عسکری تاریخ کا انوکھا باب بھارت کی نیول وار روم لیکس
بااثرٹولہ جب بھارتی بحریہ اورفضائیہ کے ہیڈ کوارٹروں سے سات ہزار صفحات پر مشتمل ٹاپ سیکرٹ رازچوری کرنے میں کامیاب ہوگیا
یہ جولائی 2005ء کی بات ہے' ونگ کمانڈر سمباجی سرو کی بیگم چوکنا ہوگئی۔ پچھلے چند ہفتے سے اس کا شوہر ایک مشکوک عورت کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔ دونوں اس کے سامنے بھی ہنستے بولتے رہتے۔ بیگم کو محسوس ہو ا کہ ان کے مابین ناجائز تعلقات قائم ہو چکے۔ اپنے شوہر کو بے راہرو ہوتا دیکھ کر وہ قدرتاً تاؤ میں آ گئی۔ تب ونگ کمانڈر سمبا جی نیودہلی میں واقع بھارتی فضائیہ کے ائر ہیڈکوارٹر میں بطور ڈائریکٹر آپریشنز تعینات تھا۔
ونگ کمانڈر کی بیگم فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر سے ملی اور شکایت لگائی کہ اس کا شوہر ایک آوارہ عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔ یہ تشویش ناک بات تھی۔ کوئی بھی ادارہ حد پار کر جانے والے ملازم کو پسند نہیں کرتا، یہ تو پھر بھارتی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔عام طور پہ اعلی افسر اس جگہ نیک نام اور مودب افراد ہی تعینات ہوتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ متعلقہ افسر نے ائر انٹیلی جنس کے اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ ونگ کمانڈر سمبا جی سرو پر نظر رکھیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔
ایک دن سمبا جی کی بیگم اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ اس شام ونگ کمانڈر اپنی محبوبہ کوگھر لے آیا تاکہ عیش و عشرت میں وقت گزار سکے۔ مگر یہی فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ اسی رات ائر انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے سمبا جی کے گھر چھاپہ مارا ۔وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ توقع کے عین مطابق دونوں نیم برہنہ حالت میں پائے گئے۔ مگر اصل انکشاف ہونا باقی تھا۔ جب اہل کاروں نے ونگ کمانڈر کے لباس کی تلاشی لی ' تو ایک جیب سے یو ایس بی ڈرائیو برآمد ہوئی۔کمپیوٹر پر جب وہ یو ایس بی ڈرائیو چلائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس میں نیول ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئیں ٹاپ سیکرٹ دستاویز موجود ہیں۔ یوں ونگ کمانڈر سمبا جی کی بداحتیاطی کے باعث وہ گروہ منظر عام پر آ گیا جو نیول ہیڈ کوارٹر اور ائر ہیڈ کوارٹر سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات چوری کر رہا تھا۔ اس گروہ میں بھارتی بحریہ اور بھاری فضائیہ کے سابق و حاضر افسروں کے علاوہ سول افراد بھی شامل تھے۔
بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق سے بعدازاں افشا ہوا کہ یہ گروہ سات ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ دستاویزات 8یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے چرائی گئیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں صرف دو ڈرائیوز ہی برآمد کر سکیں۔ اگر ونگ کمانڈر سمبا جی اپنی رنگ رلیاں پوشیدہ رکھتا تو عیاں ہے کہ بھارت کا شاطر گروہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے مزید خفیہ دستاویزات چرانے میں کامیاب رہتا ۔ بھارتی بحریہ میں ہیڈ کوارٹر ''نیول وار روم ''بھی کھلاتا ہے۔ اس لیے ٹاپ سیکرٹ دستاویزا ت کا معاملہ بھارت میں''نیول وار روم لیک کیس'' کے نام سے مشہور ہوا۔
کمزور بھارتی نظامِ احتساب
