور کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے لمحوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ مگر وائے قسمت یہ دونوں خواہشیں مہنگی پڑیں، جب رات کے ساڑھے بارہ سخت سردی سے تھرتھراتے بس کے انتظار میں پریشان کھڑی تھی کہ ایک فرینچ لڑکے Jonathan نے کسی ہیرو کی طرح انٹری دی، اس نے مجھے میری منزل تک پہنچنے میں میری نہ صرف مدد کی بلکہ اگلے پورے دن ایک ٹور گائیڈ کی طرح مجھے پیرس ایکسپلور کروایا۔ عام طور پر رائے عامہ ہے کہ فرنچ لوگ روکھے ہوتے ہیں لیکن اس بندے نے اس سوچ کو اپنے عمل سے غلط ثابت کیا۔ پیرس میں دو دن گزار کر مجھے اگلے دن میڈیا کنونشن کے لیے جرمنی پہنچنا تھا۔

اس کنونشن میں مجھے اندازہ ہوا کہ یورپ اپنی ترقی کی منزلیں چھوتے ہوئے بھی آج آگاہی (Awareness) کی بات کرتا ہے۔ اس کنونشن میں زیادہ اسٹالز لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کے لیے لگائے گئے تھے اور ایک اہم چیز وہاں جو میں نے دیکھی کہ وہ Digital rights کی بات کر رہے تھے جب کہ ہم آج بھی روٹی کپڑا اور مکان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کنونشن میں بین الاقوامی صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں ، بعد ازاں مجھے پولینڈ کے شہر "وارسو" (Warsaw) پہنچنا تھا جہاں میرے کولیگ سینئر تجزیہ کار لکی اور ان کی پولش بیگم میرا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر ہماری ملاقات پاکستانی کونسلر نعیم صابر خان سے ہوئی۔

اس ملاقات میں بڑی دلچسپ گفتگو اس لحاظ سے رہی کہ جب انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے متعلق بتایا کہ اسلام آباد میں شناختی کارڈ بنوانا تھا تو سرکاری فون کروایا اور نادرا کے دفتر کا رخ کیا وہ بتاتے ہیں کہ انھیں بغیر اے سی والے کمرے میں انتظار کروایا گیا اور بعد ازاں ان کا شناختی کارڈ بنایا گیا، وہ اس بات پہ خوش تھے کہ یہی وہ اینٹی پروٹوکول سسٹم ہے جس کے تحت ہم بہتر ہو سکتے ہیں۔

وہاں پولینڈ میں مقامی لوگوں کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ ان پہ ہٹلرکی چھاپ آج بھی موجود ہے اور آج بھی وہ قوم جرمنی سے مرعوب نظر آتی ہے۔ جیسا کہ کئی سال پہلے برطانیہ سے ہم نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ذہنوں پہ ان کا تسلط آج بھی موجود ہے۔ Warsaw سے اگلے دن Hungary کے شہر Budapest میں قیام تھا، مجھے وہاں کا پارلیمنٹ ہاؤس دیکھنا تھا جس کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا۔ جب میں وہاں پہنچی تو وہ واقعی رات کے وقت کسی حسین دلہن کی مانند سجا ہوا تھا اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ اسے دیکھنے سے ایک تازگی کا احساس دل میں اترا کہ یقینا یہاں ملک و قوم کی تقدیر کے اتنے ہی احسن فیصلے بھی کیے جاتے ہونگے۔

اگلے دن اتفاقا ناروے جانا ہوا لیکن وہاں رک نہ سکی کیونکہ مجھے فورا Sweden پہنچنا تھا، جہاں پاکستانی ایمبیسیڈر احمد حسین سے مل کر وہاں کی ایک باہمت بچی Greta Thunberg سے رابطہ اور ملاقات کرنا چاہتی تھی۔ مقصد بہر حال پورا تو نہ ہوا مگر ملاقات اس لحاظ سے دلچسپ رہی جس میں احمد صاحب نے بتایا Swedish پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں، جیسے کہ باقی اقوام کی کرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پاکستانی ذمے دار شہری کے طور پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب کہ ہم پاکستانیوں نے اپنے ہی زعم میں اپنے ملک کا نیگیٹو امیج بنایا ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستانی دنیا میں جہاں جہاں اپنے پیشوں سے مخلص ہو کر کام کر رہے ہیں ، دنیا انھیں سراہتی ہے اور میرے دل میں ایک سکون سا اترا اس بات کا ذکر اپنی میزبان فیملی سے کیا تو مہرو اور ان کے شوہر راحیل نے بھی اس بات کی بھرپور تائیدکی اور اسی سرشاری کو ساتھ لیے ہم نے وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔

وطن کی خاک ذرا ایڑھیاں رگڑنے دے

مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