پاکستان میں بھی پچھلے دنوں پاک فوج کا ایک اسکینڈل سامنے آیا۔ فروری 2019ء میں انکشاف ہوا کہ دو اعلی فوجی افسروں نے غیر ملکی انٹیلی جنس ادارے کو قومی سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔ چنانچہ فوجی افسروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک حساس ادارے سے منسلک ڈاکٹر بھی زیر حراست لیا گیا۔دنیا کے ہر ادارے میں لالچی اور کرپٹ لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے گندی مچھلی کے مانند سارے تالاب کو گندا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر پاک فوج کے نظام احتساب نے پہلے تو مجرموں کو بروقت دبوچ لیا۔
پھر نظام انصاف نے فوری مقدمہ چلاتے ہوئے انہیں سخت سزائیں سنا دیں۔ اس طرح دیگر لالچی اور کرپٹ لوگوں کو یہ سخت پیغام ملا کہ انہوںنے کسی بھی قسم کی کرپشن کی تو چاہے وہ کتنے ہی طاقتور و باثر ہوں،انہیں بخشا نہیں جائے گا۔پاک فوج کا قابل ستائش اور سریع الاثر نظام انصاف ہی بھارت کے ''نیول وار روم لیک کیس'' کو نمایاں کر گیا۔ یہ دونوں کیس جرم کی نوعیت میں مماثلت رکھتے ہیں۔مگر یہ مماثلت بس یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ پاک فوج کے کڑے احتسابی نظام نے تو ملک و قوم کے غداروں کو بہت جلد سخت سزائیں سنا دیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر بھارت میں ملک و قوم کے غدار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔بعض ملزمان پر تو چودہ سال گذر جانے کے باوجود قبھی تک مقدمے چل رہے ہیں۔ بھارتی افواج اور بھارتی حکومت کے ڈھیلے ڈھالے اور کمزور احتسابی نظام کے باعث ہی وہاں وقتاً فوقتاً فوج یا حکومت سے وابستہ مالی اسکینڈ ل سامنے آتے رہتے ہیں۔
مجرم بارسوخ و بااثر نکلے
نیول وار روم لیکس کیس کے مرکزی مجرم دراصل اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے بچ نکلے ۔ پہلا مرکزی مجرم، روی شنکرن بھارتی بحریہ کے سابق چیف، ارون پر کاش کا قریبی عزیز ہے ۔اورن پرکاش جولائی 2004ء تا اکتوبر 2006ء بحریہ کا چیف رہا۔ دوسرا مرکزی مجرم' ابھیشک ورما کانگریس پارٹی کے اعلی عہدے دار شری کانت ورما کا بیٹا ہے ۔اس کی ماں کانگریس کی نائب صدر رہ چکی۔
روی شنکرن بھی بھارتی بحریہ میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھا۔ 2003ء میں طبی وجوہ کی بنا پر اس نے بحریہ کو خیر باد کہا اور اسلحے کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگا۔ وہ شراب و کباب و شباب کی محفلوں میں جانے کا شوقین تھا۔ ایسی ہی ا یک محفل میں اس کی ملاقات ابھیشک ورما سے ہوئی۔ وہ بھی کھلنڈری اور عیاش طبیعت کا مالک تھا۔ چنانچہ دونوں میں دوستی ہو گئی اور وہ اکٹھے رنگین محفلیں منعقد کرنے لگے۔ یہ واضح رہے کہ ابھشیک نے بھی اسلحے کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی کھول رکھی تھی۔
جب دو شیطان اکٹھے ہو جائیں تو شیطانی منصوبے ہی تخلیق ہوتے ہیں۔ روی اور ابھیشک پیسے کے پجاری تھے کیونکہ اسی کی بدولت وہ اپنی نفسانی خواہشات پوری کرتے ۔ زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر ہی انہوںنے یہ منصوبہ بنا لیا کہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں متعلقہ افسروں کو پھانس کر وہاں سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات حاصل کر لی جائیں۔ وہ یہ دستاویزات اسلحے کی غیر ملکی کمپنیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو منہ مانگے داموں فروخت کر کے کروڑوں روپے کما سکتے تھے۔
چونکہ دونوں بھارتی افواج اور حکومت میں بیٹھی مجاز شخصیات سے تعلق رکھتے تھے' اسی لیے ان کے منصوبے نے عملی جامہ بھی پہن لیا۔نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں براجمان بیشتر متعلقہ افسر روپے کی خیرہ کن چمک کے سامنے اپنی فرض شناسی اور ذمہ داری بھول گئے۔ انہوں نے دونوں اسلحہ ڈیلروں سے بھاری رقم لے کر انہیں عسکری ٹاپ سیکرٹ داستاویزات فراہم کر دیں۔ ونگ کمانڈر سمبا جی جیسے بعض افسروں کو اپنے جال میں گرفتار کرنے کی خاطر انہیں صنف نازک سے مدد لینا پڑی۔ بہر حال پیسہ پانی کی طرح بہا کر روی اور ابھیشک اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔گویا انسان کالالچ و ہوس ان کی راہ میں سیڑھی بن گئی۔
راز جو افشا ہوئے
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق دونوں اسلحہ ڈالر نیول اورائر ہیڈ کوارٹروں سے درج ذیل ٹاپ سیکرٹ فائلوںکی نقول بذریعہ یو ایس بی ڈرائیو حاصل کرنے میں کامیاب رہے:
(1) ایک فائل جس پر ''وار گیم'' لکھا تھا۔ اسی فائل میں ان جنگی مشقوں کا تفصیل سے تذکرہ تھا جنھیں بھارتی بحریہ اگلے دس برس تک انجام دینا چاہتی تھی۔
(2) وہ فائلیں جن میں بھارتی بحریہ کے آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے درج تھا۔ فائلوں میں یہ بھی تذکرہ موجود تھا کہ بحریہ کتنے جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معلومات بھی درج تھیں کہ اگلے بیس سال میں بھارتی بحریہ کتنے جنگی جہاز اور آبدوزیں خریدنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ یہ معلومات کسی اسلحہ ڈیلر کے ہاتھ لگ جاتیں تو اس کی انگلیاں گھی شکر میں ہوتیں۔
(3) سر کریک کے بارے میں ایک فائل جس پر ''سیکرٹ''لکھا تھا۔اس زمانے میں بھارت اور پاکستان کے مابین سر کریک (رن آف کچھ)کا قضیہ حل کرنے کی خاطر بات چیت جاری تھی۔فائل میں اسی گفت وشنید سے متعلق اہم معلومات موجود تھیں۔
(4) ایک اور فائل جو سرکریک ہی سے متعلق تھی۔ اس کے کاغذات میں تفصیل سے درج تھا کہ اگر پاکستان نے رن آف کچھ میں بھارت پر حملہ کیا تو بھارتی بحریہ' فضائیہ اور بری افواج مشترکہ طور پر کس قسم کا جوابی اقدام کریں گی۔
(5) ایک فائل کی دستاویزات میں تفصیل سے درج تھا کہ روسی ساختہ پیچورا(S-125) میزائل کس طرح چلایا جاتا ہے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔
نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئی دستاویزات میں دو انکشافات سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ ایک ٹاپ سکرٹ فائل میں ان آبدوزوں کا تفصیلی تذکرہ تھا جنہیں بھارتی بحریہ عنقریب خریدنا چاہتی تھی۔ ان غیر ملکی آبدوزوں میں فرانسیسی ساختہ آبدوز ''اسکار پین'' بھی شامل تھی۔ اس کو نیم سرکاری فرانسیسی کمپنی تھیلز گروپ تیار کراتی تھی۔
ابھیشک ورما تھلیز گروپ کے سی ای او' جین پال سے قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ جب ورما نیول ہیڈ کوارٹر سے آبدوزوں کی خریداری والی فائل اڑانے میں کامیاب رہا تو اس نے اسے جین پال کے حوالے کر دیا۔ جین پال نے پھر بھارتی حکومت کے ایوانوں میں یہ زور دار مہم چلائی کہ اسکار پین آبدوز بھارتی بحری دفاع کے لیے موزوں ترین ہتھیار ہے۔
یہی نہیں' اس نے منصوبے سے متعلق سیاست دانوں' جرنیلوں اور سرکاری افسروں میں تقریباً دو کروڑ ڈالر بطور رشوت بھی تقسیم کیے۔ اس زور دار مہم کے باعث آخر کار اکتوبر 2005ء میں بھارتی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ چھ اسکارپین آبدوزیں خرید رہی ہے۔ تھیلز گروپ کو یہ آرڈر حاصل کرنے میں اسی لیے کامیابی ہوئی کہ ابھشیک ورما کے ذریعے فرانسیسی کمپنی کے ہاتھ بھارتی بحریہ کی ٹاپ سکریٹ فائل لگ گئی۔ اس فائل میں تفصیل سے درج تھا کہ بھارتی بحریہ کس قسم کی آبدوز چاہتی ہے۔ اسی تفصیل سے تھیلز گروپ نے فائدہ اٹھایا اور اربوں ڈالر مالیت کا آرڈر لے اڑا۔ ظاہر ہے' تھلیز گروپ نے ابھیشک ورما کو بطور انعام بھاری رقم دی ہو گئی۔
اپنے ہی قومی عسکری راز چرانے والا لالچی ٹولہ ائر ہیڈ کوراٹر سے بھی ایک قیمتی فائل چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ اس فائل میں درج تھا کہ بھارت کے فضائی دفاعی نظام (ائر ڈیفنس سسٹم) میں کہاں کہاں خامیاںپائی جاتی ہیں۔ اور دشمن کن طریقوں سے نظام ناکارہ بنانے کی سعی کر سکتا ہے۔ یہ فائل اگر چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ باآسانی بھارت کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنا سکتے تھے۔
ماہرین نے خبردار کر دیا
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ روی شنکرن اور ابھیشک ورما کی زیر قیادت لالچ وہوس کا شکار ٹولہ نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹرز سے انتہائی خفیہ فائلیں اور دستاویزات چرانے میں کامیاب رہا۔ یہ فائلیں وہ اسلحہ ساز کمپنیوں کو فروخت کر کے کروڑوں ڈالر کما سکتا تھا۔ مزید براں یہ فائلیں بھارت کے معاصر ممالک مثلاً چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتیں' تو بھارتی دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ گویا کرپٹ ٹولے میں شامل بھارتی بحریہ کے افسران اور شہریوں نے ملک وقوم سے غداری کا سنگین جرم انجام دیا تھا۔
اس کے علاوہ نیول وار روم لیک کیس نے بھارتی افواج کو پوری دنیا میں بدنام کر دیا۔یہ اسکینڈل ان کی نااہلیت اور کرپشن کو سامنے لے آیا۔شدید حیرانی کی مگر بات ہے یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے ایوانوں میں کسی قسم کی کھلبلی نہیں مچی۔ حتیٰ کہ بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے اعلی افسر بھی یوں پُرسکون رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجرموں کے خلاف فوری ایکشن نہ لینے کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ قومی راز چرانے والا ٹولہ حکومت اور افواج دونوں میں اعلی سطح تعلقات رکھتا تھا۔ اسی لیے ٹولے کے خلاف فوراً قانون حرکت میں نہیں آسکا۔اوائل میں بھارتی بحریہ کے اندرون خانہ ہی انکوائری جاری رہی۔ دسمبر 2005ء میں تین افسر مجرم قرار پائے مگر انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ البتہ ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس دوران نومبر 2005ء میں روی شنکرن لندن جانے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ تب سے لندن میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔فروری 2006ء میں بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا کہ اسکارپین آبدوز کے سودے میں کرپشن ہوئی ہے۔ اسی کرپشن میں ابھیشک ورما کانام بھی نمایاں ہوا جو نیول وار روم لیک کیس میں بھی شریک جرم تھا۔ بھارتی میڈیا نے واویلا مچایا تو بھارتی حکومت نے لیک کیس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کر دیا۔جون 2006ء میں سی بی آئی نے ابھیشک کو گرفتار کر لیا۔مگر 2011ء میں بھارتی عدالتوں نے اسے ''بے گناہ '' قرار دے کے رہا کر ڈالا۔
نیول وار روم لیک کیس ایک بہت بڑا اسکینڈل تھالیکن اسے انجام دینے والے شاطر مجرموں میں سے ایک بھی بھی مجرم کو سزائے موت یا عمر قید جیسی سخت سزائیں نہیں ملیں۔عسکری ماہرین بھارتی افواج اور بھارت حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ انھوں نے نظام احتساب مضبوط نہ کیا تو مستقبل میں نیول وار روم لیک کیس جیسے کرپشن کے مذید اسکینڈل جنم لیں گے۔آخر انسان کُلی طور پر لالچ وہوس کو خیرباد نہیں کہہ سکتا!
ونگ کمانڈر کی بیگم فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر سے ملی اور شکایت لگائی کہ اس کا شوہر ایک آوارہ عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔ یہ تشویش ناک بات تھی۔ کوئی بھی ادارہ حد پار کر جانے والے ملازم کو پسند نہیں کرتا، یہ تو پھر بھارتی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر تھا۔عام طور پہ اعلی افسر اس جگہ نیک نام اور مودب افراد ہی تعینات ہوتا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ متعلقہ افسر نے ائر انٹیلی جنس کے اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ ونگ کمانڈر سمبا جی سرو پر نظر رکھیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔
ایک دن سمبا جی کی بیگم اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ اس شام ونگ کمانڈر اپنی محبوبہ کوگھر لے آیا تاکہ عیش و عشرت میں وقت گزار سکے۔ مگر یہی فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ اسی رات ائر انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے سمبا جی کے گھر چھاپہ مارا ۔وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ توقع کے عین مطابق دونوں نیم برہنہ حالت میں پائے گئے۔ مگر اصل انکشاف ہونا باقی تھا۔ جب اہل کاروں نے ونگ کمانڈر کے لباس کی تلاشی لی ' تو ایک جیب سے یو ایس بی ڈرائیو برآمد ہوئی۔کمپیوٹر پر جب وہ یو ایس بی ڈرائیو چلائی گئی تو انکشاف ہوا کہ اس میں نیول ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئیں ٹاپ سیکرٹ دستاویز موجود ہیں۔ یوں ونگ کمانڈر سمبا جی کی بداحتیاطی کے باعث وہ گروہ منظر عام پر آ گیا جو نیول ہیڈ کوارٹر اور ائر ہیڈ کوارٹر سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات چوری کر رہا تھا۔ اس گروہ میں بھارتی بحریہ اور بھاری فضائیہ کے سابق و حاضر افسروں کے علاوہ سول افراد بھی شامل تھے۔
بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق سے بعدازاں افشا ہوا کہ یہ گروہ سات ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ دستاویزات 8یو ایس بی ڈرائیوز کے ذریعے چرائی گئیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں صرف دو ڈرائیوز ہی برآمد کر سکیں۔ اگر ونگ کمانڈر سمبا جی اپنی رنگ رلیاں پوشیدہ رکھتا تو عیاں ہے کہ بھارت کا شاطر گروہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے مزید خفیہ دستاویزات چرانے میں کامیاب رہتا ۔ بھارتی بحریہ میں ہیڈ کوارٹر ''نیول وار روم ''بھی کھلاتا ہے۔ اس لیے ٹاپ سیکرٹ دستاویزا ت کا معاملہ بھارت میں''نیول وار روم لیک کیس'' کے نام سے مشہور ہوا۔
کمزور بھارتی نظامِ احتساب
پاکستان میں بھی پچھلے دنوں پاک فوج کا ایک اسکینڈل سامنے آیا۔ فروری 2019ء میں انکشاف ہوا کہ دو اعلی فوجی افسروں نے غیر ملکی انٹیلی جنس ادارے کو قومی سلامتی سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔ چنانچہ فوجی افسروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک حساس ادارے سے منسلک ڈاکٹر بھی زیر حراست لیا گیا۔دنیا کے ہر ادارے میں لالچی اور کرپٹ لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں سے گندی مچھلی کے مانند سارے تالاب کو گندا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر پاک فوج کے نظام احتساب نے پہلے تو مجرموں کو بروقت دبوچ لیا۔
پھر نظام انصاف نے فوری مقدمہ چلاتے ہوئے انہیں سخت سزائیں سنا دیں۔ اس طرح دیگر لالچی اور کرپٹ لوگوں کو یہ سخت پیغام ملا کہ انہوںنے کسی بھی قسم کی کرپشن کی تو چاہے وہ کتنے ہی طاقتور و باثر ہوں،انہیں بخشا نہیں جائے گا۔پاک فوج کا قابل ستائش اور سریع الاثر نظام انصاف ہی بھارت کے ''نیول وار روم لیک کیس'' کو نمایاں کر گیا۔ یہ دونوں کیس جرم کی نوعیت میں مماثلت رکھتے ہیں۔مگر یہ مماثلت بس یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ پاک فوج کے کڑے احتسابی نظام نے تو ملک و قوم کے غداروں کو بہت جلد سخت سزائیں سنا دیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر بھارت میں ملک و قوم کے غدار عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔بعض ملزمان پر تو چودہ سال گذر جانے کے باوجود قبھی تک مقدمے چل رہے ہیں۔ بھارتی افواج اور بھارتی حکومت کے ڈھیلے ڈھالے اور کمزور احتسابی نظام کے باعث ہی وہاں وقتاً فوقتاً فوج یا حکومت سے وابستہ مالی اسکینڈ ل سامنے آتے رہتے ہیں۔
مجرم بارسوخ و بااثر نکلے
نیول وار روم لیکس کیس کے مرکزی مجرم دراصل اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے بچ نکلے ۔ پہلا مرکزی مجرم، روی شنکرن بھارتی بحریہ کے سابق چیف، ارون پر کاش کا قریبی عزیز ہے ۔اورن پرکاش جولائی 2004ء تا اکتوبر 2006ء بحریہ کا چیف رہا۔ دوسرا مرکزی مجرم' ابھیشک ورما کانگریس پارٹی کے اعلی عہدے دار شری کانت ورما کا بیٹا ہے ۔اس کی ماں کانگریس کی نائب صدر رہ چکی۔
روی شنکرن بھی بھارتی بحریہ میں لیفٹیننٹ کمانڈر تھا۔ 2003ء میں طبی وجوہ کی بنا پر اس نے بحریہ کو خیر باد کہا اور اسلحے کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگا۔ وہ شراب و کباب و شباب کی محفلوں میں جانے کا شوقین تھا۔ ایسی ہی ا یک محفل میں اس کی ملاقات ابھیشک ورما سے ہوئی۔ وہ بھی کھلنڈری اور عیاش طبیعت کا مالک تھا۔ چنانچہ دونوں میں دوستی ہو گئی اور وہ اکٹھے رنگین محفلیں منعقد کرنے لگے۔ یہ واضح رہے کہ ابھشیک نے بھی اسلحے کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی کھول رکھی تھی۔
جب دو شیطان اکٹھے ہو جائیں تو شیطانی منصوبے ہی تخلیق ہوتے ہیں۔ روی اور ابھیشک پیسے کے پجاری تھے کیونکہ اسی کی بدولت وہ اپنی نفسانی خواہشات پوری کرتے ۔ زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر ہی انہوںنے یہ منصوبہ بنا لیا کہ نیول ہیڈ کوارٹر اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں متعلقہ افسروں کو پھانس کر وہاں سے ٹاپ سیکرٹ دستاویزات حاصل کر لی جائیں۔ وہ یہ دستاویزات اسلحے کی غیر ملکی کمپنیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو منہ مانگے داموں فروخت کر کے کروڑوں روپے کما سکتے تھے۔
چونکہ دونوں بھارتی افواج اور حکومت میں بیٹھی مجاز شخصیات سے تعلق رکھتے تھے' اسی لیے ان کے منصوبے نے عملی جامہ بھی پہن لیا۔نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر میں براجمان بیشتر متعلقہ افسر روپے کی خیرہ کن چمک کے سامنے اپنی فرض شناسی اور ذمہ داری بھول گئے۔ انہوں نے دونوں اسلحہ ڈیلروں سے بھاری رقم لے کر انہیں عسکری ٹاپ سیکرٹ داستاویزات فراہم کر دیں۔ ونگ کمانڈر سمبا جی جیسے بعض افسروں کو اپنے جال میں گرفتار کرنے کی خاطر انہیں صنف نازک سے مدد لینا پڑی۔ بہر حال پیسہ پانی کی طرح بہا کر روی اور ابھیشک اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔گویا انسان کالالچ و ہوس ان کی راہ میں سیڑھی بن گئی۔
راز جو افشا ہوئے
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق دونوں اسلحہ ڈالر نیول اورائر ہیڈ کوارٹروں سے درج ذیل ٹاپ سیکرٹ فائلوںکی نقول بذریعہ یو ایس بی ڈرائیو حاصل کرنے میں کامیاب رہے:
(1) ایک فائل جس پر ''وار گیم'' لکھا تھا۔ اسی فائل میں ان جنگی مشقوں کا تفصیل سے تذکرہ تھا جنھیں بھارتی بحریہ اگلے دس برس تک انجام دینا چاہتی تھی۔
(2) وہ فائلیں جن میں بھارتی بحریہ کے آپریشنز کے بارے میں تفصیل سے درج تھا۔ فائلوں میں یہ بھی تذکرہ موجود تھا کہ بحریہ کتنے جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں رکھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معلومات بھی درج تھیں کہ اگلے بیس سال میں بھارتی بحریہ کتنے جنگی جہاز اور آبدوزیں خریدنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ یہ معلومات کسی اسلحہ ڈیلر کے ہاتھ لگ جاتیں تو اس کی انگلیاں گھی شکر میں ہوتیں۔
(3) سر کریک کے بارے میں ایک فائل جس پر ''سیکرٹ''لکھا تھا۔اس زمانے میں بھارت اور پاکستان کے مابین سر کریک (رن آف کچھ)کا قضیہ حل کرنے کی خاطر بات چیت جاری تھی۔فائل میں اسی گفت وشنید سے متعلق اہم معلومات موجود تھیں۔
(4) ایک اور فائل جو سرکریک ہی سے متعلق تھی۔ اس کے کاغذات میں تفصیل سے درج تھا کہ اگر پاکستان نے رن آف کچھ میں بھارت پر حملہ کیا تو بھارتی بحریہ' فضائیہ اور بری افواج مشترکہ طور پر کس قسم کا جوابی اقدام کریں گی۔
(5) ایک فائل کی دستاویزات میں تفصیل سے درج تھا کہ روسی ساختہ پیچورا(S-125) میزائل کس طرح چلایا جاتا ہے۔ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔
نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹر سے چرائی گئی دستاویزات میں دو انکشافات سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ ایک ٹاپ سکرٹ فائل میں ان آبدوزوں کا تفصیلی تذکرہ تھا جنہیں بھارتی بحریہ عنقریب خریدنا چاہتی تھی۔ ان غیر ملکی آبدوزوں میں فرانسیسی ساختہ آبدوز ''اسکار پین'' بھی شامل تھی۔ اس کو نیم سرکاری فرانسیسی کمپنی تھیلز گروپ تیار کراتی تھی۔
ابھیشک ورما تھلیز گروپ کے سی ای او' جین پال سے قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ جب ورما نیول ہیڈ کوارٹر سے آبدوزوں کی خریداری والی فائل اڑانے میں کامیاب رہا تو اس نے اسے جین پال کے حوالے کر دیا۔ جین پال نے پھر بھارتی حکومت کے ایوانوں میں یہ زور دار مہم چلائی کہ اسکار پین آبدوز بھارتی بحری دفاع کے لیے موزوں ترین ہتھیار ہے۔
یہی نہیں' اس نے منصوبے سے متعلق سیاست دانوں' جرنیلوں اور سرکاری افسروں میں تقریباً دو کروڑ ڈالر بطور رشوت بھی تقسیم کیے۔ اس زور دار مہم کے باعث آخر کار اکتوبر 2005ء میں بھارتی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ چھ اسکارپین آبدوزیں خرید رہی ہے۔ تھیلز گروپ کو یہ آرڈر حاصل کرنے میں اسی لیے کامیابی ہوئی کہ ابھشیک ورما کے ذریعے فرانسیسی کمپنی کے ہاتھ بھارتی بحریہ کی ٹاپ سکریٹ فائل لگ گئی۔ اس فائل میں تفصیل سے درج تھا کہ بھارتی بحریہ کس قسم کی آبدوز چاہتی ہے۔ اسی تفصیل سے تھیلز گروپ نے فائدہ اٹھایا اور اربوں ڈالر مالیت کا آرڈر لے اڑا۔ ظاہر ہے' تھلیز گروپ نے ابھیشک ورما کو بطور انعام بھاری رقم دی ہو گئی۔
اپنے ہی قومی عسکری راز چرانے والا لالچی ٹولہ ائر ہیڈ کوراٹر سے بھی ایک قیمتی فائل چوری کرنے میں کامیاب رہا۔ اس فائل میں درج تھا کہ بھارت کے فضائی دفاعی نظام (ائر ڈیفنس سسٹم) میں کہاں کہاں خامیاںپائی جاتی ہیں۔ اور دشمن کن طریقوں سے نظام ناکارہ بنانے کی سعی کر سکتا ہے۔ یہ فائل اگر چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ باآسانی بھارت کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنا سکتے تھے۔
ماہرین نے خبردار کر دیا
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ روی شنکرن اور ابھیشک ورما کی زیر قیادت لالچ وہوس کا شکار ٹولہ نیول اور ایئر ہیڈ کوارٹرز سے انتہائی خفیہ فائلیں اور دستاویزات چرانے میں کامیاب رہا۔ یہ فائلیں وہ اسلحہ ساز کمپنیوں کو فروخت کر کے کروڑوں ڈالر کما سکتا تھا۔ مزید براں یہ فائلیں بھارت کے معاصر ممالک مثلاً چین یا پاکستان کے ہاتھ لگ جاتیں' تو بھارتی دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ گویا کرپٹ ٹولے میں شامل بھارتی بحریہ کے افسران اور شہریوں نے ملک وقوم سے غداری کا سنگین جرم انجام دیا تھا۔
اس کے علاوہ نیول وار روم لیک کیس نے بھارتی افواج کو پوری دنیا میں بدنام کر دیا۔یہ اسکینڈل ان کی نااہلیت اور کرپشن کو سامنے لے آیا۔شدید حیرانی کی مگر بات ہے یہ ہے کہ بھارتی حکومت کے ایوانوں میں کسی قسم کی کھلبلی نہیں مچی۔ حتیٰ کہ بھارتی بحریہ اور فضائیہ کے اعلی افسر بھی یوں پُرسکون رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجرموں کے خلاف فوری ایکشن نہ لینے کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ قومی راز چرانے والا ٹولہ حکومت اور افواج دونوں میں اعلی سطح تعلقات رکھتا تھا۔ اسی لیے ٹولے کے خلاف فوراً قانون حرکت میں نہیں آسکا۔اوائل میں بھارتی بحریہ کے اندرون خانہ ہی انکوائری جاری رہی۔ دسمبر 2005ء میں تین افسر مجرم قرار پائے مگر انہیں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ البتہ ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس دوران نومبر 2005ء میں روی شنکرن لندن جانے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ تب سے لندن میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔فروری 2006ء میں بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا کہ اسکارپین آبدوز کے سودے میں کرپشن ہوئی ہے۔ اسی کرپشن میں ابھیشک ورما کانام بھی نمایاں ہوا جو نیول وار روم لیک کیس میں بھی شریک جرم تھا۔ بھارتی میڈیا نے واویلا مچایا تو بھارتی حکومت نے لیک کیس وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کر دیا۔جون 2006ء میں سی بی آئی نے ابھیشک کو گرفتار کر لیا۔مگر 2011ء میں بھارتی عدالتوں نے اسے ''بے گناہ '' قرار دے کے رہا کر ڈالا۔
نیول وار روم لیک کیس ایک بہت بڑا اسکینڈل تھالیکن اسے انجام دینے والے شاطر مجرموں میں سے ایک بھی بھی مجرم کو سزائے موت یا عمر قید جیسی سخت سزائیں نہیں ملیں۔عسکری ماہرین بھارتی افواج اور بھارت حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ انھوں نے نظام احتساب مضبوط نہ کیا تو مستقبل میں نیول وار روم لیک کیس جیسے کرپشن کے مذید اسکینڈل جنم لیں گے۔آخر انسان کُلی طور پر لالچ وہوس کو خیرباد نہیں کہہ سکتا!